Murshad
FULL MEMBER
- Joined
- Mar 23, 2009
- Messages
- 338
- Reaction score
- 0
تیس برس پہلے جو تئیس دسمبر آیا اس وقت کے بتیس سالہ پاکستان میں ضیا الحق کو اقتدار میں آئے ڈھائی برس ہوچلے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا تھا۔ ایرانی علماء شاہ ایران کو لات مار کر نکال چکے تھے اور اب وہ اپنا انقلاب خلیج فارس کے راستے عرب دنیا میں نافذ کرنے کے لیے دانت نکوس رہے تھے۔ بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور اندراگاندھی سیاست کے صحرا میں ماری ماری پھر رہی تھیں۔ چین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ماؤزے تنگ کی روایتی کیمونسٹ پالیسیوں سے چمٹا رہے یا سرمایہ داری کی انگلی پکڑے۔ سووئیت یونین امریکہ کی ویتنامی پسپائی کے نفسیاتی اثرات کو افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوب مغربی ایشیا میں اپنی نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی گرفت بڑھانے کے لیے استعمال کررہا تھا۔اور امریکہ چار برس پہلے ہونے والی ویتنامی شکستِ فاش اور پھر خلیج کے علاقے میں رضا شاہ پہلوی کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا سے دہلا ہوا تھا۔
ایسے میں امریکہ کو جنوب مغربی ایشیاء میں ایک بااعتماد ساتھی اور جنرل ضیا الحق کو اپنی حکمرانی جائز بنانے کے لئے ٹھوس مغربی حمایت کی ضرورت تھی۔ بلی کے بھاگوں تئیس دسمبر انیس سو اناسی کو چھینکا ٹوٹ گیا۔ جب سوویت افواج نے کابل میں اتر کر امریکہ اور ضیا الحق کے گلے ملنے کی راہ میں آخری نفسیاتی رکاوٹ بھی دور کردی۔ دنیا ایک بار پھر شیطان اور رحمان میں تقسیم کردی گئی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا افغانستان میں اسٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے کا خواب اور امریکہ کا افغانستان کو سوویت یونین کا ویتنام بنانے کا خواب یکجا ہوگئے اور اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے فوجی طالع آزما، آئی ایس آئی، سی آئی اے، ایم آئی سکس، موساد، سرخ چین، سبز سعودی عرب اور بطور معاون اداکار مولوی، اسلحہ فروش اورمنشیات کے سوداگر ساتھ ہولیے۔ جبکہ افغان کیمونسٹوں، پاکستانی جمہوریت پسندوں ، قوم پرستوں اور سیکولر عناصر کو ایک ہی بطور دشمن ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا عمل شروع ہوا۔
سارا زور اس نکتے پر لگادیا گیا کہ خلیجِ فارس کے آئل روٹ کو بچانے کے لئے سوویت یونین کو ہرقیمت پر افغانستان سے نکالنا ہے۔اس دوران واشنگٹن سے لے کر ریاض اور بیجنگ سے اسلام آباد تک کسی کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہ آیا کہ طویل خونی لڑائی کے نتیجے میں سوویت پسپائی کے بعد جو ملبہ اور تربیت یافتہ و نڈر غیر ریاستی عناصر پیچھے رہ جائیں گے ان کا کیا کرنا ہے۔اور اگر ان کا کچھ موثر بندوبست نہ ہوا تو وہ اس خطے، اپنی اپنی ریاستوں اور باقی دنیا کے ساتھ کیا کریں گے۔
اگر سوویت یونین کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جنیوا معاہدے کے مطابق اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک قومی حکومت تشکیل پاجاتی تو نہ مجاہدین کے ہاتھوں کابل کی اینٹ سے انیٹ بجتی، نہ ان مجاہدین کی ناکامی کے ملبے پر طالبان کی تعمیر ہوتی اور نہ القاعدہ کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملتا ،نہ نائن الیون ہوتا اور نہ ہی اس نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ کو افغانستان میں اترنا پڑتا اور پاکستان کے قبائلی علاقے خودکش حملہ آور تیار کرنے کی فیکٹری میں تبدیل ہوتے۔
تئیس دسمبر انیس سو انہتر کو کابل میں سوویت افواج کے بوٹوں نے استحکام کا جو مرتبان توڑا تھا۔اس کے نتیجے میں عدم استحکام کے تیزاب نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان کے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے خواب کی تعبیر ریاستی ڈھانچے کی سیاسی و اقتصادی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں سامنے آئی اور روس کو مزہ چکھاتے چکھاتے امریکہ اور یورپ دھشت گردی اور نفسیاتی خوف کے سبب اربوں ڈالر کی لاحاصل فوجی مہم جوئی کے گرداب میں پھنس گئے۔ جبکہ غیرریاستی عناصر چیونٹی سے بڑھتے بڑھتے ڈائنوسار بن گئے۔
تئیس دسمبر انیس سو اناسی اب وہ سانپ ہے جو تاریخ کے گھنے جنگل میں کہیں گم ہوگیا ہے اور اسکی چھوڑی ہوئی لکیر پیٹنے کا کام پاکستان کی ڈھلمل اسٹیبلشمنٹ اور افغاستان کی بدعنوان انتظامیہ اور جنگجو سرداروں کو سونپا گیا ہے۔
?BBC Urdu? - ???? ??? ????? - ????? ????? ?? ??????!?