What's new

Majestic Balochistan.

1733296963976.jpeg
 
. . .
ٹرک' ٹرالر یا کوئی بھی لانگ روٹ گاڑی چلانے والا دکھنے میں تو ایک عام شخص نظر آتا ہے لیکن اس کی زندگی ہم سب سے بلکل الگ اور مختلف ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیئے کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہونے کے باوجود ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہیں ۔۔
ایک ٹرک ڈرائیور کی زندگی ہم سے کیونکر مختلف ہے؟؟
لمبے راستوں پر طویل سفر۔۔
ایک دفعہ چلے تو 8 سے 10 گھنٹے لگاتار ڈرائیونگ۔۔۔
تیز آواز میں مقامی گلوکاروں کے گانے سننے کے شوقین تاکہ سفر بہتر طریقے سے کٹ سکے۔۔۔
رات گئے سڑک کنارے کسی جان پہچان والے کے ڈھابے ہوٹل پہنچے' اپنا ٹرک وہی کھڑا کیا۔ رات کے وقت جو دال سبزی میسر ہوئی' وہی تڑکہ لگوا کر تنوری روٹی کے ساتھ کھا لی' پھر تیز چینی پتی والی کڑک چائے پی اور وہی بان کی چارپائی پر سر کے نیچے چادر رکھ کر سوگیا۔ دن چڑھے اٹھا' چند پانی کے چھینٹے منہ پر مارے' عجلت میں چائے کے کپ اور سگریٹ کے ساتھ ناشتہ کیا اور پھر اپنے سفر پر چل پڑا۔۔۔
سگریٹ ٹرک ڈرائیور کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور اکثریت ایسے ڈرائیوروں کی ہے' جو چرس نہ پیتے ہوں۔ طویل اور تھکا دینے والے سفر میں سگریٹ ان کا اہم ساتھی ہے۔
شام کے وقت دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے کسی روڈ پر اوسط درجے کے ہوٹل پر رکے اور دن بھر کی بھوک کو سگریٹ سے بہلانے کے بعد اچھا سا کھانا آرڈر کر دیا' جیسے کڑھائی' تکہ مصالحہ یا چپلی کباب۔ اس دوران کوئی جاننے والا ڈرائیور مل گیا تو اس کے ساتھ خوش گپیاں کیں اور پھر سے سفر کیلئے روانہ ہوگیا۔ کئ مرتبہ تو ان کی رات بھی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے بنے ہوئے کیبن میں سو کر گزرتی ہے۔ بڑھی ہوئی شیو اور سلوٹ زدہ کپڑے ڈرائیور کی خاص پہچان ہیں کیونکہ اتنا وقت ہی نہی ملتا کہ اپنے اوپر توجہ دیں۔ دیر سے منزل پر پہنچے تو اڈے والے سے جھڑکیاں کھانے کو ملے اور اگر راستے میں ٹرک خراب ہو جائے تو وہ الگ پریشانی۔۔۔
ایک ٹرک ڈرائیور کا سب سے پریشان کن خدشہ ٹریفک چالان ہوتا ہے۔ اس کا جگاڑ کچھ یوں نکالا گیا کہ صبح نکلتے وقت کسی جاننے والے ٹریفک وارڈن سے 100/200 روپے کا واجبی سا چالان کروایا اور اگلے 24 گھنٹوں کیلئے چالان سے استثنیٰ حاصل کر لیا۔ ہر وقت ناک پر دھرا غصہ اور گالیوں سے بھری گھٹیا زبان ٹرک ڈرائیور کیلئے معمولی بات ہے لیکن اس قدر سٹریس اور مشقت سے لبریز معمول کے بعد وہ اور کیا کریں؟ با اخلاق اور صاف ستھرا ٹرک ڈرائیور شاذ و نادر ہی ملیگا۔۔۔
تراہ نکال دینے والا انتہائی اونچی آواز والا پریشر ہارن' خود سے ذیادہ اپنے ٹرک کی صفائی اور خیال رکھنے والا' اس کو ہمیشہ سجانے و سنوارنے والا' خود انپڑھ لیکن بچوں کو ایک اچھے مستقبل کی امید میں اسکول بھجنے والا'.......
اگر زندگی نے وفا کی اور کامیاب ٹہرا تو شاید ادھیڑ عمری میں اپنی خود کی گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کھول لیگا ورنہ جب ضعف اور نظر کی کمزوری اسے مزید ڈرائیونگ کرنے سے قاصر کر دیگی تو اپنے محلے میں کوئی چھوٹی سی دکان کھول کر بیٹھ جائیگا ۔

1734417306165.jpeg
 
.

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ 1830 ﺍﻭﺭ 1861 ﮐﻮ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻞ ﺳﺮﻭﺱ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻧﮯﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﺑﺮﭘﺎ ﮐﺮﺩﯾﺎ . ﺩﺭﮦ ﺑﻮﻻﻥ ﮐﯽ ﺑﻞ ﮐﻬﺎﺗﯽ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﻻﺋﻦ 1886 ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺩﻭ ﮐﺮﻭﮌ 85 ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﻻﮔﺖ ﺁﺋﯽ ﺗﻬﯽ . ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻞ ﺳﺮﻭﺱ ﻧﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﻃﺮﺯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻬﮯ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﮐﮯ ﺟﺎﻝ ﮐﯽ، ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﻬﯽ ﻋﺠﻮﺑﮯ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﮯ .
بلوچستان کے ریلوے نظام میں سرفہرست بولان سیکشن اور کوئٹہ سے چمن جاتے ہوئے خوجک ٹنل قابل ذکر ہیں۔ کوئٹہ تا سبی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے بولان کے پتھریلے پہاڑوں میں 20 سرنگیں کھودنا اور ندیوں پر 396 لوہے کے مضبوط پل تعمیر کئے گئے ۔ اس وقت کے برصغیر میں لوہے کی کوئی فیکٹری موجود نہیں تھی۔ تمام ریلوے لائن اور پلوں کے لیے لوہا ships کے زریعے برطانیہ سے لایا گیا۔ بغیر کسی قرضے اور بیرونی امداد کے یہ ریل کا نظام بنا۔
جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی اس ریلوے لائن کو سنبھالے ہوئے ہے جہاں دن میں کئی مال بردار اور مسافر ٹرینیں گزر کر اپنی منزل کو پہنچتی ہیں۔
بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑوں اور سخت موسم میں ریل کی پٹری بچھانا ایک صدی قبل بلا شبہ انجئنئیرز اور لیبر کے لیےایک چیلینج رہا ہوگا جس میں موسم کی شدت اور سہولیات کی کمی کے باوجود بلوچستان میں ریل کا نظام لایا گیا جو آج تک صوبے کے عوام کو بہترین سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔۔
ﺁﺏ ﮔﻢ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﺳﻄﺢ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﮯ 2157 ﻓﭧ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺻﺮﻑ 22 ﻣﯿﻞ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﻝ ﭘﻮﺭ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺑﻠﻨﺪﯼ 5600 ﻓﭧ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﭨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﺩﻭ ﺍﻧﺠﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍ ﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﯿﻦ ﺍﻧﺠﻦ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻬﮯ . ﯾﮧ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭼﮍﮨﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺗﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﺮﯾﻦ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﺭ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺁﺏ ﮔﻢ ،ﺩﻭﺯﺍﻥ،ﮨﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﻣچھ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﻻﺋﻦ ﺑﭽﻬﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﭘﺮ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ . ﺟﺴﮯ ﺗﮑﻨﯿﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﭻ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺟﺒﮑﮧ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺍﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﻻﺋﻦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ . ﭨﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﻓﯿﻞ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﻻﺋﻦ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ
کئی ﻋﺠﻮﺑﮧ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﭨﺮﯾﮑﺲ ﺗﻮ ﮐﺐ ﮐﮯﻣﺮﺣﻮﻡ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ . ﮐﻮﺋﭩﮧ ﺳﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮑﺐ ﺁﺑﺎﺩ ﺭﻭﭨﺲ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺻﻮﺑﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﭨﺮﯾﮑﺲ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﮩﻮﻟﯿﺎﺕ ﻧﺎﮐﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ . ﺍﻥ ﺭﻭﭨﺲ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﮐﺌﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﺎﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ . ﺻﻮﺑﮯ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﺭﻭ ﭘﯿﭧ ﭼﮑﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺳﺮﻭﺱ ﮐﻮ ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﺩﯾﮕﺮ ﺻﻮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻣﮕﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﺘﺠﺎﺋﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ . ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺟﻮ ﮨﯿﮟ .

1735546501396.jpeg
 
Last edited:
.

Pakistan Affairs Latest Posts

Country Latest Posts

Back
Top Bottom