What's new

اردو ہے جس کا نام

. . . . . .
پرانے دور سادہ ہوا کرتے تھے۔ گلی محلے کے عشق ہوتے ضرور تھے لیکن ان میں بھی شرافت اور پاکبازی قائم رہتی تھی۔ ویسے تو پرانے دور میں بھی عشق کی ابتدا عام طور پر پہلی نظر میں ہی ہوجایا کرتی تھی، لیکن لڑکی کی طرف سے پہلا سگنل ملنے میں عام طور پر کئی مہینے یا سال بھی لگ جاتے۔ یہ سگنل بھی عام طور پر ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا دینا ہی ہوا کرتا تھا۔ جب یہ سگنل مل جاتا تو لڑکا بجائے دست درازی کے، نمازیں پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کردیتا اور اگلے سگنل کیلئے مزید کوششوں میں لگ جاتا۔ دوسری طرف لڑکی بھی جب عشق کی گلیوں میں قدم رکھ لیتی تو اپنے آپ کو مزید ڈھانپ کر باہر نکلنا شروع ہوجاتی۔

اگلا مرحلہ رقعہ یعنی خط ہوا کرتا تھا جس کی پہل ہمیشہ لڑکے کی طرف سے ہوتی۔ یہ رقعہ لڑکی کے سکول یا کالج جاتے ہوئے اس کے سامنے راستے میں کسی جگہ گرا دیا جاتا اور لڑکی بڑی احتیاط سے اسے اٹھا لیتی۔

لڑکی کی طرف سے عام طور پر خط کا جواب کافی دیر بعد ملتا کیونکہ لڑکی کے نزدیک یہ سرکشی کا باقاعدہ آغاز ہوتا، ایک طرح سے طبل جنگ ہوتا، ایک ایسے سفر کا آغاز ہوتا جس کے قدم قدم پر رسوائی کا ڈر ہوتا، والدین کی عزت مٹی میں ملنے کا خدشہ ہوتا اور دوسری طرف اپنے عشق کیلئے ہر قسم کا خطرہ اٹھانے کی تمنا ہوتی۔ بہرحال، پہلا خط جب لکھا جاتا تو کوئی سہیلی بھی رازدار بنا لی جاتی، تاکہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اسے ٹوک سکے۔

جن کے پاس وسائل ہوتے وہ اگلی منزل یعنی ٹیلیفون پر رابطہ شروع کردیتے۔ اس کیلئے بھی کئی پاپڑ بیلنا پڑتے، تب جا کر تنہائی نصیب ہوتی اور دو گھڑی بات ہوسکتی۔

جو تھوڑے میچور ہوتے، وہ کبھی کبھار کسی باغ یا لائیبریری میں ملاقات کرلیا کرتے اور ان کی زیادہ سے زیادہ عیاشی ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے تک ہی محدود ہوتی۔

جن کا عشق کامیاب ہوجاتا، وہ شادی کرلیتے، جو ناکام رہتے، وہ اپنی محبوبہ کی بارات پر کرسیاں سیدھی کرنے کا انتظام سنبھال لیتے۔ سارا کچھ شرافت سے طے پاجاتا، نہ تو لڑکی اپنی حدیں کراس کرتی او
 
. . . .
یہ دھاگہ تو انتہائی مزے کا ہے ... نجانے ہماری نظروں سے کیسے چوک گیا
mazzay kA Hain ? Dhaaga Hain ya gatta laachi vala o_O

یہ دھاگہ تو انتہائی مزے کا ہے ... نجانے ہماری نظروں سے کیسے چوک گیا
mazzay kA Hain ? Dhaaga Hain ya gatta laachi vala o_O
 
. .
پرانے دور سادہ ہوا کرتے تھے۔ گلی محلے کے عشق ہوتے ضرور تھے لیکن ان میں بھی شرافت اور پاکبازی قائم رہتی تھی۔ ویسے تو پرانے دور میں بھی عشق کی ابتدا عام طور پر پہلی نظر میں ہی ہوجایا کرتی تھی، لیکن لڑکی کی طرف سے پہلا سگنل ملنے میں عام طور پر کئی مہینے یا سال بھی لگ جاتے۔ یہ سگنل بھی عام طور پر ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا دینا ہی ہوا کرتا تھا۔ جب یہ سگنل مل جاتا تو لڑکا بجائے دست درازی کے، نمازیں پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کردیتا اور اگلے سگنل کیلئے مزید کوششوں میں لگ جاتا۔ دوسری طرف لڑکی بھی جب عشق کی گلیوں میں قدم رکھ لیتی تو اپنے آپ کو مزید ڈھانپ کر باہر نکلنا شروع ہوجاتی۔

اگلا مرحلہ رقعہ یعنی خط ہوا کرتا تھا جس کی پہل ہمیشہ لڑکے کی طرف سے ہوتی۔ یہ رقعہ لڑکی کے سکول یا کالج جاتے ہوئے اس کے سامنے راستے میں کسی جگہ گرا دیا جاتا اور لڑکی بڑی احتیاط سے اسے اٹھا لیتی۔

لڑکی کی طرف سے عام طور پر خط کا جواب کافی دیر بعد ملتا کیونکہ لڑکی کے نزدیک یہ سرکشی کا باقاعدہ آغاز ہوتا، ایک طرح سے طبل جنگ ہوتا، ایک ایسے سفر کا آغاز ہوتا جس کے قدم قدم پر رسوائی کا ڈر ہوتا، والدین کی عزت مٹی میں ملنے کا خدشہ ہوتا اور دوسری طرف اپنے عشق کیلئے ہر قسم کا خطرہ اٹھانے کی تمنا ہوتی۔ بہرحال، پہلا خط جب لکھا جاتا تو کوئی سہیلی بھی رازدار بنا لی جاتی، تاکہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اسے ٹوک سکے۔

جن کے پاس وسائل ہوتے وہ اگلی منزل یعنی ٹیلیفون پر رابطہ شروع کردیتے۔ اس کیلئے بھی کئی پاپڑ بیلنا پڑتے، تب جا کر تنہائی نصیب ہوتی اور دو گھڑی بات ہوسکتی۔

جو تھوڑے میچور ہوتے، وہ کبھی کبھار کسی باغ یا لائیبریری میں ملاقات کرلیا کرتے اور ان کی زیادہ سے زیادہ عیاشی ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے تک ہی محدود ہوتی۔

جن کا عشق کامیاب ہوجاتا، وہ شادی کرلیتے، جو ناکام رہتے، وہ اپنی محبوبہ کی بارات پر کرسیاں سیدھی کرنے کا انتظام سنبھال لیتے۔ سارا کچھ شرافت سے طے پاجاتا، نہ تو لڑکی اپنی حدیں کراس کرتی او

تحریر مکمل کرو بھائی۔
ویسے لکھا خوب ہے۔ بہت اعلٰی :tup:
 
.
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ:
قتلت یوم قتل الثور الابیض
(میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).

اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی. ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا.
ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے.
شیر نے ایک چال چلی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا. لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی.
لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا.
پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا.
سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا, بہت آوازیں دیں, پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا.
مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا.
وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا.
تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا. جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).

امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے. سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی. کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں.
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا.
ہم نے باری باری افغانستان, عراق, فلسطین, شام, بوسنیا, چیچنیا, کشمیر, برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا, حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے, فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں, عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے, برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضاء کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا, افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر "بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی.
*ذرا غور کیجیےء بھائی کہ کہیں ہم سب بھی لال بیل تو نہیں بن گئے ہیں...!!!*

اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ:
" قتلت یوم قتل الثور الابیض "

"مومنوں متّحد ہوجاؤ
 
.
مولانا خادم حسین کے ہیچھے اسٹیبلشمنٹ...
حافظ سعید کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
ایم ایم اے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
پی ٹی آئی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
فاروق ستار کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
مصطفٰے کمال کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
چوہدری نثار کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
شیخ رشید کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ...
بول, پاک, سماء, اے آر وائی اور 92 چینلز کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ.
طے یہ ہوا کہ اس ملک میں صرف چار ہستیاں ایسی ہیں جن کے پیچھے ایسٹیبلشمنٹ نہیں ہے.
1) نواز شریف
2) زرداری
3) عاصمہ جہانگیر
اور
44) اداکارہ میرا
 
.
Back
Top Bottom