What's new

Sui: Life returns to normal but fear persists — BBC Travelogue

Elmo

RETIRED MOD
Joined
Jan 31, 2009
Messages
3,010
Reaction score
0
This is an article that came on BBC Urdu... if someone could translate this. It is a travelogue describing the journey to Dera Bugti, entering the district, the difference in the treated meted out to civilians and then government officials, and the ends on how the people view outsiders with wariness and distrust. A lot of ground has to be covered by the army for the locals to accept it and notice how Brahandagh Bugti is revered there...


خری وقت اشاعت



: Wednesday, 5 august, 2009, 06:31 GMT 11:31 PST
سوئی: حالات معمول کی طرف مگر خوف برقرار

نثار کھوکھر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سوئی

انڈس ہائی وی پر ڈیرہ موڑ سے جب سوئی کی طرف جانے والی واحد سڑک پر پہنچے تو تمام ساتھیوں کو اپنے شناختی کارڈ سنبھالنے کو کہا گیا کیونکہ آگے سڑک پر صرف چوکیاں ہی چوکیاں تھیں۔ سندھ اور پنجاب کی سرحدیں پار کرنے کے بعد جیسے ہی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے تو چوکیاں بدستور موجود تھیں مگر وہ سختی نہیں تھی جو چند ماہ پہلے دیکھی گئی تھی۔

حیرانگی اس بات کی ہوئی کہ ایک بڑی نفری والی ڈولی چیک پوسٹ پر بھی کسی نے نہیں روکا اور ہم سوئی کی طرف بڑھنے لگے۔ ان چیک پوسٹوں پر ایف سی یعنی فرنٹیئر کانسٹبلری اور فوج کے دستے تعینات ہیں جو سوئی سے واپس کشمور یا ڈیرہ موڑ جانے والے تمام لوگوں کی جامع تلاشی لے رہے تھے۔

سوئی کے گیس ذخائر سے گزرتے ہوئے ہم جب اس چھوٹے سے شہر میں داخل ہوئے تو نواب اکبر بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے پرچموں نے استقبال کیا۔ تمام دوکانوں اور چوراہوں پر ایک ہی رنگ کے جھنڈے لہرا رہے تھے جو شاید دو ماہ قبل بگٹی قبیلے کے نئے سربراہ نواب عالی بگٹی کی رسم دستار بندی کے موقع پر لگائے گئے ہوں گے۔

سوئی میں لوگوں کے ساتھ بات چیت کریں تو وہ مشکوک نظروں سے دیکھ کر پہلے آپ کا مکمل تعارف پوچھتے ہیں۔ اگر انہیں یقین آگیا کہ آپ فوج یا برہمداغ بگٹی کے ہمدرد نہیں تو وہ بات کرنے پر رضامند ہوں گے ورنہ آپ کے ہر سوال کے جواب میں ایک ہی جواب ملے گا کہ ’صاحب ہمیں پتہ نہیں‘۔

سوئی سوئی میں ایک طرح سے عام زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے مگر بلوچ مزاحمت کاروں کے راکٹوں اور فوجی آپریشن دونوں کا خوف اس معمول پر حاوی رہتا ہے۔

نواب اکبر بگٹی کے ایک پوتے برہمداغ، بگٹیوں کے نئے نواب عالی بگٹی کو نہیں مانتے۔ مئی میں عالی بگٹی کی دستار بندی کے بعد سوئی شہر پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا تھا۔

ڈیرہ بگٹی روڈ پر بگٹی نوابوں کی رہائش گاہ موجود ہے جس کا نام وقت سے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ نواب اکبر بگٹی کی زندگی میں یہ بگٹی ہاؤس تھا جبکہ فوجی آپریشن کے دوران جب فوج کا وہاں کیمپ تھا تو وہ پاکستان ہاؤس تھا اور عالی بگٹی کی آمد کے بعد اب سوئی ہاؤس ہے۔

سوئی ہاؤس کے قریب پہنچے تو مسلح بگٹیوں نے روکا۔ ان کا انداز تفتیش ایف سی والوں سے بھی سخت تھا۔ گاڑی سے اتار کر ہر ایک چیز کی جامع تلاشی لی اور گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرنے کو کہا اور ہمیں مرکزی دروازے پر پیدل جانے کو کہا گیا۔

سوئی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے قریب مسلح بگٹیوں کی چار چوکیاں قائم ہیں جہاں سے پولیس کو بھی گاڑی آہستہ کر کے تعارف کروانے کے بعد گزرنا پڑتا ہے۔

سوئی ہاؤس کے اندر داخلے کے خواہشمند تمام بگٹی ہیں مگر ان کی جامع اور سخت چیکنگ کی جاتی ہے۔ بسکٹ کے بند پیکٹ اور سگریٹ کی ڈبی کو کھول کر دیکھنے کے بعد ہاؤس کے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ باہر سے چائے اگر بنگلے کا نوکر بھی لائے تو چائے کی پلاسٹک تھیلی کو پاتھ لگا کر تسلی کی جاتی ہے کہ ا س میں کوئی دہماکہ خیز مواد تو نہیں۔

اتنی سخت چیکنگ کے بارے میں ایک مسلح بگٹی سے پوچھا تو جواب ملا کہ انہیں کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے اور ہر کسی کی چیکنگ ہوگی۔

ایک بگٹی نے بتایا کہ بلوچ مزاحمت کاروں نے ایک واٹر ٹینک تیار کیا تھا جو دہماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا تھا اور ٹریکٹر کی مدد سے وہ اس ٹینک کو بنگلے کے اندر لانے کی کوشش کرنے والے تھے مگر وہ ٹینک تیاری کے مرحلے کے دوران ہی پھٹ گیا اور اس منصوبے کے ماسٹر مائینڈ سمیت بعض لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ ایسی اطلاعات ملنے کے بعد سوئی ہاؤس پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کردیے گئے ہیں۔

سوئی شہر میں ایف سی اور فوج کی بھاری نفری تاحال موجود ہے مگر وہ اپنی چیک پوسٹوں اور کیمپوں پر محدود ہیں۔ ایک بگٹی کے بقول نواب عالی کی آمد کے بعد فوج نے بگٹیوں کو سوئی میں تنگ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

سوئی میں تعنیات ایک سینیئر سکیورٹی افسر کے مطابق بلوچستان کی حالیہ تبدیلی حکومتی تبدیلی کے ساتھ آئی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کے خواہشمند افسر کے مطابق بلوچستان کے معاملات اب ملٹری انٹیلیجنس نہیں آئی ایس آئی دیکھ رہی ہے اور جو تبدیلیاں منظرعام پر آرہی ہیں وہ اس بڑی تبدیلی سےمنسلک ہیں۔ ان کے بقول جنرل مشرف کے دور میں ملٹری انٹیلیجنس یا ایم آئی ہی بلوچستان میں تمام معاملات کو دیکھ رہی تھی۔

سوئی کے بگٹیوں کے لیے فوجی آپریشن جیسے کل کی بات ہو۔ بات کوئی بھی کریں فوجی آپریشن کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ سوئی میں گیس کمپنی کے ایک ٹھیکیدار جمعہ بگٹی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میر عالی بگٹی کی آمد کے بعد انہیں امید ہے کہ حالات معمول پر آجائیں گے۔

جمعہ بگٹی نے بھری محفل میں حلفیہ کہا کہ صرف بگٹی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اتنی زیادتیاں ہوئی ہیں کہ ان کے ہاتھ میں گھڑی تھی وہ بھی فوج نے اتار لی اور بعد میں رہا کیا۔ جمعہ کے بقول بگٹی پاکستان کے خلاف نہیں ہیں مگر فوج بگٹیوں اور بلوچوں کو ترقی کرنے نہیں دے گی۔

جمعہ بگٹی کی باتوں کے بعد جب محفل میں سے اجنبیت کا پردہ ہٹا تو باقی تمام لوگوں نے بھی اپنی اپنی داستانیں سنائیں جو بہت دکھ بھری اور انسانیت سوز تھیں۔

سوئی شہر میں ایک ہسپتال کی دیوار اور سڑک کے کنارے ٹیلیفون کے بوتھ پر برہمداغ بگٹی اور بالاچ مری کی حمایت میں نعرے لکھے ہوئے نظر آئے مگر اس سرخ سپرے چاکنگ کے اوپر سفیدی لگائی گئی تھی جو انہیں مکمل طور پر مٹا نہیں سکی۔

"رحمان ملک کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ صبح میں اٹھ کر چائے پینے کے بعد کہتا ہے برہمداغ کو کابل میں دیکھا ہے بعد میں کہتا ہے دوبئی میں دیکھا ہے"

عیسٰی بگٹی

بلوچ مزاحمت کاروں کے سربراہ برہمداغ بگٹی کے متعلق سوئی میں بیٹھ کر باتیں کرنا مقامی لوگوں کے لیے مشکل نظر آیا مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ ان کا نام احترام سے لیتے اور پرزور اسرار پر صرف اتنا کہتے ہیں نوابزادہ برہمداغ صاحب پورے بلوچستان کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ بلوچوں کے رہنماء ہیں۔

برہمداغ کا ذکر چھڑ جانے کے بعد لوگوں نے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا ذکر خود ہی کرلیا۔ عیسٰی بگٹی نے کہا کہ ’رحمان کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ صبح میں اٹھ کر چائے پینے کے بعد کہتا ہے برہمداغ کو کابل میں دیکھا ہے بعد میں کہتا ہے دوبئی میں دیکھا ہے‘۔عیسٰی کے بقول برہمداغ کہیں باہر نہیں اپنی دھرتی بلوچستان میں ہیں اور رہیں گے۔

سوئی میں بگٹیوں کی محدود سرگرمی اور مجموعی غیریقینی کب تک برقرار رہتی ہے کچھ کہہ نہیں سکتے مگر مقامی لوگ زندگی کی رونقیں مکمل بحال ہونے منتظر ضرور ہیں۔

?BBC Urdu? - ????????? - ?????: ????? ????? ?? ??? ??? ??? ???????

© BBC 2009
 
.

Country Latest Posts

Back
Top Bottom