Devil Soul
ELITE MEMBER
- Joined
- Jun 28, 2010
- Messages
- 22,931
- Reaction score
- 45
- Country
- Location
مُکھی ہاؤس: محل سے میوزیم تک
اختر حفیظ
کچھ گھر ویران ہوتے ہوئے بھی آنکھوں کو موہ لیتے ہیں۔ جہاں ہمیشہ خاموشی بستی ہے، سناٹے کا راج ہوتا ہے اور کوئی مکین وہاں نہیں رہتا۔ پھر بھی ان میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ ان کی ویرانی آنکھوں کو نہیں چبھتی اور خاموشی روح کو نہیں ڈستی۔
ایک ایسے سکون کا احساس ہمیں ان گھروں میں محسوس ہوتا ہے جس کی تلاش ہر انسان کو رہتی ہے۔ آپ جیسے ہی ان گھروں میں داخل ہوتے ہیں تو ایک پراسرار خاموشی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے، ایک نہ ختم ہونے والا سناٹا برسوں سے ان گھروں کے ہر کونے میں بسا ہوا ہوتا ہے۔ میں آج ایک ایسے ہی گھر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بام و در اس انتظار میں ہیں کہ گھر کے حقیقی رہنے والے شاید کسی دن لوٹ آئیں، مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔
فلسطین کے مشہور و معروف شاعر محمود درویش نے لکھا تھا کہ "گھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پینے کا نام ہے۔" مگر گھر تو ماں کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی لوری سننے کا بھی نام ہے۔ ایک ایسا ہی گھر جسے اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ یہ گھر آج بھی نظر رکھنے والی آنکھوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ گھر حیدرآباد میں ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے مکھی ہاؤس کے نام سے مشہور ہے جسے 'مکھی محل' بھی کہتے ہیں۔
مکھی ہاؤس حیدرآباد کے پکے قلعے کے سامنے واقع ہے۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
اس محل نما گھر کے بالکل سامنے تاریخی ہوم اسٹیڈ ہال بھی واقع ہے۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
اسے مکھی محل اس کے شان و شوکت سے بھرپور طرزِ تعمیر کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
میں نے جیسے ہی مکھی ہاؤس میں قدم رکھا ایک بڑا سال ہال میرے سامنے تھا، اس ہال میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔ حیدرآباد کی گرمی جو مارچ کے ماہ سے ہی شہریوں کو پریشان کرنا شروع کرتی ہے، مگر مکھی ہاؤس میں اس کا زور کم ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگا۔ ایک پرسکون خاموشی جو کئی دہائیوں سے اس گھر میں کسی فرد کی طرح رہ رہی ہے وہ ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہے۔ جہاں آپ کے پاؤں کی آہٹ بھی واضح سنائی دیتی ہے۔ اگر آپ کسی سے مخاطب ہوتے ہیں تو آواز کی گونج اسی ہال میں سنائی دیتی ہے۔
یہ عمارت 1920 میں اس وقت کی مشہور شخصیت جیٹھانند مکھی نے اپنی خواہش کے مطابق تعمیر کروائی تھی، جسے انہوں نے گھر کا نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا تھا، اور یہ واقعی ایک محل سے کم نہیں ہے۔ جیٹھانند مکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتطامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ اسی مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی بھی آثار دکھائی نہیں دیتے، جہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ اس شاہکار گھر کی تعمیر کے سات برس بعد جیٹھانند مکھی 1927 میں انتقال کر گئے۔
وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے بہتے دریا کا رخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہو جاتا ہے۔ برصغیر کی تقیسم کے بعد جو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا وہ سالہا سال تک جاری رہا۔ شاید ان گھروں کے در و دیوار کو کبھی یہ اندازہ نہیں رہا ہو گا کہ وہ تنہا رہ جائیں گے اور ان گھروں کی کہانیاں صرف ہم لوگوں سے زبانی ہی سنتے رہیں گے، لیکن مکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم تھا۔
یہ 1957 کا زمانہ تھا جب انہیں اس شہر کو چھوڑ کر جانا پڑا۔ جیٹھانند مکھی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور دو بیٹے یہاں پر رہ رہے تھے، مگر انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ یہاں مزید رہے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں اس محل نما گھر کو خیرباد کہنا پڑا اور یہ خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان چلا گیا۔
گھر میں جابجا لکڑی کا کام کیا گیا ہے، جسے آتشزدگی میں نقصان بھی پہنچا تھا۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
بالائی منزل کا ہال۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
گھر میں داخل ہونے پر ایسا لگتا ہے جیسے اب بھی یہاں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
گھر میں داخل ہونے پر ایسا لگتا ہے جیسے اب بھی یہاں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
کسی پرسکون شہر میں ایک عالیشان گھر قبضے سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟ مکھی ہاؤس کے شب و روز بھی کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ یہاں پر کسی زمانے میں ہندوستانی سفارت خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا، جبکہ اسے کے نچلے حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
حیدرآباد کے شہر نے اس وقت اپنا سکون کھو دیا جب 1988 میں یہاں لسانی فسادات ہوئے تھے۔ انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں رکھا فرنیچر جل کر خاک ہو گئے تھے۔ مگر اس گھر کے نصیب میں شاید اچھے دن لکھے تھے اس لیے آگ کے شعلوں کی گرمی سہنے، اور ہر وہ مصیبت جو اسے تباہ کرنے کے لیے تھی، اسے برداشت کرنے کے باوجود بھی آج مکھی ہاؤس سلامت ہے۔
2009 میں سندھ حکومت کے محکمہء آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد 2013 میں مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی، چنانچہ اب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
گراؤنڈ فلور کا ہال۔ — فوٹو اختر حفیظ۔
اختر حفیظ
کچھ گھر ویران ہوتے ہوئے بھی آنکھوں کو موہ لیتے ہیں۔ جہاں ہمیشہ خاموشی بستی ہے، سناٹے کا راج ہوتا ہے اور کوئی مکین وہاں نہیں رہتا۔ پھر بھی ان میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ ان کی ویرانی آنکھوں کو نہیں چبھتی اور خاموشی روح کو نہیں ڈستی۔
ایک ایسے سکون کا احساس ہمیں ان گھروں میں محسوس ہوتا ہے جس کی تلاش ہر انسان کو رہتی ہے۔ آپ جیسے ہی ان گھروں میں داخل ہوتے ہیں تو ایک پراسرار خاموشی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے، ایک نہ ختم ہونے والا سناٹا برسوں سے ان گھروں کے ہر کونے میں بسا ہوا ہوتا ہے۔ میں آج ایک ایسے ہی گھر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بام و در اس انتظار میں ہیں کہ گھر کے حقیقی رہنے والے شاید کسی دن لوٹ آئیں، مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔
فلسطین کے مشہور و معروف شاعر محمود درویش نے لکھا تھا کہ "گھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پینے کا نام ہے۔" مگر گھر تو ماں کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی لوری سننے کا بھی نام ہے۔ ایک ایسا ہی گھر جسے اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ یہ گھر آج بھی نظر رکھنے والی آنکھوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ گھر حیدرآباد میں ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے مکھی ہاؤس کے نام سے مشہور ہے جسے 'مکھی محل' بھی کہتے ہیں۔
میں نے جیسے ہی مکھی ہاؤس میں قدم رکھا ایک بڑا سال ہال میرے سامنے تھا، اس ہال میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔ حیدرآباد کی گرمی جو مارچ کے ماہ سے ہی شہریوں کو پریشان کرنا شروع کرتی ہے، مگر مکھی ہاؤس میں اس کا زور کم ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگا۔ ایک پرسکون خاموشی جو کئی دہائیوں سے اس گھر میں کسی فرد کی طرح رہ رہی ہے وہ ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہے۔ جہاں آپ کے پاؤں کی آہٹ بھی واضح سنائی دیتی ہے۔ اگر آپ کسی سے مخاطب ہوتے ہیں تو آواز کی گونج اسی ہال میں سنائی دیتی ہے۔
یہ عمارت 1920 میں اس وقت کی مشہور شخصیت جیٹھانند مکھی نے اپنی خواہش کے مطابق تعمیر کروائی تھی، جسے انہوں نے گھر کا نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا تھا، اور یہ واقعی ایک محل سے کم نہیں ہے۔ جیٹھانند مکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتطامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ اسی مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی بھی آثار دکھائی نہیں دیتے، جہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ اس شاہکار گھر کی تعمیر کے سات برس بعد جیٹھانند مکھی 1927 میں انتقال کر گئے۔
وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے بہتے دریا کا رخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہو جاتا ہے۔ برصغیر کی تقیسم کے بعد جو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا وہ سالہا سال تک جاری رہا۔ شاید ان گھروں کے در و دیوار کو کبھی یہ اندازہ نہیں رہا ہو گا کہ وہ تنہا رہ جائیں گے اور ان گھروں کی کہانیاں صرف ہم لوگوں سے زبانی ہی سنتے رہیں گے، لیکن مکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم تھا۔
یہ 1957 کا زمانہ تھا جب انہیں اس شہر کو چھوڑ کر جانا پڑا۔ جیٹھانند مکھی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور دو بیٹے یہاں پر رہ رہے تھے، مگر انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ یہاں مزید رہے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں اس محل نما گھر کو خیرباد کہنا پڑا اور یہ خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان چلا گیا۔
کسی پرسکون شہر میں ایک عالیشان گھر قبضے سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟ مکھی ہاؤس کے شب و روز بھی کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ یہاں پر کسی زمانے میں ہندوستانی سفارت خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا، جبکہ اسے کے نچلے حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
حیدرآباد کے شہر نے اس وقت اپنا سکون کھو دیا جب 1988 میں یہاں لسانی فسادات ہوئے تھے۔ انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں رکھا فرنیچر جل کر خاک ہو گئے تھے۔ مگر اس گھر کے نصیب میں شاید اچھے دن لکھے تھے اس لیے آگ کے شعلوں کی گرمی سہنے، اور ہر وہ مصیبت جو اسے تباہ کرنے کے لیے تھی، اسے برداشت کرنے کے باوجود بھی آج مکھی ہاؤس سلامت ہے۔
2009 میں سندھ حکومت کے محکمہء آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد 2013 میں مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی، چنانچہ اب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔