What's new

tanz-o-mazah

nizamuddin

FULL MEMBER
Joined
Mar 13, 2015
Messages
144
Reaction score
0
Country
Pakistan
Location
Pakistan
۔ شاعروں کو ضرور شادی کرنی چاہئے، اگر بیوی اچھی مل گئی تو زندگی اچھی ہوجائے گی اور بیوی اچھی نہ ملی تو شاعری اچھی ہوجائے گی۔

۔ دنیا کی وہ عورت جسے آپ ساری زندگی متاثرنہیں کرسکتے وہ بیوی ہے، اور وہ عورت جسے آپ چند منٹوں میں متاثر کرسکتے ہیں، وہ بھی بیوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسرے کی۔

۔ شاعری، گلوکاری اور اداکاری کی طرح عشق کرنا بھی فنون لطیفہ میں سے ہے۔

۔ دنیا میں تین قسم کے عاشق ہیں۔ ایک وہ جو خود کو عاشق کہتے ہیں، دوسرے وہ جنہیں لوگ عاشق کہتے ہیں اور تیسرے وہ جو عاشق ہوتے ہیں۔

۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے عاشق دراصل ’’آ شک‘‘ ہے کہ وہ اتنا محبوب سے پیار نہیں کرتا جتنا شک کرتا ہے۔

۔ ہمارے ہاں جتنے بھی اچھے عاشق ملتے ہیں وہ کتابوں میں ہیں یا قبرستانوں میں۔

۔ کامیاب عاشق وہ ہوتا ہے جو عشق میں ناکام ہو، کیونکہ جو کامیاب ہوجائے وہ عاشق نہیں خاوند کہلاتا ہے، شادی سے پہلے وہ بڑھ کر محبوبہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنی محبت کے لئے جب کہ شادی کے بعد وہ بڑھ کر بیوی کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنے بچاؤ کے لئے۔

۔ کہتے ہیں عاشق خوبصورت نہیں ہوتے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو خوبصورت ہوتے ہیں وہ عاشق نہیں ہوتے، لوگ ان پر عاشق ہوتے ہیں۔

۔ عاشق ، شاعر اور پاگل ان تینوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خود کسی پر اعتبار نہیں کرتے۔

۔ اس دنیا میں جس شخص کی بدولت عاشق کی تھوڑی بہت عزت ہے وہ رقیب ہے، جب رقیب نہیں رہتا تو اچھے خاصے عاشق اور محبوب میاں بیوی بن جاتے ہیں۔

۔ میرا دوست ’’ف‘‘ ایک ہی نظر میں عاشق ہوجاتا ہے، کہتا ہے ’’میرے ساتھ کوئی دوشیزہ مخلص نہیں نکلی، جو مخلص نکلی وہ دوشیزہ نہیں نکلی۔‘‘ اس کی کلاس میں تیس لڑکیاں تھیں، ان میں سے ایک لڑکی اس لئے ناراض رہتی کہ وہ اسے توجہ نہ دیتا اور باقی انتیس اس لئے کہ وہ توجہ دیتا۔

۔ شیطان کائنات کا سب سے پہلا صحافی ہے جس نے اللہ تعالی کو خبر دی کہ انسان زمین پر جاکر کیا کرے گا! یہی نہیں وہ پہلا وکیل بھی ہے جس نے آدم کو مشورہ دیا پھل کھالو، پھر کوئی تم سے جنت کا قبضہ نہ لے سکے گا، ہمیشہ کے لئے یہیں رہوگے، اور فیس مشورے میں جنت لے لی۔

اپنی غلطی تسلیم کرنا دراصل خود کو انسان ماننا ہے، کیونکہ وہ صرف شیطان ہے جس نے آج تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ شاید اسی لئے ہم بھی آج کل اپنی غلطی نہیں مانتے۔


(ڈاکٹر یونس بٹ ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
 
گلے ملنا
مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا، اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللّہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچّے اتنے تھے کے بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا سکول میں آگیا ہے۔ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچّے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں 500 گیلن پانی بھرتے اور سات دن میں 550 گیلن نکالتے۔وہ مجھے بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حلانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کے مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ایک روز ہم لڑ رہے تھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔
” کیوں لڑ رہے ہو “

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، ” چلو گلے لگ کر صلح کرو “۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔
عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔پہلی بار انسان اس دن گلے ملا، جب خُدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے مماز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔​
(ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ” افراتفریح ” سے اقتباس)​
 
وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا ’’قبول ہے؟‘‘ ان کے سامنے منہ سے ہاں کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ بس اپنی ٹھوڑی سے دو مودبانہ ٹھونگیں مار دیں جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے ناکافی سمجھا قبلہ کڑک کر بولے ’’لونڈے بولتا کیوں نہیں؟‘‘ ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے’’جی ہاں قبول ہے‘‘ کہہ دیا۔ آواز ایک لختاتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہیں کہ اتنے زور کی ہاں سے بیٹی والوں کی ہیٹی ہوتی ہے۔ بس تمام عمر ان کا یہی حال رہا۔ اور تمام عمر میں کربِ قرابت داری وقربتِ قہری دونوں میں مبتلا رہا۔
حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے، لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولہا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باہر نہیں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا اور پیدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئی تھی کہ مجھے تو عروسی چھپر کھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ براتی پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈیوڑھی نہیں پڑی۔ خوب سمجھ لو، میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہر گز نہیں بجے گا...​

کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر الٰہی کی نشانی تصور کی جاتی تھی۔ ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی تھی کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑدینے کے حق میں تھے...

(از مشتاق احمد یوسفی "آب گم" سے اقتباس)


دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی بکھری ہوئی ذات کو سمیٹنا ہے۔
 
خط کی اقسام
خط کی کئی قسمیں ہیں۔ سیدھے خط کو خطِ مستقیم کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بالکل سیدھا ہوتا ہے اس لئے سیدھے آدمی کی طرح نقصان اٹھاتا ہے۔ تقدیر کے لکھے خط کو خطِ تقدیر کہتے ہیں، جسے فرشتوں نے سیاہی سے لکھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔ جس خط میں ڈاکٹر صاحب نسخے لکھتے ہیں اور جو کسی سے پڑھے نہیں جاتے اسے خطِ شکستہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ بیماریوں سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ غلط دوائیوں سے مرتے ہیں۔
خط کی دو قسمیں اور بھی ہیں مثلاً حسینوں کے خطوط......... یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حسینائیں اپنے چاہنے والوں کے نام لکھتی ہیں، جن میں دنیا کے اُس پار جانے کا ذکر ہوتا ہے جہاں ظالم سماج دو محبت کرنے والوں تک نہ پہنچ سکے۔
دوسرے ’’حسینوں کے خطوط‘‘ یعنی نقش و نگار جن کی بدنمائی چھپانے کے لئے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پاؤڈر اور پرفیومز وغیرہ استعمال کرلئے جاتے ہیں۔

 
بے روزگار
آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ کچھ نہ کرنا دنیا میں مشکل ترین کام ہے۔ مشکل ترین ہی نہیں ذہین ترین بھی۔ یہ سچ ہے کہ بے روزگار ہونا اتنا مشکل کام ہے کہ میں نے اتنے لوگ کام کرتے مرے نہیں دیکھے جتنے بے روزگاری سے مرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آج کل کا بے روزگار، سکندر اعظم سے بہتر ہے اور اس کی بہتری یہ ہے کہ سکندر اعظم مرچکا اور یہ ابھی زندہ ہے۔

خواتین کی خواندگی کا عالم یہ ہے کہ ایک خاتون کی سرکردگی میں ایک سروے ٹیم بلوچستان گئی، وہاں کئی قصبوں اور گاؤں میں پھرنے کے بعد ٹیم نے بتایا کہ اس سارے سفر کے دوران ہمیں صرف ایک پڑھی لکھی خاتون نظر آئی اور یہ خاتون وہ تھی جس کی سرکردگی میں یہ سروے ٹیم بلوچستان گئی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں اتنے ان پڑھ ہیں تو ان کی نمائندگی کے لئے بھی ان پڑھ ہی چاہئیں تاکہ وہ اسمبلی میں اس اکثریت کے مسائل بتاسکیں۔ اس لئے ہمارے ہاں سیاست دانوں میں ہائی تعلیم یافتہ وہ ہوتا ہے جو ہائی جماعت تک گیا ہو۔ یوں بھی پڑھے لکھے نورتن ہوتے ہیں، اکبر بننے کے لئے ان پڑھ ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ایک وزیر سے ایک غیر ملکی صحافی نے پوچھا۔ ’’آپ کی تعلیم؟‘‘ جواب ملا۔ ’’ایم اے، کرلیتا اگر میٹرک میں رہ نہ جاتا۔‘‘ وکٹر ہوگیو نے کہا ہے ’’بے روزگاری ماں ہے جس کا ایک بچہ لوٹ مار اور ایک بچی بھوک ہے۔‘‘ ہمارے ہاں اس زچہ بچہ کی صحت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ سب سن کر میرا ایک دوست کہنے لگا ’’اس سے تو لگتا ہے ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم دنیا میں کوئی نہیں۔‘‘

ہم نے کہا ’’ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم بھی دنیا میں ہیں۔‘‘

بولا ’’کون؟‘‘

ہم نے کہا ’’دو بے روزگار۔‘‘
(ڈاکٹر یونس بٹ)
 
کون ہے جو پیار نہیں کرتا مگر کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا مفہوم اور مقصود کیا ہے؟ ہر شخص اپنے طور پر اس کی تشریح کرتا ہے۔ کسی نے شیریں سے پیار کیا تو کسی نے شیریں کے نام پر اس کے باپ کی دولت پر نظر جمائی، کون زندہ رہ گیا، یہ سب جانتے ہیں۔

محبت کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ محبت وہ بیماری ہے جو شادی کا کڑوا گھونٹ پینے ہی سے ختم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں دل لگانے کا مشورہ بہت ہی چھوٹی عمر میں مل جاتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں۔

’’بیٹا دل لگا کر پڑھا کرو۔‘‘

دل لگانے کے بعد بھی کوئی پڑھ سکا ہے؟ جو لوگ انگریزی پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محبت کرنا کسی گڑھے میں گرنے جیسا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انگریزی میں محبت کرنے کے لئے “Falling in Love” کی اصطلاح کیوں استعمال کی جاتی ہے؟

محبت چونکہ انسان کو کچل کر اس کا کچومر نکال دیتی ہے اس لئے انگریزی میں کسی کے لئے بے پناہ پیار کا اظہار کرنے کے لئے “Crush” کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گنے کو کرش کرکے جوس نکالا جاتا ہے۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ اگر محبت کو ہٹادو تو یہ دنیا مقبرے جیسی دکھائی دے گی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ محبت کے ہاتھوں کتنے مزار بنے ہیں، اس پر بھی کسی نے غور کیا؟

کہتے ہیں کہ محبت کرنے کے بعد کسی چیز کی خواہش نہیں رہتی، کوئی اور خواہش کرنے کے قابل ہی کب رہتے ہیں؟

(’’محبت کا پوسٹ مارٹم‘‘ از ایم ابراہیم سے اقتباس)
 
خط کی اقسام
خط کی کئی قسمیں ہیں۔ سیدھے خط کو خطِ مستقیم کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بالکل سیدھا ہوتا ہے اس لئے سیدھے آدمی کی طرح نقصان اٹھاتا ہے۔ تقدیر کے لکھے خط کو خطِ تقدیر کہتے ہیں، جسے فرشتوں نے سیاہی سے لکھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔ جس خط میں ڈاکٹر صاحب نسخے لکھتے ہیں اور جو کسی سے پڑھے نہیں جاتے اسے خطِ شکستہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ بیماریوں سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ غلط دوائیوں سے مرتے ہیں۔
خط کی دو قسمیں اور بھی ہیں مثلاً حسینوں کے خطوط......... یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حسینائیں اپنے چاہنے والوں کے نام لکھتی ہیں، جن میں دنیا کے اُس پار جانے کا ذکر ہوتا ہے جہاں ظالم سماج دو محبت کرنے والوں تک نہ پہنچ سکے۔
دوسرے ’’حسینوں کے خطوط‘‘ یعنی نقش و نگار جن کی بدنمائی چھپانے کے لئے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پاؤڈر اور پرفیومز وغیرہ استعمال کرلئے جاتے ہیں۔

IBN E INSHAAAA. Epicness!!!!!!
 
مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ
میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں ۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں ۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں ۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں ۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے ، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے ۔ دادا جی کو ہی لیجیے ۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑرہی ہے ۔ بارش ہورہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑرہے ہیں ۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے ۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے ۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سنٹرل جیل میں تبدیل کرکے رکھ دیں ۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں ۔

دادی جی بہت اچھی ہیں ۔ پوپلا منھ ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے ۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں ۔ ’’ دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا ۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے ۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہوگئی ۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی ۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہوگئی ۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مرگئی اور وہاں ، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا ۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے ۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے ۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے ۔ ‘‘

ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پر ماتما نہ کرے مجھے کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ماتا جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں ، کرکٹ مت کھیلنا ۔ بڑا خطرناک کھیل ہے ۔ پرماتما نہ کرے اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو؟

بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضررہے چھوٹوں کےلیے سخت مضر ہے ۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے ۔ پان نہیں کھانا چاہیے ۔ بہت گندی عادت ہے ۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے ، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے ۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہوگیا ہے اسے ٹھیک کرالاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوفناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔ ‘‘ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں ۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں ۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں ، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں ۔

لے دے کر سارے گھر میں ایک غمگسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی‘‘۔ بڑا شریف جانور ہے ۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خو ف زدہ کرنے کی کوشش کرتا ، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔ بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے ۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آجاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں ۔ وہاں ہم دونوں تیتریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ دادا جی اور دادی جی سے دور ۔ پتا جی اور ماتا جی سے دور ۔ بھائی اور بہن کی دسترس سے دور اور کبھی کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں موتی کے ساتھ سستاتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں ، کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں ۔ یا کاش ، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے ۔

(کنہیا لال کپور)
 
مہربانی قسمت
ہر چند کہ ہمارے گھر میں غربت کا خاصا آنا جانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی ابا نے دل پر جبر کرکے مجھے ایف اے کرا ہی دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری خواہش تھی کہ میں ایم اے کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابا ایم اے کی بجائے ’’ایویں‘‘ میں زیادہ خوش تھے۔ میں نے کئی دفعہ ابا سے کہا کہ مجھے کوئی نوکری کرلینے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابا کا تو پلان ہی کچھ اور تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہر دفعہ جیسے ہی میں نوکری کا ذکر چھیڑتا ۔۔۔۔۔۔۔ ابا کا منہ عالم لوہار جیسا بن جاتا اور آنکھیں حسن جہانگیر جیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ مسلسل ساڑھے تین منٹ مجھے پرانے ماڈل کی نئی گالیاں نکالتے اور بعد میں بڑی عزت سے سمجھاتے کہ ۔۔۔۔۔۔ ’’منحوس! یہ نوکری وغیرہ کی سوچے گا تو نہ خود کھا سکے گا نہ ہمیں کھلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے کی سوچ ۔۔۔۔۔۔ آگے کی ۔۔۔۔۔۔۔ میں تیری شادی کسی امیر کبیر لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ تیرے سسرال والے تجھے کاروبار بھی سیٹ کرکے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ان کی بیٹی اور تیرے والدین دونوں سکھی رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’سبحان اللہ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ابا کا پلان سن کر میرے گھٹنوں میں ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا ۔۔۔۔۔۔۔ ’’اے ابا! ۔۔۔۔۔ اتنی امیر لڑکی آخر مجھے ملے گی کیسے ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے طلعت حسین کے انداز میں بڑا سیریس سوال کیا۔

’’ابے بھری پڑی ہے دنیا ایسی لڑکیوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تو دیکھتا جا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کہتا ہے قسمت ہمارے دروازے پر دستک دینے ہی والی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔!!

میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔
(گل نوخیز اختر کے مزاحیہ ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)
 
کبوتر

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ یہ آبادیوں میں، جنگلوں میں، مولوی اسماعیل میرٹھی کی کتاب میں، غرض یہ کہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کبوتر کی دو بڑی قسمیں ہیں (۱) نیلے کبوتر (۲) سفید کبوتر۔

نیلے کبوتر کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ سفید کبوتربالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔ کبوتروں نے تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں، شہزادہ سلیم نے مسماۃ مہر النسا کو جب کہ وہ ابھی بے بی نورجہاں تھیں، کبوتر ہی پکڑایا تھا جو اس نے اڑا دیا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے میں زیادہ فائدے میں کون رہا؟ شہزادہ سلیم؟َ نور جہاں؟ یا وہ کبوتر؟ رعایا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث میں نہ آتا تھا۔ پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ بعد میں آدمیوں کو قاصد بنا کر بھیجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات یہ نتیجہ نکلا کہ مکتوب الیہ یعنی محبوب قاصد سے ہی شادی کرکے بقیہ عمر ہنسی خوشی گزار دیتا۔ چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ایک صاحب کو الٹی میٹم دے کر والئی ملک کے پاس بھیجا تھا۔ الٹی میٹم تو راستے میں کہیں رہ گیا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزیر بننے کی خبر اخباروں میں آگئی۔ کبوتر کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا جاتا تو یہ صورت حال پیش نہ آتی۔

(ابن انشا کے مضامین سے اقتباس)
 
ٹائیں ٹائیں فش
میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

’’اے بیٹے اچھا ہوا جو تو مل گیا ۔۔۔۔۔ بڑی شاندار خبر لائی ہوں آج تو ۔۔۔۔۔‘‘

’’شاندار خبر ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے تیرے خاوند کی ڈیوٹی پھر سے رات کی ہوگئی ہوگی۔۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہانک لگائی اور ماسی کے دانتوں تلے سپاری مزید تیزی سے ریزہ ریزہ ہونے لگی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے بات ان سنی کی اور میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’نوراں کدھر ہے؟‘‘

میں نے آواز دی ۔۔۔۔۔ ’’اماں۔۔۔۔ ماسی آئی ہے۔‘‘

’’آرہی ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے سیڑھیوں کے نیچے قائم ’’ٹو اِن ون‘‘ باورچی خانے سے آواز لگائی۔ ٹو ان ون میں نے اس لئے کہا ہے کہ خورد و نوش کے فرائض سے نمٹنے کے بعد اکثر یہ باورچی خانہ بطور غسل خانہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ سامنے والے حصے کی طرف چارپائی کھڑی کرلی جاتی تھی۔ ابا نے جدید غسل سے لطف اندوز ہونے کے لئے انوکھا طریقہ نکال رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ سرکاری پانی کی ٹونٹی کے ساتھ ٹیوب لگادیتے اور دوسرا سرا غسل خانے والی چارپائی کے بان میں سے نکال دیتے ۔۔۔۔۔۔ یوں ہر دفعہ وہ تازہ شاور لیتے تھے۔ سردیوں کے دنوں میں ہم اکثر دوپہر کو نہاتے تھے کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ تاہم ابا پانی کی بالٹی بھر کر دھوپ میں رکھ دیتے ۔۔۔۔۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ پانی اس طرح سے بھی گرم کرکے نہایا جاسکتا ہے۔

اماں ماسی قسمت کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

’’اے بہن ۔۔۔۔۔ بڑی خاص خبر لائی ہوں۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے ابا کا جملہ آنے کے ڈر سے نہ صرف آواز آہستہ رکھی بلکہ جملے میں بھی خاطر خواہ تبدیلی کرلی۔

’’میری کمیٹی تو نہیں نکل آئی ؟؟‘‘ اماں نے غربت کا عالمی مظاہرہ کیا۔۔۔!!

’’اے نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے بھی بڑی خبر ہے۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے عینک درست کرتے ہوئے کن اکھیوں سے ابا کی طرف دیکھا جو چارپائی کی ادوائن میں پھنسے لاپرواہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے نورجہاں کا گیت پٹھانے خان کی آواز میں گانے کی کوشش کررہے تھے۔

’’خالی خبر ہے یا خوشی کی خبر ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے یکدم چونک کر پوچھا۔

’’اے ہے ۔۔۔۔۔ اللہ خیر کرے خوشی کی خبر ہے ۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے اپنی مسکراہٹ چھپائی اور اماں کے حلق سے طویل سانس نکل گئی۔

’’تو بتاؤ پھر۔۔۔‘‘

ماسی نے کچھ لمحے توقف کیا ۔۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ میں بظاہر سائیکل کا چمٹا صاف کررہا تھا لیکن میرے تمام ’’حواس ضروریہ‘‘ اسی طرف تھے۔

’’بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ فریدہ کی بیٹی نے ۔۔۔۔۔ بی اے کرلیا ہے۔ آج اس کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔ پورے کالج میں فشٹ آئی ہے۔‘‘

’’تو پھر ؟؟‘‘ اماں نے قہر آلود نظروں سے ماسی کو گھورا ۔۔۔۔۔!!!

’’پھر کیا ۔۔۔۔۔۔ لڑکی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔ باپ بھی فیکٹری میں فورمین ہے ۔۔۔۔۔۔ لوگ بھی بہت شریف ہیں۔‘‘

’’تو ہم کیا دہشت گرد ہیں ۔۔۔۔۔‘‘ اماں کڑکی۔

’’نن ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ کب کہا ۔۔۔۔۔۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ اپنا کمالا پتر بھی بڑا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔‘‘

’’اچھا ۔۔۔۔۔ تو رشتہ لے کر آئی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ اماں ساری بات سمجھ گئی ۔۔۔۔۔ اور میں بھی سمجھ گیا کہ اب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔ اماں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ ابا کے کانوں تک آوازیں تو نہیں پہنچی تھیں تاہم اماں کے اٹھنے کا ایکشن دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ سبزی میں کچھ کالا ہے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے فوراً اپنے گیت کو لگام دی اور ہمہ تن چوکنے ہوگئے۔

’’بات سن ۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے لڑکے کا رشتہ ایرے غیروں میں نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ دوبارہ اس سلسلے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔ کمالے کا رشتہ ہم جیسے بڑی ذات کے راجپوتوں میں ہوگا۔‘‘ اماں نے گردن اکڑائی۔

’’راج ۔۔۔۔۔ پوت ۔۔۔۔۔‘‘ بے اختیار میرا ہاتھ سائیکل کی گھنٹی سے پھسل گیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ابا نے بتایا تھا، ہم شیخ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ابا کی چارپائی میرے قریب تھی ، میں نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔ ’’ابا ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟؟‘‘

’’کیا کہا ۔۔۔۔۔ جن بھوت ہیں۔۔۔۔‘‘ ابا چونکے ۔۔۔۔۔’’ابے ہوش کر ۔۔۔۔ اس غریب گھر میں جن بھوت کہاں سے آگئے، یہاں سے تو چڑیلیں بھی پردہ کرکے گزرتی ہیں۔‘‘

’’جن بھوت نہیں ابا ۔۔۔۔ راج پوت ۔۔۔۔۔ راجپوت ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟‘‘ میں نے زچ ہوکر ابا کے کان کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

’’یہ کس نے کہا؟‘‘ ابا سیدھے ہوئے۔

’’اماں کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔‘‘

’’ہوسکتا ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے سر ہلایا۔

’’دیکھ نوراں ۔۔۔۔۔ رشتہ بہت اچھا ہے ۔۔۔۔۔ ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘ ماسی قسمت نے آخری کوشش کی۔

’’ماسی ۔۔۔۔ رشتہ نکلے نہ نکلے ۔۔۔۔ تو ضرور نکل جا ۔۔۔۔۔ ورنہ میرا دماغ چل گیا تو ۔۔۔‘‘ اماں نے چپل اٹھالی۔

ماسی نے تمام تر خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا برقعہ سمیٹا ۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر پان کی پیک زور سے زمین پر تھوکی ۔۔۔۔۔ اور منہ بناتی ہوئی چلی گئی۔

(گل نوخیز اختر کے ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)

ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں۔

اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا۔ ’’جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کرسکتے ہیں۔
 
دوسرے کو پریشان کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو اس کی ناکامیوں کا ذکر کرو جو اس میں ہیں یا اس کی ان خوبیوں کا ذکر کرو جو اس میں نہیں ہیں۔

اور عاشق یہی کرتا ہے۔ وہ محبوب کا نقشہ کھینچ رہا ہو تو لگتا ہے محبوب کی کھنچائی کررہا ہے۔ جیسے ناگن زلفیں، یعنی بالوں کی جگہ لٹکتے ہوئے سانپ۔ چاند چہرہ، یعنی چاند کی طرح گڑھوں اور داغ دھبوں والا۔ پھر ہرنی جیسی چال، یعنی چوپایوں کی طرح چلنا۔ شاید وہ اسی لئے کہتا ہے کہ اس کے محبوب جیسا پوری دنیا میں کوئی نہیں۔

عاشق نے ہمیشہ محبوب کو ملزم سمجھا۔ اس پر اپنے اسپیئر پارٹس کی چوری کا الزام ، دل، جگر، نیند وغیرہ کی گمشدگی کا پرچہ بھی محبوب کے نام کٹوایا۔ یہاں تک کہ اسے سرعام قاتل کہا۔

عورت کے لئے اس شخص کو محبت کا یقین دلانا جس سے محبت نہیں کرتی، اس شخص کی نسبت آسان ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتی ہے۔

عشق میں عورت نے ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اس کا نام ہمیشہ مردوں سے پہلے آیا جیسے سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، لیلیٰ مجنوں وغیرہ۔

مرد کم ہی چوٹی کے عاشق گزرے ہیں۔ اکثر عورتیں ہی عاشق ہوتی ہیں۔

دولت سے محبت نہیں ملتی اور غربت سے محبوبہ نہیں ملتی۔

سب سے قیمتی عاشق فلموں میں ملتے ہیں کیونکی عشق کرنے سے انہیں محبوبہ نہیں معاوضہ ملتا ہے۔، شاید اسی لئے وہ سچا عشق کرتے ہیں۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)​
 

یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہئے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی۔ اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا۔ میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے۔ عفت نے اسے یوں مسترد کردیا جیسے سبزی فروش کو الٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو۔ مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آکر میں نے سارا دن اس سے کوئی بات نہ کی۔

رات کو وہ کہنے لگی۔ ’’دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے۔ جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہے۔ آج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے؟‘‘

میں نے قالین کی بات اٹھائی۔

’’قالین تو نہایت عمدہ ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’لیکن ہمارے کام کا نہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’دراصل بات یہ ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے تلخی سے دریافت کیا۔

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی استانی کی طرح بڑی وضاحت سے گن گن کر سمجھانے لگی کہ ’’ہمارے ہاں ابن انشا آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی۔ سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر۔ جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر ان کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کردیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا۔ وہ یہ سب تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔ سال میں کئی بار ساٹھ سال کی عمر میں ممتاز حسین شاہ ایم بی اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ صرف ایک راجا شفیع ہے۔ جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جاکر رکھ دیتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ شاعر ہے، نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔‘‘

بات نہایت سچی تھی۔ چنانچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔

(قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ سے لیا گیا اقتباس)
 
بچے

بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔ بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجئے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کرسکیں۔ اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجئے جب بڑے ہوگے سب پتا چل جائے گا۔ بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیئے۔ شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دلچسپ کتابیں مت پڑھنے دیجئے کیونکہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔

اگر بچے بیوقوف ہیں تو پروا نہ کیجئے، بڑے ہوکر یا تو جینئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینئس سمجھنے لگیں گے۔ بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹیئے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ ایک طرف لے جاکر تنہائی میں اس کی خوب تواضع کیجئے۔

بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجئے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پل جائیں ورنہ وہ بہت موٹے ہوجائیں گے اور والدین اور پبلک کے لئے خطرے کا باعث ہوں گے۔

اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کردیجئے۔ وہ شرمندہ ہوجائیں گے۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لئے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرالینا زیادہ مناسب ہوگا۔ دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنادیئے جاتے ہیں لہٰذا بچے صرف دس بارہ ہونے چاہئیں تاکہ ایک بھی لاڈلہ نہ بن سکے۔ اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہئے۔
(’’تربیت اطفال‘‘ از شفیق الرحمٰن سے اقتباس)​
 
شاہی سواری

انہیں اس گھوڑے سے پہلی نظر میں محبت ہوگئی ۔ اور محبت اندھی ہوتی ہے، خواہ گھوڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں یہ تک سجھائی نہ دیا کہ گھوڑے کی مدح میں اساتذہ کے جو اشعار وہ اوٹ پٹانگ پڑھتے پھرتے تھے، ان کا تعلق تانگے کے گھوڑے سے نہیں تھا۔ یہ مان لینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ گھوڑا شاہی سواری ہے۔ رعبِ شاہی اور شوکتِ شہانہ کا تصور گھوڑے کے بغیر ادھورا بلکہ آدھا رہ جاتا ہے۔ بادشاہ کے قد میں گھوڑے کے قد کا اضافہ کیا جائے تب کہیں وہ قدِ آدم نظر آتا ہے لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو شاہی سواری میں گھوڑا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس لئے کہ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مستقل اور دلپسند سواری درحقیقت رعایا ہوتی ہے۔ یہ ایک دفعہ اس پر سواری گانٹھ لیں تو پھر انہیں سامنے کوئی کنواں، کھائی، باڑھ اور رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ جوشِ شہ زوری و شہ سواری میں نوشتہ دیوار والی دیوار بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک وہ Braille میں نہ لکھا ہو جسے وہ اپنا دربار سمجھتے ہیں، وہ دراصل ان کا محاصرہ ہوتا ہے جو انہیں یہ سمجھنے سے قاصر رکھتا ہے کہ جس منہ زور سر شور گھوڑے کو صرف ہنہنانے کی اجازت دے کر بآسانی آگے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، اسے وہ پیچھے سے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ لگام کے بجائے دم مروڑتا ہے۔ مگر اس بظاہر مسکیں سواری کا اعتبار نہیں کہ یہ ابلق لقاسد ایک چال نہیں چلتی : اکثر یہ بدرکاب بنی اور بگڑ گئی۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ سے اقتباس)
 

Back
Top Bottom