What's new

Indians leave a footprint in CERN

IND151

BANNED
Joined
Oct 25, 2010
Messages
10,170
Reaction score
3
Country
India
Location
India
god-particle-new-particle-found-by-cern-consistent-with-higgs-boson.jpg




In pic: This undated image made available by CERN shows a typical candidate event including two high-energy photons whose energy (depicted by red towers) is measured in the CMS electromagnetic calorimeter. The yellow lines are the measured tracks of other particles produced in the collision.

The pale blue volume shows the CMS crystal calorimeter barrel.

Text courtesy: AFP

After a quest spanning nearly half a century, physicists said they had found a new sub-atomic particle consistent with the Higgs boson which is believed to confer mass.

As all eyes are on the European Organisation for Nuclear Research, famously known as CERN, Indian scientific and technological contributions are among the many that keep the world’s biggest particle physics laboratory buzzing.


In a ‘quantum’ leap in physics, CERN scientists on Wednesday claimed to have spotted a sub-atomic particle “consistent” with the Higgs boson or the “God particle”, believed to be a crucial building block that led to the formation of the universe.

There is an intrinsic Indian connection to what is happening at CERN — Satyendra Nath Bose. It is Bose after whom the sub-atomic particle boson is named.

His study changed the way particle physics has been studied ever since. The Higgs Boson is a particle that is theoretically the reason why all matter in the universe has mass.

The name Higgs Boson came from a British scientist Peter Higgs and Bose. The work done by Bose and Albert Einstein, later added by Higgs, lead to this pioneering day.[/U]

“India is like a historic father of the project,” Paolo Giubellino, CERN spokesperson had said back in October last year when PTI visited the facility.


At the core of the CERN, spread over two countries as it is situated near the Swiss-Franco border, is the 27-km long tunnel, over 70 metres beneath the ground, where the Large Hadron Collider (LHC) or commonly referred to as the Big Bang experiment was conducted last year.

The experiment had aimed to recreate the conditions of the Big Bang, when the universe is thought to have exploded into existence about 14 billion years ago.

The CERN runs a number of experimental projects and over 100 Indian scientists are working round the clock.

SIGNIFICANT CONTRIBUTION BY KOLKATA INSTITUTE


The Saha Institute of Nuclear Physics (SINP) said in Kolkata on Wednesday that its scientists had made significant contributions to the development of the CMS experiments at CERN.


“This led to the observation of the new particle at 125.3 GeV, consistent with a Higgs Boson as predicted by the Standard Model of Particle Physics, announced just now,” SINP Director Milan Sanyal told PTI in Kolkata.

Stating that it was a historical moment in physics and SINP took pride in being a part of the history, he said “It will require more data and intense scrutiny to establish these findings beyond any doubt.

“This is an important moment for the development of science and I am very happy that our institute, this city and our country is part of the science revolution,” Mr. Sanyal said.

He said that the core CMS team of the SINP had five faculty members — group leader Prof. Sunanda Banerjee, Prof. Satyaki Bhattacharya, Prof. Suchandra Datta, Prof. Subir Sarkar and Prof. Manoj Saran.

Most of the team members, he said, had worked for more than a decade with the CMS experiment with notable contributions in the development of the experiment right from the early stage and were actively participating in the analysis of the incoming data.

He said that the SINP was committed to contribute in all areas of the future development and in participating in the exciting physics programme of the CMS experiment in the years ahead.

Mr. Sanyal said that the SINP had joined in the CMS experiment at the Large Hadron Collider facility through a memorandum of understanding with CERN signed here during the last visit of the CERN Director-General.

“Our institute has significantly expanded its collaborative research activities at CERN since then, particularly in three experimental areas, like ALICE, CMS abnd ISOLDE,” he said.

SINP is the oldest institute in the area of nuclear physics in India.

http://www.google.co.in/url?sa=t&rc...yqDIBg&usg=AFQjCNECQflrcxveL3s3F1ITnNwnD4pIAg
 
.
The new particle discovered is indeed a BOSON and not necessarily a Higgs Boson.
 
. . .
i am very happy due this achievement of Indian scientists
 
. . .
one thing I am sure about that is, these researches will not lead to anywhere. They only provide Jobs. Any ways. good going India.
 
.
We Indians are Global citizen.. We don't confine our self in cocoon. The world love our liberalism and attitude. We gell up with any culture any ppl.


This is our 10,000 year old sansakar (well manners.)


one thing I am sure about that is, these researches will not lead to anywhere. They only provide Jobs. Any ways. good going India.


Pessimist... "When DoD show Internet, one politician says the same:these researches will not lead to anywhere"
 
. .
’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘

ذیشان ظفر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

آخری وقت اشاعت: بدھ 4 جولائ 2012 ,* 17:13 GMT 22:13 PST

Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن ‘سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
اسی بارے میں

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ
کائنات کیسے وجود میں آئی، سمجھنے میں مدد ملے گیسنئیے02:12

متعلقہ عنوانات

سائنس ,
پاکستان

سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔

’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔

’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
 
. .
’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘

ذیشان ظفر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

آخری وقت اشاعت: بدھ 4 جولائ 2012 ,* 17:13 GMT 22:13 PST

Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن ‘سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
اسی بارے میں

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ
کائنات کیسے وجود میں آئی، سمجھنے میں مدد ملے گیسنئیے02:12

متعلقہ عنوانات

سائنس ,
پاکستان

سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔

’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔

’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

provide BBC links !!
 
.
'सरन पाकिस्तान वैज्ञानिकों की इतनी'ज़ीशान जफरबीबीसी उर्दू संवाददाता, इस्लामाबादअंतिम विशेष: बुधवार 4 जुलाई 2012, * 17:13 GMT 22:13 PSTFacebookTwitterमित्र को भेजेंछापेंस्विट्जरलैंड के शहर जीनीवा परमाणु अनुसंधान यूरोपीय प्रयोगशाला 'सरन' से जुड़े डॉक्टर हफीज होरानी के अनुसार सरन प्रयोगशाला के साथ तीस के करीब पाकिस्तानी वैज्ञानिक काम कर रहे हैं.उन्होंने बीबीसी से बात करते हुए कहा कि वर्ष उन्नीस सौ चोरानवे में सरन प्रयोगशाला के साथ काम करने का समझौता संपन्न हुआ था और तब से अब तक लगभग सौ से अधिक वैज्ञानिक सरन प्रयोगशाला के साथ काम कर चुके हैं.इससे जुड़ी ख़बरेंब्रह्मांड के निर्माण की वजह, मुख्य ज़र्रे खोज का दावाब्रह्मांड कैसे अस्तित्व में आई, समझने में मदद गेसनिए 02:12संबंधित विषयोंविज्ञान,पाकिस्तानसरन के हीडरोन कोलाईडर परियोजना से जुड़े वैज्ञानिक डॉ. हफीज होरानी के अनुसार एक समय में प्रयोगशाला में पन्द्रह के पास वैज्ञानिक काम करते हैं और बाकी साइसन्दान पाकिस्तान में इंटरनेट के माध्यम से शोध कार्य करते हैं जो वैल्यू एडीशन कहा जाता है.'सरन से विभिन्न सामग्री अनुसंधान के लिए भेजा जाता है और यहां पाकिस्तान में उसका अनुभव करने के बाद विभिन्न मॉडल तैयार कर वापस भेजे जाते हैं.उन्होंने कहा कि सरन प्रयोगशाला के साथ काम करने वाले अधिकांश वैज्ञानिकों का संबंध नेशनल सेंटर फॉर भौतिकी और पाकिस्तान के परमाणु संगठन पाकिस्तान परमाणु ऊर्जा आयोग है.उन्होंने कहा कि पाकिस्तानी वैज्ञानिकों की विशेषज्ञता और योग्यता की यूरोप में, विशेष रूप से सरन से संबंधित काम को लेकर बहुत सम्मान किया जाता है और इसका अंदाज़ा इससे लगाया जा सकता है कि भारत के चालीस वैज्ञानिक सरन के साथ काम कर रहे और पाकिस्तानी वैज्ञानिकों की संख्या तीस है.'सरन भारतीय वैज्ञानिक एक योजना जबकि पाकिस्तानी वैज्ञानिक दो परियोजना' सी एम एस और ाीलस के साथ काम कर रहे हैं.उन्होंने कहा कि इस क्षेत्र को (Experimental High Energy Physics) कहते हैं और सरन के अलावा दुनिया में कहीं भी नहीं है.एक सवाल के जवाब में उन्होंने कहा कि सरन दुनिया भर के उच्च शिक्षा और अनुसंधान संस्थानों से वैज्ञानिक काम करते हैं और पाकिस्तानी वैज्ञानिकों को उनके साथ मिलकर काम करने और सीखने का अवसर मिलता है.'सरन दुनिया के नवीनतम उपकरण हैं जो कि दुनिया में कहीं नहीं हैं, और उपकरणों पर हमें काम करने का मौका मिलता है.डॉ. हफीज होरानी से सीखे गए अनुभव और ज्ञान को अन्य पाकिस्तानी वैज्ञानिकों तक ले जाने के लिए क्षेत्र को पाठ्यक्रम में शामिल करने की समीक्षा जा रहा है.
Hindi Translation- courtasy -google :D
 
. .
Back
Top Bottom