Death anniversary of Nawab Sir Sadiq Muhammad Khan V Abbasi
(Nawab of Bahawalpur State).
A great reformer and Mohsin-e-Pakistan.
نواب سر صادق محمد خاں خامس عباسی ۳۰ ستمبر ۱۹۰۴ء بروز جمعۃالمبارک دولتِ خانہ عالیہ بہاول پور کی عمارت میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ ۲ سال کی عمر میں والد کے ساتھ سفرِ حج کیا، جس سے واپسی پر دورانِ سفر نواب بہاول خان کا انتقال ہو گیا۔ ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران Declare کیا گیا، مگر ریاست کے انتظام اور نواب صاحب کی تعلیم و تربیت کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر سر رحیم بخش کی سربراہی میں کونسل آف ریجنسی قائم کی۔ نواب صاحب نے ابتدائی عربی، فارسی اور مذہبی تعلیم اپنے اتالیق نامور علمی شخصیت علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔(جوبعد میں عرصہ دراز تک ریاست کے ہوم منسٹر رہے)۔ سر صادق کی شخصیت سازی میںمولوی غلام حسین قریشی کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ ۳ سال کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے ان کی مذہبی، تعلیمی، فوجی اور انتظامی ہر لحاظ سے اعلیٰ ترین تربیت کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۱ء میں ہونے والے دہلی دربار میںصرف سات سال کی عمر میںاپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہ برطانیہ جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔ ۱۹۱۳ء میں تعلیم اور امورِ ریاست کی تربیت کے لیے لندن بھیجا گیا۔ ۱۹۱۵ء سے ۱۹۲۱ء تک ایچی سن کالج لاہور میں زیرِ تعلیم رہے۔ ۱۹۲۱ء میں ہِز رائل ہائینس پرنس آف ویلز کے ایڈی کانگ مقرر ہوئے۔ مارچ ۱۹۲۴ء کو لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند نے بہاول پور آ کر نورمحل میں منعقدہ تقریب میں نواب سر صادق کی رسمِ تاجپوشی ادا کی اور مکمل اختیارات تفویض کیے۔اور اسی موقع پر’’ صادق ریڈنگ لائبریری‘‘ کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا جو اب سنٹرل لائبریری کے نام سے موسوم ہے اور پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے، جس میں نادر ونایاب مخطوطات ، قدیم و جدید اخبارات و رسائل اور لاکھوں کی تعداد میں کتب موجود ہیں۔اس لائبریری میں ایک لاری کا بھی انتظام کیا گیا۔ وہ خواتین جو پردے کی پابندی کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں جاتی تھیں۔ ان کے لیے اس لاری میں سفری لائبریری کا انتظام کیا گیا اور خواتین کلرک گھروں میں جا کر کتابیں جاری کرتیں اور واپس لاتیں۔ اس کے علاوہ صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریاں بھی نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سر صادق دنیا بھر سے جو کتب منگواتے، اس کے تین نسخے منگواتے۔ ایک صادق ریڈنگ لائبریری (سنٹرل لائبریری )، دوسرا صادق گڑھ پیلس لائبریری اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری کے لیے۔سر صادق محمد خان مرحوم کی تعلیمی اور دینی خدمات اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی فہرست بہت طویل ہے جس کے لیے چندصفحوں نہیں بلکہ کئی کتابوں کی ضرورت ہے:
تقسیم برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لال نہرو کی طرف سے نواب سر صادق کو بے شمارآفرز کی گئیں کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کر دیں مگر نواب صاحب اس موقع پر یہ تاریخی جملہ کہا
’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان میں اور پچھلا دروازہ ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدورفت زیادہ پسند کرتا ہے‘‘۔
اس طرح ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے وقت سب سے پہلے نواب سر صادق نے اپنی ریاست بہاول پور کا پاکستان سے الحاق کیا ۔ ریاست کے وزیر اعظم نواب مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کے قیام کے تین دن بعد عید الفطر کے موقع پر عید گاہ میں اس الحاق کا اعلان کیا۔
اس موقع پر سر صادق نے اپنی فوج پاکستان آرمی میں ضم کر دی ۔ قائداعظم بطور گورنرجنرل حلف اٹھانے کے لیے نواب صاحب کی ذاتی رولز رائس کار میں جائے تقریب پر تشریف لے گئے۔ریاست کی فوج نے سب سے پہلے قائد اعظم کو قیام پاکستان سے تین دن قبل ۱۱ ۔اگست ۱۹۴۷ء کو بہاول پور کی فرسٹ انفنٹری بٹالین نے گارڈ آف آنر اور رائل سیلوٹ پیش کیا۔حکومت پاکستان کو پاکستان بننے کے بعد خزانہ خالی ہونے پر نواب سر صادق محمد خان عباسی نے ابتدائی طور پر پاکستان کے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کے لیے ۷ کروڑروپے اور بعد ازاں ۲ کروڑ روپے ، پھر ۲۲ ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے ۵ لاکھ روپے دیے۔ بہاول پور میں مہاجرین کی آبادکاری کے لیے نئی وزارت بحالیٔ مہاجرین بنائی گئی، جس کے ذریعے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقہ سے آباد کیا گیا۔ اور مخدوم الملک غلام میراں شاہ (سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے دادا، بہاول پور کے وزیر اعلیٰ مخدوم حسن محمود کے والد اور سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے نانا) کو وزیر مہاجرین بنایا گیا۔نواب آف بہاول پور کی ملکیت کراچی (ملیر) میں واقع شمس محل جو ۴۵ ایکڑ پر واقع تھا، گورنر جنرل قائد اعظم کی نجی رہائش گاہ بنا دیا گیا۔
۳ ۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو نواب آف بہاول پور نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے ،جس دستاویز کی تیاری کے لیے قائد اعظم نے نواب آف بہاولپورکو اپنی مرضی کی شرائط پر معاہدہ تیار کرنے کے لیے کہا۔ قائد اعظم نے اس معاہدہ پر ۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دستخط ثبت کیے۔ اس طرح ریاست کو یہ اعزاز حاصل ہو ا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونے والی سب سے پہلی ریاست تھی۔
۱۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو نواب آف بہاول پور اور خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے درمیان ایک اور معاہدہ الحاق دستخط کیا گیا، جس کے تحت ریاست کے دفاع، بیرونی معاملات اور مواصلات کے سلسلہ میں قانون سازی کا اختیار حکومت پاکستان کو دیا گیا۔ وزیرِاعظم پاکستان لیاقت علی خان کے مشورے پر نواب صاحب نے ۱۹۴۹ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرا کے اختیارات عوامی نمائندوں کے سپرد کر دیے اور مخدوم حسن محمود (سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے والد) ریاست کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس موقع پر لیاقت علی خان نے بہاول پور آکر بہاول پور کی صوبائی حیثیت کا باقاعدہ اعلان کیا۔ ۳۰ ۔اپریل ۱۹۵۱ء کو حکومت پاکستان اور نواب سر صادق کے درمیان ایک اور معاہدہ پردستخط کیے گے، جس کے تحت ریاست کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت صوبائی حیثیت دی گئی۔۱۹۵۵ ء میں جب تمام صوبوں اور ریاستوں کو ملا کر ون یونٹ (صوبہ مغربی پاکستان) بنایا گیا تو نواب صاحب نے بھی اپنی ریاست صوبہ مغربی پاکستان میں ضم کر دی۔
ون یونٹ میں شامل ہوتے وقت ریاستی ملازموں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد تھی۔ ون یونٹ میں شامل ہوتے وقت بہاول پور کی آمدنی ۲۰ کروڑ روپے تھی۔ (جب کہ اس وقت سونے کا ریٹ ۸۰ روپے فی تولہ تھا، جو کہ آج کے حساب سے ۸۰ ارب روپے بنتی ہے)۔معاہدۂ انضمام کے وقت نواب آف بہاول پور نے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے کہا کہ اگر آپ مجھے یقین دلائیں کہ آپ میرے ۳۰ لاکھ عوام کے بہتر کسٹوڈین ثابت ہوں گے تو میں اپنی ریاست کے ۳۰۰ سالہ اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار ہوں۔ اس پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے کہا کہ His Highness نہ صرف بہترکسٹوڈین ثابت ہوں گے،بلکہ بہاولپور سے ہمیشہ ترجیحی سلوک کیاجائےگا۔اس بات پر نواب صاحب نے بغیر پڑھے معاہدہ پر دستخط کردیے۔
نواب سر صادق نے
۲۴ مئی 1966ء کو لندن میں اپنی رہائش گاہ سرے کاؤنٹی میں انتقال کیا اور ان کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا۔اس روز ہر آنکھ اشک بار تھی۔ میاں عبدالغنی صاحب علامہ شمس الحق افغانی ؒ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ’’نماز جنازہ سے واپسی پر فرمانے لگے کہ عبدالغنی! یہ نواب صاحب کیسے آدمی تھے! میں نے آج انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور حیوانوں کو بھی روتے دیکھا ہے‘‘۔
ڈیرہ نواب صاحب کی عید گاہ میں خطیبِ ریاست حضرت قاضی عظیم الدین علویؒ نے نمازِجنازہ پڑھائی اور نواب صاحب کی میت کو21 توپوں کی سلامی دی گئی اور پاکستان آرمی کی توپ گاڑی میں پورے فوجی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ قلعہ ڈیراورلے جایا گیا، جہاں شاہی قبرستان کے اندر مقبرہ نوابین میں دفن کیا گیا۔پورے ملک میں قومی سوگ کا اعلان کیا گیا اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔
{اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰاجِعُوْن}
؎آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہّ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
بشکریہ محمد نعمان فاروقی