Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
آئیں آج وائلڈ لائف آف پاکستان کا سب سے بڑا سکینڈل بے نقاب کریں ۔۔۔آخر میں ایک کہانی ہے وہ بھی پڑھیں
تصویر میں نظر آنے والا یہ خونخوار درندہ عبدالرشید کوراٸی ہے۔
اسکا تعلق ضلع رحیمیار خان سے ہے ۔
اس درندے کو ضلع رحیم یار خان کا واٸلڈ لاٸف ڈیپارٹمنٹ میں اعزازی گیم وارڈن بنادیا گیا ہے ۔۔۔
عزازی ملازم وہ بندہ ہوتا ہے ۔۔۔جس کے پاس کسی قسم کی کوئی خاص ڈگری یا تربيت نہی ہوتی بلکہ اسے اس کی بے لوس خدمات کی وجہ سے اعزازی طور پر کسی بھی محکمہ میں بھرتی کر دیا جاتا ۔۔۔انھیں بھی ان کے بے پناہ قانونی اور غیر قانونی شکار کی وجہ سے اعزازی طور پر گیم وارڈن بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔واہ واہ
پوری دنیا میں یہ قانون ہے کہ جو بندہ یا بندی جنگلی حیات کی بغیر کسی لالچ کے خدمت کرے یا ان کے شکار وغیرہ کو روکنے میں حکومت کی مدد کرے اسے اعزازی طور پر محکمہ جنگلی حیات میں افسر لگا دیا جاتا ہے تاکہ غیرقانونی شکار پر قابو پایا جاسكے اور جنگلی حیات کی افزائیش نسل کی جاسكے ۔۔
لیکن پاکستان میں الٹا قانون ہے یہاں جو بندہ بدنام زمانہ شکاری ہوتا ہے اسے اعزازی طور پر گیم وارڈن بنا کر جنگلی حیات کا بیڑا غرک کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔۔۔۔
اعزازی گیم وارڈن کی تقرری یہاں کے بڑے بڑے سیاست دان خوداپنی مرضی سے کراتے ہیں تاکہ انھیں اور ان کے دوستوں کو کھل کر غیر قانونی شکار کرنے کے موقع مل سکے ۔۔
ایک اعزازی گیم وارڈن کا اصل کام یہ ہوتا ہے ۔۔
1 ۔۔ محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ساتھ مل کر جنگلی حیات کو غیر قانونی شکار سے بچانے میں محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ملازمین کی مدد کرنا
2 ۔۔اعزازی گیم وارڈن نے جنگلی حیات کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوتا ہے ۔۔کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جنگلی حیات کا تحفظ کرے گا۔۔۔
اب آتے ہیں قاتل گیم وارڈن رشید کورائی کی طرف
یہ خوں خوار درندہ بچپن سے ہی شکار کا شوقین ہے ۔۔۔
سیاسی لوگوں کی ٹی سی کر کے کسی نہ کسی طرح گیم وارڈن لگ گیا ۔۔لیکن جیسے ہی اسکو اعزازی گیم وارڈن بنایا گیا اس نے جنگلی حیات کی تباہی مچا دی ۔۔
چولستان میں شکار اپنی انتہا کو پہنچ گیا ۔۔پہلے تو ان لوگوں کو وائلڈ لائف کے ملازموں کا تھوڑا بہت خوف ہوتا تھا لیکن جب سے خود گیم وارڈن بنا تو سمجھو چولستان کا بادشاہ بن گیا ۔۔۔۔جو جانور یا پرندہ اسے نظر آتا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔۔۔۔
ہر رات شکار کھیلا جانے لگا ۔۔۔اب رات ہوتے ہی چولستان کے معدوم ہوتے جنگلی جانور شکاریوں کی گاڑیوں اور بندوقوں کی آواز سے تھر تھر کامپنے لگتے ہیں ۔۔۔کہ نجانے کب گولی چلے اور یہاں کے باسی یہ جنگلی جانور خاک و خوں میں نہا جائیں ۔۔۔۔
یہ وہ درنده ہے جو بے پناہ غیر قانونی شکار تو کرتا ہی ہے لیکن اسے دودھ پینے والے چھوٹے بچوں پر بھی رحم نہی آتا ۔۔۔۔اسے اگر ہرن کا چھوٹا بچا بھی کہیں مل جاۓ تو اسے بھی گولی مار کر اپنے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ میں سما لیتا ہے ۔۔
یہ بندہ ہر ہفتے کئی کئی درجن ہرن ،، تلور اور دوسرے نایاب جانورں کو شکار کر کے اپنی اور اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے ۔۔۔ اس کے بعد چند دن معملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتا ہے اور پھر دوبارہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے نکل پڑتا ہے ۔۔۔
اسے کوٸ پوچھنے والا نہیں
اب آ جاٸیں محکمہ واٸلڈ لاٸف کی طرف جن کا کام ہوتا ہے تحفظِ جنگلی حیات ۔۔ ایک بدنام زمانہ شکاری کو افسر لگا کر پورے محکمہ پر گلے میں توق کی طرح مسلط کردیا جاتا ہے ۔۔۔
پھر ہم عوام محکمہ جنگلی حیات سے امید کرتے ہیں کہ شکار کو روکا جاۓ ۔۔
❤ اب میں آپ کو رشید کورائی کی ایک کہانی سناتا ہوں ۔۔
مجھے یہ کہانی وائلڈ لائف کے ایک چھوٹے سے ملازم نے روتے ہوے سنائی ۔۔۔اس رات یہ ملازم بھی ٹوبہ پر موجود تھا ۔۔۔
اس رات 6 ہرن شکار کئے گے جس میں سے 3 مادہ تھیں اور ان میں سے ایک مادہ کچھ ہی دنوں میں بچے بھی دینے والی تھی ۔۔۔
آج سے 2 تین رات پہلے کا واقع ہے ۔۔۔چولستان میں رات کا وقت تھا ۔۔محکمہ جنگلی حیات کے کچھ ملازم ٹوبہ پر ہرنوں کی حفاظت کی غرض سے مامور تھے ۔۔۔۔
ٹوبہ ایک ایسے علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں قریب ہی پانی کا ایک تالاب ہوتا ہے ۔۔چونکہ اس جگہ وافر پانی موجود ہوتا ہے اسی لئے جنگلی جانور اور پرندے اس جگہ کو اپنا مسكن بنا لیتے ہیں تاکہ پانی اور خوراک آسانی سے ميسر آسکيں ۔۔۔
اب ہوا یوں کہ رات کے کسی پہر رشید صاحب نے محکمہ کے واوچرز کو کال کر کے حکم دیا ،،، مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں علاقے میں شکاری گھس آے ہیں ۔۔تم لوگ جلدی سے وہاں پہنچو اور پتہ لگاو کیامعملہ ہے ۔۔۔
محکمہ کے ملازموں کو نہ چاہتے ہوے بھی وارڈن صاحب کی بات ماننی پڑی ۔۔۔بھائی آخر افسر جو ہوا
ہلاکہ انسپیکٹرز اور واوچرز کو افسران کی طرف سے حکم دیا گیا ہوتا ہے کہ چولستان میں ایسی جگہہ نگرانی زیادہ کرنی ہے جہاں ہرن کی۔ تعداد زیادہ ہو اور اگر کوئی امرجنسی ہو جاۓ تو آدھے ملازم اسی جگہ رک کر ہرنوں کی حفاظت کریں گے اور آدھے لوگ دوسری جگہ جا کر چیک کریں گے ۔۔۔۔۔۔
لیکن رشید صاحب نے کال کر کے سب لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا ۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی فیلڈ سٹاف ٹوبہ سے رخصت ہوا تھوڑی ہی دیر بعد اسلح سے لیس ڈبل ڈور ڈالوں اور جيپوں کا ایک قافلہ اسی ٹوبہ پر نمودار ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان گاڑیوں کی تیز آواز اور آگ برساتی بندوقوں کی تڑاخے دار گھن گرج ہرنوں کے دلوں پر ہیبت طاری کر دیتی ہے ۔۔۔جيپ کی تیز روشنی دیکھ کر ہرن کی ٹانگيں کانپنے لگ جاتی ہیں ۔۔
اس سب صورت حال میں ہرن ایک ہی جگہ ساکت ہو کر ٹھہر جاتی ہے ۔۔۔۔۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب شکاری کہر بن کر ان معصوم جانوروں کے سر پر پہنچ جاتے ہیں اور جانور ڈر کے مارے اپنی جگہ سے ہلتا بھی نہی ۔۔۔۔۔
یہی وہ لمحہ تھا جب سارا کا سارا ٹوبہ ہرنوں سے خالی کر دیا گیا ۔۔۔۔یہ پورا قافلہ یہاں تباہی مچانے کے بعد چند منٹوں میں ہی رفوچکر ہوگیا یوں واٸلڈ لاٸف کے ملازمین کی کئی سالوں کی محنت ضاٸع گئی ۔۔۔
اگر کوٸ فیلڈ سٹاف ملازم انکی بات نامانے تو یہ وارڈن اس جھوٹے کیس میں پھنسا دیتے ہیں۔۔ چھوٹے بڑے تمام واٸلڈ لاٸف ملازمین انکی انھیں حرکتوں کی وجہ سے زہینی مریض بن چکے ہیں اور مجبور ہوکر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
ہمیں
حکومت پاکستان سے میرا سوال ہے کہ
کیوں ان بدنام زمانہ اعزاز گیم وارڈن بنا کر جنگلی حیات کی تباہی کی جا رہی ہے ۔۔۔
ناہی انکے پاس کوٸی ڈگری ہے ناہی انکا کوٸ سکیل ہے ۔۔۔پھر کیوں ان جاہل قسم کے لوگوں کے نیچے محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ایماندار آفسیر کو دبا کر رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔
اب ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کے محکمہ واٸلڈ لاٸف اچھے طریقے سے کام کرے گا ۔۔۔۔
یہاں سارا سسٹم ہی خراب ہے
دودھ کی نگرانی پر بلے کو بیٹھا دیا گیا ہے ۔۔۔۔
کچھ خدا کا خوف کریں ہوش کے ناخن لیں آخر کب تک ایسا چلے گا
اگر ان لوگوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو گنتی کے چند ہرن جو چولستان میں باقی بچے ہیں جلد ہی ختم ہو جائیں گے ۔۔۔پھر ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے یہی ہرن دوسرے ملکوں سے مناے جائیں گے ۔۔۔۔
یہلوگ کس قانون کے تحت گیم وارڈن بنے ہوے ہیں ۔؟؟؟؟
آخر اس محکے میں ان شکاریوں کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟
اگر ان گیم وارڈنز کی فیس بک فرینڈ لسٹ چیک کی جاۓ تو ان میں اکثریت شکاریوں کی ہی ہوتی ہے ۔۔۔
یہ لوگ ہرن، تلور اور اسی طرح کے دوسرے نایاب جانوروں کے علاوہ کسی دوسرے چھوٹے جانور کا شکار کرنا آپنی توہین سمجھتے ہیں۔۔۔ یہ گیم ورڈن بچپن سے جنگلی حیات کے دشمن ہوتے ہیں انکے دل میں کوئی رحم نہی ہوتا پھر کیسے ہم ان ظالموں سے خیر کی امید کرسکتے ہیں
یہ اسکی ہر ہفتے کی روٹین ہے ۔
بس بہت ہوگیا اب ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیۓ۔
آپ سب دوست جنگلی حیات سے محبت کا ثبوت دیں ۔
اس پوسٹ کو اتنا واٸرل کریں جتنا انہوں نے جنگلی حیات کا نقصان کیاہے ۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر شیخ متین ۔ ڈی وی ایم
تصویر میں نظر آنے والا یہ خونخوار درندہ عبدالرشید کوراٸی ہے۔
اسکا تعلق ضلع رحیمیار خان سے ہے ۔
اس درندے کو ضلع رحیم یار خان کا واٸلڈ لاٸف ڈیپارٹمنٹ میں اعزازی گیم وارڈن بنادیا گیا ہے ۔۔۔
عزازی ملازم وہ بندہ ہوتا ہے ۔۔۔جس کے پاس کسی قسم کی کوئی خاص ڈگری یا تربيت نہی ہوتی بلکہ اسے اس کی بے لوس خدمات کی وجہ سے اعزازی طور پر کسی بھی محکمہ میں بھرتی کر دیا جاتا ۔۔۔انھیں بھی ان کے بے پناہ قانونی اور غیر قانونی شکار کی وجہ سے اعزازی طور پر گیم وارڈن بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔واہ واہ
پوری دنیا میں یہ قانون ہے کہ جو بندہ یا بندی جنگلی حیات کی بغیر کسی لالچ کے خدمت کرے یا ان کے شکار وغیرہ کو روکنے میں حکومت کی مدد کرے اسے اعزازی طور پر محکمہ جنگلی حیات میں افسر لگا دیا جاتا ہے تاکہ غیرقانونی شکار پر قابو پایا جاسكے اور جنگلی حیات کی افزائیش نسل کی جاسكے ۔۔
لیکن پاکستان میں الٹا قانون ہے یہاں جو بندہ بدنام زمانہ شکاری ہوتا ہے اسے اعزازی طور پر گیم وارڈن بنا کر جنگلی حیات کا بیڑا غرک کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔۔۔۔
اعزازی گیم وارڈن کی تقرری یہاں کے بڑے بڑے سیاست دان خوداپنی مرضی سے کراتے ہیں تاکہ انھیں اور ان کے دوستوں کو کھل کر غیر قانونی شکار کرنے کے موقع مل سکے ۔۔
ایک اعزازی گیم وارڈن کا اصل کام یہ ہوتا ہے ۔۔
1 ۔۔ محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ساتھ مل کر جنگلی حیات کو غیر قانونی شکار سے بچانے میں محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ملازمین کی مدد کرنا
2 ۔۔اعزازی گیم وارڈن نے جنگلی حیات کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوتا ہے ۔۔کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جنگلی حیات کا تحفظ کرے گا۔۔۔
اب آتے ہیں قاتل گیم وارڈن رشید کورائی کی طرف
یہ خوں خوار درندہ بچپن سے ہی شکار کا شوقین ہے ۔۔۔
سیاسی لوگوں کی ٹی سی کر کے کسی نہ کسی طرح گیم وارڈن لگ گیا ۔۔لیکن جیسے ہی اسکو اعزازی گیم وارڈن بنایا گیا اس نے جنگلی حیات کی تباہی مچا دی ۔۔
چولستان میں شکار اپنی انتہا کو پہنچ گیا ۔۔پہلے تو ان لوگوں کو وائلڈ لائف کے ملازموں کا تھوڑا بہت خوف ہوتا تھا لیکن جب سے خود گیم وارڈن بنا تو سمجھو چولستان کا بادشاہ بن گیا ۔۔۔۔جو جانور یا پرندہ اسے نظر آتا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔۔۔۔
ہر رات شکار کھیلا جانے لگا ۔۔۔اب رات ہوتے ہی چولستان کے معدوم ہوتے جنگلی جانور شکاریوں کی گاڑیوں اور بندوقوں کی آواز سے تھر تھر کامپنے لگتے ہیں ۔۔۔کہ نجانے کب گولی چلے اور یہاں کے باسی یہ جنگلی جانور خاک و خوں میں نہا جائیں ۔۔۔۔
یہ وہ درنده ہے جو بے پناہ غیر قانونی شکار تو کرتا ہی ہے لیکن اسے دودھ پینے والے چھوٹے بچوں پر بھی رحم نہی آتا ۔۔۔۔اسے اگر ہرن کا چھوٹا بچا بھی کہیں مل جاۓ تو اسے بھی گولی مار کر اپنے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ میں سما لیتا ہے ۔۔
یہ بندہ ہر ہفتے کئی کئی درجن ہرن ،، تلور اور دوسرے نایاب جانورں کو شکار کر کے اپنی اور اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے ۔۔۔ اس کے بعد چند دن معملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتا ہے اور پھر دوبارہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے نکل پڑتا ہے ۔۔۔
اسے کوٸ پوچھنے والا نہیں
اب آ جاٸیں محکمہ واٸلڈ لاٸف کی طرف جن کا کام ہوتا ہے تحفظِ جنگلی حیات ۔۔ ایک بدنام زمانہ شکاری کو افسر لگا کر پورے محکمہ پر گلے میں توق کی طرح مسلط کردیا جاتا ہے ۔۔۔
پھر ہم عوام محکمہ جنگلی حیات سے امید کرتے ہیں کہ شکار کو روکا جاۓ ۔۔
❤ اب میں آپ کو رشید کورائی کی ایک کہانی سناتا ہوں ۔۔
مجھے یہ کہانی وائلڈ لائف کے ایک چھوٹے سے ملازم نے روتے ہوے سنائی ۔۔۔اس رات یہ ملازم بھی ٹوبہ پر موجود تھا ۔۔۔
اس رات 6 ہرن شکار کئے گے جس میں سے 3 مادہ تھیں اور ان میں سے ایک مادہ کچھ ہی دنوں میں بچے بھی دینے والی تھی ۔۔۔
آج سے 2 تین رات پہلے کا واقع ہے ۔۔۔چولستان میں رات کا وقت تھا ۔۔محکمہ جنگلی حیات کے کچھ ملازم ٹوبہ پر ہرنوں کی حفاظت کی غرض سے مامور تھے ۔۔۔۔
ٹوبہ ایک ایسے علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں قریب ہی پانی کا ایک تالاب ہوتا ہے ۔۔چونکہ اس جگہ وافر پانی موجود ہوتا ہے اسی لئے جنگلی جانور اور پرندے اس جگہ کو اپنا مسكن بنا لیتے ہیں تاکہ پانی اور خوراک آسانی سے ميسر آسکيں ۔۔۔
اب ہوا یوں کہ رات کے کسی پہر رشید صاحب نے محکمہ کے واوچرز کو کال کر کے حکم دیا ،،، مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں علاقے میں شکاری گھس آے ہیں ۔۔تم لوگ جلدی سے وہاں پہنچو اور پتہ لگاو کیامعملہ ہے ۔۔۔
محکمہ کے ملازموں کو نہ چاہتے ہوے بھی وارڈن صاحب کی بات ماننی پڑی ۔۔۔بھائی آخر افسر جو ہوا
ہلاکہ انسپیکٹرز اور واوچرز کو افسران کی طرف سے حکم دیا گیا ہوتا ہے کہ چولستان میں ایسی جگہہ نگرانی زیادہ کرنی ہے جہاں ہرن کی۔ تعداد زیادہ ہو اور اگر کوئی امرجنسی ہو جاۓ تو آدھے ملازم اسی جگہ رک کر ہرنوں کی حفاظت کریں گے اور آدھے لوگ دوسری جگہ جا کر چیک کریں گے ۔۔۔۔۔۔
لیکن رشید صاحب نے کال کر کے سب لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا ۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی فیلڈ سٹاف ٹوبہ سے رخصت ہوا تھوڑی ہی دیر بعد اسلح سے لیس ڈبل ڈور ڈالوں اور جيپوں کا ایک قافلہ اسی ٹوبہ پر نمودار ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان گاڑیوں کی تیز آواز اور آگ برساتی بندوقوں کی تڑاخے دار گھن گرج ہرنوں کے دلوں پر ہیبت طاری کر دیتی ہے ۔۔۔جيپ کی تیز روشنی دیکھ کر ہرن کی ٹانگيں کانپنے لگ جاتی ہیں ۔۔
اس سب صورت حال میں ہرن ایک ہی جگہ ساکت ہو کر ٹھہر جاتی ہے ۔۔۔۔۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب شکاری کہر بن کر ان معصوم جانوروں کے سر پر پہنچ جاتے ہیں اور جانور ڈر کے مارے اپنی جگہ سے ہلتا بھی نہی ۔۔۔۔۔
یہی وہ لمحہ تھا جب سارا کا سارا ٹوبہ ہرنوں سے خالی کر دیا گیا ۔۔۔۔یہ پورا قافلہ یہاں تباہی مچانے کے بعد چند منٹوں میں ہی رفوچکر ہوگیا یوں واٸلڈ لاٸف کے ملازمین کی کئی سالوں کی محنت ضاٸع گئی ۔۔۔
اگر کوٸ فیلڈ سٹاف ملازم انکی بات نامانے تو یہ وارڈن اس جھوٹے کیس میں پھنسا دیتے ہیں۔۔ چھوٹے بڑے تمام واٸلڈ لاٸف ملازمین انکی انھیں حرکتوں کی وجہ سے زہینی مریض بن چکے ہیں اور مجبور ہوکر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
ہمیں
حکومت پاکستان سے میرا سوال ہے کہ
کیوں ان بدنام زمانہ اعزاز گیم وارڈن بنا کر جنگلی حیات کی تباہی کی جا رہی ہے ۔۔۔
ناہی انکے پاس کوٸی ڈگری ہے ناہی انکا کوٸ سکیل ہے ۔۔۔پھر کیوں ان جاہل قسم کے لوگوں کے نیچے محکمہ واٸلڈ لاٸف کے ایماندار آفسیر کو دبا کر رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔
اب ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کے محکمہ واٸلڈ لاٸف اچھے طریقے سے کام کرے گا ۔۔۔۔
یہاں سارا سسٹم ہی خراب ہے
دودھ کی نگرانی پر بلے کو بیٹھا دیا گیا ہے ۔۔۔۔
کچھ خدا کا خوف کریں ہوش کے ناخن لیں آخر کب تک ایسا چلے گا
اگر ان لوگوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو گنتی کے چند ہرن جو چولستان میں باقی بچے ہیں جلد ہی ختم ہو جائیں گے ۔۔۔پھر ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے یہی ہرن دوسرے ملکوں سے مناے جائیں گے ۔۔۔۔
یہلوگ کس قانون کے تحت گیم وارڈن بنے ہوے ہیں ۔؟؟؟؟
آخر اس محکے میں ان شکاریوں کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟
اگر ان گیم وارڈنز کی فیس بک فرینڈ لسٹ چیک کی جاۓ تو ان میں اکثریت شکاریوں کی ہی ہوتی ہے ۔۔۔
یہ لوگ ہرن، تلور اور اسی طرح کے دوسرے نایاب جانوروں کے علاوہ کسی دوسرے چھوٹے جانور کا شکار کرنا آپنی توہین سمجھتے ہیں۔۔۔ یہ گیم ورڈن بچپن سے جنگلی حیات کے دشمن ہوتے ہیں انکے دل میں کوئی رحم نہی ہوتا پھر کیسے ہم ان ظالموں سے خیر کی امید کرسکتے ہیں
یہ اسکی ہر ہفتے کی روٹین ہے ۔
بس بہت ہوگیا اب ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیۓ۔
آپ سب دوست جنگلی حیات سے محبت کا ثبوت دیں ۔
اس پوسٹ کو اتنا واٸرل کریں جتنا انہوں نے جنگلی حیات کا نقصان کیاہے ۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر شیخ متین ۔ ڈی وی ایم