Arsalan
THINK TANK CHAIRMAN
- Joined
- Sep 29, 2008
- Messages
- 18,178
- Reaction score
- 65
- Country
- Location
24 September 2nd Shahadat Anniversary of Flight Lieutenant Umer Shahzad Shaheed TBt.
By Squadron Leader Zahid Yaqub Aamir
Credit: Shared on facebook by Izma Laraib
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم لہو کا رشتہ زمین سے رکھنا اس بہشت بریں سے رکھنا ستمبر کے مہینے میں جہاں اس ملک وملت کے مقدر میں فتح اور کامیابی کی داستانیں رقم ہوئیں وہیں ہمارے بہت سے جری جواں اس دھرتی ماں پر قرباں ہوئے. گویا یہ قربانیوں کا مہینہ بھی ہے.اسی ستمبر ایک سال قبل ہمارا فلائیٹ لیفٹیننٹ عمر شہزاد بھی ارض وطن پر قربان ہوا. بانکا سجیلہ..بہادر نوجوان. 24ستمبر ،گزشتہ سال ...اچانک ٹی وی پر عمر شہزاد کی شہادت کی خبر نمودار ہوتی ہے. پاک فضائیہ ،ارض پاک کے ہر فرد کے لیے تو یہ تکلیف دہ خبر تھی..مگر میری بھیگی آنکھوں کےسامنے واقعات کا ایک تسلسل تھا..عمر شہزاد کی زندگی کے انمول واقعات..عمر شہزاد کی کامیابیوں کا سفر. میں نے عمر کو ایک سکول کے ننھے طالبعلم سے لیکر رسالپور اکیڈمی کےایک سفید یونیفارم سے اکیڈمی انڈر آفیسر تک دیکھا. عمر کی ذات بہت مختلف تھی.ملنسار، سمجھدار، احساس کی دولت سے مالامال. کسی بھی ملٹری اکیڈمی کا سینئر موسٹ کیڈٹ اکیڈمی انڈر آفیسر کہلاتا ہے. اسکا انتخاب مجموعی طور پر اسکی تعلیمی کارکردگی، عسکری مہارت، نظم و ضبط کی پابندی اور جسمانی صلاحیتوں کی بنیاد پہ کیا جاتا ہے. اسے دوسرے کیڈٹس کے لیے ایک رول ماڈل بننا ہوتا ہے. وہ پوری اکیڈمی کے سینکڑوں کیڈٹس کے انتظامی امور سنبھالتا ہے.عمر شہزاد نے اسے خوب نبھایا. اسے بطور کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کے اعتماد پہ پورا اترنا بخوبی آتا تھا. ایک مرتبہ شارٹ کورس کےجونئر موسٹ کیڈٹس کو کسی غلطی کے باعث سزا کا سامنا کرنا پڑا. اسی دوران انکی کلاسز کا وقت ضائع ہوگیا.میں بطور پراگرس اینڈ ٹریننگ کنٹرول آفیسر ذمہ دار تھا کہ کیڈٹس کی تعلیمی سرگرمیاں بروقت شروع اور اختتام پذیر ہوں.ایسے میں میں نے اکیڈمی انڈر آفیسر کو پیغام بھیجا کہ آپ اس واقعہ کو ذاتی طور پر دیکھیں اور انکی تعلیمی سرگرمیوں کا حرج نہ ہو. میں چھٹی کے کچھ وقت بعد اپنے آفس میں ہی موجود تھا کہ عمر میرے آفس پہنچا. وہ فلائیننگ ونگ سے اپنی مشکل ٹریننگ کے بعد میرے سامنے موجود تھا. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کیڈٹس اپنے کمروں میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہیں. عمر اگر نہ بھی آتا تو میرے احکامات یا پیغام اس نوعیت کا نہ تھا کہ اسے فوری پہنچنا تھا. مگر اسکا تو خمیر ہی سچائ اور ایمانداری کی مٹی سے اٹھا تھا.اسے اعتماد پہ پورا اترنا آتا تھا. اسکا پہلا جواب یہی تھا کہ سر..ان کیڈٹس کے تعلیمی نقصان اور تربیتی سرگرمیوں پر کوئ سمجھوتا نہیں.اور پھر واقعی وہ کبھی لیٹ نہ ہوئے. اکیڈمی کی ٹریننگ کے دوران ایک مرتبہ ایک مشکل صورتحال کاسامنا تھا. کچھ کیڈٹس اکیڈیمکس میں مشکل کا شکار تھے.انکو ساتھی کیڈٹس کے ساتھ رکھنے کے لیے اضافی توجہ کی ضرورت تھی.مجھے احکامات موصول ہوئے کہ انکے لیے علیحدہ کوچنگ اور توجہ کا اہتمام کیا جائے. میں نے جہاں ان کیڈٹس کی لسٹ متعلقہ انسٹرکٹرز کو فراہم کی وہیں اکیڈمی انڈر آفیسر عمر شہزاد کو بھی تھما دی. مجھے آج بھی اپنے الفاظ اور عمر کا دمکتا چہرہ یاد ہے. میں نے کہا کہ عمر ان لڑکوں کو اکیڈیمکس کی بنیاد پر یہاں سے جانا نہ پڑے...عمر مسکرایا، بولا سر یہ جانے نہیں یہاں کا حصہ بننے آئے ہیں. میں اس لمحہ بھی عمر کے اس جواب سے چونک گیا تھا. اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ عمر اپنے طور پر رات کے سٹڈی ٹائم میں انکو بذات خود دیکھنے جاتا ہے. ایک شام رسالپور اکیڈمی آڈیٹوریم میں انٹر سکواڈارن تقریری مقابلے کی فل ڈریس ریہرسل جاری تھی. تمام انسٹرکٹرز اور شمولیت کرنے والے کیڈٹس موجود تھے. ایسے میں اردو مزاحیہ تقریر کے لیے سکواڈرن نمبر 2 کا ایک کیڈٹ سامنے آیا تو تقریر کے کچھ حصوں کو معترض ٹھہراتے ہوئے وہاں موجود سینئر آفیسر( ڈائریکٹر آف سٹڈیز) کی طرف سے اس کیڈٹ کو تقریر کرنے سے منع کردیا گیا. وہ آخری روز تھا. اگلے روز فائینل مقابلہ تھا.چونکہ اردو تقاریر کی تیاری کے لیے میں ذمہ دارتھا اور یہ بہت آسان تھا کہ سٹینڈ بائ مقرر کو منتخب کرلیا جاتا. مگر مجھے مناسب نہ لگا کہ پہلی مرتبہ شمولیت کرنے والے کیڈٹ کی اسطرح حوصلہ شکنی ہو.اسے موقع ملنا چاہیے تھا. مجھے اپنے سینئر سے درخواست گزار ہونا پڑا کہ سر اسکو ایک موقع اوردے دیں. میں آج شام اسکے میس میں سٹڈی ٹائم جاکر اسے خود تقریر لکھ کر دوں گا اوریہ ہی تقریر کرے گا. گروپ کیپٹن جمیل دلشاد کو میری درخواست ماننا پڑی. اور پھر میں اوروہ کیڈٹ عمر شہزاد کےکمرے میں موجود تھے.عمر میرا اس تقریر کی تیاری میں ساتھی تھا.میں نےتقریر لکھی ، چند مرتبہ ریہرسل کرائ ، سکواڈرن نمبر 2 کی سکواڈرن کمانڈر، سکواڈرن لیڈر فرحت کو مطلع کیا اور عمر کے حوالے کرکے چلدیا. مجھے ایک اطمینان اورتسلی تھی... میرے لیے عمر کی طرف سے دی گئ خوداعتمادی کااحساس کافی تھا. اورپھر یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا دل میرے پیارے عمر کی محبت سے سرشار ہےکہ اس اگلے روز منعقدہ مقابلے میں اردو (مزاحیہ ) تقریر میں اسی کیڈٹ نے اول پوزیشن حاصل کی تھی جسے عمر نے تیاری کرائ تھی.عمر کو پڑھائ،تربیتی عمل،ڈرامیٹکس، پریڈ ، فلائینگ، ہرجاہ نمایاں دیکھا. کوئ کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کو انفرادی طور پر اتنا یاد نہیں رہتا مگر عمر سب کو اسی طرح یاد ہے. حافظے کی تختی پر رقم ہے. عمر شہزاد فائیٹرپائلٹ بنا.کامیاب تربیت پراسے اعزازی تلوار اور بہترین پائلٹ ٹرافی سے نوازا گیا
. وہ پاکستان فضائیہ کے بہترین جہاز اور سکواڈرن کا حصہ تھا.اور پھر 24 ستمبر کی وہ صبح... جب فلائیٹ لیفٹیننٹ عمرشہزاد کا ایف سیون پی جی طیارہ پشاور کے قریب فنی خرابی کا شکار ہوگیا. وہ اسے بحفاظت واپس لانا چاہتا تھا. اسے اس ملک وملت کے قیمتی جہاز کی سلامتی عزیز تھی.. نیچے آبادی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ جہاز کے گرنے سے آبادی کو بھی محفوظ رکھے۔ وہ مسلسل رابظے میں تھا۔ وہ کیا کمال حوصلہ تھا اس نوجوان کا۔ وہ چاہتا تو فورا“ جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا سکتا تھا۔ اور پھر آبادی کو بچانے اور جہاز واپس لانے کی کوشش میں وہ اپنی جان اس دھرتی ماں پر وار گیا... تیری محبت میں موت آئے کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش یہ ایک جاں کیا ہزار ہوں تو ہزار تجھ پہ نثار کردوں !!! 24 ستمبر..آہ یہ ستمبر ہی تھا جس میں سرفراز رفیقی، یونس حسن، منیرالدین ، اقبال اور افضل شہید جیسے فضائ سرفروش قربانیوں کی داستانیں رقم کرگئے. یہ ستمبر ہی ہے جب عمر بھی اپنی ہستی کی معراج پاگیا.. شہید کے لیے سلام عقیدت
By Squadron Leader Zahid Yaqub Aamir
Credit: Shared on facebook by Izma Laraib
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم لہو کا رشتہ زمین سے رکھنا اس بہشت بریں سے رکھنا ستمبر کے مہینے میں جہاں اس ملک وملت کے مقدر میں فتح اور کامیابی کی داستانیں رقم ہوئیں وہیں ہمارے بہت سے جری جواں اس دھرتی ماں پر قرباں ہوئے. گویا یہ قربانیوں کا مہینہ بھی ہے.اسی ستمبر ایک سال قبل ہمارا فلائیٹ لیفٹیننٹ عمر شہزاد بھی ارض وطن پر قربان ہوا. بانکا سجیلہ..بہادر نوجوان. 24ستمبر ،گزشتہ سال ...اچانک ٹی وی پر عمر شہزاد کی شہادت کی خبر نمودار ہوتی ہے. پاک فضائیہ ،ارض پاک کے ہر فرد کے لیے تو یہ تکلیف دہ خبر تھی..مگر میری بھیگی آنکھوں کےسامنے واقعات کا ایک تسلسل تھا..عمر شہزاد کی زندگی کے انمول واقعات..عمر شہزاد کی کامیابیوں کا سفر. میں نے عمر کو ایک سکول کے ننھے طالبعلم سے لیکر رسالپور اکیڈمی کےایک سفید یونیفارم سے اکیڈمی انڈر آفیسر تک دیکھا. عمر کی ذات بہت مختلف تھی.ملنسار، سمجھدار، احساس کی دولت سے مالامال. کسی بھی ملٹری اکیڈمی کا سینئر موسٹ کیڈٹ اکیڈمی انڈر آفیسر کہلاتا ہے. اسکا انتخاب مجموعی طور پر اسکی تعلیمی کارکردگی، عسکری مہارت، نظم و ضبط کی پابندی اور جسمانی صلاحیتوں کی بنیاد پہ کیا جاتا ہے. اسے دوسرے کیڈٹس کے لیے ایک رول ماڈل بننا ہوتا ہے. وہ پوری اکیڈمی کے سینکڑوں کیڈٹس کے انتظامی امور سنبھالتا ہے.عمر شہزاد نے اسے خوب نبھایا. اسے بطور کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کے اعتماد پہ پورا اترنا بخوبی آتا تھا. ایک مرتبہ شارٹ کورس کےجونئر موسٹ کیڈٹس کو کسی غلطی کے باعث سزا کا سامنا کرنا پڑا. اسی دوران انکی کلاسز کا وقت ضائع ہوگیا.میں بطور پراگرس اینڈ ٹریننگ کنٹرول آفیسر ذمہ دار تھا کہ کیڈٹس کی تعلیمی سرگرمیاں بروقت شروع اور اختتام پذیر ہوں.ایسے میں میں نے اکیڈمی انڈر آفیسر کو پیغام بھیجا کہ آپ اس واقعہ کو ذاتی طور پر دیکھیں اور انکی تعلیمی سرگرمیوں کا حرج نہ ہو. میں چھٹی کے کچھ وقت بعد اپنے آفس میں ہی موجود تھا کہ عمر میرے آفس پہنچا. وہ فلائیننگ ونگ سے اپنی مشکل ٹریننگ کے بعد میرے سامنے موجود تھا. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کیڈٹس اپنے کمروں میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہیں. عمر اگر نہ بھی آتا تو میرے احکامات یا پیغام اس نوعیت کا نہ تھا کہ اسے فوری پہنچنا تھا. مگر اسکا تو خمیر ہی سچائ اور ایمانداری کی مٹی سے اٹھا تھا.اسے اعتماد پہ پورا اترنا آتا تھا. اسکا پہلا جواب یہی تھا کہ سر..ان کیڈٹس کے تعلیمی نقصان اور تربیتی سرگرمیوں پر کوئ سمجھوتا نہیں.اور پھر واقعی وہ کبھی لیٹ نہ ہوئے. اکیڈمی کی ٹریننگ کے دوران ایک مرتبہ ایک مشکل صورتحال کاسامنا تھا. کچھ کیڈٹس اکیڈیمکس میں مشکل کا شکار تھے.انکو ساتھی کیڈٹس کے ساتھ رکھنے کے لیے اضافی توجہ کی ضرورت تھی.مجھے احکامات موصول ہوئے کہ انکے لیے علیحدہ کوچنگ اور توجہ کا اہتمام کیا جائے. میں نے جہاں ان کیڈٹس کی لسٹ متعلقہ انسٹرکٹرز کو فراہم کی وہیں اکیڈمی انڈر آفیسر عمر شہزاد کو بھی تھما دی. مجھے آج بھی اپنے الفاظ اور عمر کا دمکتا چہرہ یاد ہے. میں نے کہا کہ عمر ان لڑکوں کو اکیڈیمکس کی بنیاد پر یہاں سے جانا نہ پڑے...عمر مسکرایا، بولا سر یہ جانے نہیں یہاں کا حصہ بننے آئے ہیں. میں اس لمحہ بھی عمر کے اس جواب سے چونک گیا تھا. اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ عمر اپنے طور پر رات کے سٹڈی ٹائم میں انکو بذات خود دیکھنے جاتا ہے. ایک شام رسالپور اکیڈمی آڈیٹوریم میں انٹر سکواڈارن تقریری مقابلے کی فل ڈریس ریہرسل جاری تھی. تمام انسٹرکٹرز اور شمولیت کرنے والے کیڈٹس موجود تھے. ایسے میں اردو مزاحیہ تقریر کے لیے سکواڈرن نمبر 2 کا ایک کیڈٹ سامنے آیا تو تقریر کے کچھ حصوں کو معترض ٹھہراتے ہوئے وہاں موجود سینئر آفیسر( ڈائریکٹر آف سٹڈیز) کی طرف سے اس کیڈٹ کو تقریر کرنے سے منع کردیا گیا. وہ آخری روز تھا. اگلے روز فائینل مقابلہ تھا.چونکہ اردو تقاریر کی تیاری کے لیے میں ذمہ دارتھا اور یہ بہت آسان تھا کہ سٹینڈ بائ مقرر کو منتخب کرلیا جاتا. مگر مجھے مناسب نہ لگا کہ پہلی مرتبہ شمولیت کرنے والے کیڈٹ کی اسطرح حوصلہ شکنی ہو.اسے موقع ملنا چاہیے تھا. مجھے اپنے سینئر سے درخواست گزار ہونا پڑا کہ سر اسکو ایک موقع اوردے دیں. میں آج شام اسکے میس میں سٹڈی ٹائم جاکر اسے خود تقریر لکھ کر دوں گا اوریہ ہی تقریر کرے گا. گروپ کیپٹن جمیل دلشاد کو میری درخواست ماننا پڑی. اور پھر میں اوروہ کیڈٹ عمر شہزاد کےکمرے میں موجود تھے.عمر میرا اس تقریر کی تیاری میں ساتھی تھا.میں نےتقریر لکھی ، چند مرتبہ ریہرسل کرائ ، سکواڈرن نمبر 2 کی سکواڈرن کمانڈر، سکواڈرن لیڈر فرحت کو مطلع کیا اور عمر کے حوالے کرکے چلدیا. مجھے ایک اطمینان اورتسلی تھی... میرے لیے عمر کی طرف سے دی گئ خوداعتمادی کااحساس کافی تھا. اورپھر یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا دل میرے پیارے عمر کی محبت سے سرشار ہےکہ اس اگلے روز منعقدہ مقابلے میں اردو (مزاحیہ ) تقریر میں اسی کیڈٹ نے اول پوزیشن حاصل کی تھی جسے عمر نے تیاری کرائ تھی.عمر کو پڑھائ،تربیتی عمل،ڈرامیٹکس، پریڈ ، فلائینگ، ہرجاہ نمایاں دیکھا. کوئ کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کو انفرادی طور پر اتنا یاد نہیں رہتا مگر عمر سب کو اسی طرح یاد ہے. حافظے کی تختی پر رقم ہے. عمر شہزاد فائیٹرپائلٹ بنا.کامیاب تربیت پراسے اعزازی تلوار اور بہترین پائلٹ ٹرافی سے نوازا گیا
. وہ پاکستان فضائیہ کے بہترین جہاز اور سکواڈرن کا حصہ تھا.اور پھر 24 ستمبر کی وہ صبح... جب فلائیٹ لیفٹیننٹ عمرشہزاد کا ایف سیون پی جی طیارہ پشاور کے قریب فنی خرابی کا شکار ہوگیا. وہ اسے بحفاظت واپس لانا چاہتا تھا. اسے اس ملک وملت کے قیمتی جہاز کی سلامتی عزیز تھی.. نیچے آبادی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ جہاز کے گرنے سے آبادی کو بھی محفوظ رکھے۔ وہ مسلسل رابظے میں تھا۔ وہ کیا کمال حوصلہ تھا اس نوجوان کا۔ وہ چاہتا تو فورا“ جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا سکتا تھا۔ اور پھر آبادی کو بچانے اور جہاز واپس لانے کی کوشش میں وہ اپنی جان اس دھرتی ماں پر وار گیا... تیری محبت میں موت آئے کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش یہ ایک جاں کیا ہزار ہوں تو ہزار تجھ پہ نثار کردوں !!! 24 ستمبر..آہ یہ ستمبر ہی تھا جس میں سرفراز رفیقی، یونس حسن، منیرالدین ، اقبال اور افضل شہید جیسے فضائ سرفروش قربانیوں کی داستانیں رقم کرگئے. یہ ستمبر ہی ہے جب عمر بھی اپنی ہستی کی معراج پاگیا.. شہید کے لیے سلام عقیدت