What's new

Political Columns

Anchor Person part, I like the most. :lol:
col7.gif
 
With all due respect for Mr Siddique and Mr Sharif, I find this argument absurd, if political king makers initialy decided that Mr Jatoi should be the PM after Mrs Bhutto and then later make a shift in their pawn for any reason what so ever doesn't change anything.
removing Mrs Bhutto via chanalising anti PPP forces was the basic motive of "fathers" of IJI at that time which was achived tactfully Mr N.Sharif or Mr Jatoi as next PM wasnt their concern as obideince to "fathers" was an attribute collection stars of all IJI element possessed and all were already in fathers' pocket.
 
10-29-2012_125142_1.gif


IK ny tamam American shara'it maan leen is liyah masla end ho gaya. this the only reason IK didnt protest in front of UN Head quarters. :meeting:

col7.gif
 

امتحان قوم کا ہے عمران خان کا نہیں
محمد زاہد باجوہ پسروری
محمد زاہد باجوہ پسروری |
31 اکتوبر 2012
امتحان قوم کا ہے عمران خان کا نہیں

اکیلا آدمی نہیں، کارواں ، فرد نہیں، قوم، تاریخ کا دھارا لیڈر ضرورموڑتا ہے، مگر اس کا ہم سفر ایک پُرعزم کارواں ہوتا ہے جو راستے میں آنے والے پہاڑ زیر کرتا اور چٹانیں ٹھوکروں سے لڑھکا دیتا ہے۔ایک بہادر اور دانا رہنما کا ہوتاجتنا ضروری ہے ، اس سے کہیں زیادہ جذبہ و جنوں سے بھرپور کارواں بھی ضروری ہوتا ہے۔پاکستان کا خواب پیش کرنے والے عظیم شاعر نے تعبیر بھی بتا دی تھی:

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

امتحان شروع ہوچکا، مگر امتحان میرکارواں کا نہیں، کارواں کا ہے۔راہبر عمران خان تو اپنی متاع حیات لٹا چکاہے۔وقت، پیسہ اور خاندان کی قربانی دے کر سرخرو ہو چکا۔ ورلڈکپ، شوکت خانم، نمل اور تحریک انصاف کی صورت میں عوام کو کامیابی کا راستہ دکھا کر منزل کا پتا بتا چکا۔ امتحان اب عوام کا ہے کہ وہ کتنی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں؟ آکٹوپس کی گرفت سے نظام آزاد کرانے میں سنجیدہ ہیں یا آنکھیں بند کرکے اپنی بربادی کا کھیل انجوائے کرتے ہیں؟

ریاست مشین کی طرح ہوتی ہے۔ہر فرد اس کا کوئی نہ کوئی اہم پرزہ....یہ ناممکن ہے کہ چند لوگ یا ایک مخصوص طبقہ ہی فعال ہو،باقی کروڑوں لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ ہر فرد کا اپنا کردار ہے،جو اسے ادا کرنا ہوگا، اگر نہیں کرے گا تومشین اپنی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی اور بالآخر ناکارہ ہو جائے گی۔لیڈر میں یہی خوبی ہوتی ہے کہ پرزے کو متحرک کرتا ہے اور مشینری کی کارکردگی سو فیصد بڑھ جاتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکمران جماعتوں اور بیشتر سیاسی گروہوں پر قابض چند مخصوص خاندان دانستہ اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہے اور اسی ناسمجھی میں ان کا اقتدارقائم و دائم ہے، ان کی آنے والی نسلوں کے لئے ایسا ہی نظام سود مند ہے، جبکہ ان کے حواریوں کے وارے نیارے بھی اسی کوڑھی سلسلے سے ممکن ہیں۔

اٹھارہ کروڑ لوگوں کو ساتھ ملا کر سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔ کپتان اس امید سے آگے بڑھ رہا ہے کہ عوام اس کے ساتھ چلیں گے۔موروثی سیاسی گروہ تو عوام کو ہرگز متحرک نہیں کریں گے اور نہ ہی عام آدمی کو شریک اقتدار کرنے کا ان کا دور دور تک کوئی وژن ہے، کیونکہ سود کا کاروبار کرنے والابنیا کبھی اپنے قرض داروں کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک نہیں کرتا کہ اس کی دکانداری انہی کی بے بسی کی مرہون منت ہی تو ہوتی ہے، لیکن وقت بڑی سبک رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ملکی نظام پر قابض مافیا کے اختتام کا منظر زیادہ دور کی بات نہیں۔سامنے کا منظر یہ ہے کہ پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی اپنے انجام سے دوچار ہو چکے،باقیوں کا حشر بھی کم و بیش ایسا ہی ہوگا یا ہو سکتا ہے، ان سے بھی زیادہ کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قانون مضبوط ہو رہا ہے اور کرپٹ مافیا کمزور،ناجائز اثاثے اب احتساب کے شکنجے میں آکر رہیں گے اور سب لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔اصغر خان کیس سے ابتدا ہو چکی۔ اشرافیہ بدترین خوش فہمی کی شکار ہے کہ استحصالی نظام چلتا رہے گا۔دھوکہ صریحاً دھوکہ.... سداکس کی بادشاہی رہی ہے، تخت و تاج نے کس سے وفا کی، سب اجڑنے کے لئے ہے، ہر عروج کو زوال ہے۔

قرآن نے صاف کہہ دیا: ”عصر کی قسم کہ انسان نقصان میںہے“.... مگر موروثی سیاسی گروہ پھر بھی نہیں سمجھ رہے ، ان کی عقلوں پر ہوس کا پردہ پڑ چکا اور ان کے قصیدہ گو بھی بڑے عیار ہیں۔جورنگ کو خالص سونا ثابت کرنے میں مگن ہیں۔جانتے بھی ہیں کہ رنگ لوہے کو کھا جاتا ہے، مگر ان کا یہی فن ہے۔عام انسان کا دل اور زبان کا تال میل ہوتا ہے، جبکہ درباریوں کا زبان و جیب کا۔جیب جتنی گرم ہوگی ،چاپلوسی اور خوشامد اسی قدر زیادہ۔ بدھو کو افلاطون بنانے کے جادوگر ہوتے ہیں اور یہی ان کا ہنر ہے۔ خوف خدا کیجئے، تاریخ سے سبق حاصل کیجئے۔ اپنے سامنے پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں گزرے حکمرانوں کی تصاویر ترتیب وار رکھ لیجئے اور ایک ایک پر نگاہ ڈالئے اور ان میں سے بیشتر کے انجام پر غور کیجئے۔آپ جتنے مرضی بے حس و پتھر دل ہوں، لیکن پکار اٹھیں گے کہ یہ دنیاعبرت کی جا ہے، تماشہ نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب کبھی دنیا کی حقیقت جاننا چاہتے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا چاہتے تو اکثر ویرانے میں نکل جاتے اور ماضی کے کسی شاندار عمل کے اجڑے ہوئے کھنڈر کے سامنے کھڑے ہوکر پکارتے :”کہاں ہیں تمہارے اونچے اونچے محلات ،کدھر ہیں اس میں رہنے والے، کہاں گئی ان کی شان و شوکت اور جاہ و حشمت....اللہ اکبر، اللہ اکبر“۔

مت بھولئے جب خدا کا قہر فرعونوں پر نازل ہوتا ہے تو صرف فرعون ہی دریا برد نہیں ہوتے۔اس کے درباری بھی غرق ہو جاتے ہیں کہ اقتدار و حاکمیت خدا کی امانت ہے جو اس میں خیانت کرتا ہے،اسے اصل مالک کے انتقام کا نشانہ بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔خلق خدا کی بددعائیں عرش ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور جب عرش سے فیصلہ نازل ہوتا ہے توفرعونوں کے مظالم میں شریک ہر کل پرزے کو نیست و نابود کردیا جاتا ہے،حتیٰ کہ گھوڑے اور ہاتھی بھی۔تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ فرعون کبھی اکیلا نہیں ڈوبتا،پوری کی پوری فرعونیت غرق ہوتی ہے۔ظالمانہ حاکمیت کا مقدر عبرتناک انجام ہے۔امتحان شروع ہوچکا۔اٹھارہ کروڑ لوگوں کا اصل امتحان شروع ہوچکا کہ وہ اپنے وطن میں تبدیلی کے لئے کتنی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ وہ کاروان کی تشکیل میں کس قدر سرگرم ہے،ملکی نظام کو مافیا کے تسلی سے چھڑانے میں کس قدر سنجیدہ ؟اپنے آپ سے سوال پوچھئے بجائے عمران خان سے سوالنامے کے جواب تلاش کرنے کے.... جو خود سب کچھ پہلے ہی قربان کرکے اپنی سچائی کی مہر ثبت کرچکا ۔ ہے کوئی ایسا بے لوث شخص کہ جس نے وقت، پیسے اور خاندان کی قربانی دے دی ہو ۔

کسی بھی انسان کا یہی کل اثاثہ ہوتا ہے ، اسے کوئی سرپھرا ہی قربان کرسکتا ہے ، ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور ان کے تو بالکل بھی نہیں، جو سیاست کو بھی تجارت سمجھتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ کے بعد چراغوں میں کوئی روشنی نظر نہیں آتی، سب قربانی دینے کی بجائے لوٹنے والے لٹیرے ....اصغر خان کیس نے تابوت کا ڈھکن اٹھا دیا ہے، بدبو سے دم گھٹ رہا ہے....ورلڈکپ، شوکت خانم ،نمل اور پھر تحریک انصاف کا پلیٹ فارم ....کپتان نے عوام کے لئے اپنا اخلاص ثابت کردیا ہے۔کپتان سرخرو ہو چکا۔اس کے بدترین حاسد بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایمان دار اور بے لوث انسان ہے۔ڈسپلن پر کمٹمنٹ نہیں کرتا۔کرپشن کا اس پر شائبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔بہادر اور جنگجو ہے ،جس کام کو کرنے کا ارادہ کرلے، کرگزرتا ہے۔”انہیں“ اعتراض ہے تو اس کے قافلے میں شامل چند ہم رنگ لوگوں پر، اسی کو اس کے مخالفین گروہوں کے نمک خوار چند قصیدہ گو جواز بنا کر دن رات مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔

کیا یہ سب سوالات اٹھانے والے اور عقل کل منطقبوں کو زیب دیتا ہے جو خود کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں اور دوسرے کے پاﺅں سے لگے کیچر پر برانگیختہ ہوں، ہرگز نہیں۔ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ کارواں کو تشکیل دے اور کرپٹ و فرسودہ نظام کو تبدیل کرے۔ محنتی، ایماندار اور بے لوث رہنما موجود ہیں، ضرورت ہے تو کارواں کی تشکیل کی جو انشاءاللہ بن رہا ہے اور بنتا چلا جائے گا۔جہاں چشمہ ہو،وہاں اردگرد بستیاں آباد ہوجاتی ہیں۔صحرا کے مقدر میں اجڑنا لکھا ہوتا ہے۔ 15سال پہلے اس کے ساتھ کون تھا،گنتی کے چند لوگ اور آج وہ پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر بن چکا۔کرپٹ مافیا اور موروثی گروہوں کی بقاءکو لاحق خطرے کا خوف ہے۔سانپ کے بھی جب سر پر جان لیواضرب لگ جائے تو وہ سارا زہر اُگل دیتا ہے۔حواریوں اور درباریوں کا زہر اُگلنا فطری بات ہے۔ریاضت کش رہنما موجود ہے، اس کی سچائی پر اس کے دشمن بھی یقین کرتے ہیں، لیکن اب عوام کو سنجیدگی سے کارواں تشکیل دینا ہوگا اور عام آدمی کو کارواں میں شامل ہو کر ملک کی بقاءکے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ہم سب کا فرض ہے کہ موروثی سیاسی گروہوں اور ملکی نظام کو کرپٹ مافیا سے نجات دلائیں۔

اکیلا کپتان کچھ نہیں کرسکتا،جب تک اس کے ہم سفر ہم سب نہ ہوں۔پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ہرآدمی کا اپنا ایک رول ہے، اگر وہ جائزہ لے تو بہت ہی اہم رول، جو بھی فرد سستی و کاہلی کا شکار ہوگا، اس کے حصے کا خلا رہ جائے گا۔ہر پاکستانی کا امتحان شروع ہو چکا کہ وہ تبدیلی کے لئے عملی طور پر کیا کرتا ہے اور کس قدر قربانی دینے کے لئے تیار ہے؟کپتان تو متاع حیات، وقت، پیسے اور خاندان کی قرانی دے کر سرخرو ہو چکا۔قوم کو اپنے آپ سے سوال کرنا ہے کہ وہ کیا کررہی ہے؟.... تبدیلی آپ کی حرکت سے وابستہ ہے، انقلاب آپ کے پاﺅں کی ٹھوکروں کا منتظر ہے۔اس نظام کو تبدیل کرنے کے سارے راستے کھلے ہیں۔ میر کارواں آپ کا انتظار کررہا ہے۔ کارواں چلے گا تو انقلاب کا سورج اس کا استقبال کرے گا۔ امتحان اب کارواں کا ہے،میر کارواں کا نہیں۔کارواں نے آگے بڑھ کر میر کارواں کے ساتھ منزل کی طرف گامزن ہونا ہے۔اکیلا آدمی نہیں کارواں، فرد نہیں قوم، تاریخ کا دھارا لیڈر ضرور موڑتا ہے، مگر اس کا ہم سفر ایک پُرعزم کارواں ہوتا ہے، جو راستے میں آنے والے پہاڑ زیر کرتا ہے اور چٹانیں پاﺅں کی ٹھوکروں سے لڑھکا دیتا ہے۔ ٭


IK ny tamam American shara'it maan leen is liyah masla end ho gaya. this the only reason IK didnt protest in front of UN Head quarters.

No, because of Eid.
 
No, because of Eid.

Since 17 October evening, v knew the exact day and date of Eid then why IK cancell protest after detention at airport ? why not earlier ? ? ?
koi ahmaqoon ke jannat mai rahna chahy to rahta phiray !!!
 
Back
Top Bottom