RadioactiveFriends
PDF Associate

- Joined
- Feb 24, 2015
- Messages
- 148
- Reaction score
- 2
- Country
- Location
پاکستان میں جو انقلابات کبھی دہائیوں میں آیا کرتے تھے اب مہینوں میں آرھے ھیں. پاکستان میں بیرونی مداخلت اپنوں کی غداری کی داستانیں کوئی نئی نہیں لیکن ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ھے اندرونی اور بیرونی دھشت گردی انتہاء پر ھے. بین الاقوامی طاقتیں متنازعہ معاملات خاص کر کشمیر جیسے پیچیدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ معاملات میں اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال رھی ھیں تو اس صورت میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے علاوہ پاکستان میں خلفشار کو بام عروج پر پہنچا دینا بھی ایک بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ھے کہ جہاں عوام کو یہ باور کروایا جاسکے کہ کوئی بھی اس ملک سے مخلص نہیں سیاسی و عسکری قیادت کے جرائم کو بے نقاب کرکے عوام کے اعتماد کو اس ملک کی قیادت اور بعدازاں اس ملک پر سے ھی اٹھا دیا جائے. ان حالات کے تناظر میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ھے. کونسا ملک اپنے آفیشل سیکرٹس کو اس طرح رقم کرنے کی اجازت دیتا ھے اور اگر کوئی جاسوس بالفرض محال اپنی خفیہ دستاویزات اور یادداشتوں کو اگر عام کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کا انجام اسنوڈن کی طرح ھوتا ھے کہ اس کو اپنے زندگی کے لالے پڑجاتے ھیں اور ایک سفارت خانے میں پناہ حاصل کرنی پڑتی ہے. ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں حالات پر نظر رکھنے والے ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہیں. نوازشریف، زرداری، حسین حقانی اور جنرل پاشا کے اس معاملے میں کردار کے بارے میں بہت کچھ چھپ چکا ہے. سوال یہ ھے کہ اس وقت کیوں اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک کتاب ریمنڈ ڈیوس سے لکھوائی جائے اور ان تمام کرداروں کو پھر موضوع بحث بنایا جائے؟
میری رائے میں پاکستان اس وقت ایک تاریخی Transmission Period سے گزر رھا ھے کہ جہاں ایک عرصے کے بعد اقتصادی بدحالی کا شکار یہ ملک بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر اپنے آپ کو منوانے کی جانب گامزن ھورھا ھے. ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی بیسویں بڑی اقتصادی منڈی کے طور پر سامنے آرھا ھے. سی پیک نے پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں بھرپور کردار ادا کیا ھے اور ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کی ترقی یورپ کی ترقی کے ھم پلہ ھوگی. ان حالات میں تین سرحدوں بھارت، افغانستان اور ایران کو پاکستان کے خلاف گرم کردیا گیا ہے اور دوسری جانب موجودہ دھشت گردی کی لہر بھی اس ھی سلسلے کی کڑی ھے. ان حالات میں ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ ایک نئے مستقبل کے سپنے دیکھنے والی عوام کو ایک بار پھر پاکستان کے مستقبل اور سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے مایوسی میں مبتلاء کردیا جائے اور اس کا براہ راست اثر یہ ھوگا کہ پاکستانی عوام اس ملک اور اس کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں . یاد رکھیں دنیا میں سب سے آسان کام مایوس لوگوں کو شکست دینا ہے ورنہ جو لوگ پرعزم ھوں ان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دی سکتی. یہ دور ابلاغ کا دور ھے میڈیا کی دنیا ھے کہ جہاں جنگیں میدانوں میں لڑنے سے قبل ابلاغی محاذوں پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور میدان جنگ تو محض ایک رسمی کاروائی ھے.
دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں اس وقت امریکا میں لکھی جاتی ہیں کہ جن میں سے درجنوں کتابیں سالانہ پاکستان پر لکھی جاتی ہیں.
کیا آپ اس آزاد میڈیا کے دور میں ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف ھوتے ھیں؟
کیا ان کتابوں پر تبصرے بھی اس کتاب ھی کی طرح ھر اخبار کی زینت بنتے ھیں؟
کیا یہ ساری کتابیں اپنی اشاعت کے فوری بعد اس ھی طرح آن لائن فری دستیاب ھوتی ھیں؟
کیا اس ھی طرح ان تمام کتابوں کو مفت میں ای کاپی کی صورت میں تقسیم کروایا جاتاھے؟
جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان کو یہ بات بخوبی معلوم ھے کہ ایک نئی کتاب کی ای کاپی کی کیا قیمت ھوتی اور صرف وھی کتابیں مفت دستیاب ھیں جو کہ مشنری مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں. اس کتاب میں کتنے حقائق درست ھیں اور کتنے غلط ابھی اس کی غیر جانبدارانہ تحقیق باقی ہے لیکن ان حالات میں یہ کتاب ایک مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہے. پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بین الاقوامی طاقتیں سب سے پہلے اپنے بہی خواہ کو ھی ھدف بناتی ہیں بھٹو، ضیاء الحق، صدام حسین اور ان جیسی کئی مثالیں دنیا میں بکھری پڑی ھیں لہذا جو اپنے عوام سے وفا کرتا ہے تو عوام بھی اس سے وفا کرتے ہیں اور وہ براعظم امریکا میں بیٹھ کر بھی ان طاقتوں کے سینے پر مونگ دلتا ھے. اس جیسی مثالیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں شاید کہ ھماری
قیادت وقت گزرنے سے پہلے سمجھ سکے.
تحریر: ڈاکٹر اسامہ شفیق
میری رائے میں پاکستان اس وقت ایک تاریخی Transmission Period سے گزر رھا ھے کہ جہاں ایک عرصے کے بعد اقتصادی بدحالی کا شکار یہ ملک بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر اپنے آپ کو منوانے کی جانب گامزن ھورھا ھے. ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی بیسویں بڑی اقتصادی منڈی کے طور پر سامنے آرھا ھے. سی پیک نے پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں بھرپور کردار ادا کیا ھے اور ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کی ترقی یورپ کی ترقی کے ھم پلہ ھوگی. ان حالات میں تین سرحدوں بھارت، افغانستان اور ایران کو پاکستان کے خلاف گرم کردیا گیا ہے اور دوسری جانب موجودہ دھشت گردی کی لہر بھی اس ھی سلسلے کی کڑی ھے. ان حالات میں ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ ایک نئے مستقبل کے سپنے دیکھنے والی عوام کو ایک بار پھر پاکستان کے مستقبل اور سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے مایوسی میں مبتلاء کردیا جائے اور اس کا براہ راست اثر یہ ھوگا کہ پاکستانی عوام اس ملک اور اس کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں . یاد رکھیں دنیا میں سب سے آسان کام مایوس لوگوں کو شکست دینا ہے ورنہ جو لوگ پرعزم ھوں ان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دی سکتی. یہ دور ابلاغ کا دور ھے میڈیا کی دنیا ھے کہ جہاں جنگیں میدانوں میں لڑنے سے قبل ابلاغی محاذوں پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور میدان جنگ تو محض ایک رسمی کاروائی ھے.
دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں اس وقت امریکا میں لکھی جاتی ہیں کہ جن میں سے درجنوں کتابیں سالانہ پاکستان پر لکھی جاتی ہیں.
کیا آپ اس آزاد میڈیا کے دور میں ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف ھوتے ھیں؟
کیا ان کتابوں پر تبصرے بھی اس کتاب ھی کی طرح ھر اخبار کی زینت بنتے ھیں؟
کیا یہ ساری کتابیں اپنی اشاعت کے فوری بعد اس ھی طرح آن لائن فری دستیاب ھوتی ھیں؟
کیا اس ھی طرح ان تمام کتابوں کو مفت میں ای کاپی کی صورت میں تقسیم کروایا جاتاھے؟
جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان کو یہ بات بخوبی معلوم ھے کہ ایک نئی کتاب کی ای کاپی کی کیا قیمت ھوتی اور صرف وھی کتابیں مفت دستیاب ھیں جو کہ مشنری مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں. اس کتاب میں کتنے حقائق درست ھیں اور کتنے غلط ابھی اس کی غیر جانبدارانہ تحقیق باقی ہے لیکن ان حالات میں یہ کتاب ایک مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہے. پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بین الاقوامی طاقتیں سب سے پہلے اپنے بہی خواہ کو ھی ھدف بناتی ہیں بھٹو، ضیاء الحق، صدام حسین اور ان جیسی کئی مثالیں دنیا میں بکھری پڑی ھیں لہذا جو اپنے عوام سے وفا کرتا ہے تو عوام بھی اس سے وفا کرتے ہیں اور وہ براعظم امریکا میں بیٹھ کر بھی ان طاقتوں کے سینے پر مونگ دلتا ھے. اس جیسی مثالیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں شاید کہ ھماری
قیادت وقت گزرنے سے پہلے سمجھ سکے.
تحریر: ڈاکٹر اسامہ شفیق