·
آواران بلوچستان میں شیریں اور فرہاد کا مقبرہ
#شیریں فرہاد کی کہانی
محبت کی ایک لازوال داستان چند سطور میں
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ایک شہر لسبیلہ سے اڑھائی سو کلو میٹر دور ایک علاقہ ہے. جیسا کہ شیر دودھ کو کہا جاتا ہے، لیکن وہاں کی مقامی زبان میں ٹھنڈے پانی کو بھی شیر کہتے ہیں. اس بستی میں ایک پہاڑ تھا جس کے اوپر ایک چشمہ تھا۔ اس چشمے کا پانی پہاڑ کی دوسری طرف گرتا تھا اور بستی میں نہیں پہنچتا تھا، اس پانی کو بستی تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ پہاڑ کو چوٹی سے ایسے کاٹا جائے کہ پانی بستی کی طرف بہنا شروع ہوجاۓ۔
فرہاد نے جب شیریں کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگا توشیریں کا باپ جو بستی کا سردار بھی تھا، اس نے انکار کرنے کی بجائے چالاکی سے یہ شرط رکھ دی کہ اگر فرہاد پہاڑ کی چوٹی کاٹ دے تو وہ اپنی بیٹی کی شادی فرہاد سے کر دے گا. چنانچہ فرہاد نےکڑی محنت سے پہاڑ کا ایک بہت بڑا حصہ کاٹ دیا۔
یہاں منظرعام پر اتی ہے شیریں کے باپ کی سازش
سردار نے جب دیکھا کہ اس کا کام مکمل ہونے والا ہے تو اس نے اپنےایک خاص آدمی کو کہا کہ جاو اور پہاڑ کے اس مقام پر کالا پتھردبا دو جہاں کل فرہاد آخری کدال چلائے گا۔ کالا پتھر انتہائی سخت اور چکنا ہوتا ہے. اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔
شیریں کو اگلی صبح اس بات کا پتہ چلا تو وہ فرہاد کو خبر کرنے کے لیے پہاڑ کیطرف بھاگی۔ فرہاد اس وقت تک اس مقام پر پہنچ چکا تھا. اس نے جب شیریں کو آتے دیکھا تو نہایت جوش اور جذبے سے کدال ماری۔ کدال جب کالے پتھر سے ٹکرائی تو اس کی سختی کی وجہ سے اچھل کر تیزی سے واپس آئی اور فرہاد کی پیشانی میں پیوست ہو گئی اور وہ ہلاک ہو کر گر گیا۔
شیریں نے اوپر پہنچ کر جب یہ منظر دیکھا توغم کی شدت سے اپنے حواس کھو بیٹھی اور عین اس مقام پر گری جہاں فرہاد گرا تھا ۔ کدال کا دوسرا سرا شیریں کے سر میں گھس گیا اوروہ بھی وہیں انتقال کر گئی۔ ان دونوں کی قبریں آج بھی اس پہاڑ کے دامن میں اسی مقام پر موجود ہیں۔