Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
کچھ ہفتے پہلے میری ایک تحریر سے سے شاید بہت سارے دوستوں کو یہاں تکلیف پہنچی ہو گی ۔ لیکن میں معذرت خواں نہیں ہوں ۔ کیونکہ اس وقت تک مجھے جو کچھ نظر آ رہا تھا میں نے وہی لکھا تھا ۔ آپ میں سے بیشتر دوستوں کی طرح میں نے بھی بچپن سے ہی سکول میں گلی محلے میں حب الوطنی سیکھی ۔ لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری اور پاک سر زمین شاد باد کے ساتھ سرکاری سکول میں دن کا آغاز کیا تھا ۔ وقت کے ساتھ انسان کی سوچ پختہ ہوتی ہے اس کی سوچ کے نئے دریچے کھلتے ہیں ۔ ہم نے بھی ناول کہانیاں جاسوس سسپنس عمران سریز سب پڑھ مارا تو لگا کہ ملک مذہب کے بعد سب سے اہم چیز ہے ۔ 20 سال پہلے جب پی ٹی وی پر آئی ایس پی آر کے پروگرام چلتے تھے تو میں انکو وی سی آر پر ریکارڈ کر لیتا پھر اپنی مرضی سے سنتا تھا ۔
کبھی ایف سولہ کے پورٹریٹ کلر سے کبھی آئل پینٹ سے بناتا ۔ ہم بھی جے ایف -17 کی پیدائش پر نازاں تھے ۔ اسی طرح کئی سال گزرے کہ ایک دن 9/11 کا واقعہ ہو گیا شروع میں لگا اپنے فائدے کا کام ہے ۔ شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو پابندیوں کے دن تو ہمارے پی تھری سی گراؤنڈ تھے انکے پارٹس ملے وہ اڑنے لگے ایف سولہ اصل مین اڑنے لگے بیل ہیلی کاپٹر ملے کوبرا پر کام ہوا ایم فور گنز پہنچ گئیں الغرض ہر ملٹری برانچ کے دن پھرنے لگے ۔ لیکن پھر 5 سال یوں گزرے کہ امریکی الٹے پاکستان پر پڑنے لگے ۔ ڈرون حملوں کی ابتدا ہوئی پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ہمارا یقین ڈگمگانے لگا ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئی مصیبتوں نے ہمارے ملک کی راہ دیکھ لی ۔ ہم تو سوچتے تھے کوئی پرندہ ہمارے آسمان میں پر نہیں مار سکتا ادھر روز میزائیل مارے جا رہے تھے ۔ طالبان کی آفت نے سر اٹھایا تو اٹھتا ہی گیا ۔ ائیر بیس محفوظ نا سکول جنگی جہاز محفوظ نا مزاریں الغرض ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ۔ دنیا کی نمبر ون ایجنسی والی بات سن کر دل خؤن کے آنسو رو لیتا ۔ پی سی تھری کی تباہی اپنے ہی ملک میں زمین پر کھڑے کھڑے ہو یا ساب 2000 کی تباہی چراٹ پر حملے ہوں یا اسلام آباد میں تکفیریوں کے حملے ۔ سوات پر تو مکمل قبضہ ہو چکا تھا ۔ میں اپنے مسکن سے دیکھ سکتا تھا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پار لوئیر دیر تک طالبان چھا چکے تھے ۔ جیلیں توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے تو ہماری فوج کے سر قلم کرتے ۔
ایسے حالات میں 10 سال گزار کر میں مکمل مایوس ہو چکا تھا لاکھوں پاکستانی پاکستان چھوڑ کر ہر سال جا رہے تھے اور یہ مزدور نہیں بلکہ پڑھے لکھے اچھے عہدے کے لوگ تھے ایسے میں مجھے بطور ایک پاکستانی سوچنا بنتا تھا کہ میرے بچوں اور فیملی کا مستقبل کیا ہے ۔ اسی دوران امریکی نیٹو حملے جیسے سلالہ ڈرون اور ریمنڈ ڈیوس جیسے معاملات پر جس طرح بے غیرتی نامی مصلحت دکھائی گئی اس سے کون ہو گا جو مثبت سوچے گا ؟ انڈیا نے پاکستان کے اس خلفشار کا خؤب فائدہ اٹھایا ۔ ہماری انڈسٹری بنگلہ دیش گئی تو انکے دن پھر گئے۔ ہمارے بجلی پانی کو ترسے ملک کا سب کچھ داؤ پر لگ چکا تھا ۔
پھر ایک نیا جرنیل آیا جس نے دہشت گردی کو لگام دی جنرل راحیل شریف نے کم از کم قوم کو اتنا سہارا دیا کہ ہم دہشت گردی کو ہرا سکتے ہیں ورنہ کیانی اور مشرف نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک پورا ملک ملیامیٹ نا ہو ایکشن نہیں کرنا ہر آپریشن کو اس طرح لیٹ کیا گیا کہ عوام کی آنکھیں باہر آ گئیں کوئی دن بغیر دھماکے کے نا گزرتا کوئی جمعہ بغیر سانحے کے نا گزرتا ۔
حالات آہستا آہستا ہمارے حق میں ہوتے رہے پر ہندوستانی پریشر وہیں رہا شاید ہماری فوج مشرق میں نہیں تھی اس لیے پاکستان ہر ہندوستانی بدمعاشی برداشت کرتا رہا
جب تک جنرل راحیل کا وقت ختم ہوا ملک پر سے کم از کم اندھیر راج کے سائے چھٹ رہے تھے کراچی کا قتل عام رک چکا تھا ۔ملک واپس اپنی خود مختاری سمیٹ رہا تھا پر ہندوستان اب بھی اسی ٹون پر قائم تھا ۔
اسی لیے اڑی حملے کے بعد جب پاکستان نے صرف یہ بولا کہ جھوٹ ہے یہ کافی نا تھا پاکستان جوابی کاروائی بھی کرتا لیکن ایسا نا ہوا ۔ بلکہ پچھلے 15 سال میں ہونے والے ہر خارجی حملے کا جواب نہیں دیا گیا ایرانی ہندوستانی نیٹو امریکی افغانیوں سب نے ملک کر یا الگ الگ ہم پر بہت حملے کیے تھے ۔ ہم نے سمجھ لیا کہ کم از کم ہماری افواج اب دہشت گردی سے تو لڑ سکتی ہیں پر خارجی حملوں کے خلاف نہیں لڑ سکتیں۔
فروری26 کو میری یہی سوچ تھی کہ پاکستان پھر تاریخ دہرائے گا ۔ چار دن باتیں ہوں گیں پھر وہی پرانے حالات جو کئی سال سے ہیں ۔ لیکن اس بار شاید پاکستان مکمل آزاد ہو چکا تھا ۔ مغربی حدود کی فکروں اور دہشت گردی سے لڑائی سے آزادی۔ جاھل گنوار ڈر پوک زرداری اور کرپٹ ٹولے سے آزاد اس بار جو کچھ پاکستان نے کیا سچ تو یہ ہے میرے وہم و گمان میں نا تھا ۔
کئی سال بعد مجھے لگا کہ ہماری فضا کا کوئی محافظ بھی ہے ۔ کئی سال بعد فخر سے میں نے صبح کا ناشتا کرتے ہوئے خبریں پڑھیں ۔ کئی سال بعد میں نے آج صبح اٹھ کر پوری پریڈ دیکھی ۔ کئی سال بعد میں نے آئی ایس پی آر کے نغمے کو موبائیل میں ڈائنلوڈ کر کے گاڑی میں سارا دن سنا ۔
اگر کوئی کہے کہ اس ساری مایوسی میں اور کئی سال کی فرسٹریشن اذیت درد ناکی بے عزتی میں ہمارا ایک پاکستانی ہونے کے ناطے قصور ہے تو وہ غلط ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے کبھی ایٹمی اور دفاعی بجٹ پر ناراضگی نہیں کہ تھی۔ جب تک فوج نے ہمارا سر بلند رکھا ۔آج اگر ہمیں خود کو بیچ کر پاکستانی فوج کو ہتھیار دینے ہوں تو کوئی دکھ نہیں ہو گا ۔ بشرط وہ خارجی خطرات سے ہمارا دفاع اسی طرح کریں جس طرح ایک مہینے سے کر رہے ہیں ۔ یا پھر جس طرح پچھلے کئی سال دہشت گردی کے خلاف ہمارا دفاع کیا ۔ ہم آپ سے جیت کی امید نہیں بس لڑنے کی امید رکھتے ہیں جنگیں ہاری جیتی جاتی رہی ہیں ۔ ابھی 74 سال پہلے جاپان اٹلی جرمنی بری طرح ہارے تھے پر کم از کم آخری دم تک لڑے تو تھے ۔ بس ہماری یہی امید ہے کہ آپ لڑیں جیت ہار کی بات الگ ہے ۔ ہمیں فخر ہو کہ ہماری فوج نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہمارا دفاع کیا ۔
امید ہے اب پاکستانی افواج اسی طرح ہمارے سر پر اپنا سایہ قائم رکھیں گی اور پاکستانیوں کا سر بلند رکھیں گیں جس طرح اس مہینے سے رکھا ہوا ہے ۔
پاکستان - زندہ باد
پاک افواج پائندہ پاد
کبھی ایف سولہ کے پورٹریٹ کلر سے کبھی آئل پینٹ سے بناتا ۔ ہم بھی جے ایف -17 کی پیدائش پر نازاں تھے ۔ اسی طرح کئی سال گزرے کہ ایک دن 9/11 کا واقعہ ہو گیا شروع میں لگا اپنے فائدے کا کام ہے ۔ شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو پابندیوں کے دن تو ہمارے پی تھری سی گراؤنڈ تھے انکے پارٹس ملے وہ اڑنے لگے ایف سولہ اصل مین اڑنے لگے بیل ہیلی کاپٹر ملے کوبرا پر کام ہوا ایم فور گنز پہنچ گئیں الغرض ہر ملٹری برانچ کے دن پھرنے لگے ۔ لیکن پھر 5 سال یوں گزرے کہ امریکی الٹے پاکستان پر پڑنے لگے ۔ ڈرون حملوں کی ابتدا ہوئی پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ہمارا یقین ڈگمگانے لگا ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئی مصیبتوں نے ہمارے ملک کی راہ دیکھ لی ۔ ہم تو سوچتے تھے کوئی پرندہ ہمارے آسمان میں پر نہیں مار سکتا ادھر روز میزائیل مارے جا رہے تھے ۔ طالبان کی آفت نے سر اٹھایا تو اٹھتا ہی گیا ۔ ائیر بیس محفوظ نا سکول جنگی جہاز محفوظ نا مزاریں الغرض ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ۔ دنیا کی نمبر ون ایجنسی والی بات سن کر دل خؤن کے آنسو رو لیتا ۔ پی سی تھری کی تباہی اپنے ہی ملک میں زمین پر کھڑے کھڑے ہو یا ساب 2000 کی تباہی چراٹ پر حملے ہوں یا اسلام آباد میں تکفیریوں کے حملے ۔ سوات پر تو مکمل قبضہ ہو چکا تھا ۔ میں اپنے مسکن سے دیکھ سکتا تھا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پار لوئیر دیر تک طالبان چھا چکے تھے ۔ جیلیں توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے تو ہماری فوج کے سر قلم کرتے ۔
ایسے حالات میں 10 سال گزار کر میں مکمل مایوس ہو چکا تھا لاکھوں پاکستانی پاکستان چھوڑ کر ہر سال جا رہے تھے اور یہ مزدور نہیں بلکہ پڑھے لکھے اچھے عہدے کے لوگ تھے ایسے میں مجھے بطور ایک پاکستانی سوچنا بنتا تھا کہ میرے بچوں اور فیملی کا مستقبل کیا ہے ۔ اسی دوران امریکی نیٹو حملے جیسے سلالہ ڈرون اور ریمنڈ ڈیوس جیسے معاملات پر جس طرح بے غیرتی نامی مصلحت دکھائی گئی اس سے کون ہو گا جو مثبت سوچے گا ؟ انڈیا نے پاکستان کے اس خلفشار کا خؤب فائدہ اٹھایا ۔ ہماری انڈسٹری بنگلہ دیش گئی تو انکے دن پھر گئے۔ ہمارے بجلی پانی کو ترسے ملک کا سب کچھ داؤ پر لگ چکا تھا ۔
پھر ایک نیا جرنیل آیا جس نے دہشت گردی کو لگام دی جنرل راحیل شریف نے کم از کم قوم کو اتنا سہارا دیا کہ ہم دہشت گردی کو ہرا سکتے ہیں ورنہ کیانی اور مشرف نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک پورا ملک ملیامیٹ نا ہو ایکشن نہیں کرنا ہر آپریشن کو اس طرح لیٹ کیا گیا کہ عوام کی آنکھیں باہر آ گئیں کوئی دن بغیر دھماکے کے نا گزرتا کوئی جمعہ بغیر سانحے کے نا گزرتا ۔
حالات آہستا آہستا ہمارے حق میں ہوتے رہے پر ہندوستانی پریشر وہیں رہا شاید ہماری فوج مشرق میں نہیں تھی اس لیے پاکستان ہر ہندوستانی بدمعاشی برداشت کرتا رہا
جب تک جنرل راحیل کا وقت ختم ہوا ملک پر سے کم از کم اندھیر راج کے سائے چھٹ رہے تھے کراچی کا قتل عام رک چکا تھا ۔ملک واپس اپنی خود مختاری سمیٹ رہا تھا پر ہندوستان اب بھی اسی ٹون پر قائم تھا ۔
اسی لیے اڑی حملے کے بعد جب پاکستان نے صرف یہ بولا کہ جھوٹ ہے یہ کافی نا تھا پاکستان جوابی کاروائی بھی کرتا لیکن ایسا نا ہوا ۔ بلکہ پچھلے 15 سال میں ہونے والے ہر خارجی حملے کا جواب نہیں دیا گیا ایرانی ہندوستانی نیٹو امریکی افغانیوں سب نے ملک کر یا الگ الگ ہم پر بہت حملے کیے تھے ۔ ہم نے سمجھ لیا کہ کم از کم ہماری افواج اب دہشت گردی سے تو لڑ سکتی ہیں پر خارجی حملوں کے خلاف نہیں لڑ سکتیں۔
فروری26 کو میری یہی سوچ تھی کہ پاکستان پھر تاریخ دہرائے گا ۔ چار دن باتیں ہوں گیں پھر وہی پرانے حالات جو کئی سال سے ہیں ۔ لیکن اس بار شاید پاکستان مکمل آزاد ہو چکا تھا ۔ مغربی حدود کی فکروں اور دہشت گردی سے لڑائی سے آزادی۔ جاھل گنوار ڈر پوک زرداری اور کرپٹ ٹولے سے آزاد اس بار جو کچھ پاکستان نے کیا سچ تو یہ ہے میرے وہم و گمان میں نا تھا ۔
کئی سال بعد مجھے لگا کہ ہماری فضا کا کوئی محافظ بھی ہے ۔ کئی سال بعد فخر سے میں نے صبح کا ناشتا کرتے ہوئے خبریں پڑھیں ۔ کئی سال بعد میں نے آج صبح اٹھ کر پوری پریڈ دیکھی ۔ کئی سال بعد میں نے آئی ایس پی آر کے نغمے کو موبائیل میں ڈائنلوڈ کر کے گاڑی میں سارا دن سنا ۔
اگر کوئی کہے کہ اس ساری مایوسی میں اور کئی سال کی فرسٹریشن اذیت درد ناکی بے عزتی میں ہمارا ایک پاکستانی ہونے کے ناطے قصور ہے تو وہ غلط ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے کبھی ایٹمی اور دفاعی بجٹ پر ناراضگی نہیں کہ تھی۔ جب تک فوج نے ہمارا سر بلند رکھا ۔آج اگر ہمیں خود کو بیچ کر پاکستانی فوج کو ہتھیار دینے ہوں تو کوئی دکھ نہیں ہو گا ۔ بشرط وہ خارجی خطرات سے ہمارا دفاع اسی طرح کریں جس طرح ایک مہینے سے کر رہے ہیں ۔ یا پھر جس طرح پچھلے کئی سال دہشت گردی کے خلاف ہمارا دفاع کیا ۔ ہم آپ سے جیت کی امید نہیں بس لڑنے کی امید رکھتے ہیں جنگیں ہاری جیتی جاتی رہی ہیں ۔ ابھی 74 سال پہلے جاپان اٹلی جرمنی بری طرح ہارے تھے پر کم از کم آخری دم تک لڑے تو تھے ۔ بس ہماری یہی امید ہے کہ آپ لڑیں جیت ہار کی بات الگ ہے ۔ ہمیں فخر ہو کہ ہماری فوج نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہمارا دفاع کیا ۔
امید ہے اب پاکستانی افواج اسی طرح ہمارے سر پر اپنا سایہ قائم رکھیں گی اور پاکستانیوں کا سر بلند رکھیں گیں جس طرح اس مہینے سے رکھا ہوا ہے ۔
پاکستان - زندہ باد
پاک افواج پائندہ پاد
Last edited: