Sipahi
SENIOR MEMBER

- Joined
- Sep 14, 2009
- Messages
- 3,199
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
لال مسجد سے برقعہ اوڑھ کر روپوش ہونے والے مولانا داعش کے حق میں اعلانیہ وعظ اور بیان دے رہے ہیں اور کوئی ان کے منہ پر ٹیپ لگانے کی ہمت نہیں کر رہا ۔ وزیر دفاع کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کو کس جرم میں کس گرفتار کیاجائے۔ ایک دہشت گرد تنظیم کی کھلم کھلا حمایت اور اس کی پاکستان میں پشت پناہی کاجرم کیا چھوٹا ہے ؟ طالبات کے ذریعہ پاکستان کی خواتین کو داعش میں شمولیت کے لیئے ورغلانا کیا کم جرم ہے؟ کئی بے گناہوں کی قاتل داعش کے حق میں کھلم کھلا پروپیگنڈا کرنے والے مولانا پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا ؟پاکستان کی نوجوان نسل کو گمراہ کر رہاہے۔دوسروں کو مارنا جہاد اور اپنی جان بچانے کے لیئے برقعہ پہننا اسلام ؟ کیا خوب مذہبی برقعہ اوڑھ رکھا ہے۔ لال مسجد میں غدر مچا ہوا تھا اور ان حضرات کو اپنی جان بچانے کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں خون ریزی کا ماتم ہر حساس پاکستانی نے کیا لیکن یہ برقعہ پوش مولانا ان حساس پاکستانیوں کو داعش کے ہاتھوں ذبح کرانا چاہتے ہیں۔ ان کے خطبات و بیانات زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔کیلی فورنیا میں پاکستانی نوجوان نے فائرنگ سے کئی امریکیوں کوقتل کر دیا ،اس کی بیوی کے فلیٹ سے جو تصاویر ملیں ، ایک تصویر میں وہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ کھڑی تھی۔یہ برقعہ پوش مولانا اعلانیہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’داعش کا جھنڈا عنقریب پوری دنیا میں لہرائے گا کیوں کہ داعش دنیا میں شریعت اور خلافت کا نظام رائج کرنا چاہتی ہے ،ہماری طالبات داعش کو اپنا مسیحا سمجھتی ہیں،اس لیے ہماری طالبات نے داعش کے لئے نیک تمناﺅں کے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ ہماری جنگ اسلامی نظام کے لئے ہے‘۔ داعش کی بدمعاشی کے مطابق جو عورت ان کی جماعت کا حصہ بن جائے گی ان کے مردوں کے لیئے حلال ہے۔ داعش کی عیاشی کے سہولت کار ان مولاناصاحب کو لگام ڈالنے والا کوئی نہیں ؟
کیلی فورنیا فائرنگ کا مبینہ واقعہ منظر عام پر آیا تو دل دہل گئے، ایسے کئی واقعات سے پاکستانی بھرا پڑا ہے ۔پاکستانی نژاد قاتل کے والدین نے امریکی پولیس کو بیان دیا کہ اس پاکستانی لڑکی سے انٹر نیٹ پر ملاقات سے پہلے ان کا بیٹا ایسا نہ تھا ،وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کا لڑکا اتنے لوگوں کی جان لے سکتا ہے ۔اس کی پاکستانی بیوی البغدادی کی بیعت تھی ۔ انتہاءپسندتنظیموں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مشن سب کا ایک ہے۔سب ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کہ اسلام کو مختلف طریقوں سے بدنام کیا جائے مسلم دنیا کو آپس میں لڑایا جا ئے، ایٹمی طاقت پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار کر دیا جائے ۔ نام کچھ بھی رکھ لیا جائے القاعدہ ، داعش،لشکر، وغیرہ وغیرہ اسلحہ ،پیسہ ،ہدایات کا ہیڈ کواٹر ایک ہے۔ سعودی ایران امن مصالحتی دورے کے دوران ایک سعودی صحافی نے یہاں تک کہہ دیا کہ سعودی عرب کو اسرائیل سے زیادہ ایران سے پریشانی لاحق ہے۔اسرائیل کے ساتھ ایران کے بھی تعلقات بہتر ہیں اور سعودی عرب کے بھی معاملات اچھے جا رہے ہیں لیکن یہ سارے اسلامی ملک ایک دوسرے کے ہاتھوں انتشار کا شکار ہیں ۔ مقصد واضح ہے کہ ایک فرقے کے نفاذ کے لئے پاکستان میں کئی جماعتوں کی فنڈنگ کی جا رہی ہے اور انہی میں سے لوگ داعش سے وابستہ ہو رہے ہیں ۔مسلکی اعتبار سے یہ سب تنظیمیں ایک دوسرے کی کزن ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کی زمین پر تمام مذاہب ،فرقے ،مسالک غیر متعصبانہ پر امن زندگی گزارا کرتے تھے۔نفاذ اسلام کی آڑ میں یہودی ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چن چن کر ذبح کردو اور اس نجس مقصد کی خاطر اسرائیل نے داعش سمیت کئی بد معاش جماعتیں بنا رکھی ہیں جو مسلم ممالک میں قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ۔مسلم دنیا سے نفرت کا سبب فلسطینیوں کی جہد آزادی ہے۔مسلم دنیا ایک دوسرے سے متھا لگانے کی بجائے متحد ہو کر اسرائیل کے نکیل ڈال دے تو سب داعش
بد معاش اپنی موت خود مر جائیں گے۔ شدت پسندبرین واش طبقہ نفسیاتی طور پر بیمار لوگ ہوتے ہیں،ان میں مردوں اور خواتین کی شرح مساوی ہے۔ یہ فارمولہ کی بے روزگاری اور غربت جہادی تنظیموں میں شمولیت کا سبب بنتے ہیں ،غلط ثابت ہو رہاہے ۔لاہور کی لمز یونیورسٹی سے امریکہ تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس بیمار طبقہ کا حصہ بن رہے ہیں۔اس بیمار طبقہ نے اس قدر خوف و ہراس پھیلا دیا ہے کہ مذہبی خیالات کے حامل بچوں اور بچیوں کے رشتوں میں بھی مشکلات پیدا ہونے لگی ہیں۔ پہلا سوال یہی ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ کہیں اس مذہبی لڑکے یا لڑکی کا تعلق کسی انتہاءپسند تنظیم سے تو نہیں ۔ والدین بھی اکثر اپنی نوجوان اولاد کی خفیہ سرگرمیوں سے لا علم ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ مذہبی ہو گیا ہے لیکن اچانک اتنا مذہبی کیوں اور کیسے ہو گیا ہے یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے۔ داڑھی،مسجد، حجاب ، نقاب، تبلیغ ہمارے بڑوں کے زمانے میں عام تھا ،ہمارے بزرگ بھی مذہبی ہوا کرتے تھے لیکن بے ضرر اور معصوم لوگ تھے۔منفی سوچ نہیں تھی ،جو حالات اب ہو چکے ہیں ۔ بچوں کا رشتہ کرتے وقت دین کو فوقیت دی جائے لیکن اس بچے کی دینی سرگرمیوں کی مکمل طور پر تسلی کرلی جائے ۔ بہتر ہو گا اگر لڑکے لڑکی کو آپس میں بات کرنے کا موقع دیا جائے کہ نوجوان ذہن ایک دوسرے کی سوچ جلد پڑھ لیتے ہیں ۔ پہلے وقتوں میں مذہبی اقدار کو اہمیت دی جاتی تھی لیکن اب لوگ مذہبی کے نام سے تذبذب کا شکار ہو نے میں حق بجانب ہیں۔ رشتہ طے کرنے سے پہلے مذہبی رحجان کی سمت اور پیمانہ ضرور معلوم کر لیا جائے کہ مذہبی نظر آنے والی لڑکی کہیں طالبان مائنڈڈ تو نہیں اور لڑکا برقعہ پوش مولانا کا وعظ تو نہیں سنتا ۔۔۔؟
بشکریہ نوائے وقت
کیلی فورنیا فائرنگ کا مبینہ واقعہ منظر عام پر آیا تو دل دہل گئے، ایسے کئی واقعات سے پاکستانی بھرا پڑا ہے ۔پاکستانی نژاد قاتل کے والدین نے امریکی پولیس کو بیان دیا کہ اس پاکستانی لڑکی سے انٹر نیٹ پر ملاقات سے پہلے ان کا بیٹا ایسا نہ تھا ،وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کا لڑکا اتنے لوگوں کی جان لے سکتا ہے ۔اس کی پاکستانی بیوی البغدادی کی بیعت تھی ۔ انتہاءپسندتنظیموں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مشن سب کا ایک ہے۔سب ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کہ اسلام کو مختلف طریقوں سے بدنام کیا جائے مسلم دنیا کو آپس میں لڑایا جا ئے، ایٹمی طاقت پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار کر دیا جائے ۔ نام کچھ بھی رکھ لیا جائے القاعدہ ، داعش،لشکر، وغیرہ وغیرہ اسلحہ ،پیسہ ،ہدایات کا ہیڈ کواٹر ایک ہے۔ سعودی ایران امن مصالحتی دورے کے دوران ایک سعودی صحافی نے یہاں تک کہہ دیا کہ سعودی عرب کو اسرائیل سے زیادہ ایران سے پریشانی لاحق ہے۔اسرائیل کے ساتھ ایران کے بھی تعلقات بہتر ہیں اور سعودی عرب کے بھی معاملات اچھے جا رہے ہیں لیکن یہ سارے اسلامی ملک ایک دوسرے کے ہاتھوں انتشار کا شکار ہیں ۔ مقصد واضح ہے کہ ایک فرقے کے نفاذ کے لئے پاکستان میں کئی جماعتوں کی فنڈنگ کی جا رہی ہے اور انہی میں سے لوگ داعش سے وابستہ ہو رہے ہیں ۔مسلکی اعتبار سے یہ سب تنظیمیں ایک دوسرے کی کزن ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کی زمین پر تمام مذاہب ،فرقے ،مسالک غیر متعصبانہ پر امن زندگی گزارا کرتے تھے۔نفاذ اسلام کی آڑ میں یہودی ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چن چن کر ذبح کردو اور اس نجس مقصد کی خاطر اسرائیل نے داعش سمیت کئی بد معاش جماعتیں بنا رکھی ہیں جو مسلم ممالک میں قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ۔مسلم دنیا سے نفرت کا سبب فلسطینیوں کی جہد آزادی ہے۔مسلم دنیا ایک دوسرے سے متھا لگانے کی بجائے متحد ہو کر اسرائیل کے نکیل ڈال دے تو سب داعش
بد معاش اپنی موت خود مر جائیں گے۔ شدت پسندبرین واش طبقہ نفسیاتی طور پر بیمار لوگ ہوتے ہیں،ان میں مردوں اور خواتین کی شرح مساوی ہے۔ یہ فارمولہ کی بے روزگاری اور غربت جہادی تنظیموں میں شمولیت کا سبب بنتے ہیں ،غلط ثابت ہو رہاہے ۔لاہور کی لمز یونیورسٹی سے امریکہ تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس بیمار طبقہ کا حصہ بن رہے ہیں۔اس بیمار طبقہ نے اس قدر خوف و ہراس پھیلا دیا ہے کہ مذہبی خیالات کے حامل بچوں اور بچیوں کے رشتوں میں بھی مشکلات پیدا ہونے لگی ہیں۔ پہلا سوال یہی ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ کہیں اس مذہبی لڑکے یا لڑکی کا تعلق کسی انتہاءپسند تنظیم سے تو نہیں ۔ والدین بھی اکثر اپنی نوجوان اولاد کی خفیہ سرگرمیوں سے لا علم ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ مذہبی ہو گیا ہے لیکن اچانک اتنا مذہبی کیوں اور کیسے ہو گیا ہے یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے۔ داڑھی،مسجد، حجاب ، نقاب، تبلیغ ہمارے بڑوں کے زمانے میں عام تھا ،ہمارے بزرگ بھی مذہبی ہوا کرتے تھے لیکن بے ضرر اور معصوم لوگ تھے۔منفی سوچ نہیں تھی ،جو حالات اب ہو چکے ہیں ۔ بچوں کا رشتہ کرتے وقت دین کو فوقیت دی جائے لیکن اس بچے کی دینی سرگرمیوں کی مکمل طور پر تسلی کرلی جائے ۔ بہتر ہو گا اگر لڑکے لڑکی کو آپس میں بات کرنے کا موقع دیا جائے کہ نوجوان ذہن ایک دوسرے کی سوچ جلد پڑھ لیتے ہیں ۔ پہلے وقتوں میں مذہبی اقدار کو اہمیت دی جاتی تھی لیکن اب لوگ مذہبی کے نام سے تذبذب کا شکار ہو نے میں حق بجانب ہیں۔ رشتہ طے کرنے سے پہلے مذہبی رحجان کی سمت اور پیمانہ ضرور معلوم کر لیا جائے کہ مذہبی نظر آنے والی لڑکی کہیں طالبان مائنڈڈ تو نہیں اور لڑکا برقعہ پوش مولانا کا وعظ تو نہیں سنتا ۔۔۔؟
بشکریہ نوائے وقت