TechMan
FULL MEMBER
- Joined
- Jan 24, 2008
- Messages
- 771
- Reaction score
- 0
پانچ جولائی 1977 کے روز ضیاالحق کے مارشل لا نفاذ سے لیکر 3 ستمبر 1977 کی رات ذوالفقار علی بھٹو کی اپنے کراچی والے گھر سے گرفتاری تک کے دنوں کی داستان بہت قابلِ غور ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ اِس طویل تھرید کو تحمل سے پڑھیں گے اور نتائج خود اخذ کریں گے۔
پانچ جولائی کی صبح مارشل لاء کے نفاذ کے بعد معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل فیض علی چشتی کے مسلح فوجیوں نے مری ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جہاں وزیراعظم ہاؤس کے عملے نے انکا استقبال کیا اور انہوں بتایا گیا کہ سر آپ صرف "حفاظتی تحویل" میں ہیں (یعنی گرفتار وغیرہ نہیں کیا گیا)
لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی غلط فہمی نہیں تھی کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اُسکی پوزیشن کتنی نازک تھی لیکن پھر بھی وہ جنرل ضیا کی "ambition" کو underestimate کررہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ آئین کو معطل کرنے کی سزا اور حلف کی خلاف ورزی جیسی دھمکیوں سے وہ ضیا کو خوفزدہ کر سکتا ہے
دوسری طرف جنرل ضیا نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ملک کو انتشار سے بچانے اور "اکتوبر میں الیکشن" کروانے آیا ہے اور الیکشن کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا۔ (سوچیں کتنے بھولے ہوں گے وہ لوگ جوالیکشن کی یقین دہانی کے بعد تھوڑے ٹھنڈے ہوگئے ہوں گے)
اسکے تھوڑے دنوں بعد ہی نیوزویک کے نمائندے نے انٹرویو میں سوال کیا کہ کیا بھٹو کو اکتوبر میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے گا۔جنرل ضیا نے کہا: "کیوں نہیں؟ وہ ضرور الیکشن کمپئین کریں گے۔ وہ نہایت پُرعزم اور باہمت سیاستدان ہیں جنکی تاریخ پہ گہری نظر ہے" (غور کریں)
مارشل لاء کے سات دن بعد 12 جولائی کو جنرل ضیا اور جنرل فیض نے مری ریسٹ ہاؤس میں بھٹو سے ملاقات کی جس میں جنرل فیض کے بقول جنرل ضیا نے بھٹو سے کہا کہ سر یہ صرف وقتی حراست ہے اور جلد ہی اقتدار آپکا ہوگا۔ آپ بس بے فکر رہیں اور آرام کریں۔ (یہ اُس میٹنگ کی مشہور تصویر ہے)
تین دن بعد 15 جولائی کو جنرل ضیا نے مری میں پہلے قومی اتحاد کی نظر بند قیادت سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایجسیز کے پاس رپورٹس تھیں کہ 5 جولائی کے دن PPP لاہور میں مسلح مارچ کرنا چاہتی تھی اسلئے فوج کو مارشل لاء لگانا پڑا اور اُسکے بعد بھٹو سے دوسری ملاقات کی
اِس دوسری ملاقات میں بھی بھٹو کو مغالطہ تھا کہ جنرل ضیا کو الیکشن کروانے پڑیں گے گا اِسلئے بھٹو نے بہت سخت اور ترش لہجے میں جنرل ضیا کو تنبیہ کی کہ آئین کو معطل کرنے والوں کیلئے موت کی سزا لکھی ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے اگلے ہی روز بھٹو کا پرسنل سٹاف اُس سے واپس لے لیا گیا
تئیس دن بعد 28 جولائی کو بھٹو کو حفاظتی تحویل سے رہا کردیا گیا اور انہیں "مکمل پروٹوکول" کیساتھ آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری سے پنڈی لایا گیا جہاں انہوں نے جنرل فیض کیساتھ چائے پی اور پھر وزیراعظم کے طیارے میں بٹھا کر اُنہیں لاڑکانہ رخصت کیا گیا ٭ اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے
لاڑکانہ میں "سابقہ وزیراعظم" (جو کہ ایجسنیز کی رپورٹس اور اندازوں کے مطابق انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے) کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ عوام ایک رات پہلے سے اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے جوق در جوق اکٹھی ہو چکی تھی۔ یہ مناظر جنرل ضیا کیلئے حیران کُن بھی تھے اور پریشان کن بھی
مارشل لاء کے باوجود عوام اتنی کثیر تعداد میں ذوالفقار علی بھٹو کیلئے باہر نکل رہی تھی۔ یہ بات جنرل ضیا کیلئے ناقابلِ فہم تھی۔ اُسکو ایجنسیز کی طرف سے دی گئی تمام تر رپورٹس کے برعکس بھٹو نہ صرف عوام میں مقبول تھا بلکہ شاید مارشل لاء کی وجہ سے مزید مقبول ہو چکا تھا
بھٹو کی عوامی مقبولیت سے صرف ضیا ہی پریشان نہ تھا بلکہ بہت سے پڑھے لکھے، نفیس، تاریخ کا ادراک رکھنے والے، ماڈرن، امیر اور انگریزی دان "صحافیوں" کو بھی شدید پریشانی لاحق تھی کہ ہماری پیشنگوئیوں کے برعکس یہ سب کیا ہو رہا ہے (نوٹ: نجم سیٹھی اور فہد حسین جیسوں کی پریشانی یاد کریں)
مزید قابلِ غور: ان جلسوں جلوسوں میں باہر نکلنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ مبینہ دھاندلی کے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مایوس ہو چکا تھا۔۔۔ لیکن یہ ہم نے بھٹو صاحب سے ہی سیکھا ہے کہ اپنے حق کیلئے باہر نکلیں اور احتجاج کریں (آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟)
اسکے بعد جس دن ذوالفقار علی بھٹو اپنے کراچی والے گھر 70 کلفٹن جانے کیلئے کراچی اسٹیشن پہنچا تو شہر میں لاکھوں لوگوں کا جمِ غفیر تھا جسکو کوئی پولیس یا فوج نہیں کنٹرول کر سکتی تھی
کراچی اسٹیشن سے گھر تک کا سفر جو آفھے گھنٹے کا تھا اُس پر ہجوم کی وجہ سے دس گھنٹے لگے۔ سادہ دل لوگ سمجھنے لگے کہ مارشل لاء کے باوجود ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلتے لوگ اچھے مستقبل کا واضح اشارہ ہیں (یعنی الیکشن ہوں گے اور بھٹو واپس آئے گا)
لیکن بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں دیوانہ وار نکلتی خلقت کو دیکھ دیکھ کر ایک خوفزدہ جنرل ضیا مزید خوفزدہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ اتنا سادہ لوح بھی نہیں تھا کہ یہ بات نہ سمجھ سکتا کہ اگر "صاف شفاف" الیکشن ہوگئے تو بھٹو اکثریت لیکر واپس آجائے گا۔
لہذا اُس نے پیپلزپارٹی کو ہر صورت الیکشن سے باہر رکھنے کا تہیہ کر لیا اور اس مقصد کیلئے بھٹو کیخلاف ایک بغض سے بھرے لاہور ہائیکورٹ کے جج مولوی مشتاق کو الیکشن کمیشن کا چئیرمین نامزد کردیا۔ بھٹو کا اندازہ ہو گیا کہ اس چیئرمین کے ہوتے ہوئے وہ کبھی الیکشن نہ جیت پائے گا
اس تمام عرصے میں جنرل ضیا قوم سے بار بار وعدے کررہا تھا کہ الیکشن اکتوبر/نومبر میں جائیں گے۔۔۔ سوچیں کتنے سادہ لوح لوگ ہوں گے جو انُ وعدوں پر یقین کر کے مطمئین ہوگئے ہوں گہ ووٹ والے دن بھٹو کو ووٹ ڈال دیں گے باقی جلسے جلوس کرنے کا کیا فائدہ ہے
اُس اگست لاہور میں ہونے والا پیپلزپارٹی کا جلسہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ اِس جلسے نے بھٹو کے اپنے تمام تر پرانے جلسوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ پورا پنجاب بھٹو زندہ باد سے گونج رہا تھا۔ اب تک مارشل لاء لگانے والوں کو ادارک ہو چکا تھا کہ ہمارا فیصلہ بیک فایر کر گیا ہے۔
اسلام آباد راولپنڈی اور لاہور جیے بھٹو اور بھٹو زندہ باد کے نعروں سے لرزنے لگے۔۔۔ خوف مزید بڑھ گیا۔ بھٹو کیخلاف خفیہ انکوائریز ہونے لگیں، رپورٹس مرتب ہونے لگیں، فائلیں کھنگالی جانے لگیں کہ بدبختو کچھ تو نکالو اسکے خلاف۔
28 اگست 1977 کے روز بھٹو نے آخری بار جنرل ضیا سے ملاقات کی۔ جنرل فیض بھی اس ملاقات میں موجود تھا جس کا کہنا ہے کہ ضیا نے بھٹو صاحب کو چائے آفر کی جس سے بھٹو نے انکار کردیا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اسکے بعد بھٹو نے پوچھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانے کی طرف کیا پیشرفت ہے؟ ضیا نے کہا کہ ہم جمہوریت بحال کرنے کیلئے اپنے فرائض پورے کررہے ہیں۔ فیض نے کہا کہ ہم نے پچھلے دنوں مصطفی کھر سے بھی ملاقات کے ہے جس پہ بھٹو نے کہا کہ میں نے تو کسی کو ایسی ملاقاتوں کا مینڈیٹ نہیں دیا۔ اس ملاقات کے بعد بھٹو کو یقین ہوگیا کہ اُسکی مقبولیت کے سبب اب الیکشن نہیں ہوں گے
پانچ دن بعد 3 ستمبر کی رات 4 بجے آرمی کمانڈوز نے بھٹو کے کراچی والے گھر کو گھیر لیا اور بھٹو کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ اسکے بعد عدالتوں کی مارشل لاء حکام کے ساتھ شرمناک سازباز کی ایک طویل داستان ہے جس کے اخیر میں بھٹو کو تختہِ دار تک پہنچا دیا گیا نوٹ:جو الیکشن اکتوبر 77 میں ہونے تھے وہ گیارہ سال بعد نومبر 88 میں ہوئے۔
یہ سب مشہور مصنف Stanley Wolpert کی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان سے کے آخری باب سے ماخوذ ہے۔ اس کو تحمل سے پڑھیں۔ آنکھیں کھولیں۔ ہوش کریں۔ کڑیاں ملائیں۔ واقعات کے تسلسل کی مشابہت دیکھیں۔ نواب احمد قصوری کے قتل کیس سے قطعِ نظر آپ صرف اور صرف اوپر بیان کردہ واقعات پہ غور کریں
میں امید کرتا ہوں کہ آپ اِس طویل تھرید کو تحمل سے پڑھیں گے اور نتائج خود اخذ کریں گے۔
پانچ جولائی کی صبح مارشل لاء کے نفاذ کے بعد معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل فیض علی چشتی کے مسلح فوجیوں نے مری ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جہاں وزیراعظم ہاؤس کے عملے نے انکا استقبال کیا اور انہوں بتایا گیا کہ سر آپ صرف "حفاظتی تحویل" میں ہیں (یعنی گرفتار وغیرہ نہیں کیا گیا)
لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی غلط فہمی نہیں تھی کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اُسکی پوزیشن کتنی نازک تھی لیکن پھر بھی وہ جنرل ضیا کی "ambition" کو underestimate کررہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ آئین کو معطل کرنے کی سزا اور حلف کی خلاف ورزی جیسی دھمکیوں سے وہ ضیا کو خوفزدہ کر سکتا ہے
دوسری طرف جنرل ضیا نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ملک کو انتشار سے بچانے اور "اکتوبر میں الیکشن" کروانے آیا ہے اور الیکشن کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا۔ (سوچیں کتنے بھولے ہوں گے وہ لوگ جوالیکشن کی یقین دہانی کے بعد تھوڑے ٹھنڈے ہوگئے ہوں گے)
اسکے تھوڑے دنوں بعد ہی نیوزویک کے نمائندے نے انٹرویو میں سوال کیا کہ کیا بھٹو کو اکتوبر میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے گا۔جنرل ضیا نے کہا: "کیوں نہیں؟ وہ ضرور الیکشن کمپئین کریں گے۔ وہ نہایت پُرعزم اور باہمت سیاستدان ہیں جنکی تاریخ پہ گہری نظر ہے" (غور کریں)
مارشل لاء کے سات دن بعد 12 جولائی کو جنرل ضیا اور جنرل فیض نے مری ریسٹ ہاؤس میں بھٹو سے ملاقات کی جس میں جنرل فیض کے بقول جنرل ضیا نے بھٹو سے کہا کہ سر یہ صرف وقتی حراست ہے اور جلد ہی اقتدار آپکا ہوگا۔ آپ بس بے فکر رہیں اور آرام کریں۔ (یہ اُس میٹنگ کی مشہور تصویر ہے)
تین دن بعد 15 جولائی کو جنرل ضیا نے مری میں پہلے قومی اتحاد کی نظر بند قیادت سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایجسیز کے پاس رپورٹس تھیں کہ 5 جولائی کے دن PPP لاہور میں مسلح مارچ کرنا چاہتی تھی اسلئے فوج کو مارشل لاء لگانا پڑا اور اُسکے بعد بھٹو سے دوسری ملاقات کی
اِس دوسری ملاقات میں بھی بھٹو کو مغالطہ تھا کہ جنرل ضیا کو الیکشن کروانے پڑیں گے گا اِسلئے بھٹو نے بہت سخت اور ترش لہجے میں جنرل ضیا کو تنبیہ کی کہ آئین کو معطل کرنے والوں کیلئے موت کی سزا لکھی ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے اگلے ہی روز بھٹو کا پرسنل سٹاف اُس سے واپس لے لیا گیا
تئیس دن بعد 28 جولائی کو بھٹو کو حفاظتی تحویل سے رہا کردیا گیا اور انہیں "مکمل پروٹوکول" کیساتھ آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری سے پنڈی لایا گیا جہاں انہوں نے جنرل فیض کیساتھ چائے پی اور پھر وزیراعظم کے طیارے میں بٹھا کر اُنہیں لاڑکانہ رخصت کیا گیا ٭ اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے
لاڑکانہ میں "سابقہ وزیراعظم" (جو کہ ایجسنیز کی رپورٹس اور اندازوں کے مطابق انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے) کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ عوام ایک رات پہلے سے اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے جوق در جوق اکٹھی ہو چکی تھی۔ یہ مناظر جنرل ضیا کیلئے حیران کُن بھی تھے اور پریشان کن بھی
مارشل لاء کے باوجود عوام اتنی کثیر تعداد میں ذوالفقار علی بھٹو کیلئے باہر نکل رہی تھی۔ یہ بات جنرل ضیا کیلئے ناقابلِ فہم تھی۔ اُسکو ایجنسیز کی طرف سے دی گئی تمام تر رپورٹس کے برعکس بھٹو نہ صرف عوام میں مقبول تھا بلکہ شاید مارشل لاء کی وجہ سے مزید مقبول ہو چکا تھا
بھٹو کی عوامی مقبولیت سے صرف ضیا ہی پریشان نہ تھا بلکہ بہت سے پڑھے لکھے، نفیس، تاریخ کا ادراک رکھنے والے، ماڈرن، امیر اور انگریزی دان "صحافیوں" کو بھی شدید پریشانی لاحق تھی کہ ہماری پیشنگوئیوں کے برعکس یہ سب کیا ہو رہا ہے (نوٹ: نجم سیٹھی اور فہد حسین جیسوں کی پریشانی یاد کریں)
مزید قابلِ غور: ان جلسوں جلوسوں میں باہر نکلنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ مبینہ دھاندلی کے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مایوس ہو چکا تھا۔۔۔ لیکن یہ ہم نے بھٹو صاحب سے ہی سیکھا ہے کہ اپنے حق کیلئے باہر نکلیں اور احتجاج کریں (آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟)
اسکے بعد جس دن ذوالفقار علی بھٹو اپنے کراچی والے گھر 70 کلفٹن جانے کیلئے کراچی اسٹیشن پہنچا تو شہر میں لاکھوں لوگوں کا جمِ غفیر تھا جسکو کوئی پولیس یا فوج نہیں کنٹرول کر سکتی تھی
کراچی اسٹیشن سے گھر تک کا سفر جو آفھے گھنٹے کا تھا اُس پر ہجوم کی وجہ سے دس گھنٹے لگے۔ سادہ دل لوگ سمجھنے لگے کہ مارشل لاء کے باوجود ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلتے لوگ اچھے مستقبل کا واضح اشارہ ہیں (یعنی الیکشن ہوں گے اور بھٹو واپس آئے گا)
لیکن بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں دیوانہ وار نکلتی خلقت کو دیکھ دیکھ کر ایک خوفزدہ جنرل ضیا مزید خوفزدہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ اتنا سادہ لوح بھی نہیں تھا کہ یہ بات نہ سمجھ سکتا کہ اگر "صاف شفاف" الیکشن ہوگئے تو بھٹو اکثریت لیکر واپس آجائے گا۔
لہذا اُس نے پیپلزپارٹی کو ہر صورت الیکشن سے باہر رکھنے کا تہیہ کر لیا اور اس مقصد کیلئے بھٹو کیخلاف ایک بغض سے بھرے لاہور ہائیکورٹ کے جج مولوی مشتاق کو الیکشن کمیشن کا چئیرمین نامزد کردیا۔ بھٹو کا اندازہ ہو گیا کہ اس چیئرمین کے ہوتے ہوئے وہ کبھی الیکشن نہ جیت پائے گا
اس تمام عرصے میں جنرل ضیا قوم سے بار بار وعدے کررہا تھا کہ الیکشن اکتوبر/نومبر میں جائیں گے۔۔۔ سوچیں کتنے سادہ لوح لوگ ہوں گے جو انُ وعدوں پر یقین کر کے مطمئین ہوگئے ہوں گہ ووٹ والے دن بھٹو کو ووٹ ڈال دیں گے باقی جلسے جلوس کرنے کا کیا فائدہ ہے
اُس اگست لاہور میں ہونے والا پیپلزپارٹی کا جلسہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ اِس جلسے نے بھٹو کے اپنے تمام تر پرانے جلسوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ پورا پنجاب بھٹو زندہ باد سے گونج رہا تھا۔ اب تک مارشل لاء لگانے والوں کو ادارک ہو چکا تھا کہ ہمارا فیصلہ بیک فایر کر گیا ہے۔
اسلام آباد راولپنڈی اور لاہور جیے بھٹو اور بھٹو زندہ باد کے نعروں سے لرزنے لگے۔۔۔ خوف مزید بڑھ گیا۔ بھٹو کیخلاف خفیہ انکوائریز ہونے لگیں، رپورٹس مرتب ہونے لگیں، فائلیں کھنگالی جانے لگیں کہ بدبختو کچھ تو نکالو اسکے خلاف۔
28 اگست 1977 کے روز بھٹو نے آخری بار جنرل ضیا سے ملاقات کی۔ جنرل فیض بھی اس ملاقات میں موجود تھا جس کا کہنا ہے کہ ضیا نے بھٹو صاحب کو چائے آفر کی جس سے بھٹو نے انکار کردیا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اسکے بعد بھٹو نے پوچھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانے کی طرف کیا پیشرفت ہے؟ ضیا نے کہا کہ ہم جمہوریت بحال کرنے کیلئے اپنے فرائض پورے کررہے ہیں۔ فیض نے کہا کہ ہم نے پچھلے دنوں مصطفی کھر سے بھی ملاقات کے ہے جس پہ بھٹو نے کہا کہ میں نے تو کسی کو ایسی ملاقاتوں کا مینڈیٹ نہیں دیا۔ اس ملاقات کے بعد بھٹو کو یقین ہوگیا کہ اُسکی مقبولیت کے سبب اب الیکشن نہیں ہوں گے
پانچ دن بعد 3 ستمبر کی رات 4 بجے آرمی کمانڈوز نے بھٹو کے کراچی والے گھر کو گھیر لیا اور بھٹو کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ اسکے بعد عدالتوں کی مارشل لاء حکام کے ساتھ شرمناک سازباز کی ایک طویل داستان ہے جس کے اخیر میں بھٹو کو تختہِ دار تک پہنچا دیا گیا نوٹ:جو الیکشن اکتوبر 77 میں ہونے تھے وہ گیارہ سال بعد نومبر 88 میں ہوئے۔
یہ سب مشہور مصنف Stanley Wolpert کی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان سے کے آخری باب سے ماخوذ ہے۔ اس کو تحمل سے پڑھیں۔ آنکھیں کھولیں۔ ہوش کریں۔ کڑیاں ملائیں۔ واقعات کے تسلسل کی مشابہت دیکھیں۔ نواب احمد قصوری کے قتل کیس سے قطعِ نظر آپ صرف اور صرف اوپر بیان کردہ واقعات پہ غور کریں