Devil Soul
ELITE MEMBER
- Joined
- Jun 28, 2010
- Messages
- 22,931
- Reaction score
- 45
- Country
- Location
دیوسائی: جہاں خاموشی گنگناتی ہے
سید مہدی بخاری
ولیم ورڈزورتھ کی ایک نظم 'دی ڈیفوڈلز' کا آغاز یوں ہوتا ہے: "میں وادیوں اور کہساروں کی فضاؤں میں تیرتے بادل کی طرح آوارہ گردی کر رہا تھا۔ یکایک میں نے ایک جھیل کے کنارے درختوں کے نیچے سنہرے ڈیفوڈل پھول دیکھے، جو مخمور ہواؤں میں رقص کر رہے تھے۔"
یونہی بادل کی طرح برف زاروں، پہاڑوں، اور بستیوں میں آوارہ گردی کرتے دیوسائی کو جب پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا جیسے ورڈزورتھ نے دیوسائی میں بیٹھ کر لکھا ہو۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ دیوسائی نیشنل پارک اور اس میں واقع شیوسر جھیل ورڈزورتھ کی نظم کا مجسم روپ ہیں۔
محض ایک صدی پہلے تک انسان ویرانوں کو خوف و دہشت کی علامت سمجھتا تھا۔ شیطان کا مسکن، ہولناک تنہائی، زمین کا ناسور، وحشت ناک مقام، جیسے ناموں سے پکارتا تھا۔ آبادی کی حد سلامتی کی سرحد سمجھی جاتی تھی۔ آج کا انسان آبادی سے رخ موڑ کر ویرانوں کی سمت جاتا ہے تاکہ قدرت کو قریب سے محسوس کر سکے، یا اپنی ذات کا عرفان حاصل کر سکے۔ انسان جوں جوں عقلی ارتقاء میں آگے بڑھتا گیا، اس کی روح توں توں بیقرار ہوتی گئی۔ علم و شعور کی دہلیز پر کھڑا آج کا انسان بھیڑ میں موجود زندگی کی ساری رعنائیوں اور سہولتوں کے ساتھ تنہا ہے۔ اگر ویرانے سکون بخشنے لگیں، اور وہاں جانا ہی ہو، تو دیوسائی سے بہتر ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟
دیوسائی کے میدان — فوٹو سید مہدی بخاری
موسمِ گرما میں شیوسر جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے 'دیو' اور 'سائی' یعنی 'دیو کا سایہ۔' ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔
کشمیر سے ہجرت کر کے دیوسائی آنے والے خانہ بدوشوں کی قدیم گزرگاہ یہی میدان ہے جو اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے کر دیوسائی کی ہیبت میں چلتے جاتے ہیں۔ دیوسائی میں عمیق خاموشی اور صدیوں کی تنہائی خیمہ زن ہے۔ خاموشی ایسی کہ دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے تاوقتیکہ کہ کسی مارموٹ کی سیٹی فضا میں گونجنے لگے، اور تنہائی ایسی کہ کبھی کبھی اپنے وجود سے خوف آنے لگے۔
دیوسائی کے خانہ بدوش — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی کے خانہ بدوش — فوٹو سید مہدی بخاری
موسمِ گرما کی ایک دوپہر میں دیوسائی کی گھنی خاموشی میں کیمرے کا شٹر گرا تو دھماکا سا سنائی دیا۔ شور صدیوں سے ٹھہری ہوئی چپ فضا میں دور تک سرایت کرتا گیا۔ مارموٹوں کے کان کھڑے ہو گئے، لہلہاتی گھاس اور جنگلی پھول سہم کے اپنی جگہ رک گئے اور چشمِ تخّیل نے دیکھا کہ دور کہیں ماده ریچھ نے اپنے بچے کو آغوش میں بھر لیا۔ سورج بھی بدلی کی اوٹ میں جا چھپا تو میں شرمنده ہو کر گھاس پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد سورج بدلی کی اوٹ سے یوں جھانکا جیسے دخل اندازی کرنے والے کا سراغ لگا رہا ہو۔ پھول پھر سے لہلہانے لگے، مارموٹ اپنے بِل چھوڑ کر گھاس میں کودنے لگے، ریچھ نے شتوں نالے میں قدم رکھا اور مچھلی کی بو لینے لگا۔ دیوسائی میں معمولات بحال ہونے لگے تو میں کیمرا سمیٹ کر چل دیا۔
ہمالیہ کے دامن میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000 میٹر سے کم بلند نہیں۔ سال کے 8 ماہ یہ مقام برف سے ڈھکا رہتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ گرمیوں کے 4 مہینوں میں پہاڑی ڈھلوانوں اور گھاٹیوں پر مشتمل 3000 مربع کلومیٹر کے اس قدرے ہموار میدانوں کی زمین پر ہزار ہا رنگ کے شوخ جنگلی پھول تو جابجا کھلتے ہیں، مگر کہیں ایک بھی درخت نہیں ملتا۔
دیوسائی کی ایک چاندنی رات — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی کے میدان — فوٹو سید مہدی بخاری
اس میدان میں جگہ جگہ بہتے نالے اور ان میں موجود سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں، بیک ڈراپ میں 5000 میٹر بلند برف پوش پہاڑ، انہیں پہاڑوں میں مقیم جنگلی حیات، آسمان سے گزرتے بادلوں کے بڑے بڑے ٹکرے جو اتنی کم بلندی سے گزرتے معلوم ہوتے ہیں کہ لگنے لگتا ہے جیسے آپ پر سایہ کرنے کو قدرت نے چھتری بنا رکھی ہے، اور ان ٹکڑوں کے بیچ محوِ پرواز ہمالیائی گولڈن ایگلز، فضا میں پھیلی ایک انجان مہک جو شاید بھورے ریچھوں، سرخ لومڑیوں، سفید چیتوں اور شرارتی مارموٹوں کے جسموں سے نکل کر دیوسائی کی نم زدہ گھاس اور تازہ جنگلی پھولوں سے مل کر ساری فضا کو معطر کیے رکھتی ہے، ہی دیوسائی کا حسن ہے۔ اس خطہ زمین پر جنابِ میر تقی میر کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
اسکردو کے بازار سے گزر کر ایک سڑک سدپارہ گاؤں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس بل کھاتی سڑک پر سدپارہ کی نیلگوں جھیل یوں نظر آتی ہے کہ مسافر پلک جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ جھیل کو دیکھتے دیکھتے آگے سدپارہ کا گاؤں آ جاتا ہے جہاں بچوں نے قدرت سے سازباز کر کے سڑک کو بند کرنے کا کھیل رچا رکھا ہے۔ گرمیوں میں جائیں تو گاؤں سے پہلے سڑک کے اوپر سے بہتے چشمے نے ایک طرف سے سڑک کو توڑ پھوڑ دیا ہے تو وہیں دوسری طرف مقامی بچے گاڑیاں روک کر مسافروں کو چیری بیچتے ملتے ہیں۔ ایک ننھی بچی سے خوش ہو کر چیری خریدی تو مسکراہٹ سے اس کے چہرے پر چیری کا رنگ جھلکنے لگا۔
سدپارہ گاؤں — فوٹو سید مہدی بخاری
بڑا پانی — فوٹو سید مہدی بخاری
سید مہدی بخاری
ولیم ورڈزورتھ کی ایک نظم 'دی ڈیفوڈلز' کا آغاز یوں ہوتا ہے: "میں وادیوں اور کہساروں کی فضاؤں میں تیرتے بادل کی طرح آوارہ گردی کر رہا تھا۔ یکایک میں نے ایک جھیل کے کنارے درختوں کے نیچے سنہرے ڈیفوڈل پھول دیکھے، جو مخمور ہواؤں میں رقص کر رہے تھے۔"
یونہی بادل کی طرح برف زاروں، پہاڑوں، اور بستیوں میں آوارہ گردی کرتے دیوسائی کو جب پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا جیسے ورڈزورتھ نے دیوسائی میں بیٹھ کر لکھا ہو۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ دیوسائی نیشنل پارک اور اس میں واقع شیوسر جھیل ورڈزورتھ کی نظم کا مجسم روپ ہیں۔
محض ایک صدی پہلے تک انسان ویرانوں کو خوف و دہشت کی علامت سمجھتا تھا۔ شیطان کا مسکن، ہولناک تنہائی، زمین کا ناسور، وحشت ناک مقام، جیسے ناموں سے پکارتا تھا۔ آبادی کی حد سلامتی کی سرحد سمجھی جاتی تھی۔ آج کا انسان آبادی سے رخ موڑ کر ویرانوں کی سمت جاتا ہے تاکہ قدرت کو قریب سے محسوس کر سکے، یا اپنی ذات کا عرفان حاصل کر سکے۔ انسان جوں جوں عقلی ارتقاء میں آگے بڑھتا گیا، اس کی روح توں توں بیقرار ہوتی گئی۔ علم و شعور کی دہلیز پر کھڑا آج کا انسان بھیڑ میں موجود زندگی کی ساری رعنائیوں اور سہولتوں کے ساتھ تنہا ہے۔ اگر ویرانے سکون بخشنے لگیں، اور وہاں جانا ہی ہو، تو دیوسائی سے بہتر ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟
دیوسائی کے میدان — فوٹو سید مہدی بخاری
موسمِ گرما میں شیوسر جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے 'دیو' اور 'سائی' یعنی 'دیو کا سایہ۔' ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔
کشمیر سے ہجرت کر کے دیوسائی آنے والے خانہ بدوشوں کی قدیم گزرگاہ یہی میدان ہے جو اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے کر دیوسائی کی ہیبت میں چلتے جاتے ہیں۔ دیوسائی میں عمیق خاموشی اور صدیوں کی تنہائی خیمہ زن ہے۔ خاموشی ایسی کہ دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے تاوقتیکہ کہ کسی مارموٹ کی سیٹی فضا میں گونجنے لگے، اور تنہائی ایسی کہ کبھی کبھی اپنے وجود سے خوف آنے لگے۔
دیوسائی کے خانہ بدوش — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی کے خانہ بدوش — فوٹو سید مہدی بخاری
موسمِ گرما کی ایک دوپہر میں دیوسائی کی گھنی خاموشی میں کیمرے کا شٹر گرا تو دھماکا سا سنائی دیا۔ شور صدیوں سے ٹھہری ہوئی چپ فضا میں دور تک سرایت کرتا گیا۔ مارموٹوں کے کان کھڑے ہو گئے، لہلہاتی گھاس اور جنگلی پھول سہم کے اپنی جگہ رک گئے اور چشمِ تخّیل نے دیکھا کہ دور کہیں ماده ریچھ نے اپنے بچے کو آغوش میں بھر لیا۔ سورج بھی بدلی کی اوٹ میں جا چھپا تو میں شرمنده ہو کر گھاس پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد سورج بدلی کی اوٹ سے یوں جھانکا جیسے دخل اندازی کرنے والے کا سراغ لگا رہا ہو۔ پھول پھر سے لہلہانے لگے، مارموٹ اپنے بِل چھوڑ کر گھاس میں کودنے لگے، ریچھ نے شتوں نالے میں قدم رکھا اور مچھلی کی بو لینے لگا۔ دیوسائی میں معمولات بحال ہونے لگے تو میں کیمرا سمیٹ کر چل دیا۔
ہمالیہ کے دامن میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000 میٹر سے کم بلند نہیں۔ سال کے 8 ماہ یہ مقام برف سے ڈھکا رہتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ گرمیوں کے 4 مہینوں میں پہاڑی ڈھلوانوں اور گھاٹیوں پر مشتمل 3000 مربع کلومیٹر کے اس قدرے ہموار میدانوں کی زمین پر ہزار ہا رنگ کے شوخ جنگلی پھول تو جابجا کھلتے ہیں، مگر کہیں ایک بھی درخت نہیں ملتا۔
دیوسائی کی ایک چاندنی رات — فوٹو سید مہدی بخاری
دیوسائی کے میدان — فوٹو سید مہدی بخاری
اس میدان میں جگہ جگہ بہتے نالے اور ان میں موجود سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں، بیک ڈراپ میں 5000 میٹر بلند برف پوش پہاڑ، انہیں پہاڑوں میں مقیم جنگلی حیات، آسمان سے گزرتے بادلوں کے بڑے بڑے ٹکرے جو اتنی کم بلندی سے گزرتے معلوم ہوتے ہیں کہ لگنے لگتا ہے جیسے آپ پر سایہ کرنے کو قدرت نے چھتری بنا رکھی ہے، اور ان ٹکڑوں کے بیچ محوِ پرواز ہمالیائی گولڈن ایگلز، فضا میں پھیلی ایک انجان مہک جو شاید بھورے ریچھوں، سرخ لومڑیوں، سفید چیتوں اور شرارتی مارموٹوں کے جسموں سے نکل کر دیوسائی کی نم زدہ گھاس اور تازہ جنگلی پھولوں سے مل کر ساری فضا کو معطر کیے رکھتی ہے، ہی دیوسائی کا حسن ہے۔ اس خطہ زمین پر جنابِ میر تقی میر کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
اسکردو کے بازار سے گزر کر ایک سڑک سدپارہ گاؤں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس بل کھاتی سڑک پر سدپارہ کی نیلگوں جھیل یوں نظر آتی ہے کہ مسافر پلک جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ جھیل کو دیکھتے دیکھتے آگے سدپارہ کا گاؤں آ جاتا ہے جہاں بچوں نے قدرت سے سازباز کر کے سڑک کو بند کرنے کا کھیل رچا رکھا ہے۔ گرمیوں میں جائیں تو گاؤں سے پہلے سڑک کے اوپر سے بہتے چشمے نے ایک طرف سے سڑک کو توڑ پھوڑ دیا ہے تو وہیں دوسری طرف مقامی بچے گاڑیاں روک کر مسافروں کو چیری بیچتے ملتے ہیں۔ ایک ننھی بچی سے خوش ہو کر چیری خریدی تو مسکراہٹ سے اس کے چہرے پر چیری کا رنگ جھلکنے لگا۔
سدپارہ گاؤں — فوٹو سید مہدی بخاری
بڑا پانی — فوٹو سید مہدی بخاری