What's new

Society, Women and Behashti Zewar

Secur

ELITE MEMBER
Joined
Aug 23, 2011
Messages
10,119
Reaction score
56
Country
Pakistan
Location
Pakistan
معاشرہ، عورت اور بہشتی زیور ۔ ڈاکٹر مبارک علی
A must read on the criticism of the most renowned and so called authentic book on matters of marital matters (for exclusively women of course). It gives an insight into the opposition to modernity and secular education present during the British rule among Muslims and more importantly the censorship, severe restrictions on functioning and movement, suppression of free thought that the Mullahs of the past wanted to impose on the opposite gender. See how a slave mind was being created back then to support the extremist's idea of the women role in the society and still is tried to, in many parts of subcontinent. The only problem is that an English translation isn't available of the critical summary. So, well either somebody do us all a favor and translate it or until then those who understand Urdu and have the patience for such a large article, read it. Take my guarantee that it is worth it.

جاگیردارانہ معاشرہ میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آزادی’ حقوق اور رائے مرد کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس معاشرے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروغ دیاجائے جن کے ذریعے عورتوں کو مرد کا تابع اور فرماں بردار رکھا جائے اور اس کی آزادی کے تمام راستے مسدود کردئے جاتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمان معاشرہ ‘ دو طبقوں میں منقسم تھا۔ ایک اشراف یا امراء کا طبقہ اور دوسرا اجلاف اور عوام کا۔ طبقہ اعلیٰ نے جو ثقافتی و اخلاقی اقدار تخلیق کیں مثلاً ناموس، عزت ، عصمت، شان و شوکت اور آن بان کے بہترین قیمتی سازوسامان، ہیرے جواہرات، ہاتھی گھوڑے اور محلات رکھتا تھا اور نفیس لباس استعمال کرتا تھا وہ اسی طرح اپنے حرم میں خوبصورت عورتیں جمع کرتا تھا جیسے دوسری قیمتی اشیاء اور جس طرح وہ قیمتی اشیاء کی حفاظت کرتا تھا اسی طرح بیگمات کی حفاظت کی غرض سے اونچی اونچی دیواروں کی محل سرائیں تعمیر کراتا تھا اور پہرے پر فوجی و خواجہ سرا رکھا کرتا تھا۔ ان پر پردے کی سخت پابندی ہوتی تھی تاکہ دوسروں کی ان پر نظر نہ پڑے۔ اس نے ناموس حرم، عزت، خاندانی وقار کی اقدار پیدا کیں۔

ان جاگیردارانہ اقدار نے معاشرے کے متوسط طبقے کو بھی متاثر کیا لیکن عوام کی اکثریت ان اقدار کو نہیں اپنا سکی کیونکہ معاشی ضروریات انہیں اس بات پر مجبور کرتی تھیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر تلاش معاش میں ادھر ادھر جائیں ۔ایک کسان عورت گھر کے کام کے علاوہ مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور تھی۔ شہروں میں غریب خاندان کی عورتیں اعلی ٰطبقے کو ملازمائیں، مامائیں اور مغلانیاں فراہم کرتی تھیں۔ یہ جاگیردارانہ اقدار ایک طبقے تک محدود رہیں جو سیاسی، معاشی اور سماجی لحاظ سے معاشرے کا اعلیٰ طبقہ تھا۔

مسلمانوں کا یہ جاگیردارانہ معاشرہ سلاطین دہلی اور مغلیہ خاندان کی حکومتوں تک مستحکم رہا۔ اس معاشرے میں عورت کا مقام محض ایک شے کا تھا جو مرد کی ملکیت رہ کر آزادی،خودی اور انا کو ختم کردیتی تھی۔ اس کی زندگی جس نہج پر پروان چڑھتی تھی اس میں وہ بیٹی کی حیثیت سے فرماں برداررہے اور ماں کی حیثیت سے اولادکی پرورش کرے، ان تینوں حیثیتوں میں اس کی خواہشات جذبات ختم ہوجاتی تھیں اسے یہ موقع نہیں ملتا تھا کہ وہ بحیثیت عورت زندگی سے لطف اندوز ہوسکے۔ (۱)

اس جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام حاصل تھا اور اس کی خواہش تھی کہ ان اقدار میں کوئی تبدیلی نہ آئے اور ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ عورت ان زنجیروں کو توڑ کرآزاد ہوجائے۔ لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان اقدار میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، مغربی خیالات و افکار اور تہذیب اور تمدن نے آہستہ آہستہ ہمارے جاگیردارانہ معاشرے کو متاثر کرنا شروع کیا۔ ان تبدیلیوں نے قدیم اقدار کے حامیوں کو چونکا دیا ۔یہ حضرات معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی کے مخالف تھے اور خصوصیت کے ساتھ عورت کے مخصوص کئے ہوئے مقام کو بدلنے پر قطعی تیار نہیں تھے۔

اس طبقے کی نمائندگی ایک بڑے عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی(۱۸۶۸ـ۱۹۴۳) نے اپنی تصانیت کے ذریعے عموماً اور”بہشتی زیور” لکھ کر خصوصاً کی۔ مولانا صاحب کا دور، جدید اور قدیم اقدار کے تصادم کا زمانہ تھا جب کہ قدیم نظام زندگی اور اس کی اقدار اپنی فرسودگی اور خستگی کے آخری مراحل میں داخل ہوکر دم توڑ رہی تھیں اور جدید رجحانات و افکار کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوگئی تھیں۔ مولانا نے آخری بار اس گرتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کو مذہبی و اخلاقی سہارے سے روکنے کی کوشش کی اور یہ کوشش بھی کی کہ عورت کو مذہبی بنیادوں کے سہارے اسی مقام پر رکھا جائے جو جاگیردارانہ نظام نے اس کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔

عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مولانا نے “بہشتی زیور” کے دس حصے لکھےتاکہ ان کے مطالعے کے بعد عورت آسانی سے مرد کی افضلیت کو تسلیم کرے اور اپنی غلامی پر نہ صرف قانع ہو بلکہ اسے باعث فخر سمجھے۔ اس کتاب میں عورت کو اچھا غلا م بننے کی ساری ترکیبیں اور گر بتائے گئے ہیں۔ مذہبی مسائل سے لے کر کھانا پکانے اور امور خانہ داری کے تمام طریقوں کی تفصیل ہے جو مرد کو خوش و خرم رکھ سکے۔ اس لئے یہ دستور ہوگیا کہ بہشتی زیور کے یہ دسوں حصے(جو ایک جلد میں ہوتے ہیں) جہیز میں لڑکی کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ اسے پڑھ کر ذہنی طور پر غلامی کے لئے تیار رہے۔یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا نے ایک بہترین عورت کا جو تصور بہشتی زیور میں پیش کیا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے اور کے خیالات کا جاگیردارانہ معاشرے کے پس منظر میں پیدا ہونے والی ثقافت اور اقدار کا جائزہ لیاجائے۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء میں جدید مغربی تعلیم مقبول ہوچکی تھی اور ہمارے مصلحین جدید تقاضوں کو تسلیم کرنے کے باوجود تعلیم نسواں کے شدید مخالف تھے۔ وہ مردوں کے لئے تو جدید تعلیم ضروری سمجھتے تھے مگر یہی تعلیم ان کے نزدیک عورتوں کے لئے انتہائی خطرناک تھی۔ سرسید احمد خان نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ تعلیم نسواں کے اس لئے مخالف ہیں کیونکہ جاہل عورت اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہے اسی لئے مطمئن رہتی ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہو کر اپنے حقوق سے واقف ہوگئی تو اس کی زندگی عذاب ہوجائے گی

(۲)

۔ سرسید نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کی بھی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف مذہبی کتابیں پڑھیں اور جدید زمانے کی مروجہ کتابیں جو نامبارک ہیں ان سےدور رہیں۔

(۳)

مولانا اشرف علی تھانوی عورتوں کے لئے صرف مذہبی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ بے علم عورتیں کفر و شرف میں تمیزنہیں کرتیں اور نہ ہی ان میں ایمان اور اسلام کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اپنی جہالت میں جو چاہتی ہیں بک دیتی ہیں اس لئے ان کے ایمان اور مذہب کو بچانے کے لئے ان کے لئے دین کا علم انتہائی ضروری ہے۔ مولانا دینی تعلیم کے علاوہ عورتوں کے لئے دوسری ہر قسم کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں اسے عورتوں کےلئے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

(۴)

مولانا صاحب لڑکیوں کے اسکول جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بھی سخت مخالف ہیں کیونکہ اسکول میں مختلف اقوام، طبقات اور خیالا ت کی لڑکیاں جمع ہوں گی جس سے ان کے خیالات اور اخلاق متاثر ہوں گے ۔ اگر خدانخواستہ استانی آزاد خیال ہوئی تو بقول مولانا “کریلا نیم چڑھا” اور مزید یہ کہ اگر مشن کی میم انگریزی تعلیم دینے آگئی تو نہ آبرو کی خیر اور نہ ایمان کی۔(۵) ان کے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ دو چار لڑکیاں گھر پر پڑھیں اور ایک ایسی استانی لیں جو تنخوانہ بھی نہ لے کیونکہ اس سے تعلیم بابرکت ہوتی ہے۔

(۶)

(لڑکیوں کے لئے تو ہوسکتی ہے مگر استانی کے لئے نہیں) مولانا اس راز سے واقف تھے کہ میل اور اشتراک سے خیالات پر گہرا اثر ہوتا ہے اس لئے وہ اس راستے کو مسدود کرنا چاہتے ہیں اور خواہش مند تھے کہ عورت چار دیواری سے قطعی باہر قدم نہ نکالے۔

مولانا عورتوں کے نصاب تعلیم پر خاص طور سے زور دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے ایک خاص قسم کا ذہن تیار ہوسکے۔ اس لئے وہ قران شریف کتب دینیہ اور بہشتی زیور کے دس حصوں کو کافی سمجھتے تھے، بہشتی زیور کے سلسلے میں وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں شرمناک مسائل کو یا تو کسی عورت سے سمجھا جائے یا نشان چھوڑ دیا جائے اور سمجھدار ہونے کے بعد پڑھا جائے یہاں تک صرف پڑھنے کی استعداد کا ذکر ہے جب لکھنے کا سوال آتا ہے تو مولانا اس بات پر مزید زور دیتے ہیں کہ اگر عورت کی طبیعت میں بے باکی نہ ہو تو لکھنا سکھانے میں کوئی حرج نہیں ورنہ نہیں سکھانا چاہئے۔

(۷)

اگر لکھنا سکھایا بھی جائے تو صرف اس قدر کہ وہ ضروری خط اور گھر کا حساب کتاب لکھ سکے، بس اس سے زیادہ ضرورت نہیں۔

(۸)

عورتوں کو کون سی اور کس قسم کی کتابیں پڑھنا چاہئیں اس پہلو پر مولانا خاص طور سے بہت زیادہ زور دیتے ہیں مثلاً حسن وعشق کی کتابیں دیکھنااور پڑھنا جائز نہیں۔ غزل اور قصیدوں کے مجموعے اور خاص کر موجود ہ دور کے ناول عورتوں کو قطعی نہیں پڑھنا چاہئیں بلکہ ان کا خریدنا بھی جائز نہیں۔ اس لئے اگر کوئی انہیں اپنی لڑکیوں کے پاس دیکھ لے تو اسے فوراً جلا دینا چاہئے۔

(۹)

مولانا کتابوں کے سلسلے میں اس قدر احتیاط کے قائل ہیں کہ دین کی ہر قسم کی کتابوں کو بھی عورتوں کے لئے نقصان دہسمجھتے ہیں کیونکہ اکثر دین کی کتابوں میں بہت سی غلط باتیں شامل ہوتی ہیں جن کو پڑھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر سخت افسوس ہے کہ ان کے زمانے میں عورتیں ہر قسم کی کتابیں پڑھتی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں نقصان ہورہا ہے ،عادتیں بگڑ رہی ہیں اور خیالات گندے ہورہے ہیں ۔ اس لئے مولانا کا خیال ہے کہ دین کی اگر کوئی کتاب پڑھنا ہو تو اسے پڑھنے سے پہلے کسی عالم دین کو دکھا لو اگر وہ اسے پڑھنا منظور کرے تو پڑھو ورنہ نہیں۔

(۱۰)

لیکن اس سے بھی مولانا مطمئن معلوم نہیں ہوتے کیونکہ انہیں شائد اپنے علاوہ اور کسی عالم دین پر بھروسہ نہیں کہ غلطی سے وہ کسی غلط کتاب کو پڑھنے کی اجازت نہ دے دے۔اس لئے وہ خود ان کتابوں کی فہرست دیتے ہیں جن کا پڑھنا عورتوں کے لئے مفید ہے مثلاً نصیحتہ المسلمین، راسلہ عقیقہ، تعلیم الدین، تحفتہ الزوجین، فروغ الایمان، اصلاح الرسوم، بہشت نامہ، روزخ نامہ، تنبیہ النساء، تعلیم النساء من و لہن نامہ، ہدایت اور مراۃ النساء وغیرہ۔

اس کے بعد مولانا صاحب ان کتابوں پر سنسر لگاتے ہیں جن کا پڑھنا انتہائی نقصان دہ ہے، مثلاً دیوان اور غزلوں کی کتابیں، اندر سبھا، قصہ بدرمنیر، شاہ یمن، داستان امیر حمزہ، گل بکاولہ، الف لیلہ، نقش سلیمانی، فال نامہ، معجزہ النبی، آرائش محفل ، جنگ نامہ حضرت علی اور تفسیر یوسف ۔ تفسیر یوسف کے بارے میں مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں ایک تو کچی داستانیں ہیں اورد وسرے عاشقی و معشوقی کی باتیں عورتوں کو سننا اور پڑھنا نقصان کی بات ہے۔ مراۃ العروس، محضات اور ایامی کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ “بعض اچھی باتیں ہیں مگر بعض ایسی ہیں جن سے ایمان کمزور ہوتا ہے”۔ ناول کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کا اثر ہمیشہ برا ہوتا ہےاور اخبار پڑھنے سے وقت خراب ہوتا ہے۔

(۱۲)

مولانا کے ان خیالات سے تعلیم نسواں کے بارے میں ان کا نظریہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ وہ عورت کے لئے ہمیشہ بہت محدود تعلیم کے قائل تھے اور جاہل رکھ کر جاگیردارانہ اقدار کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔


(۲)

جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کی فضیلت کی ایک بنیاد یہ بھی ہوتی ہے کہ مرد خاندانی معاش کا ذمہ دارہوتا ہے اور عورت معاشی طور پر اس کی محتاج ہوتی ہے۔ محتاجی کے سبب اس میں قدر جرات پیدا نہیں ہوتی کہ وہ خود کو مرد کی غلامی سے آزادکر سکے اور مرد کی افضلیت کو چیلنج کرسکے ۔ مولانا اس ضمن میں کہتےہیں کہ: کسب معاش صرف مردوں کے لئے ضروری ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ عورتوں کا نان ونفقہ پورا کرے(۱۳)۔ نان و نفقہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: روٹی کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے جبکہ گھر کا کام کاج کرنا عورت پر واجب ہے۔ تیل، کنگھی، صابن، وضو اور نہانے کے پانی کا انتظام مرد کے ذمہ ہے مگر مسی، پان اور تمباکو اس کے ذمہ نہیں۔ دھوبی کی تنخواہ مرد کے ذمہ نہیں اور عورت کو چاہئے کہ کپڑے کو اپنے ہاتھ سے دھوئے اور اگر مرد اس کے لے پیسے دے تو یہ اس کا احسان ہے۔(۱۴)


(۳)

جاگیردارانہ معاشرے میں شوہر عورت کے لئے مجازی خدا کا درجہ رکھتا ہےاس لئے عورت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شوہر کی فرماں برداری کرے اگر وہ شوہر کے احکامات کی خلاف ورزی کرے تو یہ معاشرے کی اقدار کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔ مولانا نے اس ضمن میں عورتوں کو جوہدایات دی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مرد کی افضلیت کو مذہب اور اخلا ق کی بنیادپر قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کوشوہر کے تمام احکامات بلا چوں و چراں بجا لانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ کہے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ تک لے جاؤ اور پھر دوسرے سے تیسرے تک تو اسے یہی کرناچاہئے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنے کس کام سے بلائے اور وہ چولہے پر بیٹھی ہو تو تب بھی اس کے کام کے لئے اسے فوراً اٹھ جانا چاہئے۔

(۱۵)

یہاں تک مرد کی فرماں برداری ضروری ہے کہ اگر اس کی مرضی نہ ہو تو نفلی روزے نہ رکھے اور نفلی نماز نہ پڑھے ۔ عورت کے لئے ضروری ہے کہ مر د کو خوش رکھنے کے لئے بناؤ سنگھار کے ساتھ رہا کرے۔ اگر مرد کے کہنے کے باوجود بناؤ سنگھار نہ کرے تو مرد کو مارنے کا اختیار ہے اس کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں نہ جائے، رشتہ داروں کے ہاں اور نہ غیروں کے ہاں۔

(۱۶)

مولانا بیوی کا مقصد حیات شوہر کی خوشی قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے عورت کے لئے مکمل ہدایات پیش کی ہیں مثلاً شوہر کا خیال دل میں لئے رہو، اس کی آنکھ کے اشارے پر چلو، اگر وہ حکم کرے کہ ساری رات ہاتھ باندھے کھڑی رہو تو اس حکم کی بھی تعمیل کرو کیونکہ اس میں عورت کی بھلائی ہے ، اگر وہ دن کو رات بتائے تو عورت بھی دن کو رات کہنے لگے۔ شوہر کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس سےدنیا اور آخرت دونوں خراب ہوتی ہیں ۔شوہر سے کبھی زائد خرچ نہیں مانگنا چاہئےاور نہ ہی اس سے کوئی فرمائش کرنی چاہئے۔

اگر عورت کی کوئی خواہش پوری نہ ہو تو خاموش رہنا چاہئے اور اس بارے میں کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہے، کبھی کسی بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے۔ اگر شوہر سے کوئی تکلیف بھی ہو تو اس پر بھی خوشی ظاہر کرنی چاہئے۔ اگر شوہر کبھی کوئی چیز لادے وہ اسے پسند آئے نہ آئے لیکن اس پر خوشی کا اظہارکرنا چاہئے۔ اگر شوہر کو غصہ آجائے تو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ اور غصہ آئے، اس کے مزاج کو دیکھ کر بات کرنی چاہئے۔ اگر وہ ہنسی دل لگی چاہتا ہے تو اسے خوش کرنے کی باتیں کرو۔ اگر وہ ناراض ہو تو عذر و معذرت کرکے ہاتھ جوڑ کر اسے راضی کرو۔ شوہر کو کبھی اپنے برابر کا مت سمجھواور اس سے کسی قسم کی خدمت مت لو، اگر وہ کبھی سر دبانے لگ جائے تو ایسا مت کرنے دو۔ اٹھتے بیٹھتے، بات چیت غرض کہ ہر بات میں ادب اور تمیز کا خیال انتہائی ضروری ہے۔

اگر شوہر پردیس سے آئے تو اس کا مزاج پوچھنا چاہئے اس کے ہاتھ پاؤں دبانا چاہئیں اور فوراً اس کے لئے کھانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ اگر گرمی کا موسم ہو تو پنکھا لے کر اس پر جھلنا چاہئے اور اسے آرام پہنچانا عورت کے فرائض میں سے ہے۔ گھر کے معاملات میں مولانا ہدایات دیتے ہیں کہ بیوی کو یہ حق نہیں کہ میاں سے تنخواہ کا حساب کتاب پوچھے اور کہے کہ تنخواہ تو بہت ہے، اتنی کیوں لاتے ہو، یا بہت خرچ کر ڈالا اور کس چیز میں اتنا پیسہ اٹھایا وغیرہ۔ اسی طرح شوہر کی ہر چیز سلیقے سے رکھو، رہنے کا کمرہ، بستر، تکیہ اور دوسری چیزیں صاف ستھری ہونی چاہئیں، اگر شوہر کسی دوسری عورت سے ملتا ہے تو اسے تنہائی میں سمجھاؤ پھر بھی باز نہ آئے تو صبر کرکے بیٹھ جاؤ لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرکے اسے رسوا مت کرو۔ اس اس ضمن میں مولانا کہتے ہیں کہ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے ، دباؤ اور زبردستی سے ہر گز زیر نہیں ہوسکتے ۔ان کے زیر کرنے کی بہت آسان ترکیب خوشامد اور تابعداری ہے۔

(۱۷)

اس سلسلےمیں مولانا عورت کا ذکر کرتے ہیں۔ “لکھنؤ میں ایک بیوی کے میاں بدچلن ہیں دن رات باہر بازاری عورت کے پاس رہتے ہیں، گھر میں بالکل نہیں آتے بلکہ فرمائش کرکے کھانا پکوا کر باہر منگواتے ہیں۔ وہ بیچاری دم نہیں مارتی جو میاں کہتے ہیں ان کی فرمائش پوری کرتی ہے۔ دیکھو ساری خلقت اس بیوی کو کیسی واہ واہ کرتی ہے اور خدا کے یہاں جو اس کو مرتبہ ملا وہ الگ رہا۔”

(۱۸)

مزید ہدایت میں یہ بھی ہے کہ ساس سسر اور نندوں سے الگ رہنے کہ کوشش نہیں کرنی چاہئے ، سسرال ہی کو اپنا سمجھنا چاہئے۔ شوہر اور بڑوں کا نام لے کر پکارنا مکروہ اور منع ہے۔

(۱۹)

عورتوں کے لئے پچیسی، چوسر اور تاش کھیلنا وغیرہ بھی درست نہیں۔

(۲۰)

۔ عورت کے لباس کے معاملے میں بھی مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ خلاف شرع لباس قطعی استعمال نہیں کرنا چاہئے جیسے کلیوں کا پاجامہ یا ایسا کرتہ جس میں پیٹھ ، پیٹ یا بازو کھلے ہوں یا ایسا باریک کپڑا جس میں بدن یا سر کے بال جھلکتے ہوں۔ عورت کے لئے موزوں ترین لباس یہ ہے کہ لانبی آستینوں کا نیچا، موٹے کپڑے کا کرتا اور اسی کپڑے کا دوپٹہ استعمال کرے۔

(۲۱)

مولانا عورت کو گھر میں رکھنے کے قائل ہیں ، اس سلسلے میں میں انہوں نے جو پروگرام تیار کیا ہے وہ قابل غور ہے۔ مثلاً ماں باپ کو دیکھنے کے لئے ہفتے میں ایک بار جاسکتی ہے ، دوسرے رشتہ داروں سے سال میں۔۔۔۔۔ ایک دفعہ اس سے زیادہ کا اسے حق نہیں ۔اسی طرح ماں باپ بھی ہفتے میں ایک بار ملنے آسکتے ہیں ۔ شوہر کواختیار ہے کہ زیادہ نہ آنے دے یا زیادہ نہ ٹھہرنے دے۔

(۲۲)

وہ تقریبوں میں بھی آنے جانے کو عورت کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں ، شادی بیاہ، مونڈن، طلہ، چھٹی، ختنہ، عقیقہ، منگنی اور چوتھی وغیرہ کی رسموں میں قطعی نہیں جانا چاہئے۔ اسی طرح نہ غمی میں اور نہ بیمار پرسی کے لئے۔ خاص طور پر برات کے موقع پر جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس وقت غیر محرم رشتہ دار کے گھر میں جانا درست نہیں۔ اگر شوہر اجازت دے دے تو وہ بھی گنہگار ٹھہرے گا۔ اس کے بعد مولانا بڑے افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں ہیں کہ: افسوس اس حکم پر ہندوستان بھر میں کہیں بھی عمل نہیں بلکہ اس کو تو ناجائز ہی نہیں سمجھتے۔

(۲۳)

آنے جانے کے خلاف مولانا کے یہ دلائل ہیں ، اس میں قیمتی جوڑے بنوانا پڑتے ہیں اور یہ فضول خرچی ہے اس کی وجہ سے خاوند پر خرچہ کا بار پڑتا ہے ،پھر بزاز کو بلا کر بلا ضرورت اس سے باتیں ہوتی ہیں، تھان لیتے وقت آدھا ہاتھ جس میں مہندی اور چوڑی ہوتی ہے باہر نکالنا پڑتا ہے جو غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کے وقت پیدل چل کر گھر جاتی ہیں جوانتہائی بے حیائی ہے اور اگر چاندنی رات ہو تو اس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ ڈولی میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پلو یا آنچل باہر لٹک رہا ہے یا کسی طرف پردہ مکمل گیا یا عطر و پھلیل اس قدر ہے کہ راستے میں خوشبو ہی خوشبو ہے۔ یہ نا محرموں کے سامنے بناؤ سنگھار ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ عورتیں یہ بھی کرتی ہیں کہ ڈولی سے اتریں اور ایک دم گھر میں داخل ہوگئیں یہ خیال نہیں کرتیں کی گھر میں کوئی نامحرم بیٹھا ہو۔ محفل میں بہشتی آتا ہے تو منہ پر نقاب ڈال لیتا ہے مگر دیکھتا سب کو ہے۔ بعض دفعہ دس بارہ سال کے لڑے گھر میں آجاتے ہیں جس سے بے پردگی ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر کسی تقریب و رسم اور ملنے جلنے کی وجہ سے گھر سے نکلنا وہ بے حیائی خیال کرتے ہیں۔

(۲۴)

بہشتی زیور سے اس ذہن کی پوری پوری عکاسی کرتی ہے جو ہندوستان میں جاگیردارانہ ثقافت اور اقدار نے بنایا تھا۔ لیکن بہشتی زیور جدید خیالات و افکار اور سماجی شعور کو نہیں روک سکی اور قدیم روایات کی فرسودگی کو اس کے ذریعے کوئی استحکام نہیں ملا۔
 
معاشرہ، عورت اور بہشتی زیور ۔ ڈاکٹر مبارک علی
A must read on the criticism of the most renowned and so called authentic book on matters of marital matters (for exclusively women of course). It gives an insight into the opposition to modernity and secular education present during the British rule among Muslims and more importantly the censorship, severe restrictions on functioning and movement, suppression of free thought that the Mullahs of the past wanted to impose on the opposite gender. See how a slave mind was being created back then to support the extremist's idea of the women role in the society and still is tried to, in many parts of subcontinent. The only problem is that an English translation isn't available of the critical summary. So, well either somebody do us all a favor and translate it or until then those who understand Urdu and have the patience for such a large article, read it. Take my guarantee that it is worth it.

جاگیردارانہ معاشرہ میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آزادی’ حقوق اور رائے مرد کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس معاشرے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروغ دیاجائے جن کے ذریعے عورتوں کو مرد کا تابع اور فرماں بردار رکھا جائے اور اس کی آزادی کے تمام راستے مسدود کردئے جاتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمان معاشرہ ‘ دو طبقوں میں منقسم تھا۔ ایک اشراف یا امراء کا طبقہ اور دوسرا اجلاف اور عوام کا۔ طبقہ اعلیٰ نے جو ثقافتی و اخلاقی اقدار تخلیق کیں مثلاً ناموس، عزت ، عصمت، شان و شوکت اور آن بان کے بہترین قیمتی سازوسامان، ہیرے جواہرات، ہاتھی گھوڑے اور محلات رکھتا تھا اور نفیس لباس استعمال کرتا تھا وہ اسی طرح اپنے حرم میں خوبصورت عورتیں جمع کرتا تھا جیسے دوسری قیمتی اشیاء اور جس طرح وہ قیمتی اشیاء کی حفاظت کرتا تھا اسی طرح بیگمات کی حفاظت کی غرض سے اونچی اونچی دیواروں کی محل سرائیں تعمیر کراتا تھا اور پہرے پر فوجی و خواجہ سرا رکھا کرتا تھا۔ ان پر پردے کی سخت پابندی ہوتی تھی تاکہ دوسروں کی ان پر نظر نہ پڑے۔ اس نے ناموس حرم، عزت، خاندانی وقار کی اقدار پیدا کیں۔

ان جاگیردارانہ اقدار نے معاشرے کے متوسط طبقے کو بھی متاثر کیا لیکن عوام کی اکثریت ان اقدار کو نہیں اپنا سکی کیونکہ معاشی ضروریات انہیں اس بات پر مجبور کرتی تھیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر تلاش معاش میں ادھر ادھر جائیں ۔ایک کسان عورت گھر کے کام کے علاوہ مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور تھی۔ شہروں میں غریب خاندان کی عورتیں اعلی ٰطبقے کو ملازمائیں، مامائیں اور مغلانیاں فراہم کرتی تھیں۔ یہ جاگیردارانہ اقدار ایک طبقے تک محدود رہیں جو سیاسی، معاشی اور سماجی لحاظ سے معاشرے کا اعلیٰ طبقہ تھا۔

مسلمانوں کا یہ جاگیردارانہ معاشرہ سلاطین دہلی اور مغلیہ خاندان کی حکومتوں تک مستحکم رہا۔ اس معاشرے میں عورت کا مقام محض ایک شے کا تھا جو مرد کی ملکیت رہ کر آزادی،خودی اور انا کو ختم کردیتی تھی۔ اس کی زندگی جس نہج پر پروان چڑھتی تھی اس میں وہ بیٹی کی حیثیت سے فرماں برداررہے اور ماں کی حیثیت سے اولادکی پرورش کرے، ان تینوں حیثیتوں میں اس کی خواہشات جذبات ختم ہوجاتی تھیں اسے یہ موقع نہیں ملتا تھا کہ وہ بحیثیت عورت زندگی سے لطف اندوز ہوسکے۔ (۱)

اس جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام حاصل تھا اور اس کی خواہش تھی کہ ان اقدار میں کوئی تبدیلی نہ آئے اور ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ عورت ان زنجیروں کو توڑ کرآزاد ہوجائے۔ لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان اقدار میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، مغربی خیالات و افکار اور تہذیب اور تمدن نے آہستہ آہستہ ہمارے جاگیردارانہ معاشرے کو متاثر کرنا شروع کیا۔ ان تبدیلیوں نے قدیم اقدار کے حامیوں کو چونکا دیا ۔یہ حضرات معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی کے مخالف تھے اور خصوصیت کے ساتھ عورت کے مخصوص کئے ہوئے مقام کو بدلنے پر قطعی تیار نہیں تھے۔

اس طبقے کی نمائندگی ایک بڑے عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی(۱۸۶۸ـ۱۹۴۳) نے اپنی تصانیت کے ذریعے عموماً اور”بہشتی زیور” لکھ کر خصوصاً کی۔ مولانا صاحب کا دور، جدید اور قدیم اقدار کے تصادم کا زمانہ تھا جب کہ قدیم نظام زندگی اور اس کی اقدار اپنی فرسودگی اور خستگی کے آخری مراحل میں داخل ہوکر دم توڑ رہی تھیں اور جدید رجحانات و افکار کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوگئی تھیں۔ مولانا نے آخری بار اس گرتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کو مذہبی و اخلاقی سہارے سے روکنے کی کوشش کی اور یہ کوشش بھی کی کہ عورت کو مذہبی بنیادوں کے سہارے اسی مقام پر رکھا جائے جو جاگیردارانہ نظام نے اس کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔

عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مولانا نے “بہشتی زیور” کے دس حصے لکھےتاکہ ان کے مطالعے کے بعد عورت آسانی سے مرد کی افضلیت کو تسلیم کرے اور اپنی غلامی پر نہ صرف قانع ہو بلکہ اسے باعث فخر سمجھے۔ اس کتاب میں عورت کو اچھا غلا م بننے کی ساری ترکیبیں اور گر بتائے گئے ہیں۔ مذہبی مسائل سے لے کر کھانا پکانے اور امور خانہ داری کے تمام طریقوں کی تفصیل ہے جو مرد کو خوش و خرم رکھ سکے۔ اس لئے یہ دستور ہوگیا کہ بہشتی زیور کے یہ دسوں حصے(جو ایک جلد میں ہوتے ہیں) جہیز میں لڑکی کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ اسے پڑھ کر ذہنی طور پر غلامی کے لئے تیار رہے۔یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا نے ایک بہترین عورت کا جو تصور بہشتی زیور میں پیش کیا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے اور کے خیالات کا جاگیردارانہ معاشرے کے پس منظر میں پیدا ہونے والی ثقافت اور اقدار کا جائزہ لیاجائے۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء میں جدید مغربی تعلیم مقبول ہوچکی تھی اور ہمارے مصلحین جدید تقاضوں کو تسلیم کرنے کے باوجود تعلیم نسواں کے شدید مخالف تھے۔ وہ مردوں کے لئے تو جدید تعلیم ضروری سمجھتے تھے مگر یہی تعلیم ان کے نزدیک عورتوں کے لئے انتہائی خطرناک تھی۔ سرسید احمد خان نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ تعلیم نسواں کے اس لئے مخالف ہیں کیونکہ جاہل عورت اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہے اسی لئے مطمئن رہتی ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہو کر اپنے حقوق سے واقف ہوگئی تو اس کی زندگی عذاب ہوجائے گی

(۲)

۔ سرسید نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کی بھی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف مذہبی کتابیں پڑھیں اور جدید زمانے کی مروجہ کتابیں جو نامبارک ہیں ان سےدور رہیں۔

(۳)

مولانا اشرف علی تھانوی عورتوں کے لئے صرف مذہبی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ بے علم عورتیں کفر و شرف میں تمیزنہیں کرتیں اور نہ ہی ان میں ایمان اور اسلام کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اپنی جہالت میں جو چاہتی ہیں بک دیتی ہیں اس لئے ان کے ایمان اور مذہب کو بچانے کے لئے ان کے لئے دین کا علم انتہائی ضروری ہے۔ مولانا دینی تعلیم کے علاوہ عورتوں کے لئے دوسری ہر قسم کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں اسے عورتوں کےلئے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

(۴)

مولانا صاحب لڑکیوں کے اسکول جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بھی سخت مخالف ہیں کیونکہ اسکول میں مختلف اقوام، طبقات اور خیالا ت کی لڑکیاں جمع ہوں گی جس سے ان کے خیالات اور اخلاق متاثر ہوں گے ۔ اگر خدانخواستہ استانی آزاد خیال ہوئی تو بقول مولانا “کریلا نیم چڑھا” اور مزید یہ کہ اگر مشن کی میم انگریزی تعلیم دینے آگئی تو نہ آبرو کی خیر اور نہ ایمان کی۔(۵) ان کے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ دو چار لڑکیاں گھر پر پڑھیں اور ایک ایسی استانی لیں جو تنخوانہ بھی نہ لے کیونکہ اس سے تعلیم بابرکت ہوتی ہے۔

(۶)

(لڑکیوں کے لئے تو ہوسکتی ہے مگر استانی کے لئے نہیں) مولانا اس راز سے واقف تھے کہ میل اور اشتراک سے خیالات پر گہرا اثر ہوتا ہے اس لئے وہ اس راستے کو مسدود کرنا چاہتے ہیں اور خواہش مند تھے کہ عورت چار دیواری سے قطعی باہر قدم نہ نکالے۔

مولانا عورتوں کے نصاب تعلیم پر خاص طور سے زور دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے ایک خاص قسم کا ذہن تیار ہوسکے۔ اس لئے وہ قران شریف کتب دینیہ اور بہشتی زیور کے دس حصوں کو کافی سمجھتے تھے، بہشتی زیور کے سلسلے میں وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں شرمناک مسائل کو یا تو کسی عورت سے سمجھا جائے یا نشان چھوڑ دیا جائے اور سمجھدار ہونے کے بعد پڑھا جائے یہاں تک صرف پڑھنے کی استعداد کا ذکر ہے جب لکھنے کا سوال آتا ہے تو مولانا اس بات پر مزید زور دیتے ہیں کہ اگر عورت کی طبیعت میں بے باکی نہ ہو تو لکھنا سکھانے میں کوئی حرج نہیں ورنہ نہیں سکھانا چاہئے۔

(۷)

اگر لکھنا سکھایا بھی جائے تو صرف اس قدر کہ وہ ضروری خط اور گھر کا حساب کتاب لکھ سکے، بس اس سے زیادہ ضرورت نہیں۔

(۸)

عورتوں کو کون سی اور کس قسم کی کتابیں پڑھنا چاہئیں اس پہلو پر مولانا خاص طور سے بہت زیادہ زور دیتے ہیں مثلاً حسن وعشق کی کتابیں دیکھنااور پڑھنا جائز نہیں۔ غزل اور قصیدوں کے مجموعے اور خاص کر موجود ہ دور کے ناول عورتوں کو قطعی نہیں پڑھنا چاہئیں بلکہ ان کا خریدنا بھی جائز نہیں۔ اس لئے اگر کوئی انہیں اپنی لڑکیوں کے پاس دیکھ لے تو اسے فوراً جلا دینا چاہئے۔

(۹)

مولانا کتابوں کے سلسلے میں اس قدر احتیاط کے قائل ہیں کہ دین کی ہر قسم کی کتابوں کو بھی عورتوں کے لئے نقصان دہسمجھتے ہیں کیونکہ اکثر دین کی کتابوں میں بہت سی غلط باتیں شامل ہوتی ہیں جن کو پڑھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر سخت افسوس ہے کہ ان کے زمانے میں عورتیں ہر قسم کی کتابیں پڑھتی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں نقصان ہورہا ہے ،عادتیں بگڑ رہی ہیں اور خیالات گندے ہورہے ہیں ۔ اس لئے مولانا کا خیال ہے کہ دین کی اگر کوئی کتاب پڑھنا ہو تو اسے پڑھنے سے پہلے کسی عالم دین کو دکھا لو اگر وہ اسے پڑھنا منظور کرے تو پڑھو ورنہ نہیں۔

(۱۰)

لیکن اس سے بھی مولانا مطمئن معلوم نہیں ہوتے کیونکہ انہیں شائد اپنے علاوہ اور کسی عالم دین پر بھروسہ نہیں کہ غلطی سے وہ کسی غلط کتاب کو پڑھنے کی اجازت نہ دے دے۔اس لئے وہ خود ان کتابوں کی فہرست دیتے ہیں جن کا پڑھنا عورتوں کے لئے مفید ہے مثلاً نصیحتہ المسلمین، راسلہ عقیقہ، تعلیم الدین، تحفتہ الزوجین، فروغ الایمان، اصلاح الرسوم، بہشت نامہ، روزخ نامہ، تنبیہ النساء، تعلیم النساء من و لہن نامہ، ہدایت اور مراۃ النساء وغیرہ۔

اس کے بعد مولانا صاحب ان کتابوں پر سنسر لگاتے ہیں جن کا پڑھنا انتہائی نقصان دہ ہے، مثلاً دیوان اور غزلوں کی کتابیں، اندر سبھا، قصہ بدرمنیر، شاہ یمن، داستان امیر حمزہ، گل بکاولہ، الف لیلہ، نقش سلیمانی، فال نامہ، معجزہ النبی، آرائش محفل ، جنگ نامہ حضرت علی اور تفسیر یوسف ۔ تفسیر یوسف کے بارے میں مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں ایک تو کچی داستانیں ہیں اورد وسرے عاشقی و معشوقی کی باتیں عورتوں کو سننا اور پڑھنا نقصان کی بات ہے۔ مراۃ العروس، محضات اور ایامی کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ “بعض اچھی باتیں ہیں مگر بعض ایسی ہیں جن سے ایمان کمزور ہوتا ہے”۔ ناول کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کا اثر ہمیشہ برا ہوتا ہےاور اخبار پڑھنے سے وقت خراب ہوتا ہے۔

(۱۲)

مولانا کے ان خیالات سے تعلیم نسواں کے بارے میں ان کا نظریہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ وہ عورت کے لئے ہمیشہ بہت محدود تعلیم کے قائل تھے اور جاہل رکھ کر جاگیردارانہ اقدار کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔


(۲)

جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کی فضیلت کی ایک بنیاد یہ بھی ہوتی ہے کہ مرد خاندانی معاش کا ذمہ دارہوتا ہے اور عورت معاشی طور پر اس کی محتاج ہوتی ہے۔ محتاجی کے سبب اس میں قدر جرات پیدا نہیں ہوتی کہ وہ خود کو مرد کی غلامی سے آزادکر سکے اور مرد کی افضلیت کو چیلنج کرسکے ۔ مولانا اس ضمن میں کہتےہیں کہ: کسب معاش صرف مردوں کے لئے ضروری ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ عورتوں کا نان ونفقہ پورا کرے(۱۳)۔ نان و نفقہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: روٹی کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے جبکہ گھر کا کام کاج کرنا عورت پر واجب ہے۔ تیل، کنگھی، صابن، وضو اور نہانے کے پانی کا انتظام مرد کے ذمہ ہے مگر مسی، پان اور تمباکو اس کے ذمہ نہیں۔ دھوبی کی تنخواہ مرد کے ذمہ نہیں اور عورت کو چاہئے کہ کپڑے کو اپنے ہاتھ سے دھوئے اور اگر مرد اس کے لے پیسے دے تو یہ اس کا احسان ہے۔(۱۴)


(۳)

جاگیردارانہ معاشرے میں شوہر عورت کے لئے مجازی خدا کا درجہ رکھتا ہےاس لئے عورت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شوہر کی فرماں برداری کرے اگر وہ شوہر کے احکامات کی خلاف ورزی کرے تو یہ معاشرے کی اقدار کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔ مولانا نے اس ضمن میں عورتوں کو جوہدایات دی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مرد کی افضلیت کو مذہب اور اخلا ق کی بنیادپر قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کوشوہر کے تمام احکامات بلا چوں و چراں بجا لانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ کہے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ تک لے جاؤ اور پھر دوسرے سے تیسرے تک تو اسے یہی کرناچاہئے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنے کس کام سے بلائے اور وہ چولہے پر بیٹھی ہو تو تب بھی اس کے کام کے لئے اسے فوراً اٹھ جانا چاہئے۔

(۱۵)

یہاں تک مرد کی فرماں برداری ضروری ہے کہ اگر اس کی مرضی نہ ہو تو نفلی روزے نہ رکھے اور نفلی نماز نہ پڑھے ۔ عورت کے لئے ضروری ہے کہ مر د کو خوش رکھنے کے لئے بناؤ سنگھار کے ساتھ رہا کرے۔ اگر مرد کے کہنے کے باوجود بناؤ سنگھار نہ کرے تو مرد کو مارنے کا اختیار ہے اس کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں نہ جائے، رشتہ داروں کے ہاں اور نہ غیروں کے ہاں۔

(۱۶)

مولانا بیوی کا مقصد حیات شوہر کی خوشی قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے عورت کے لئے مکمل ہدایات پیش کی ہیں مثلاً شوہر کا خیال دل میں لئے رہو، اس کی آنکھ کے اشارے پر چلو، اگر وہ حکم کرے کہ ساری رات ہاتھ باندھے کھڑی رہو تو اس حکم کی بھی تعمیل کرو کیونکہ اس میں عورت کی بھلائی ہے ، اگر وہ دن کو رات بتائے تو عورت بھی دن کو رات کہنے لگے۔ شوہر کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس سےدنیا اور آخرت دونوں خراب ہوتی ہیں ۔شوہر سے کبھی زائد خرچ نہیں مانگنا چاہئےاور نہ ہی اس سے کوئی فرمائش کرنی چاہئے۔

اگر عورت کی کوئی خواہش پوری نہ ہو تو خاموش رہنا چاہئے اور اس بارے میں کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہے، کبھی کسی بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے۔ اگر شوہر سے کوئی تکلیف بھی ہو تو اس پر بھی خوشی ظاہر کرنی چاہئے۔ اگر شوہر کبھی کوئی چیز لادے وہ اسے پسند آئے نہ آئے لیکن اس پر خوشی کا اظہارکرنا چاہئے۔ اگر شوہر کو غصہ آجائے تو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ اور غصہ آئے، اس کے مزاج کو دیکھ کر بات کرنی چاہئے۔ اگر وہ ہنسی دل لگی چاہتا ہے تو اسے خوش کرنے کی باتیں کرو۔ اگر وہ ناراض ہو تو عذر و معذرت کرکے ہاتھ جوڑ کر اسے راضی کرو۔ شوہر کو کبھی اپنے برابر کا مت سمجھواور اس سے کسی قسم کی خدمت مت لو، اگر وہ کبھی سر دبانے لگ جائے تو ایسا مت کرنے دو۔ اٹھتے بیٹھتے، بات چیت غرض کہ ہر بات میں ادب اور تمیز کا خیال انتہائی ضروری ہے۔

اگر شوہر پردیس سے آئے تو اس کا مزاج پوچھنا چاہئے اس کے ہاتھ پاؤں دبانا چاہئیں اور فوراً اس کے لئے کھانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ اگر گرمی کا موسم ہو تو پنکھا لے کر اس پر جھلنا چاہئے اور اسے آرام پہنچانا عورت کے فرائض میں سے ہے۔ گھر کے معاملات میں مولانا ہدایات دیتے ہیں کہ بیوی کو یہ حق نہیں کہ میاں سے تنخواہ کا حساب کتاب پوچھے اور کہے کہ تنخواہ تو بہت ہے، اتنی کیوں لاتے ہو، یا بہت خرچ کر ڈالا اور کس چیز میں اتنا پیسہ اٹھایا وغیرہ۔ اسی طرح شوہر کی ہر چیز سلیقے سے رکھو، رہنے کا کمرہ، بستر، تکیہ اور دوسری چیزیں صاف ستھری ہونی چاہئیں، اگر شوہر کسی دوسری عورت سے ملتا ہے تو اسے تنہائی میں سمجھاؤ پھر بھی باز نہ آئے تو صبر کرکے بیٹھ جاؤ لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرکے اسے رسوا مت کرو۔ اس اس ضمن میں مولانا کہتے ہیں کہ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے ، دباؤ اور زبردستی سے ہر گز زیر نہیں ہوسکتے ۔ان کے زیر کرنے کی بہت آسان ترکیب خوشامد اور تابعداری ہے۔

(۱۷)

اس سلسلےمیں مولانا عورت کا ذکر کرتے ہیں۔ “لکھنؤ میں ایک بیوی کے میاں بدچلن ہیں دن رات باہر بازاری عورت کے پاس رہتے ہیں، گھر میں بالکل نہیں آتے بلکہ فرمائش کرکے کھانا پکوا کر باہر منگواتے ہیں۔ وہ بیچاری دم نہیں مارتی جو میاں کہتے ہیں ان کی فرمائش پوری کرتی ہے۔ دیکھو ساری خلقت اس بیوی کو کیسی واہ واہ کرتی ہے اور خدا کے یہاں جو اس کو مرتبہ ملا وہ الگ رہا۔”

(۱۸)

مزید ہدایت میں یہ بھی ہے کہ ساس سسر اور نندوں سے الگ رہنے کہ کوشش نہیں کرنی چاہئے ، سسرال ہی کو اپنا سمجھنا چاہئے۔ شوہر اور بڑوں کا نام لے کر پکارنا مکروہ اور منع ہے۔

(۱۹)

عورتوں کے لئے پچیسی، چوسر اور تاش کھیلنا وغیرہ بھی درست نہیں۔

(۲۰)

۔ عورت کے لباس کے معاملے میں بھی مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ خلاف شرع لباس قطعی استعمال نہیں کرنا چاہئے جیسے کلیوں کا پاجامہ یا ایسا کرتہ جس میں پیٹھ ، پیٹ یا بازو کھلے ہوں یا ایسا باریک کپڑا جس میں بدن یا سر کے بال جھلکتے ہوں۔ عورت کے لئے موزوں ترین لباس یہ ہے کہ لانبی آستینوں کا نیچا، موٹے کپڑے کا کرتا اور اسی کپڑے کا دوپٹہ استعمال کرے۔

(۲۱)

مولانا عورت کو گھر میں رکھنے کے قائل ہیں ، اس سلسلے میں میں انہوں نے جو پروگرام تیار کیا ہے وہ قابل غور ہے۔ مثلاً ماں باپ کو دیکھنے کے لئے ہفتے میں ایک بار جاسکتی ہے ، دوسرے رشتہ داروں سے سال میں۔۔۔۔۔ ایک دفعہ اس سے زیادہ کا اسے حق نہیں ۔اسی طرح ماں باپ بھی ہفتے میں ایک بار ملنے آسکتے ہیں ۔ شوہر کواختیار ہے کہ زیادہ نہ آنے دے یا زیادہ نہ ٹھہرنے دے۔

(۲۲)

وہ تقریبوں میں بھی آنے جانے کو عورت کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں ، شادی بیاہ، مونڈن، طلہ، چھٹی، ختنہ، عقیقہ، منگنی اور چوتھی وغیرہ کی رسموں میں قطعی نہیں جانا چاہئے۔ اسی طرح نہ غمی میں اور نہ بیمار پرسی کے لئے۔ خاص طور پر برات کے موقع پر جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس وقت غیر محرم رشتہ دار کے گھر میں جانا درست نہیں۔ اگر شوہر اجازت دے دے تو وہ بھی گنہگار ٹھہرے گا۔ اس کے بعد مولانا بڑے افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں ہیں کہ: افسوس اس حکم پر ہندوستان بھر میں کہیں بھی عمل نہیں بلکہ اس کو تو ناجائز ہی نہیں سمجھتے۔

(۲۳)

آنے جانے کے خلاف مولانا کے یہ دلائل ہیں ، اس میں قیمتی جوڑے بنوانا پڑتے ہیں اور یہ فضول خرچی ہے اس کی وجہ سے خاوند پر خرچہ کا بار پڑتا ہے ،پھر بزاز کو بلا کر بلا ضرورت اس سے باتیں ہوتی ہیں، تھان لیتے وقت آدھا ہاتھ جس میں مہندی اور چوڑی ہوتی ہے باہر نکالنا پڑتا ہے جو غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کے وقت پیدل چل کر گھر جاتی ہیں جوانتہائی بے حیائی ہے اور اگر چاندنی رات ہو تو اس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ ڈولی میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پلو یا آنچل باہر لٹک رہا ہے یا کسی طرف پردہ مکمل گیا یا عطر و پھلیل اس قدر ہے کہ راستے میں خوشبو ہی خوشبو ہے۔ یہ نا محرموں کے سامنے بناؤ سنگھار ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ عورتیں یہ بھی کرتی ہیں کہ ڈولی سے اتریں اور ایک دم گھر میں داخل ہوگئیں یہ خیال نہیں کرتیں کی گھر میں کوئی نامحرم بیٹھا ہو۔ محفل میں بہشتی آتا ہے تو منہ پر نقاب ڈال لیتا ہے مگر دیکھتا سب کو ہے۔ بعض دفعہ دس بارہ سال کے لڑے گھر میں آجاتے ہیں جس سے بے پردگی ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر کسی تقریب و رسم اور ملنے جلنے کی وجہ سے گھر سے نکلنا وہ بے حیائی خیال کرتے ہیں۔

(۲۴)

بہشتی زیور سے اس ذہن کی پوری پوری عکاسی کرتی ہے جو ہندوستان میں جاگیردارانہ ثقافت اور اقدار نے بنایا تھا۔ لیکن بہشتی زیور جدید خیالات و افکار اور سماجی شعور کو نہیں روک سکی اور قدیم روایات کی فرسودگی کو اس کے ذریعے کوئی استحکام نہیں ملا۔
This Mubarak Ali is the biggest fraud and liar and his lies has been exposed several times.
 
Nonsense, that has nothing to do with Islam!

But that is the entire "thought process" behind supposedly the most authentic Islamic books on these matters. This book is so much popular, maybe you aren't aware of it, that it is gifted during weddings to the bride to make her well versed in the art of self-enslavement and utter submission to her husband. And well, the author of the critical summary is citing from the same books and includes them as his references.
 
Behashti Zewar is a man written book not the word of ALLAH, criticism is fine. But I don't get what Mubarik Ali wants.


He wants the society that saw video clips of what happened in internet cafes of Rawalpindi? (and result was many girls and boys killing themselves of the shame). I don't get it how jeans wearing, adhi nang dharang women can be considered successful, educated, sophisticated, modern, enlightened, free??????


Talks of the women rights is fine, but first define the rights................... banning women or criticizing them for wearing veils is not something that could be defined as struggle for women rights? US and allies waged the whole war just by selling the idea of women are being oppressed and showing the pictures of burqa wearing women in Afghanistan and modern, well-educated society did not even bother to research about it and bought the idea, result? Millions killed, millions handicapped, millions orphaned, millions widows.


For once Pakistan and Pakistanis need to decide either they want a society that would tolerate online bidding of virginity so the seller could afford her education expenses or a society that really would care about "Hudood ALLAH".? The hypocrisy needs to end either you declare we don't want Islam and its practices and stop taking cover under Islam for our personal interests and benefits or we start researching and introspecting about what Islam wanted from us and what we actually became. Being liberal and secular is okay with me, but the extreme is not good, I am not a good Muslim, but this much I believe when it comes to Hudood ALLAH, you better be cautious or result would be disastrous.


Law of the nature at some time makes the woman realise her role and position, I have seen my colleagues with best education retiring on their own will because they felt they want to be better moms and wives, not some money earning machines. And better moms and wives would not want their little baby girls to watch Katrina type actresses. So what exactly is it that we want for women? Rawalpindi cafe situation with hidden video cams? Any super model or actresses as role model? or smoking and drinking human right activists like Asma Jahangiri and types? If we had the blessing of our moms grooming us, staying with us at homes, listening to our foolish talks and wishes, caring for us, feeding us, so does every generation deserve this right for their mom to be with them in their early learning age.
 
But that is the entire "thought process" behind supposedly the most authentic Islamic books on these matters. This book is so much popular, maybe you aren't aware of it, that it is gifted during weddings to the bride to make her well versed in the art of self-enslavement and utter submission to her husband. And well, the author of the critical summary is citing from the same books and includes them as his references.
A relevant book for its time. Mr Mubarak Ali is trying to dissect this book from today's perspective, which is wrong. There was a time when this book was indeed given to every bride (belonging to Deobandi School of thought) but now it is not that common. It may still be given to this day but do not expect English -medium (even those from Urdu medium) brides to go through it and submit themselves as slaves to their husbands.

Mubarak saheb is talking about feudal system and declaring Moulana Ashraf Ali Thanvi as a representative and protector of the system; I am not sure if Mubarak saheb really understands a typical indian Muslims household belonging to old feudal system. Well, let me enlighten him for my family belongs to such a feudal system, a system that practically provides a woman with plenty of servants that would carry out all the household chores. I have seen my grand mother, aunts, and mother to rule like queens and princesses, who were available with an army of servants to serve them and their men. What Mubarak sahib is saying may be true for lower or lower middle class Indian family but certainly not for middle or upper middle class families. Women were salves to their husband... I can only laugh on this claim and his general knowledge on this subject.

I have read Behishti Zewar completely and repeatedly and while there is some objectionable material (as per today's norms and standards) there are many more good things, which Mubarak saheb has totally omitted in his analysis, a hallmark of intellectual dishonesty.

Bahisti Zewar "One of the most authentic book of Islam" ......... MY A$$.
There is no need to ridicule a book like this. Nobody is asking you to give it to your daughter as part of her dowry.
 
Last edited:
It gives an insight into the opposition to modernity and secular education present during the British rule among Muslims and more importantly the censorship, severe restrictions on functioning and movement, suppression of free thought that the Mullahs of the past wanted to impose on the opposite gender.


And they have succeeded to do just that in today's Pakistan, and not just on the women, but society-wide.
 
I read somewhere once that all women have a built-in innate modesty hardwired into their DNA.

I think it is a very desi thing to look at white chicks and automatically think of them as low moral sluts.

A slut is in the mind, not in the clothes. At least in my limited experience on earth that is what I have personally encountered.
 
Here is the English version. Don't know how authentic the translation is, but enough for people to go nuts!!
 

Attachments

  • bahishti_1_2_3.pdf
    1.3 MB · Views: 55
  • bahishti_4_5_6_7.pdf
    1.9 MB · Views: 59
A relevant book for its time. Mr Mubarak Ali is trying to dissect this book from today's perspective, which is wrong. There was a time when this book was indeed given to every bride (belonging to Deobandi School of thought) but now it is not that common. It may still be given to this day but do not expect English -medium (even those from Urdu medium) brides to go through it and submit themselves as slaves to their husbands.

Mubarak saheb is talking about feudal system and declaring Moulana Ashraf Ali Thanvi as a representative and protector of the system; I am not sure if Mubarak saheb really understands a typical indian Muslims household belonging to old feudal system. Well, let me enlighten him for my family belongs to such a feudal system, a system that practically provides a woman with plenty of servants that would carry out all the household chores. I have seen my grand mother, aunts, and mother to rule like queens and princesses, who were available with an army of servants to serve them and their men. What Mubarak sahib is saying may be true for lower or lower middle class Indian family but certainly not for middle or upper middle class families. Women were salves to their husband... I can only laugh on this claim and his general knowledge on this subject.

I have read Behishti Zewar completely and repeatedly and while there is some objectionable material (as per today's norms and standards) there are many more good things, which Mubarak saheb has totally omitted in his analysis, a hallmark of intellectual dishonesty.

I don't understand. How can such a book with visible tones of severe narrow mindedness, suppression of free thought and functioning be considered relevant for its own time too? It is my opinion that the questions of women education, her movement and basic functioning aren't bounded by an era or a time period regardless of what the society was or is practicing at that time, meaning it cant be declared wrong or false because of the perspective back then, now or again at some point in time. You can argue about the level of obedience, freedom, duties and general perception in society, by all means. Yes, it would be absurd to even remotely suggest that people go through it today and act as told in the book, this is something even Mr. Mubarak Ali acknowledges not happening (completely) in the said time period. The simple point was that a Mullah was even then trying to discourage the opposite gender from using their free critical thinking faculties and exploiting the mind numbing optiatic effects of religion in the God's name to create authority, get people to believe in what he believes in (not what the religion wants), breeding the slave mentality (those who follow without questioning) and promotion of self-interests.

Well then, explain me the typical Indian muslim household in the feudal system. Because what you are referring to, from a good life for the upper class or downright rich people (the author notes this exception) wouldn't have been so rosy for the middle classes and rich garden varieties. What you refer to constitutes a very small part of the population, maybe 2-5 percent of the society. Of course, the army of servants wouldn't have serving those, where they usually came from. And no, you might have taken the "women were slaves" a little bit more literally, what Maulana wanted in the name of religion was mere suggestion and order like advice, that to what level it was being followed by the women of his era is an interesting but difficult question to answer, it wasn't however enforcement by any chance.

I have read a few pages of the book on question out of boredom, a long time ago. It seemed similar to what the author is alleging now, plus the references from the same book are solid. Since you have read both the book and article, tell us if he's wrong or mistaken somewhere, specially in the parts about religion and literary guidelines.

Behashti Zewar is a man written book not the word of ALLAH, criticism is fine. But I don't get what Mubarik Ali wants.


He wants the society that saw video clips of what happened in internet cafes of Rawalpindi? (and result was many girls and boys killing themselves of the shame). I don't get it how jeans wearing, adhi nang dharang women can be considered successful, educated, sophisticated, modern, enlightened, free??????


Talks of the women rights is fine, but first define the rights................... banning women or criticizing them for wearing veils is not something that could be defined as struggle for women rights? US and allies waged the whole war just by selling the idea of women are being oppressed and showing the pictures of burqa wearing women in Afghanistan and modern, well-educated society did not even bother to research about it and bought the idea, result? Millions killed, millions handicapped, millions orphaned, millions widows.


For once Pakistan and Pakistanis need to decide either they want a society that would tolerate online bidding of virginity so the seller could afford her education expenses or a society that really would care about "Hudood ALLAH".? The hypocrisy needs to end either you declare we don't want Islam and its practices and stop taking cover under Islam for our personal interests and benefits or we start researching and introspecting about what Islam wanted from us and what we actually became. Being liberal and secular is okay with me, but the extreme is not good, I am not a good Muslim, but this much I believe when it comes to Hudood ALLAH, you better be cautious or result would be disastrous.


Law of the nature at some time makes the woman realise her role and position, I have seen my colleagues with best education retiring on their own will because they felt they want to be better moms and wives, not some money earning machines. And better moms and wives would not want their little baby girls to watch Katrina type actresses. So what exactly is it that we want for women? Rawalpindi cafe situation with hidden video cams? Any super model or actresses as role model? or smoking and drinking human right activists like Asma Jahangiri and types? If we had the blessing of our moms grooming us, staying with us at homes, listening to our foolish talks and wishes, caring for us, feeding us, so does every generation deserve this right for their mom to be with them in their early learning age.

I believe that you are trying to take the discussion in an entirely different direction. It's an old problem of my countrymen that they falsely or mistakenly attribute modernity, secularism or secular education with nudity, sexual deviation and perversion. In fact, one of the most common sentences I hear while talking from a secular point of view is Tu kia nange ghoomen (Shall we roam around naked?). Now what the author actually wants is open for discussion since he specifies it nowhere in the article. However I sincerely doubt is that he wants people to swing from one extreme to another extreme. His hatred and repulsion to a clergy telling his mother, wife and sister how much to educate themselves, what and how much to read, what and when to do, how to behave, what to say where e.t.c is far too clear though. Let's talk about it.
 
I don't understand. How can such a book with visible tones of severe narrow mindedness, suppression of free thought and functioning be considered relevant for its own time too? It is my opinion that the questions of women education, her movement and basic functioning aren't bounded by an era or a time period regardless of what the society was or is practicing at that time, meaning it cant be declared wrong or false because of the perspective back then, now or again at some point in time. You can argue about the level of obedience, freedom, duties and general perception in society, by all means. Yes, it would be absurd to even remotely suggest that people go through it today and act as told in the book, this is something even Mr. Mubarak Ali acknowledges not happening (completely) in the said time period. The simple point was that a Mullah was even then trying to discourage the opposite gender from using their free critical thinking faculties and exploiting the mind numbing optiatic effects of religion in the God's name to create authority, get people to believe in what he believes in (not what the religion wants), breeding the slave mentality (those who follow without questioning) and promotion of self-interests.

Well then, explain me the typical Indian muslim household in the feudal system. Because what you are referring to, from a good life for the upper class or downright rich people (the author notes this exception) wouldn't have been so rosy for the middle classes and rich garden varieties. What you refer to constitutes a very small part of the population, maybe 2-5 percent of the society. Of course, the army of servants wouldn't have serving those, where they usually came from. And no, you might have taken the "women were slaves" a little bit more literally, what Maulana wanted in the name of religion was mere suggestion and order like advice, that to what level it was being followed by the women of his era is an interesting but difficult question to answer, it wasn't however enforcement by any chance.

I have read a few pages of the book on question out of boredom, a long time ago. It seemed similar to what the author is alleging now, plus the references from the same book are solid. Since you have read both the book and article, tell us if he's wrong or mistaken somewhere, specially in the parts about religion and literary guidelines.



I believe that you are trying to take the discussion in an entirely different direction. It's an old problem of my countrymen that they falsely or mistakenly attribute modernity, secularism or secular education with nudity, sexual deviation and perversion. In fact, one of the most common sentences I hear while talking from a secular point of view is Tu kia nange ghoomen (Shall we roam around naked?). Now what the author actually wants is open for discussion since he specifies it nowhere in the article. However I sincerely doubt is that he wants people to swing from one extreme to another extreme. His hatred and repulsion to a clergy telling his mother, wife and sister how much to educate themselves, what and how much to read, what and when to do, how to behave, what to say where e.t.c is far too clear though. Let's talk about it.
Its neither oppressive nor all the crap and lie you said. Problem with our liberals is that they want to see women naked and disgraced just like done in showbiz they are the real oppressors.
 

Country Latest Posts

Back
Top Bottom