What's new

Panama leak Case Proceedings - JIT Report, News, Updates And Discussion

Status
Not open for further replies.
جے آئی ٹی اور مریم نواز کی ملاقات کا ایک تخیلاتی منظرنامہ
-------------------------------------------------

جے آئی ٹی : آپ کا ذرائع آمدن کیا ہے؟
مریم نواز: جی میں والد کے زیرِ کفالت ہوں

جے آئی ٹی: کپٹن صفدر کتنا کماتے ہیں ؟
مریم نواز: ان کا اپنا زرعی رقبہ اور آبائی گھر ہے؟

جے آئی ٹی: تو پھر آپ ان کے زیرِ کفالت کیوں نہیں ہیں ؟
مریم نواز: کیونکہ وہ بھی والد کے زیرِ کفالت ہیں

(جے آئی ٹی ممبران نے ایک دوسرے کو دیکھا)

جے آئی ٹی: اگر آپ دونوں میاں بیوی اپنے والد کے زیرکفالت ہیں تو آپ کا بیٹا جنید کی تعلیم کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے ؟
مریم نواز: بیٹے جنید کی تعلیم اور گولف کے اخراجات بھی والد صاحب برداشت کر رہے ہیں

جے آئی ٹی: (کاغذات دیکھتے ہوئے) آپ کے والد صاحب کے الیکشن کمیشن کے گوشواروں کے مطابق تو وہ اپنی والدہ کے گھر میں رہتے ہیں، تو پھر والد صاحب کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ؟
مریم نواز: والد کو پیسہ میرے بھائی حسین نواز نے دیا ہے

جے آئی ٹی: حسین نواز کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ؟
مریم نواز: جی وہ بھی میرے والد کے زیرِ کفالت ہیں

(جے آئی ٹی کے ممبران نے ایک دوسرے کو پریشانی سے دیکھا اور پانی کا گلاس پی کر اگلا سوال پوچھا)

جے آئی ٹی: بیٹے جنید کے اخراجات کون بھر رہا ہے ؟
مریم نواز: میرے والد

جے آئی ٹی: اور والد کے پاس پیسے کہاں سے آئے ؟
مریم نواز: میرے بھائی حسین نواز نے دیے

جے آئی ٹی: آپ کا بھائی حسین نواز اور بیٹا جنید کہاں رہتے ہیں ؟
مریم نواز: دونوں برطانیہ میں رہتے ہیں

جے آئی ٹی: تو پھر حسین نواز نے تعلیمی اخراجات براہ راست جنید کو ہی کیوں نہیں دے دیے ؟ پیسوں کو پاکستان کا چکر کیوں لگوایا ؟
مریم نواز: دیکھیں! یہ ہمارے گھر کا ذاتی معاملہ ہے کہ کس نے کس کو پیسے دیے۔ آپ صرف وہ سوال کریں جو کیس کے متعلق ہیں

(جے آئی ٹی ممبران نے ایک گہرا سانس لیا اور اگلا سوال کیا)

جے آئی ٹی: آپ ان کمپنیز اور فلیٹس کی بینیفیشل اونر کب سے ہیں ؟
مریم نواز:2011 سے

جے آئی ٹی: لیکن سپریم کورٹ میں آپ نے تسلیم کیا کہ یہ کمپنیز اور فلیٹس آپ نے 2006 میں خریدے
مریم نواز: اس وقت اونر حسین نواز تھا

جے آئی ٹی: تو پھر آپ نے 2011 میں فون کر کے یہ کیوں کہا کہ آپ کی اور اور آپ کے بھائیوں کی کوئی جائیداد نہیں ہے
مریم نواز: میرا ثناء بچہ کے ساتھ مذاق ہے۔ آپ کو ہماری دوستی سے کیوں جلن ہو رہی ہے؟ ہم دونوں سہیلیاں جو مرضی باتیں کریں

(جے آئی ٹی ممبران جھنجلا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے)

جے آئی ٹی: اچھا یہ بتائیں چھوٹا بھائی حسن نواز ان فلیٹس میں کب سے رہ رہا ہے؟
مریم نواز: 1993 سے

جے آئی ٹی: لیکن حسن نواز تو 1999 تک ان فلیٹس کا کرایہ دیتا رہا ہے تو کیا وہ کرایہ اپنے بڑے بھائی کو دیتا تھا ؟
مریم نواز: دیکھیں یہ بھی ہمارے گھر کا ذاتی معاملہ ہے۔ آپ صرف کیس سے متعلق سوال کریں

(یہ سن کر جے آئی ٹی ممبران نے سر کے بال نوچ لیے)

جے آئی ٹی: یہ سارا سرمایہ کہاں سے آیا ؟
مریم نواز: ہم جدی پشتی امیر ہیں، کاروباری ہیں، ہم نے خود کمایا ہے

جے آئی ٹی: تو پھر قطری خط میں یہ کیوں لکھا ہے کہ پیسہ قطری شہزادے نے دیا
مریم نواز: لیکن اس سے یہ ثابت تو نہیں ہوتا کہ ہم امیر نہیں ہیں اور کاروبار اور جائیدادیں نہیں خرید سکتے !!!۔

جے آئی ٹی: تو پھر آپ کے والد اپنی والدہ کے گھر میں کیوں رہتے ہیں ؟ اور جب والد کا اپنا سورس آف انکم نہیں ہے تو پھر آپ ، آپ کے شوہر اور بچے، آپ کے والد کے زیرِ کفالت کیسے ہیں ؟
مریم نواز: دیکھیں یہ سب باتیں ہماری گھر کی اندرونی باتیں ہیں۔ آپ صرف کیس کے متعلق سوال کریں

یہ سب سن کر جے آئی ٹی کے ممبران کھڑے ہوئے، مریم کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا: میڈم آپ جا سکتی ہیں. تفتیش پوری ہوگئی.
یہ سن کر مریم نے ہاتھ نچا کر کہا: ایسے کیسے پوری ہوگئی. پہلے یہ بتاو کہ ہمارے پہ الزام کیا ہے.

یہ سن کر جے آئی ٹی کے ممبران سکتے میں آگئے اور ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے.

:lol::lol::lol::lol:

kuchh main ne bhi kia hai, takhayyulati tajzia



کچھ ممکنہ سوالات اور ان کے جوابات


١ - آپ کے بچوں کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے

ج - میرے والد، اور میرے بچوں کے نانا، آپ کو کوئی اعتراض

٢ - والد کا تو کوئی کاروبار ہی نہیں، والد اپنی سرکاری نوکری سے کیسے برداشت کرتے ہیں

ج - والد کو میرا بھائی پیسے بھیجتا ہے

٣ - بھائی کا کاروبار؟

ج - یہ آپ اس سے پوچھیں

٤ - حسن نواز اس سوال کا جواب تو دیتے ہی نہیں، وہ تو کہتے ہیں کے قانونی طور پہ ان کو جواب دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں رہتے، پھر وہ کہاں رہتے ہیں

ج - وہ لندن میں رہتے ہیں، انہوں نے قانونی نکتہ ٹھیک اٹھایا ہے، آپ انھیں مجبور نہیں کرسکتے

٥ - لیکن آپ کے بھائی کہاں رہتے ہیں؟ کیا ان کے اپنے گھر ہیں؟

ج - جی ہاں

٦ - کب سے؟

ج - ٩٠ کی دہائی سے، پہلے کرائے پر اور ٢٠٠٦ کے بعد وہ فلیٹ اپنی ملکیت میں آگئے

٧ - لیکن یہ ڈاکومینٹس تو کچھ اور کہتے ہیں

ج - یہ میرے دستخط نہیں ہیں، میں ٢٠٠٦ میں ان فلیٹس کی ٹرسٹی بنی تھی کچھ عرصے کے لئے

٨ - کتنے عرصے کے لئے؟

ج - میں تاریخیں یاد نہیں رکھتی، آپ کے پاس ٹرسٹ کے ڈاکومینٹس ہیں، آپ خود دیکھ سکتے ہیں

٩ - آپ کو ٹرسٹ کا ٢٠٠٦ میں ہی پتہ چل گیا تھا؟

ج - جی ہاں، لیکن یہ کیسا سوال ہے؟

١٠ - کیوں کہ ٢٠١٢ تک تو آپ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ کے بھائی کی جائداد ہے

ج - وہ ایک سیاسی بیان تھا

١١ - کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو واقعی نہیں معلوم ہو کہ آپ کے خاندان کی جائداد ہے

ج - جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے

١٢ - ہوسکتا ہے آپ کو نہیں معلوم ہو کہ یہ جائداد آپ کے نام ہے، اسی لئے آپ اپنے دستخط سے بھی انکاری ہیں

ج - مفروضوں کے جوابات دینے نہیں آئی میں یہاں

١٣ - تو آپ کا بھائی اصل میں آپ کے بچوں کے خرچے اٹھا رہا ہے

ج - جی نہیں، میرے والد اٹھا رہے ہیں

١٤ - لیکن والد تو خود بیٹے سے پیسے لیتے ہیں

ج - لیکن والد کی سرکاری آمدنی اتنی ہے کے انھیں ضرورت نہیں

١٥ - لیکن کیا سرکاری آمدنی سے نواسوں کا خرچہ پورا ہوسکتا ہے؟ اس کا مطلب بھائی، والد اور بھانجوں کا خرچہ اٹھا رہا ہے

ج - آپ جو سمجھنا چاہیں سمجھیں
-------------------------------------------
ایسی گفتگو کے بعد جے آئی ٹی والے چکرا کر رہ گئے ہونگے
یہ کچھ ہوا ہوگا آج.. یہ میرے اپنے ذہن کی اختراع ہے.. کوئی بھی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی.. فارغ بیٹھا تھا سوچا کہ ممکنہ سوال و جواب مرتب کروں
 
آئی ایس آئی نے جے آئی ٹی کے انتظامی اور سیکرٹریل امور کا کنٹرول اپنے طورپر نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سنبھالا۔ اسی وجہ سے میڈیا مانیٹرنگ، قانونی پہلو سے معاونت، انتظامی و سیکورٹی سے متعلق معاملات میںجے آئی ٹی کو آئی ایس آئی کی معاونت فراہم کی گئی ، رابطہ کئے جانے پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے تحریری سوالات کے جوابات نہیں دیئے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کی عمل درآمد بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے بھی اس بارے میں استفسار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ کسی کو شکایت ہے تو وہ عدالت میں ان سے رابطہ کرے۔

انہوں نے کہاکہ وہ صرف اپنے فیصلوں کے ذریعہ یا پھر عدالت میں بولتے ہیں اور انہوں نے کبھی کسی ایشو پر نجی گفتگو نہیں کی۔ تاہم جے آئی ٹی کے ذرائع اور وزارت دفاع میں حکام نے تصدیق کی کہ جے آئی ٹی کی کارگزاری کے پہلے دن ہی تمام جے آئی ٹی ارکان کے اتفاق رائے سے فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ انفارمیشن کو محفوظ رکھنا انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔

اگر ہر بات جے آئی ٹی میں زیر بحث لائی جائے یا گواہوں سے پوچھے گئے سوالات افشاء ہوں تو پھر یہ سارا عمل رسوائی اور بدنامی کا باعث بن جائے گا۔یہ ایک بڑی بھاری مشق ہو گی اور اگر جے آئی ٹی ارکان کے تمام محکموں کو جے آئی ٹی سیکرٹریٹ کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر کوئی بھی اطلاع یا معلومات محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی ارکان نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں اس کا جائزہ لیاتھا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق رائے رہا کہ بجائے تمام محکموں سے بڑی تعداد میں افرادی قوت لی جائے صرف ایک محکمے آئی ایس آئی کو سیکرٹریل ذمہ داری سونپ دی اور سپریم کورٹ سے اس کی منظوری لے لی جائے۔

اس بات پر بھی اتفاق پایاگیا کہ زیادہ تر انتظامی امور بھی آئی ایس آئی ہی نمٹائے۔ اس کے علاوہ نیشنل جوڈیشل اکیڈمی میں قائم جے آئی ٹی سیکرٹریٹ اورارکان کی سیکورٹی بھی آئی ایس آئی ہی کے ہاتھوں میں ہو۔ فیصلہ ہوا کہ یہ معاملہ منظوری کے لئے عدالت عظمیٰ کی عملدرآمد بنچ کے سامنے رکھا جائے گا۔

جس کی معزز جج صاحبان نے منظوری دے دی۔ سپریم کورٹ کی عملدرآمد بنچ نے 5مئی 2017کو اپنے حکم نامے میں6 رکنی جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ حکم دیا تھا کہ جے آئی ٹی ارکان اوراس کے سربراہ کو اپنے متعلقہ محکموں سے اپنی مرضے کے عملے کاانتخاب کرنا چاہئے۔ جے آئی ٹی کو اپنے محکموں یا دیگر سے دستیاب مہارت کے استفادے کی آزادی بھی حاصل ہوگی۔

عملدرآمد بنچ نے انتظامی امور نمٹا نے اور سیکورٹی سے متعلق ایشوز میں آئی ایس آئی سے مدد لینے کی تجویز کی بھی منظوری دی۔ اسی وجہ سے میڈیا مانیٹرنگ، قانونی پہلو سے معاونت، انتظامی و سیکورٹی سے متعلق معا ملا ت میں جے آئی ٹی کو آئی ایس آئی کی معاونت فراہم کی گئی چونکہ سپریم کورٹ نے اس منظوری سے میڈیا کوآگاہ نہیں کیا تھا۔

اس لئے جے ا ٓئی ٹی کی کارکردگی کو اس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جے آئی ٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودوں کی تدوین نیب کے عرفان نعیم منگی اورمالی تجزیہ اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز کی ذمہ داری تھی۔

جب بڑے پیمانے پر ایسی بھاری مشق کی جارہی ہو جیسے حکومتوں اور بڑے اداروں کے معاملے میں ہوتو سارا عمل کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس میں مینجمنٹ، ایڈمنسٹریشن، سیکورٹی، فنانس، انسانی وسائل، دستاو یزا ت کی تدوین، تعلقا ت عامہ، ٹیکنیکل، آئی ٹی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام شعبے مل کر سیکرٹریٹ ترتیب دیتے ہیں۔
 
پانامالیکس،مالی بدعنوانیوں کی جےآئی ٹی سےانکوائری کرائے جانےکیخلاف درخواست دائر
لاہور:درخواست وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ کی جانب سے دائر کی گئی
لاہور:پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے، درخواست گزار
مالی بدعنوانیوں کاجائزہ لیناایف بی آر،ایف آئی اے،نیب کادائرہ اختیارہے،درخواست
آئین کےتحت ملکی عدلیہ کسی مالی معاملےکی انکوائری کااختیارنہیں رکھتے،درخواست
لاہور:پانامالیکس سےکسی کےبنیادی حقوق متاثرنہیں ہوئے،درخواست گزار
عدالت عظمی،پانامالیکس کامعاملہ پارلیمانی کمیٹی کوبھجوانےکاحکم دے،درخواست گزار
لاہور:تحقیقات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاسکتی ہے ،درخواست گزار

Barrister Zafarullah Khan is Adviser to the prime minister on Legal Affairs. I don't know how many times this Barrister will file a petition in SC! Har bar ka tamasha hai.

____________________________________________________________________________________________

No more statement recording of Criminals in JIT. This is sad! Acha shughal meela tha Sharifa Mafia rooz sarkon per ghaseeti jati thi :laughcry:

اسلام آباد : چینی وفد کا جوڈیشل اکیڈمی کا دورہ
جے آئی ٹی کا اجلاس جاری ہونے کے باوجود چینی وفد کو نہیں روکا گیا
جوڈیشل اکیڈمی کی انتظامیہ کی جانب سے وفد کا استقبال کیا گیا


:mod::mod:
 
وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز قطر روانہ
حسین نواز کیو آر 615 سے صبح 10بجےکےقریب دوحا روانہ ہوئے ،ذرائع
 
پانامالیکس،مالی بدعنوانیوں کی جےآئی ٹی سےانکوائری کرائے جانےکیخلاف درخواست دائر
لاہور:درخواست وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ کی جانب سے دائر کی گئی
لاہور:پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے، درخواست گزار
مالی بدعنوانیوں کاجائزہ لیناایف بی آر،ایف آئی اے،نیب کادائرہ اختیارہے،درخواست
آئین کےتحت ملکی عدلیہ کسی مالی معاملےکی انکوائری کااختیارنہیں رکھتے،درخواست
لاہور:پانامالیکس سےکسی کےبنیادی حقوق متاثرنہیں ہوئے،درخواست گزار
عدالت عظمی،پانامالیکس کامعاملہ پارلیمانی کمیٹی کوبھجوانےکاحکم دے،درخواست گزار
لاہور:تحقیقات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاسکتی ہے ،درخواست گزار


Barrister Zafarullah Khan is Adviser to the prime minister on Legal Affairs. I don't know how many times this Barrister will file a petition in SC! Har bar ka tamasha hai

Har baar zaleel hi huwa hai yeh is dafa bhi result kuch different nahi hoga and petition will be thrown to dustbin by SC​
 

Ye har doosray din...JIT ke qatar jaanay ki rumor spread kar detay hain..deliberately.. PML N sources ye kartay hain ... Ab JIT ki final report main din hi kitnay reh gaye hain? Mera khyal hai ke ab time nahi hai... Ye PML N ki taraf se delaying tactic hai.. Pooray 2 months baad hussain nawaz qatar jaa kar ye impression dena chah rahay hain ke qatari shehzada tu tayyar tha...JIT nahi jaa rahi qatar..aur JIT ko mazeed controversial banaaya jaye.. Pooray 2 months qatar jaanay ka khyal nahi aaya
 
Last edited:
SC directed ISI to look after Panama JIT affairs
l_214774_084556_print.jpg


ISLAMABAD: The Inter-Services Intelligence (ISI) is in control of secretarial and administrative affairs of the Panama Joint Investigation Team (JIT) as it is not acting on its own but on the direction of the Supreme Court (SC), the JIT sources confirmed to The News.

On being approached, the registrar of the Supreme Court didn’t respond to written questions from The News. However, when The News contacted Justice Ejaz Afzal, the head of the Implementation Bench, and asked him about allowing the JIT to take secretarial support mainly from the ISI, he did not comment but said if anyone was aggrieved, he should approach him in the court. “I only speak through my judgments or in the court and never discuss any issue in private,” Justice Ejaz Afzal added.

However, the JIT sources and officials of the Ministry of Defence confirmed to The News that on the first day of the JIT’s working, it was decided with consensus among all the JIT members that security of information would be the most significant thing to be ensured during the working of the team.

“If each and everything being discussed in JIT, or the questions being asked to the witnesses, are leaked, the whole process will become scandalous. As it will be a huge exercise and if many people from departments of all JIT members will be made part of the JIT Secretariat, no information will remain safe,” the JIT members discussed during the first meeting, according to the JIT sources.

There was a consensus in the meeting, according to the JIT sources, that instead of taking big number of human resource from all departments, the secretarial support should be mainly taken from one department, the ISI, and approval of the Supreme Court should be sought for this purpose. It was agreed that majority of administrative affairs would be dealt with by the ISI. Moreover, the security of the premises of JIT Secretariat (in the National Judicial Academy, Islamabad) and security of the members was also a crucial issue.

It was also agreed that security of the premises of the JIT Secretariat and that of the JIT members would also be handled by the ISI.

The members agreed that the issue would be put before the judges of the Implementation Bench for their approval. The JIT sources said that the consensus of JIT members regarding taking secretarial support mainly from the ISI was approved by the judges of the Implementation Bench.

In its May 5, 2017 order, the Implementation Bench of the Supreme Court while constituting the six-member JIT ordered, “The head and members of the JIT shall arrange secretarial staff of their choice from their respective departments. The JIT would also be at liberty to utilise the expertise available in their departments and any other department of the federal or provincial governments as and when required by it.” As this order was talking about taking secretarial support from all the departments of respective JIT members, so in the light of proposal of its first meeting, the JIT approached the Implementation Bench for approval. The Implementation Bench approved the proposal of taking help from the ISI for handling administrative affairs and security related issues and provision of secretarial support, mainly from the elite intelligence agency.

Therefore, media monitoring, assistance on the legal side and help on other administrative and security related issues was provided by the ISI to the JIT. As media was not informed by the Supreme Court regarding this approval, the JIT working was criticised on the points which were out of its domain. The JIT sources said that documentation and drafting was the responsibility of Irfan Naeem Mangi of NAB and financial analysis was being done by Amir Aziz of State Bank of Pakistan.

When a huge exercise is being carried out on a very large scale, like in case of governments, big organisations, etc, the whole work is divided into many sections like record keeping, management, administration, security, finance, human resource, documentations, public relations, technical, IT, etc. All these wings or sections add up to form a secretariat and by secretarial support we mean providing assistance to an organisation or a body in all these fields.
https://www.thenews.com.pk/print/214774-SC-directed-ISI-to-look-after-JIT-affairs
 
اسلام آباد: پیپلزپارٹی کا جے آئی ٹی کی کارروائی کی وڈیو منظرعام پرلانے کا مطالبہ
وڈیو رکارڈنگ سے شریف خاندان کے جے آئی ٹی پرالزامات کی حقیقت معلوم ہوجائےگی، اعتزاز
جے آئی ٹی کے معاملے پر حکومت ٹوپی ڈرامے کر رہی ہے، اعتزاز احسن
شریف خاندان کے پاس جواب ہوتے تو یہ 3 اپریل 2016 کو ہی دے دیتے، اعتزاز احسن
 
Geo / The News walon ki taraf se..ab Wajid Zia ki khushaamad / chaploosi ka maqsad kia hosakta hai? Divide and rule ki policy par amal kartay huay JIT ko mazeed controversial banaana? Ye portray karna ke sirf "kuch members" sazish karrahay hain?@PakSword @QatariPrince @Guvera @Hyperion @Zibago

Sirf yeh batana chah rahay hain ke yeh unbiased hain.. please koi inn ki baat pe yaqeen karlay ke yeh saray JIT members ko bura nahi kehtay, balkay achay ko acha aur buray ko bura kehtay hain..

Abhi SC ki website check ki.....Next week jo 10th se shuru horaha hai..us main Justice Khosa aur Gulzar ....Islamabad main nahi hain :( :( :cray::cray::cray::cray: Iss ka matlab ke JIT ki final report ke baad jo hearing hogi...woh us se bhi next week se pehle nahi hogi ....17th se week shuru hoga...us main hosakti hai..us se pehle nahi :cray::cray::cray: @PakSword @QatariPrince @Zibago

Jahan 1 saal guzra, wahan yeh aik hafta bhi guzar jaega..
 
Sirf yeh batana chah rahay hain ke yeh unbiased hain.. please koi inn ki baat pe yaqeen karlay ke yeh saray JIT members ko bura nahi kehtay, balkay achay ko acha aur buray ko bura kehtay hain..

Aur aaj The News walon ne ye story file ki hai ke SC ne ISI ko kaha hai secrtarial suport denay ko JIT ko.... Aur..ye advocate se bhi comment lenay pohanch gaye... Hadd hi hogyi.. Advocate ne sahi jawab siya ke kisi ko koi masla hai tu court main aaye.. Aisy privately main koi baat nahi karsakta.. Obviously koi bhi judge..iske ilaawa kiya jawab de sakta hai? Inki himmat dekhein ke ye judge se privately sawaal pooch rahay hain? Kia kisi judge se bhi aisy sawaal kiya jaa sakta hai?

Jahan 1 saal guzra, wahan yeh aik hafta bhi guzar jaega..

:( bas summer holidays qareeb na aajayein :( us waqt tak.. Ab agar holidays ki wajah se panama case ki hearing delay hui tu :angry::angry::guns::guns::guns::sniper::sniper:
 
Aur aaj The News walon ne ye story file ki hai ke SC ne ISI ko kaha hai secrtarial suport denay ko JIT ko.... Aur..ye advocate se bhi comment lenay pohanch gaye... Hadd hi hogyi.. Advocate ne sahi jawab siya ke kisi ko koi masla hai tu court main aaye.. Aisy privately main koi baat nahi karsakta.. Obviously koi bhi judge..iske ilaawa kiya jawab de sakta hai? Inki himmat dekhein ke ye judge se privately sawaal pooch rahay hain? Kia kisi judge se bhi aisy sawaal kiya jaa sakta hai?

Judges bhi to itnay dheelay hain.. Sirf aik journalist ko tauheen e adaalat pe bulwalain, saray theek hojaeingay..

delay hui tu :angry::angry::guns::guns::guns::sniper::sniper:
:lol::lol::lol:
 
Ye babloo kia krny gya h Qatar ?
Pya ko manany k tum hi laj rakh lo hamary kartoton ki ?
 
Status
Not open for further replies.
Back
Top Bottom