Awesome
RETIRED MOD
- Joined
- Mar 24, 2006
- Messages
- 22,023
- Reaction score
- 5
Now thats one great compliment, although I'm not deserving of it.I AM HAPPY TO SEE ANY ONE HAVE THINK LIKE IQBAL AND ASIM YOU HAD DONE GOOD IN THIS REGARD .
THANKS FOR ALL THIS.
abiab, here's for you. It's one of Iqbal's last poems right?
ابلیس کی مجلس شوریٰ
1936
ابلیس
یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں!
ساکنانِ عرش اعظم کی تمناوں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
میں دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے معنم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں!
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں!
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یارہتی ہے خام!
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام!
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام!
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پرحرام
دوسرا مشیر
خبر ہے سلطانیء جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر!
پہلا مشیر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں، پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر!
تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی ! وہ مسیح بے صلیب!
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب!
کیا بتاوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاوں کے خیموں کی طناب!
چوتھا مشیر
توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نےپھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالدچوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!
پانچواں مشیر
(ابلیس کو مخاطب کرکے
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار
تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کابروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہیں و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روز گار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار
فتنہء فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پرمدار
ابلیس
(اپنے مشیروں سے
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسماںِ تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو!
کار گاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر آگاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنہء فردا نہیں، اسلام ہے
(2)
جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہء مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اورکیا فکر و عمل کا انقلاب!
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں*الجھا رہے
(3)
توڑ ڈالیں جس کی تکبریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات!
ابنِ مریم مر گیا یا زندہء جاوید ہے؟
ہیں صفاتِ ذاتِ حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات!
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات!
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
1936
ابلیس
یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں!
ساکنانِ عرش اعظم کی تمناوں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
میں دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے معنم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں!
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں!
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یارہتی ہے خام!
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام!
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام!
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پرحرام
دوسرا مشیر
خبر ہے سلطانیء جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر!
پہلا مشیر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں، پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر!
تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی ! وہ مسیح بے صلیب!
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب!
کیا بتاوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاوں کے خیموں کی طناب!
چوتھا مشیر
توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نےپھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالدچوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!
پانچواں مشیر
(ابلیس کو مخاطب کرکے
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار
تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کابروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہیں و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روز گار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار
فتنہء فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پرمدار
ابلیس
(اپنے مشیروں سے
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسماںِ تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو!
کار گاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر آگاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنہء فردا نہیں، اسلام ہے
(2)
جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہء مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اورکیا فکر و عمل کا انقلاب!
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں*الجھا رہے
(3)
توڑ ڈالیں جس کی تکبریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات!
ابنِ مریم مر گیا یا زندہء جاوید ہے؟
ہیں صفاتِ ذاتِ حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات!
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات!
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
In Urdu: Arumghan-e-Hejaz
This is one of Allama Iqbal's final works. Sort of his last opinion on the world.
Iblees ki Majlis-e-Shura (The Devil?s Advisory Council) IF YOU CAN THINK
Iblees is sitting with his five advisors and starts a meeting with self-praising statements and explains what he has done so far to take the world at this stage. First advisor affirms his strategies and explains the state of people around the world. Second advisor reminds them about a threat. But first advisor corrects him and refutes his fear. Third advisor reminds them about another serious threat. Forth advisor provides the solution to that threat. Fifth advisor explains that serious threat again in more detail to let Iblees understand the seriousness of the matter. Iblees who is listening to all advisors refutes all of the fears that they have but discloses his own fear and considers it a Real threat to his satanic system. He explains why he is afraid of that threat and then he finally tells them what to do.
THE SATANS ADVISORY COUNCIL
THE SATAN:
An old game of needs this mean worlds tact,
To heavenly host hopes a cold blood act.
That Great Maker bent to wreck earth soon,
Who gave it a name of KAF and NOON.
To Europe I gave the kingships dream,
I broke the spell of church and mosques team.
I taught to the poor a lesson of fate,
To the wealthy I gave the wealths craze great.
Who can put out that fires big blaze,
Of riots whome Satan had set ablaze.
To plants we watered, caused to be trees,
Who can bring that old tree to knees.
FIRST ADVISOR:
The Satans order is firm every where,
The masses too like the servitude snare.
The bows were writ for the poor in fate,
A pray without stay their natures trait.
Either in his heart a wish does not lie,
If wakes up ever, would be raw and die.
Isnt this a marvel of constant push hence,
That Mullah is tied with kingship fence.
A best booze it was to Eastern nature then,
No lesser vice singing to eloquence ken.
The Haj and Kaaba Rounds yet a rite though,
The nude sword of Moniin is blunt I know.
On whose despair he formed a queer view,
"On Muslim war is banned in this age new"
SECOND ADVISOR:
Is this roar in goodness that masses are kings?
You know not new mischiefs of underlings.
FIRST ADVISOR:
A good point well, my seeing eye hails,
No danger too there from a kingships veil.
We gave to kingship the masses rules dress,
Self conscious now is man with selfs ingress.
The kingship science has a different sense,
It needs not a garb of a monarch hence.
May be Nations Council or Kaisers court,
A kings eye craves a foreign land or port.
Didnt you see western democratic track,
Whose face is shining but inner is black.
THIRD ADVISOR:
What is the harm if lives the royal soul,
What is the answer to that Jews wicked role.
That Moses sans vision! that Christ sans cross,
Hes not prophet, but, keeps Book for a gloss*.
How to show that heathens shameless eyes,
To East, West nations a doomsday lies.
No worst cancer looks than his natures bent,
That the slaves have toppled the. masters tent.
*Gloss a narration on foot notes, (Fig) here it means a deceptive appearance (over a life of secret wrong doings, a false or misleading inter relation).
FOURTH ADVISOR:
Its counter action see in Romes big halls,
We have shown his Sons, dream of Caesars call.
Who is now wrapped with waves of Roman Sea,
Like lute they weep oft, oft they grow like pines tree.
THIRD ADVISOR:
I cant admire his prudence and care,
Who laid bare the Europes statecraft snare.
FIFTH ADVISOR:
Due to thy burning this world gets balance,
When you wished laid bare each hidden face hence.
Thy heat in his clay the worlds pomp and show,
You taught the heavens fool, a wisdom so.
Than thee He knows not the nature of men,
Who is famous as God, in the fools ken.
Whose duty was praise, rosary and round,
Due to thy envy, in shame ever bound.
All wise men of West are thy pupil though,
I have no faith yet in their wisdom so.
That mischief monger Jew, the Muzdaks soul.
Each tunic gets torn from his crazy goal.
A crow looks prone to seize the hawks force,
How quick the time changes natures course.
Being restive she scanned the skies vast space,
Like fools we counted dust of human race.
The horrors of future, looking so great,
With hills and vales shiver the brooks in spate.
My Master! that world is going to doom,
The world which looks to thy Leaderships boom.
SATAN
(To His Advisor):
Thus lies in my hold the worlds pomp an show,
This earth, the Sun and Moon, the Skys glow.
Shall see the East and West my game and roar.
As soon I warm up Western nations gore.*1
The pontiffs of church, the leaders of State,
My one dins echoe for them a dread great.
To her a modern world if a fool espies;
This cultures wine cups will someone break and sea?
The collars to whom the Nature has torn,
The logic of Muzdak*2 to them cant darn.
How can frighten me the Socialist lads,*3
Since long jobless, confused and loafing lads.*3
From that nation but I feel a threat grave,
whose heart yet holds hidden embers of crave.
A few of them I espy in this nation yet,
At dawn who take Wuzu*4 with tear drops jet.
He knows on whom hidden Times are bright,
The Islam, not Muzdak is the futures fright.
--------------------------------------------------------------------------------
CHAPTER 2
I know this nation to Quran holds not,
The old craze for wealth is the Momin s thought.
In dark nights of East this point I behold,
The sleeves of Harem Sheikhs no white hand hold.
I am but afraid that modern age needs,
May not force this age to know Prophets creed.
Beware! hundred times from the Prophets Act,
It guards women honour, makes man perfect.
A death knell to those who made the mar, slave,
It ruled out kingship, no beggary it gave.
It cleaned the mans wealth from every stain,
It made the rich trustees of wealths wrong drain.
No bigger change could be of deeds and thoughts,
This earth owns to Allah, to a king not.
His Law be kept hidden from whole worlds eye,
To my solace Moumin lacks a faith high.
Let him be fastened in metaphysics lone,
In his own meanings of the Korans tone.
--------------------------------------------------------------------------------
CHAPTER 3
Whose call God is Great*5 broke the world spell,
That conscious mans night why not a bright deli.
Did the Christ died or alive from start*6?
Are Gods attributes His Part or apart?
Is the coming Christ Hindi Nasirs dad?
Is he a mujaddid*7 like the Marys lad?
Are Gods words mortal or old like Him hence?
Which sect of the Ummah will have riddance?
Arent now enough for Muslims of this age?
His dogmas gods he found in his rummage.*8
From a practical life keep him away,
Get all his pawns beaten in this nice way.
Hes better a slave upto the dooms day,
Leave the mortal world for others hey-day.
The verse and mysticism suits for his deen.*9
Which hides from his eyes lifes vital scene.
I fear from this Ummah lest they awake,
Being his faiths base, world account he would take.
In prays at dawn keep him rapt*10 and grave.*11
Make him zealot*12 fan of tombs and graves.