What's new

Panama Case - Post Verdict Discussion and Updates

Of course they'll try to build a counter narrative but it'll be really hard for them to claim victimization when they'll be punished on corruption charges
Hi and thank you for replying. The counter narrative is already there and getting ear more and more due to lack of a deserving media ban.

Nawaz's DQ as PM was also a punishment still but the political scene looks contrary to what it should have been due to arguable reasons since but the scene looks better than what it should have been for PMLN after DQ.

They will use the punishment as a proof of their victimization and their gullible voters would love them even more. That's our Sultan Rahi loving awam for you.

The reviews will only matter if they are acquitted from these cases.
The reviews part is all about time wasting bhai. I'm sure the verdicts are gonna come against them in every review or appeal. I mention it because it takes time to go through appeals from high court to supreme and then review of SCP verdict in the end to top off the time consuming exercise.

Time is what the mafia is counting on, wining enough of seats in Elections to rule again, even with help from Zardari who will help to save his next in line behind in the end. The will try to rule through their stooges and launch an offensive against institutions accordingly...they have done it in the past so why not when their life's achievement is at stake - their corruption empire.

Again, they have done it all in the past, it will be a mistake to not expect from them an on going effort to find another SaeeduzZaman and Ziauddin Butt.

@Zibago @QatariPrince @PakSword @Farah Sohail sorry if I'm being lazy but when is Justice Bashir retiring?

What is the exact date of six month completion of NAB references verdict deadline?

You can see where I'm going with these questions.
 
Hi and thank you for replying. The counter narrative is already there and getting ear more and more due to lack of a deserving media ban.

Nawaz's DQ as PM was also a punishment still but the political scene looks contrary to what it should have been due to arguable reasons since but the scene looks better than what it should have been for PMLN after DQ.

They will use the punishment as a proof of their victimization and their gullible voters would love them even more. That's our Sultan Rahi loving awam for you.


The reviews part is all about time wasting bhai. I'm sure the verdicts are gonna come against them in every review or appeal. I mention it because it takes time to go through appeals from high court to supreme and then review of SCP verdict in the end to top off the time consuming exercise.

Time is what the mafia is counting on, wining enough of seats in Elections to rule again, even with help from Zardari who will help to save his next in line behind in the end. The will try to rule through their stooges and launch an offensive against institutions accordingly...they have done it in the past so why not when their life's achievement is at stake - their corruption empire.

Again, they have done it all in the past, it will be a mistake to not expect from them an on going effort to find another SaeeduzZaman and Ziauddin Butt.

@Zibago @QatariPrince @PakSword @Farah Sohail sorry if I'm being lazy but when is Justice Bashir retiring?

What is the exact date of six month completion of NAB references verdict deadline?

You can see where I'm going with these questions.
I think 12 March
 

پاناما جے آئی ٹی کے چاروں بڑے نتائج بے بنیاد اور جعلی تھے اور یہ شدید دبائو میں آ کر دیئے گئے تھے۔ رڈلی نے کیلیبری فانٹ کے 2006ء میں استعمال کے حوالے سے چار اہم شواہد میں سے ایک کو زمین بوس کر دیا جبکہ باقی تین شواہد پہلے ہی غلط یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کیے ہوئے ثابت ہو چکے ہیں۔ مریم نواز اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں اور جے آئی ٹی میں ایک ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی تھی جو کیلیبری فانٹ میں ٹائپ کی ہوئی تھی، اس دستاویز پر 2006ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی نے ایک ماہر کے دعوے کی بنیاد پر یہ اپنی آخری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چونکہ کیلیبری فانٹ کمرشل سطح پر 2007ء میں دستیاب ہوا تھا اسلئے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جرح کے دوران رڈلی نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ کیلیبری فانٹ 2006ء میں حتیٰ کہ 2005ء میں بھی ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا لیکن صرف آئی ٹی ماہرین ہی اسے ڈائون لوڈ کرتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق، جب رڈلی سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے 2005ء میں یہی فانٹ ڈائون لوڈ کیا تھا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ جب یہ پوچھا گیا آیا وہ آئی ٹی ماہر تھے تو جواب نفی میں دیا۔ دی نیوز نے 13؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر اپنی تفصیلی تحقیقات شائع کی تھیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے دوران حاصل کی جانے والی تمام چاروں غیر ملکی دستاویزات / رپورٹس اور بڑی کامیابی اور ’’اہم شواہد‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے والا رپورٹ کا پہلا صفحہ، سب غلط ہیں اور جے آئی ٹی کی غلط فہمی پر مبنی ہیں اور انہیں کسی بھی طرح شواہد نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے نتائج میں، 13؍ جولائی کو دی نیوز نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’’جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی حکام سے پوچھے گئے سوالات بڑی چالاکی کے ساتھ مرتب کیے گئے تھے تاکہ معاملے کی پوری منظر کشی کی بجائے صرف مخصوص جواب حاصل کیے جا سکیں، منتخب گواہوں کے بیانات لیے گئے اور اہم گواہوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور پہلے سے طے شدہ سوچ کے ساتھ رپورٹ مرتب کی گئی۔‘‘ پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے جانے والے چار اہم شواہد اور جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ: ’’تحقیقات کا اختصار‘‘: تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے مندرجہ ذیل اہم ترین دستاویزی شواہد حاصل کیے گئے: (اول) برٹش ورجن آئی لینڈ میں فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے بی وی آئی کمپنیز میں مریم نواز کے بینیفشل اونر ہونے کی تصدیق، کمپنیوں کے نام یہ ہٰں: نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ، نیسکول لمیٹڈ (والیم نمبر پانچ)۔ (دوم) جبل علی فری زون اتھارٹی (جافزا) کی جانب سے میاں نواز شریف کے ایف زیڈ ای کیپیٹل میں چیئرمین ہونے کی تصدیق (والیم نمبر 6 اور 9)۔ (سوم) متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ مدعا علیہان نے مشکوک انداز سے اثاثوں کی خرید و فروخت کی، یہ معاہدے فاضل عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں (والیم نمبر تین)، اور (چہارم) فارنسک ایکسپرٹ کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی (والیم نمبر پانچ)۔ ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلیبری فانٹ کے حوالے سے دی نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ تمام مستند وسائل کے تحت دیکھا جائے تو کیلیبری فانٹ 2004ء میں ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہ 2004-05ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا اور کمرشل سطح پر اسے جنوری 2007ء میں جاری کیاگیا۔ ایک ایسے ماہر، جو بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن تھا، کی متعصبانہ رائے میں بھی فیصلہ کن الفاظ استعمال نہیں کیے گئے اور کہا گیا کہ اس بات کا غالب امکان نہیں کہ یہ فانٹ نوٹری تصدیق کرنے والی کمپنی نے 2006ء میں استعمال کیا ہو۔ دی نیوز نے بتایا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ کیلیبری فانٹ صرف 2007ء میں ایجاد کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا تو اس سے ثابت ہوجاتا کہ دستاویزات جعلی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فانٹ 2004ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے؟ دی نیوز نے اپنی 13؍ جولائی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان پر شدید بیرونی دبائو ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ میں تھا کہ یہ بات انتہائی اہم اور قابل ذکر ہے کہ برطانوی کمپنی فریمین باکس نے 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی جسے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ برطانوی کمپنی ’’کوئیسٹ سولیسیٹرز‘‘ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کارکن کی ملکیت ہے اور جے آئی ٹی نے اس کی خدمات حاصل کیں، جے آئی ٹی نے اسے خط لکھ کر سوال کیا کہ آیا فری مین باکس 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، جے آئی ٹی نے اس بات کا اپنی حتمی رپورٹ میں بالکل ذکر نہیں کیا۔ فری مین باکس کا جواب بنیادی اور اہم شواہد میں شامل تھا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے اس بات کو خفیہ دبائو کی وجہ سے چھپایا۔ جے آئی ٹی کی دیگر تین اہم کامیابیوں میں سے ایک مریم نواز کی ملکیتی کمپنیوں کے حوالے سے تصدیق تھی۔ پاناما جے آئی ٹی کا اختتام فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی آف برٹش ورجن آئی لینڈ کی تصدیق کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی سے خصوصی طور پر یہ نہیں پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونرشپ کس کے پاس ہے تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کیا جا سکے۔ جے آئی ٹی نے ایجنسی سے صرف آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پوچھا، اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کی بجائے جے آئی ٹی سے پوچھا گیا کہ وہ میوچوئل لیگل اسسٹنس کے تحت ان افراد کے بارے میں غلط اقدامات کے ثبوت پیش کریں جن کے نام اس نے اپنی درخواست میں دیئے ہیں۔
 
پاناما جے آئی ٹی کے چاروں بڑے نتائج بے بنیاد اور جعلی تھے اور یہ شدید دبائو میں آ کر دیئے گئے تھے۔ رڈلی نے کیلیبری فانٹ کے 2006ء میں استعمال کے حوالے سے چار اہم شواہد میں سے ایک کو زمین بوس کر دیا جبکہ باقی تین شواہد پہلے ہی غلط یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کیے ہوئے ثابت ہو چکے ہیں۔ مریم نواز اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں اور جے آئی ٹی میں ایک ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی تھی جو کیلیبری فانٹ میں ٹائپ کی ہوئی تھی، اس دستاویز پر 2006ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی نے ایک ماہر کے دعوے کی بنیاد پر یہ اپنی آخری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چونکہ کیلیبری فانٹ کمرشل سطح پر 2007ء میں دستیاب ہوا تھا اسلئے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جرح کے دوران رڈلی نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ کیلیبری فانٹ 2006ء میں حتیٰ کہ 2005ء میں بھی ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا لیکن صرف آئی ٹی ماہرین ہی اسے ڈائون لوڈ کرتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق، جب رڈلی سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے 2005ء میں یہی فانٹ ڈائون لوڈ کیا تھا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ جب یہ پوچھا گیا آیا وہ آئی ٹی ماہر تھے تو جواب نفی میں دیا۔ دی نیوز نے 13؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر اپنی تفصیلی تحقیقات شائع کی تھیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے دوران حاصل کی جانے والی تمام چاروں غیر ملکی دستاویزات / رپورٹس اور بڑی کامیابی اور ’’اہم شواہد‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے والا رپورٹ کا پہلا صفحہ، سب غلط ہیں اور جے آئی ٹی کی غلط فہمی پر مبنی ہیں اور انہیں کسی بھی طرح شواہد نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے نتائج میں، 13؍ جولائی کو دی نیوز نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’’جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی حکام سے پوچھے گئے سوالات بڑی چالاکی کے ساتھ مرتب کیے گئے تھے تاکہ معاملے کی پوری منظر کشی کی بجائے صرف مخصوص جواب حاصل کیے جا سکیں، منتخب گواہوں کے بیانات لیے گئے اور اہم گواہوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور پہلے سے طے شدہ سوچ کے ساتھ رپورٹ مرتب کی گئی۔‘‘ پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے جانے والے چار اہم شواہد اور جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ: ’’تحقیقات کا اختصار‘‘: تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے مندرجہ ذیل اہم ترین دستاویزی شواہد حاصل کیے گئے: (اول) برٹش ورجن آئی لینڈ میں فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے بی وی آئی کمپنیز میں مریم نواز کے بینیفشل اونر ہونے کی تصدیق، کمپنیوں کے نام یہ ہٰں: نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ، نیسکول لمیٹڈ (والیم نمبر پانچ)۔ (دوم) جبل علی فری زون اتھارٹی (جافزا) کی جانب سے میاں نواز شریف کے ایف زیڈ ای کیپیٹل میں چیئرمین ہونے کی تصدیق (والیم نمبر 6 اور 9)۔ (سوم) متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ مدعا علیہان نے مشکوک انداز سے اثاثوں کی خرید و فروخت کی، یہ معاہدے فاضل عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں (والیم نمبر تین)، اور (چہارم) فارنسک ایکسپرٹ کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی (والیم نمبر پانچ)۔ ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلیبری فانٹ کے حوالے سے دی نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ تمام مستند وسائل کے تحت دیکھا جائے تو کیلیبری فانٹ 2004ء میں ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہ 2004-05ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا اور کمرشل سطح پر اسے جنوری 2007ء میں جاری کیاگیا۔ ایک ایسے ماہر، جو بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن تھا، کی متعصبانہ رائے میں بھی فیصلہ کن الفاظ استعمال نہیں کیے گئے اور کہا گیا کہ اس بات کا غالب امکان نہیں کہ یہ فانٹ نوٹری تصدیق کرنے والی کمپنی نے 2006ء میں استعمال کیا ہو۔ دی نیوز نے بتایا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ کیلیبری فانٹ صرف 2007ء میں ایجاد کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا تو اس سے ثابت ہوجاتا کہ دستاویزات جعلی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فانٹ 2004ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے؟ دی نیوز نے اپنی 13؍ جولائی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان پر شدید بیرونی دبائو ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ میں تھا کہ یہ بات انتہائی اہم اور قابل ذکر ہے کہ برطانوی کمپنی فریمین باکس نے 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی جسے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ برطانوی کمپنی ’’کوئیسٹ سولیسیٹرز‘‘ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کارکن کی ملکیت ہے اور جے آئی ٹی نے اس کی خدمات حاصل کیں، جے آئی ٹی نے اسے خط لکھ کر سوال کیا کہ آیا فری مین باکس 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، جے آئی ٹی نے اس بات کا اپنی حتمی رپورٹ میں بالکل ذکر نہیں کیا۔ فری مین باکس کا جواب بنیادی اور اہم شواہد میں شامل تھا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے اس بات کو خفیہ دبائو کی وجہ سے چھپایا۔ جے آئی ٹی کی دیگر تین اہم کامیابیوں میں سے ایک مریم نواز کی ملکیتی کمپنیوں کے حوالے سے تصدیق تھی۔ پاناما جے آئی ٹی کا اختتام فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی آف برٹش ورجن آئی لینڈ کی تصدیق کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی سے خصوصی طور پر یہ نہیں پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونرشپ کس کے پاس ہے تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کیا جا سکے۔ جے آئی ٹی نے ایجنسی سے صرف آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پوچھا، اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کی بجائے جے آئی ٹی سے پوچھا گیا کہ وہ میوچوئل لیگل اسسٹنس کے تحت ان افراد کے بارے میں غلط اقدامات کے ثبوت پیش کریں جن کے نام اس نے اپنی درخواست میں دیئے ہیں۔
Proves likhnay wala bayghairat hona chaheye, bar bar jhota sabit hona koi bari baat nahee...

Another Piece with the trademark of Ahmed Noorani's THE NEWS INDIGESTION CELL :disagree:. Who is it this time, Salih Zafir?

How could you have posted the above but missed these masterpieces of cerebral diarrhoea from his jang/ the new/ geo group:
Screenshot_2018-02-24-10-14-46_1.jpg

And this was published just hours before the JIT report came out that held Nawaz Sharif responsible:
Screenshot_2018-02-24-10-12-30_1.jpg
 
پاناما جے آئی ٹی کے چاروں بڑے نتائج بے بنیاد اور جعلی تھے اور یہ شدید دبائو میں آ کر دیئے گئے تھے۔ رڈلی نے کیلیبری فانٹ کے 2006ء میں استعمال کے حوالے سے چار اہم شواہد میں سے ایک کو زمین بوس کر دیا جبکہ باقی تین شواہد پہلے ہی غلط یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کیے ہوئے ثابت ہو چکے ہیں۔ مریم نواز اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں اور جے آئی ٹی میں ایک ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی تھی جو کیلیبری فانٹ میں ٹائپ کی ہوئی تھی، اس دستاویز پر 2006ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی نے ایک ماہر کے دعوے کی بنیاد پر یہ اپنی آخری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چونکہ کیلیبری فانٹ کمرشل سطح پر 2007ء میں دستیاب ہوا تھا اسلئے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جرح کے دوران رڈلی نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ کیلیبری فانٹ 2006ء میں حتیٰ کہ 2005ء میں بھی ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا لیکن صرف آئی ٹی ماہرین ہی اسے ڈائون لوڈ کرتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق، جب رڈلی سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے 2005ء میں یہی فانٹ ڈائون لوڈ کیا تھا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ جب یہ پوچھا گیا آیا وہ آئی ٹی ماہر تھے تو جواب نفی میں دیا۔ دی نیوز نے 13؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر اپنی تفصیلی تحقیقات شائع کی تھیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے دوران حاصل کی جانے والی تمام چاروں غیر ملکی دستاویزات / رپورٹس اور بڑی کامیابی اور ’’اہم شواہد‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے والا رپورٹ کا پہلا صفحہ، سب غلط ہیں اور جے آئی ٹی کی غلط فہمی پر مبنی ہیں اور انہیں کسی بھی طرح شواہد نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے نتائج میں، 13؍ جولائی کو دی نیوز نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’’جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی حکام سے پوچھے گئے سوالات بڑی چالاکی کے ساتھ مرتب کیے گئے تھے تاکہ معاملے کی پوری منظر کشی کی بجائے صرف مخصوص جواب حاصل کیے جا سکیں، منتخب گواہوں کے بیانات لیے گئے اور اہم گواہوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور پہلے سے طے شدہ سوچ کے ساتھ رپورٹ مرتب کی گئی۔‘‘ پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے جانے والے چار اہم شواہد اور جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ: ’’تحقیقات کا اختصار‘‘: تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے مندرجہ ذیل اہم ترین دستاویزی شواہد حاصل کیے گئے: (اول) برٹش ورجن آئی لینڈ میں فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے بی وی آئی کمپنیز میں مریم نواز کے بینیفشل اونر ہونے کی تصدیق، کمپنیوں کے نام یہ ہٰں: نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ، نیسکول لمیٹڈ (والیم نمبر پانچ)۔ (دوم) جبل علی فری زون اتھارٹی (جافزا) کی جانب سے میاں نواز شریف کے ایف زیڈ ای کیپیٹل میں چیئرمین ہونے کی تصدیق (والیم نمبر 6 اور 9)۔ (سوم) متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ مدعا علیہان نے مشکوک انداز سے اثاثوں کی خرید و فروخت کی، یہ معاہدے فاضل عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں (والیم نمبر تین)، اور (چہارم) فارنسک ایکسپرٹ کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی (والیم نمبر پانچ)۔ ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلیبری فانٹ کے حوالے سے دی نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ تمام مستند وسائل کے تحت دیکھا جائے تو کیلیبری فانٹ 2004ء میں ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہ 2004-05ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا اور کمرشل سطح پر اسے جنوری 2007ء میں جاری کیاگیا۔ ایک ایسے ماہر، جو بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن تھا، کی متعصبانہ رائے میں بھی فیصلہ کن الفاظ استعمال نہیں کیے گئے اور کہا گیا کہ اس بات کا غالب امکان نہیں کہ یہ فانٹ نوٹری تصدیق کرنے والی کمپنی نے 2006ء میں استعمال کیا ہو۔ دی نیوز نے بتایا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ کیلیبری فانٹ صرف 2007ء میں ایجاد کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا تو اس سے ثابت ہوجاتا کہ دستاویزات جعلی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فانٹ 2004ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے؟ دی نیوز نے اپنی 13؍ جولائی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان پر شدید بیرونی دبائو ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ میں تھا کہ یہ بات انتہائی اہم اور قابل ذکر ہے کہ برطانوی کمپنی فریمین باکس نے 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی جسے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ برطانوی کمپنی ’’کوئیسٹ سولیسیٹرز‘‘ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کارکن کی ملکیت ہے اور جے آئی ٹی نے اس کی خدمات حاصل کیں، جے آئی ٹی نے اسے خط لکھ کر سوال کیا کہ آیا فری مین باکس 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، جے آئی ٹی نے اس بات کا اپنی حتمی رپورٹ میں بالکل ذکر نہیں کیا۔ فری مین باکس کا جواب بنیادی اور اہم شواہد میں شامل تھا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے اس بات کو خفیہ دبائو کی وجہ سے چھپایا۔ جے آئی ٹی کی دیگر تین اہم کامیابیوں میں سے ایک مریم نواز کی ملکیتی کمپنیوں کے حوالے سے تصدیق تھی۔ پاناما جے آئی ٹی کا اختتام فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی آف برٹش ورجن آئی لینڈ کی تصدیق کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی سے خصوصی طور پر یہ نہیں پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونرشپ کس کے پاس ہے تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کیا جا سکے۔ جے آئی ٹی نے ایجنسی سے صرف آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پوچھا، اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کی بجائے جے آئی ٹی سے پوچھا گیا کہ وہ میوچوئل لیگل اسسٹنس کے تحت ان افراد کے بارے میں غلط اقدامات کے ثبوت پیش کریں جن کے نام اس نے اپنی درخواست میں دیئے ہیں۔


:lol:

Ghalat tarjuma...


Acha waisay agar Baji's lawyer says that the document was prepared on Longhorn, as the law firm, or Baji was registered as Windows tester, Baji will be asked to provide "ORIGINAL" trust deed, which she hasn't provided yet..

Once the original trust deed is obtained, it will undergo "ink dating"... ARE YOU READY?:lol:
 
I think 12 March
Thank you for your reply, I think there may be a chance for the chor tubber to manage postponement of NAB cases instead of a verdict before Justice Basir retires.
No idea bro!
The Panama Bench verdict giving the time period of six months for completion of trial court came on the 28th of July last year.

The deadline for filing references by NAB was within six weeks. The references by NAB were filed on the deadline and accepted by trial court on same date of filings, September 8th last year.

The first trial court hearing was on 19th September.

The indictment took place on the 19th and 26th of October in different references.

As per some Journos, 10th March

According to the info in my reply to @PakSword the question is;

Six months are to be counted from which date?
  1. Date of filing references by NAB i.e. 08/09/17 Six months Deadline: 08/03/18
  2. Date of first trial court hearing i.e. 19/09/17 Six months Deadline: 19/03/18
It can be either one of the above dates and just a matter of how the trial court judge interprets it or how the till now silent monitoring judge calculates it.

Then there is the matter of trial court judge Justice Bashir retiring around the same deadline date.


Just about perfect time to interfere for the monitoring judge and ensure completion of trials before the trial court judge retires.

There is gonna be a lot of room to play if the judge retires before completing the trial.

@Farah Sohail look what I found, the headline of this post should be for PTI...

WHILE WE WERE SLEEPING,
PMLN was busy conspiring


The News
amp_logo.png

Home |Latest |National |Today's Paper


February 22,2018


Court may miss SC deadline in Sharif cases


Waseem Abbasi

ISLAMABAD: A critically over-burdened Accountability Court (AC), hearing four corruption references against ex-premier Nawaz Sharif, his family and former finance minister Ishaq Dar, is likely to miss the six-month deadline set by the Supreme Court (SC) for the completion of proceedings, The News has learnt.

After his disqualification from the Supreme Court as party president on Wednesday, the next worst outcome for former premier Nawaz Sharif could be a jail-term and conviction by an the Accountability Court on corruption charges, but the fate of former prime minister may be decided by a new judge of the Accountability Court, sometime in March or April this year.

Currently, there is no judge in the Accountability Court No 2 while court No 1 judge Muhammad Bashir is set to retire on March 12, a day before the apex court’s deadline expires. According to sources, more than 90 NAB references and dozens of other cases are pending with the two courts, making it almost impossible for one judge to decide the pending cases in time.

The sources told The News that the Federal Ministry of Law has written a letter to the Islamabad High Court Registrar on Wednesday to seek nominations for the appointment of two Accountability Court judges in Islamabad. Earlier, Judge Muhammad Bashir had written a letter to the ministry seeking appointment of judge for the Accountability Court No 2.

On the directives of the Supreme Court, National Accountability Bureau (NAB) had filed four references against Nawaz Sharif and his children: Hussain, Hassan and Maryam Nawaz, as well as his son-in-law Capt (R) Muhammad Safdar and Finance Minister Ishaq Dar in the Accountability Court in September last year. The apex court had directed the Accountability Court judge to conclude the proceedings in six months. Justice Ijazul Ahsan of Supreme Court was appointed to supervise the trial court’s proceedings.

However, meeting the Supreme Court deadline has become a Herculean task for the outgoing accountability judge especially as the NAB has filed the supplementary references in Al-Azizia and Flagship Investment cases a few days ago. On the other hand, despite a number of foreign tours, the Bureau has yet to obtain evidence from the United Kingdom, UAE and Saudi Arabia where the Mutual Legal Assistance (MLA) requests were sent several months ago. According to schedule of hearing, the court has yet to hear over two dozen prosecution witnesses beside the unknown number of defence witnesses before arriving at a decision.

NAB sources said Judge Muhammad Bashir may not be able to announce the decision in Nawaz Sharif cases before March 12 and it is widely believed that the references may go to a new accountability court judge. The new judge for accountability court will be appointed by the president after receiving nominations from the Chief Justice of Islamabad High Court. According to experts, the process of appointment will take at least a couple of weeks. Under the procedure defined in the NAB Ordinance, the chief justice of the relevant high court sends nominations for the accountability court judges to the Ministry of Law and Justice which forwards the summary to the prime minister to forward to the president for appointment. According to the law, the nominated judge “shall be a serving District and Sessions Judge qualified to be appointed as Judge of the High Court”. Experts believe although the new judge is likely to use the existing record and evidence for his judgment, may take a few extra days or weeks in understanding the key points of case before announcing the final decision.

 

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom