What's new

tanz-o-mazah

ایک سے بڑھ کر ایک
ایک خاتون نے ناک بھوں چڑھا کر فقیر سے کہا۔ ’’تمہیں بھیک مانگتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ اچھے خاصے ہٹے کٹے ہو، کہیں محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

فقیر نے ان کا سرتاپا جائزہ لیتے ہوئے ملائمت سے کہا۔ ’’محترمہ آپ ماشا اللہ کافی حسین ہیں، آپ کی شکل میں کرینہ اور کترینہ دونوں کی مشابہت ہے، جسم بھی ٹھیک ٹھاک ہے، پھر آپ فلموں میں کام کیوں نہیں کرتیں۔‘‘
5.jpg
 
ترقی پسند افسانوں کے بعد جذباتی افسانے آتے ہیں۔ جذباتی افسانوں میں جذبات اور احساسات کی شدت کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ مختلف جذبوں کے زیر اثر افسانے کے کردار عجیب و غریب حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک افسانے میں سریش کو جب پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے نرملا سے شادی نہیں کرسکتا تو وہ نرملا کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔ ’’نرملا! تم آج سے میری بہن ہو۔‘‘ ’’تمہاری بہن؟‘‘ نرملا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہاں ہاں میری بہن۔‘‘ سریش نے بہن کے لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم آج سے میری بہن ہو۔ کاش کہ تم عمر میں مجھ سے پانچ دس سال بڑی ہوتیں اور میں تمہیں ’’ماں‘‘ کہہ سکتا۔‘‘ اسی طرح ایک افسانے میں دو بھائی ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے ہیں مگر جب چھوٹے بھائی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا بھائی ان دونوں کی مشترکہ محبوبہ سے شادی کرنے کو تلا ہوا ہے تو وہ مندر میں دیوی یا دیوتا کے سامنے اس لڑکی کا ہاتھ اپنے بڑے بھائی کے ہاتھ میں دے کر خود سادھو بن کر زندگی گزارنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ جذباتی افسانوں میں قہقہے، آنسو، سسکیاں، قسمیں، ہچکولے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ عموماً انجام خودکشی ہوتا ہے اور محبت کے دیوتا کے سامنے عجیب و غریب قربانیاں دی جاتی ہیں۔
(کنہیا لال کپور کی کتاب ’’سنگ و خشت‘‘ سے اقتباس)
 
بھلکڑ
ایک خاتون اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھیں۔ ’’میرے شوہر بے انتہا بھلکڑ ہیں۔ دفتر یا کہیں اور جائیں تو کبھی اپنا کوٹ بھول آتے ہیں تو کبھی چھتری، کبھی ہینڈ بیگ تو کبھی رومال۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے انہیں ٹماٹر لینے کے لئے بھیجا تھا اور اب وہ آتے ہی ہوں گے لیکن میں شرط لگا کر کہہ سکتی ہوں کہ انہیں ٹماٹر لانا یاد نہ رہا ہوگا۔‘‘

اسی لمحے خوشی سے بے قابو ہوتا ہوا ایک شخص گھر میں داخل ہوا اور چلایا۔ ’’بیگم! ذرا دیکھو تو سہی مجھے کیا ملا ہے؟ سڑک پر ایک خبطی دولت مند میرے ہاتھوں میں اتنے بہت سے نوٹ تھما کر اپنی کار کو تیز رفتاری سے چلا کر لے گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ڈھیر سارے نوٹ بیوی کے سامنے رکھ دیئے۔

بیوی نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ پڑوسن سے کہا۔ ’’دیکھا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ یہ ٹماٹر لانا بھول جائیں گے۔‘‘
5.jpg
 
نصیحت
نانی اماں نے منے سے کہا۔ ’’جب تمہیں کھانسی آیا کرے تو منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا کرو۔‘‘

منے نے کہا۔ ’’نانی اماں! آپ فکر نہ کریں، میرے دانت آپ کی طرح نقلی نہیں ہیں۔‘‘
5.jpg
 
پہلا پتھر


مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب کا مقدمہ لکھتے ہوئے اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔


نام:

سرورق پر ملاحظہ فرمائیے
۔خاندان:​
سو پشت سے پیشہ آباء سپہ گری کے سوا سب کچھ رہا ہے۔​
تاریخ پیدائش:​
عمر کی اس منزل پر آپہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔​
اور یہ منزل بھی عجیب ہے۔ بقول صاحب “کشکول“ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں۔ فلاں کے بھانجے ہیں اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔​
پیشہ:​
گوکہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا، لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اور حساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتا رہا۔​
اب وہی ذریعہ معاش ہے۔ حساب کتاب میں اصولاً دو اور دو چار کا قائل ہوں۔ مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دو اور دو کو پانچ کرلیتے ہیں۔​
پہچان :
قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)​

وزن: اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔

جسامت: یوں سانس روک لوں تو 38 انچ کی بنیان بھی پہن سکتا ہوں۔ بڑے لڑکے کے جوتے کا نمبر 7 ہے جو میرے بھی فٹ آتا ہے۔
حلیہ: اپنے آپ پر پڑا ہوں۔​
پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذات کوئی نقص نہیں مگر دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔​
پسند:​
غالب، ہاکس بے ، بھنڈی​
پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سرسبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹ کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے۔​
پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب بربنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔​
گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔​
چڑ:​
جذباتی مرد، غیر جذباتی عورتیں، مٹھاس، شطرنج۔​
مشاغل:​
فوٹو گرافی، لکھنا پڑھنا​
تصانیف:​
چند تصویران بتاں، چند مضامین و خطوط​
کیوں لکھتا ہوں:​
ذزریلی نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب میرا جی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔ رہا سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی ایک قدم آگے۔۔۔ یعنی صرف مضامین، تو یہاں صرف اتنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ وار ذرا اوچھا پڑے، یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، نہ آئے تو خدا ہے۔​
 
جاہل
مشہور سائنسدان آئن اسٹائن ایک مرتبہ بس میں سفر کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے ہینڈ بیگ سے کچھ ضروری کاغذات نکال کر پڑھنا چاہے تو خیال آیا کہ اپنا چشمہ تو گھر بھول آئے ہیں۔ مجبوراً ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے کہا۔ ’’ازراہ کرم! ذرا یہ کاغذات پڑھ دیجئے۔‘‘

اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’جناب! میں بھی آپ کی طرح جاہل ہوں۔‘‘

11.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتنگ بازی
ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی ’’جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا، کھیل کھیل نہیں رہتا، کام بن جاتا ہے۔‘‘ اور پتنگ بازی میں بوجھ دماغ کے بجائے کوٹھے پر پڑتا ہے۔ ہم نے ایک پتنگ باز سے پوچھا۔
’’یہ پیچ لڑانے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘
کہا۔ ’’کلائی مضبوط ہوتی ہے۔‘‘
پوچھا۔ ’’مضبوط کلائی کا فائدہ؟‘‘
کہا۔ ’’پیچ لڑانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘
پیچ بھی سیاست کی طرح پرپیچ ہوتے ہیں مگر پتنگ بازی اور سیاست بازی میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں اول الذکر کے لئے ڈور اور آخر الذکر کے لئے بیک ڈور کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکا اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ خدا تک پہنچنے کے لئے خلائی شٹل کا سہارا لینے کا منصوبہ بنارہے ہیں جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر سال بذریعہ ’’پتنگ‘‘ کئی لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’جوک در جوک‘‘ سے اقتباس)
 
موٹر سائیکل

میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے محبت بڑا بے زبان جذبہ ہے، یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں۔

’’ف‘‘ کہتا ہے میں موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کے ساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔

اگر موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی خاتون کے بجائے چلانے والا شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی ’’اہل خانہ‘‘ ہے۔

اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں ’’اہل کھانا‘‘ ہے۔

موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔ خواتین منہ ایک طرف کرکے یوں بیٹھتی ہیں کہ جیسے ابھی اترنے والی ہوں۔ بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں بٹھائی ہوئی لگتی ہیں۔

کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوئے ہوتی ہیں۔ لگتا ہے سفر نہیں “suffer” کررہی ہیں۔

چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں۔

بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں۔ جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے، پتا نہیں چلتا اس کا منہ کس طرف ہے؟

نئی نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہو۔

جبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انہیں خود پر اعتبار نہیں۔

جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھے دیکھتا ہوں جس نے اپنا جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میرے منہ سے بددعا نکلتی ہے۔ مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلانے والے پر اعتماد کئے بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آرہی ہوتی ہے۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
 
طنز و مزاح
ایک عامل کا بڑا چرچا تھا کہ وہ روحوں سے بات کروادیتے ہیں۔ ایک بچہ جو اپنی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے محلے بھر میں مشہور تھا، عامل کے پاس پہنچا اور نذرانہ پیش کرنے کے بعد کہا۔

’’میں اپنے دادا کی روح سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

اسے ایک اندھیرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں اگربتیاں جل رہی تھیں۔ چند لمحوں کے بعد ایک بھاری آواز سنائی دی۔ ’’کیوں آئے ہو برخوردار؟‘‘

قریب سے عامل صاحب کے چیلے نے بچے کو ٹھوکا دیا۔ ’’یہ تمہارے دادا کی روح بول رہی ہے۔ پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

’’دادا جان!‘‘ بچے نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی روح یہاں کیا کررہی ہے جبکہ آپ کا تو ابھی انتقال بھی نہیں ہواْ‘‘


6.jpg
 
سچ کی طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (طنز و مزاح)
ایک صاحب نے دفتر سے فارغ ہوکر اپنی سیکریٹری کو ساتھ لیا اور ہوٹل میں کھانا کھانے چلے گئے۔ وہاں سے دونوں نے فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے بعد صاحب سیکریٹری کے ساتھ اس کے گھر بھی چلے گئے۔ رات گئے وہ سیکریٹری کے ہاں سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے اس سے ایک پینسل مانگ کر اپنے کان پر پھنسالی۔

گھر پہنچے تو بیوی نے تاخیر کی وجہ پوچھی۔ صاحب نے سب کچھ سچ سچ بتادیا۔

’’جھوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکواس ۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ بیوی فاتحانہ انداز میں بولی۔ ’’تمہیں تو شو مارنے کی عادت ہے، مجھے معلوم ہے کہ تم دیر تک دفتر میں کام کرکے آرہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پینسل ابھی تک تمہارے کان پر لگی ہوئی ہے۔‘‘
 
چار بیویاں
ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا۔ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم آج کل گھر سے باہر زیادہ وقت گزارتے ہو، آخر کیا وجہ ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں یار! گھر میں چار بیویوں کی وجہ سے ناک میں دم ہے، اس لئے میں ان ہنگاموں سے بچنے کے لئے گھر میں کم وقت گزارتا ہوں۔‘‘ دوست نے کہا۔

’’مگر تمہاری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ پھر یہ بیویاں؟‘‘ اس شخص نے حیران ہوکر کہا۔

’’ارے بھئی یہ دوسروں کی بیویاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک میرے دادا کی، ایک میرے باپ، ایک میرے بھائی اور ایک میرے بہنوئی کی۔‘‘ دوست نے منہ بسور کر جواب دیا۔
 
کچھ عاشق کے بارے میں

دنیا میں تین قسم کے عاشق ہیں۔ ایک وہ جو خود کو عاشق کہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں لوگ عاشق کہتے ہیں اور تیسرے وہ جو عاشق ہوتے ہیں۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے عاشق دراصل آشک ہے کہ وہ اتنا محبوب سے پیار نہیں کرتا جتنا شک کرتا ہے۔

ہمارے ہاں جتنے بھی اچھے عاشق ملتے ہیں وہ کتابوں میں ہیں یا قبرستانوں میں۔ کسی عاشق کے بارے میں جاننے کے لئے کہ وہ سچا عاشق ہے یا نہیں، اس سے یہ پوچھو کہ کیا تم سچے عاشق ہو۔ اگر وہ اپنے منہ سے خود کو سچا کہے تو سمجھ لیں وہ جھوٹا ہے اور اگر وہ کہتا ہے نہیں تو بات واضح ہے۔

کامیاب عاشق وہ ہوتا ہے جو عشق میں ناکام ہو۔ کیونکہ جو کامیاب ہوجائے وہ عاشق نہیں خاوند ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے وہ بڑھ کر محبوبہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنی محبت کے لئے جبکہ شادی کے بعد وہ بڑھ کر بیوی کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنے بچاؤ کے لئے۔ جو شخص یہ کہے کہ اس کی بیوی نے کبھی حکم عدولی نہیں کی، یہ وہی شخص ہے جس نے کبھی اپنی بیوی کو حکم ہی نہیں دیا۔ ویسے بھی محبوبہ میں سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ بندے کو اسے طلاق نہیں دینی پڑتی۔

میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے عاشق ہونا اور بات ہے اور عاشق لگنا اور بات۔ حالانکہ عاشق لگنا کون سا مشکل ہے۔ ایک ہفتہ پانی بند رہے اور نائی دھوبی سے بندہ پرہیز کرے تو بڑے سے بڑے عاشق کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ سچا عاشق وہ ہوتا ہے جو جتنی بار عشق کرتا ہے، سچا کرتا ہے۔

کہتے ہیں عاشق خوبصورت نہیں ہوتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو خوبصورت ہوتے ہیں وہ عاشق نہیں ہوتے، لوگ ان پر عاشق ہوتے ہیں۔

دوسرے کو پریشان کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو اس کی ان خامیوں کا ذکر کرو جو اس میں ہیں یا اس کی خوبیوں کا ذکر کرو جو اس میں نہیں ہیں اور یہی عاشق کرتا ہے۔ وہ محبوب کا نقشہ کھینچ رہا ہو تو لگتا ہے محبوب کی کھنچائی کررہا ہے۔ جیسے ناگن زلفیں یعنی بالوں کی جگہ لٹکے ہوئے سانپ، سرو قد یعنی جوں جوں اوپر سے نیچے آتا پھیلتا جاتا ہے، چاند چہرہ یعنی چاند کی طرح گڑھوں اور داغ دھبوں والا، پھر ہرنی جیسی چال یعنی چارپایوں کی طرح چلنا۔ شاید وہ اسی لئے کہتا ہے کہ اس جیسا محبوب پوری دنیا میں نہیں۔

عاشق نے ہمیشہ محبوب کو ملزم سمجھا، اس پر اپنے اسپیئر پارٹس کی چوری کا الزام لگایا۔ دل ، جگر، نیند وغیرہ کی گمشدگی کا پرچہ بھی محبوب کے نام کٹوایا، یہاں تک کہ اس کو سرِعام قاتل کہا۔ اس دنیا میں جلسے جلوسوں کا بانی بھی عاشق ہی ہے کہ اس نے سب سے پہلے محبوبہ کا جلوس نکالا۔

عاشق، شاعر اور پاگل تینوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خود کسی پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس دنیا میں جس شخص کی بدولت عاشق کی تھوڑی بہت عزت ہے وہ رقیب ہے۔ جب رقیب نہیں رہتا تو اچھے خاصے عاشق اور محبوب میاں بیوی بن جاتے ہیں۔ کہتے ہیں رقیب اور عاشق کی بھی نہیں بنتی حالانکہ رقیب ہی تو دنیا کا واحد شخص ہوتا ہے جس سے اس کا اتفاق رائے ہوتا ہے، جسے عاشق پسند کرتا ہے وہ بھی اسے پسند کرتا ہے، جسے یہ منتخب کرتا ہے وہی اس کا انتخاب ہوتا ہے، یہی نہیں وہ بھی اس پر جان دیتا ہے جس پر عاشق۔ بلکہ سچا اور حقیقی عشق تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں رقیب ہو۔

اس دنیا کا پہلا جرم ایک عاشق نے اپنے بھائی کا قتل کرکے کیا۔ یوں عشق اور جرم جڑواں بھائی ہیں۔ اس دنیا میں آدھے جھوٹ ناکام عاشقوں اور کامیاب عاشقوں یعنی خاوندوں نے بولے ہیں۔

عاشق وہ واحد فرد ہے جو محبوب کی ترقی نہیں چاہتا کہ کہیں یہ اس کی پہنچ سے دور نہ ہوجائے۔ ایک دوست عاشق بن سکتا ہے لیکن جو ایک بار عاشق بن جائے وہ پھر کبھی دوست نہیں بن سکتا۔

عشق اور لڑائی میں سب جائز ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ عشق کتنا جائز ہے۔ عشق وہ مرض ہے جس کا جوانی لیوا حملہ پہلی عمر میں ہوتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے یہ مرض گھٹتا جاتا ہے۔ یوں بھی بوڑھا عاشق جوان عاشق سے زیادہ اچھا ہوتا ہے کہ بوڑھا عاشق صرف آپ کا حال خراب کرتا ہے اور جوان عاشق تو مستقبل بھی خراب کردیتا ہے۔ اس مرض سے نئی نسل کو بیزار کرنے کے لئے میری مرضی یہ ہے کہ اسے نصاب میں شامل کردیا جائے۔

مرد یہ کہہ کر عورت کا دل جیت سکتا ہے کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں، بشرطیکہ وہ واقعی اس سے عشق نہ کرتا ہو۔ محبوبہ اس عاشق کو تو معاف کردیتی ہے جو موقع سے غلط فائدہ اٹھائے مگر اس کو معاف نہیں کرتی جو موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔

(ڈاکٹر یونس بٹ)
 
طنز و مزاح
اکبر الہٰ آبادی کاتبوں کی ’’غلط نوازیوں‘‘ سے بہت دل برداشتہ خاطر رہتے تھے۔ مولانا ظفر الملک علوی (ایڈیٹر ماہنامہ الناظر) کو ایک خط (مطبوعہ الناظر، یکم جنوری ۱۹۱۰ میں تحریر فرماتے ہیں۔

’’اپنے مسودار خود نہیں پڑھ سکتا۔ کاتب کو ہدایت میں نہایت دقت ہوتی ہے۔ کاتب صاحب ایسے ’’ذی استعداد‘‘ ہیں کہ ’’کونسلوں میں سیٹ‘‘ کو ’’گھونسلوں میں بیٹ‘‘ لکھ دیتے ہیں۔‘‘
5.jpg
 
خودکشی کا جواز
ایک عورت کے لئے اس سے بڑھ کر خودکشی کا جواز اور کیا ہوسکتا ہے کہ دوسری عورت نے بھی اسی کے رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پہنے ہوں!
(مستنصر حسین تارڑ)

Tanz-o-maza%2B28-10-14.jpg
 
چڑیا، چڑے کی کہانی

ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانا، چڑا لایا چاول کا دانا، اس سے کھچڑی پکائی، دونوں نے پیٹ بھر کر کھائی، آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کھچڑی بھی بہت ہوتی ہے۔

چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کھچڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چوالیس حصے تو لے، اے بھاگوان پسند کر یا نا پسند کر۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر، چڑے نے اپنی چونچ میں سے چند نکات بھی نکالے اور بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حیران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو میرا جنم کا ساتھ تھا لیکن کیا کرسکتی تھی۔

دوسرے دن پھر چڑیا دال کا دانا لائی اور چڑا چاول کا دانا لایا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈیا چڑھائی۔ کھچڑی پکائی، کیا دیکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہیں۔ چڑے نے چاول کا دانہ کھایا، چڑیا نے دال کا دانا اٹھایا۔ چڑے کو خالی چاول سے پیچش ہوگئی، چڑیا کو خالی دال سے قبض ہوگئی۔ دونوں ایک حکیم کے پاس گئے جو ایک بلا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور پھیرتا ہی چلا گیا۔

یہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ایکسپورٹ ہوجاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکیاں جو مولوی اسماعیل میرٹھی کے زمانے میں دال بگھارا کرتی تھیں، آج کل فقط شیخی بگھارتی ہیں۔

(’’اردو کی آخری کتاب‘‘ از ابن انشا سے انتخاب)
 
خوش فہمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مینڈک نے نجومی سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو نجومی نے بتایا۔ ’’تمہیں ایک لڑکی ملے گی جو تمہارا دل لے جائے گی۔‘‘

مینڈک نے خوشی سے بے قابو ہوکر کہا۔ ’’وہ کہاں ملے گی؟‘‘

’’بائیولوجی لیب میں۔‘‘ نجومی نے جواب دیا۔

Tanz-o-maza%2B06-11-14.jpg
 

Latest posts

Back
Top Bottom