What's new

!!!ذرا سوچيے

New Recruit

Joined
Mar 31, 2008
Messages
5
Reaction score
0

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Zara_sochiye_c_updated.jpg


!!!ذرا سوچيے


طالبان کے مخالف دھڑوں کے درميان ايک ہفتے سے زائد جاری رہنے والا حاليہ خونی تصادم جس کے نتيجے ميں 40 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے، ايک مرتبہ پھر مجرموں کے ان گروہوں کی اصل خصلت، مقاصد اور سوچ کا پردہ چاک کر گيا جو بدستور اجتماعی سطح پر انسانيت کی بھلائ کے لیے اپنی نام نہاد مقدس جنگ کے ضمن ميں بلند وبانگ دعوے تو کر رہے ہيں ليکن ادنی سے ذاتی مفادات کے ليے ايک دوسرے پر بھی چڑھ دوڑنے سے نہيں چوکتے۔

ستم ظريفی ديکھيں کہ حاليہ جھڑپيں جو مختلف مسلح گروہوں کے مابين طاقت کے حصول کا شاخسانہ تھيں، اس وقت وقوع پذير ہوئيں جب حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے کے ليے مذاکرات کی کاوش کر رہی ہے اور تمام فريقين کی جانب سے جنگ بندی پر عمل درآمد کی شنيد بھی دے دی گئ تھی۔

اپنے تمام تر مذہبی دعوؤں کے برعکس، ان خونی مجرموں کے نظريات، ان کی سوچ اور مقاصد جو بالآخر ان کے جرائم پر منتہج ہوتے ہيں اس وقت سب پر آشکار ہو جاتے ہيں جب سياسی برتری، اپنی وقعت کو تسليم کروانے کی خواہش اور مالی فوائد کے ليے ہونے والی ان کی آپس کی لڑائياں توقعات کے عين مطابق اندرونی خون خرابے ميں تبديل ہو جاتی ہيں۔

طالبان کے مختلف گروہوں کے مابين حاليہ تنازعات اور ان کے قائدين اور ان کی حمايت پر بضد خير خواہوں کی جانب سے ان گروہوں کے مابين موجود مستقل کشيدہ تعلقات پر پردہ ڈالنے کی ناکام کاوشيں ان افراد کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہونی چاہيے جو ان کی ہر بہيمانہ کاروائ کے ليے نا صرف يہ کہ جواز بھی تراش ليتے ہيں بلکہ اب بھی مذہب کے لبادے میں ان کے جرائم کو کسی مقدس جدوجہد سے تعبير کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔

زيادہ اہم نقطہ يہ ہے کہ مختلف دہشت گردگروہوں کے مابين تلخ اختلافات، تناؤ اوراندرونی خلفشارکے نتيجے ميں خون خرابے اور بڑے پيمانے پر افراتفری کے ضمن ميں يہ کوئ پہلی مثال نہيں ہے۔ القائدہ کے وجود کے آغاز ہی سے اس تنظيم سے وابستہ بے شمار گروہ جنھوں نے خود ساختہ مذہبی پاکيزگی کے لبادے ميں قتل و خون ريزی کا راستہ اختيار کيا ان کی تاريخ اندرونی خونی لڑائيوں سےعبارت رہی ہے اور بار بار اس حقيقت کو آشکار کرتی ہے کہ جو افراد تشدد کے ليے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہوں وہ اپنے ذاتی اختلافات کے حل کے ليے بھی تشدد کا راستہ ہی اختيار کرتے ہيں۔ سال 2009 ميں ملا عمر کی جانب سے عيد کے موقع پر عوامی سطح پر تشہير کردہ بيان ميں بالآخراس حقيقت کو تسليم کيا گيا کہ مختلف طالبان گروہوں کی آپس کی لڑائ کے نتيجے ميں شہريوں کی ہلاکت باعث تشويش اور بدنظمی کو اجاگر کر رہی ہے۔

اور اب شام ميں بھی القائدہ کے مختلف گروہوں کے مابين قصبوں پر سياسی تسلط اور تيل کے کنوؤں سے حاصل کردہ آمدنی کے ليے جاری خونی لڑائياں سب کے سامنے ہيں۔

خود پسندی اور اپنے تئیں پاکيزگی اور نفس صالح کی بلند ترين سطح پر براجمان مجرموں اور خودساختہ روحانی قائدين کا يہ گروہ جو عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے اور انسانيت کی اجتماعی بہتری کے ليے قربانيوں کے دعوے تو کرتا ہے ليکن درحقيقت يہ خود ايک دوسرے کے ہی دست وگربيان ہيں۔

جو راۓ دہندگان ان دہشت گردوں کے جاری مظالم کو نظرانداز کرنے پر ہی بضد ہيں کيا وہ ايک ناقابل ترديد سچ کو پس پشت ڈال کر ايک بے بنياد جذباتی گردان پر ہی تکيہ نہيں کيے ہوۓ ہيں؟

کيا يہ راہزن جو تواتر کے ساتھ ملک کے مستحکم سياسی اداروں اور معاشرے ميں رائج قوانين کو ماننے سے ہی انکاری ہيں اور جو خود ايک دوسرے کے خلاف بھی پرتشدد کاروائيوں کے ضمن ميں پس وپيش سے کام نہيں ليتے، ان سے يہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اجتماعی سطح پر راہنما بن سکيں جو اپنے بنيادی تعريف کے مطابق خود اپنے کردار کو مثال بنا کر اور قربانی کے ذريعے مشعل راہ بنتا ہے؟

!!!ذرا سوچيے



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
This was going to happen, as this is how all terrorist movements end. Its time for our guys to hide the fire extinguishers.
 
Back
Top Bottom