What's new

امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی

the people have a democratic right to go bankrupt and then ensuing hormonal disorder will make sure dama dam mast qalandar ho

insolvent cannot become a director of a company ........... why would any sane person wish to go bankrupt. Unless you have an iqama which is reason of tension for you these days .......... otherwise no need for going insolvent, the munafiq FM is counting his days.
 
insolvent cannot become a director of a company ........... why would any sane person wish to go bankrupt. Unless you have an iqama which is reason of tension for you these days .......... otherwise no need for going insolvent, the munafiq FM is counting his days.

Iqama is like a passport to heaven.

The saintly iqama holders are the gems of the republic.

Not to mention the Persian pets and the Ummah Chumma freaks
 
Love is subjugation and compromise and only one entity is deserving for that
Let's come back dude - you're talking about submission not love - let's remain in human bounds - we are not woman worshipers.
 
Let's come back dude - you're talking about submission not love - let's remain in human bounds - we are not woman worshipers.

actually i meant something spiritual but sure lets come back to love

so you want the Bill Cosby version of it or Gulalai version of it?

basically Alladeen news or the Alladeen news.
 
امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی
imtiaz-ahmad-1.jpg


امتیاز احمد

امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی

امریکی تاریخ سابق صدر جان ایف کینیڈی اور ان کے قتل کی کہانی کے بغیر نامکمل ہے۔ جان ایف کینیڈی کی زندگی میں ان کی اہلیہ جیکلین کینیڈی کا مرکزی کردار ہے اور جیکلین کا نام پاکستانی سردار کی محبت سے جڑا ہوا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے اپنے مقتول امریکی صدر سے متعلق تقریباً انتیس سو نئی دستاویزات عام کر دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ماضی کے ناقابل فراموش اور تاریک پہلوؤں پر دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ لیکن جب بھی جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات کی بات ہو گی تو پاکستانی سردار بھی درمیان میں آئے گا۔ حقیقت میں امریکی تاریخ میں جان ایف کینیڈی اور جیکلین کینیڈی کے ساتھ پاکستانی سردار بھی امر ہو چکا ہے۔

سردار اور جیکلین کے عشق کی کہانی پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کی بھی کہانی ہے۔ سن انیس سو ساٹھ میں سابق سوویت یونین نے ایک امریکی طیارہ مار گرایا تھا۔ امریکی
پائلٹ گیری پاورز نے انکشاف کیا کہ وہ پاکستان کی ایئر بیس سے اڑا تھا۔ سوویت یونین نے اس امریکی پائلٹ کے بدلے اپنے ایک جاسوس روڈولف ایبل کا تبادلہ کیا تھا اور یہاں سے

پاکستان کے سوویت یونین سے تعلقات خراب ہونے کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔

sardar-5.jpg


اس واقعے کے بعد مارچ انیس سو باسٹھ میں جیکلین کینیڈی (جیکی) نے اپنی ہمشیرہ کےساتھ بھارت کے بعد پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے لاہور کے فوٹرس اسٹیڈیم میں ہونے والے نویں سالانہ پاکستانی ہارس اینڈ کیٹل شو میں بھی شرکت کی۔ اس دورے کے دوران ہی سابق پاکستان صدر ایوب خان نے انہیں عربی نسل کا گھوڑا تحفے کے طور پر دیا، جس کا نام سردار تھا۔ساٹھ کی دہائی میں اپنائی جانے والی پاکستان کی ’ہارس ڈپلومیسی‘ تاریخ میں امر ہو چکی ہے۔

اس وقت ملکہ الزبتھ کو بھی تین اعلیٰ نسل کے گھوڑے بطور تحفہ دیے گئے تھے، جن میں سلطان نامی مشہور گھوڑا بھی شامل ہے۔ حال ہی میں جب شاہی خاندان نے ملکہ کو ملنے والے بہترین غیرملکی تحائف کی فہرست جاری کی تو اس میں سلطان کا نام بھی شامل تھا۔خیر ہم تاریخی گھوڑے سردار کی طرف واپس آتے ہیں، جسے آغا خان اصطبل میں بریڈ کیا گیا تھا۔ بعد میں یہی گھوڑا جانوروں میں جیکلین کا سب سے بڑا عشق ثابت ہوا۔ جیکلین نے پیار سے سردار کا نام اپنے والد جیک بوویئر کے نِک نیم ’بلیک جیک‘ پر رکھا تھا۔ جیکی سردار سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کہا تھا، ’’میری نجی یادگاروں میں یہ پسندیدہ ترین خزانہ ہے۔

‘‘’دا مسنگ ہسٹری آف کینیڈی ایئرز‘ نامی کتاب کے مطابق جیکلین نے اس گھوڑے کو امریکا لے جانے کے لیے جان ایف کینیڈی سے خصوصی طور پر درخواست کی تھی۔ اس غیر معمولی درخواست پر ریپبلیکن کانگریس مین والٹر میکوی کا اعتراض کہنا تھا کہ یہ گھوڑا ریزرو کا حصہ نہیں ہے اور اسے ملٹری ایئر ٹرانسپورٹ سروس فلائیٹ کے ذریعے امریکا نہیں لایا جا
سکتا۔ لیکن سردار کو اس اعتراض کے باوجود ایک ایئر فورس جہاز کے ذریعے امریکہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد میکوی نے کہا تھا، ’’سردار ایک کانگریس مین سے زیادہ با اثر ہے۔ ‘‘

sardar-3.jpg


اس کے بعد جب صدر ایوب خان سفارتی دورے پر امریکہ گئے تو انہوں نے کینیڈی فیملی کے فارم ہاؤس میں بھی قیام کیا اور ان کی جیکلین کے ساتھ گھوڑ سواری کرتے ہوئے تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ مجموعی طور پر جیکلین کی گھوڑ سواری کی سب سے زیادہ اورخوبصورت تصاویر سردار کے ساتھ ہی ہیں۔قانونی طور پر امریکی صدر یا ان کی فیملی کو جو کچھ بھی تحفے میں ملتا ہے، وہ قانونی طور پر امریکی حکومت کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔

دورہ پاکستان کے دوران جیکی (جیکلین) کو متعدد تحائف سے نوازہ گیا، جن میں سونے کے ہار بھی شامل تھے۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری پیریر سالگرین کے مطابق جیکی نے سردار کے علاوہ سب کچھ حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ پھر خصوصی انتظام کرتے ہوئے فرسٹ لیڈی کو کہا گیا تھا کہ وہ اس گھوڑے کی قیمت کا تقریبا سات فیصد بطور ٹیکس ادا کریں۔بائیس نومبر انیس سو چونسٹھ کو پیش آنے والے واقعے نے جیکی کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ اس جمعے کے دن جیکی کے خاوند جان ایف کینیڈی کو ڈیلاس میں ایک سنائپر نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات اپنے حوالے سے ’تاریخی‘ قرار دیا جاتا ہے

۔ کسی بھی امریکی صدر کے جنازے کی رسومات انتہائی سخت پروٹوکول کے تحت ادا کی جاتی ہیں لیکن جیکلین جنازے کی رسومات کو ’پرسنل ٹچ‘ دینا چاہتی تھیں اور انہیں پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی اجازت دی گئی۔ وہ جنازے کی رسومات ابراہم لنکن کے جنازے کی طرح ادا کرنا چاہتی تھیں۔1865ء میں ابراہم لنکن کے جنازے کے پیچھے پہلی مرتبہ ’رائیڈر لیس ہارس‘ کے طور پر ان کے ذاتی اور پسندیدہ گھوڑے ’اولڈ بوب‘ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس ’رائیڈر لیس‘ گھوڑے پر صرف کاٹھی اور لنکن کے بوٹ رکھے گئے تھے۔ یہ روایت چنگیز خان کے دور کی ہے۔ جنگ میں جب بھی کوئی سرکردہ فوجی ہلاک ہو جاتا تھا تو تدفین کے وقت اس کا گھوڑا جنازے کے پیچھے پیچھے چلایا جاتا تھا۔جیکی بھی جان ایف کینیڈی کے جنارے میں اپنے ذاتی گھوڑے (سردار) کو شامل کرتے ہوئے ایسی ہی ایک رسم چاہتی تھیں، جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ جیکلین کے پاس کئی دوسرے گھوڑے بھی تھے لیکن پاکستان کا دیا ہوا تحفہ ان کے خاندان کا حصہ بن چکا تھا۔

sardar-6-kennedy-funeral.jpg


چوبیس نومبر بروز اتوار نیوز ایجنسی اے پی کے ایک صحافی نے تصدیق کرنے کے لیے جیکلین کی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر کو فون کیا کہ آیا جان ایف کینیڈی کے جنازے میں شامل گھوڑا جیکلین کا سردار ہی تھا؟ کیوں کہ وہ گھوڑا ہجوم سے مانوس نہیں تھا۔ لائن سے مسلسل آگے پیچھے ہو رہا تھا اور اس کے چلنے کی تربیت بھی فوجی گھوڑوں کی طرح نہیں تھی۔ سیکرٹری نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ سردار (بلیک جیک) ہی تھا۔

جب یہ بات منظر عام پر آئی تو اس کے ایک دن بعد ہی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر نے اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ ’میں غلط تھی۔ ‘ اس کے علاوہ جان ایف کینیڈی کے ایک حکومتی ترجمان پیئر سیلنگر نے بھی کہا کہ وہ سردار نہیں بلکہ فوج کا ملکیتی گھوڑا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ فوج کے پاس بھی ایک بلیک جیک نامی گھوڑا موجود ہے۔ بیان کے مطابق ستائیس نومبر کو جیکلین نے سیکرٹری آف آرمی سائرس وینس سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ بلیک جیک انہیں واپس کیا جائے

اور اس درخواست کے کچھ ہی دیر بعد بلیک جیک کو وائٹ ہاؤس میں ان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ان متنازعہ بیانات کی وجہ سے یہ بات ابھی بھی متنازعہ ہے کہ جان ایف کینیڈی کے
جنازے میں سردار (بلیک جیک) شریک تھا یا پھر فوج کا اپنا ’بلیک جیک‘ نامی کوئی دوسرا گھوڑا۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا، جب جیکلین کو وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے دو ہفتوں کا
وقت دیا گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا سامان وغیرہ باندھ رہی تھی

sardar-4.jpg


جان ایف کینیڈی صدارتی لائبریری اور میوزیم کے ڈائریکٹر ٹام پوٹنم نے سن دو ہزار پندرہ میں بروس ریڈل کو اپنے ایک پروگرام میں مدعو کیا۔ بروس ریڈل امریکی نامور ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی میں بھی اور بطور سفارتکار بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بروس ریڈل کو ان کی کتاب ’’جان ایف کینیڈی فار گاٹن کرائسز: تبت، دا سی آئی اے، اینڈ دا سائنو انڈین وار‘‘ پر گفتگو کے لیے بلایا گیا تھا

۔ اس دوران انہوں نے صدر ایوب اور کینیڈی خاندان کے روابط پر بھی روشنی ڈالی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ چین کے خلاف تبتوں کو مدد مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کے ایک ہوائی اڈے سے فراہم کی جاتی تھی اور صدر ایوب اس سے متفق تھے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کینیڈی کے جنازے میں ’رائیڈر لیس ہارس‘ فوج کا بلیک جیک نہیں بلکہ سردار ہی تھا۔ ان کا یہ انٹرویو جان ایف کینیڈی آرکائیوز میں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سن دو ہزار آٹھ میں ’سٹینسلس ہسٹوریکل کوآٹرلی‘ کی جانب سے شائع کی جانے والی آزاد تحقیقات کے مطابق بھی جنازے میں شریک ’رائیڈر لیس ہارس‘ سردار ہی تھا۔ وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد جیکلین سردار کو اپنے ساتھ ورجینیا لے گئی تھیں اور بعد میں بھی انہیں کئی مرتبہ سردار کے ساتھ دیکھا گیا۔

Source

Would have been better by way of posting a bit of translation for every member here. When it is about a subject of interest for many, not necessary that everyone understands Urdu.
 
It’s difficult to comment on something one doesn’t understand
 
امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی
imtiaz-ahmad-1.jpg


امتیاز احمد

امریکی خاتون اول کی پاکستانی سردار سے عشق کی کہانی

امریکی تاریخ سابق صدر جان ایف کینیڈی اور ان کے قتل کی کہانی کے بغیر نامکمل ہے۔ جان ایف کینیڈی کی زندگی میں ان کی اہلیہ جیکلین کینیڈی کا مرکزی کردار ہے اور جیکلین کا نام پاکستانی سردار کی محبت سے جڑا ہوا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے اپنے مقتول امریکی صدر سے متعلق تقریباً انتیس سو نئی دستاویزات عام کر دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ماضی کے ناقابل فراموش اور تاریک پہلوؤں پر دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ لیکن جب بھی جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات کی بات ہو گی تو پاکستانی سردار بھی درمیان میں آئے گا۔ حقیقت میں امریکی تاریخ میں جان ایف کینیڈی اور جیکلین کینیڈی کے ساتھ پاکستانی سردار بھی امر ہو چکا ہے۔

سردار اور جیکلین کے عشق کی کہانی پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کی بھی کہانی ہے۔ سن انیس سو ساٹھ میں سابق سوویت یونین نے ایک امریکی طیارہ مار گرایا تھا۔ امریکی
پائلٹ گیری پاورز نے انکشاف کیا کہ وہ پاکستان کی ایئر بیس سے اڑا تھا۔ سوویت یونین نے اس امریکی پائلٹ کے بدلے اپنے ایک جاسوس روڈولف ایبل کا تبادلہ کیا تھا اور یہاں سے

پاکستان کے سوویت یونین سے تعلقات خراب ہونے کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔

sardar-5.jpg


اس واقعے کے بعد مارچ انیس سو باسٹھ میں جیکلین کینیڈی (جیکی) نے اپنی ہمشیرہ کےساتھ بھارت کے بعد پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے لاہور کے فوٹرس اسٹیڈیم میں ہونے والے نویں سالانہ پاکستانی ہارس اینڈ کیٹل شو میں بھی شرکت کی۔ اس دورے کے دوران ہی سابق پاکستان صدر ایوب خان نے انہیں عربی نسل کا گھوڑا تحفے کے طور پر دیا، جس کا نام سردار تھا۔ساٹھ کی دہائی میں اپنائی جانے والی پاکستان کی ’ہارس ڈپلومیسی‘ تاریخ میں امر ہو چکی ہے۔

اس وقت ملکہ الزبتھ کو بھی تین اعلیٰ نسل کے گھوڑے بطور تحفہ دیے گئے تھے، جن میں سلطان نامی مشہور گھوڑا بھی شامل ہے۔ حال ہی میں جب شاہی خاندان نے ملکہ کو ملنے والے بہترین غیرملکی تحائف کی فہرست جاری کی تو اس میں سلطان کا نام بھی شامل تھا۔خیر ہم تاریخی گھوڑے سردار کی طرف واپس آتے ہیں، جسے آغا خان اصطبل میں بریڈ کیا گیا تھا۔ بعد میں یہی گھوڑا جانوروں میں جیکلین کا سب سے بڑا عشق ثابت ہوا۔ جیکلین نے پیار سے سردار کا نام اپنے والد جیک بوویئر کے نِک نیم ’بلیک جیک‘ پر رکھا تھا۔ جیکی سردار سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کہا تھا، ’’میری نجی یادگاروں میں یہ پسندیدہ ترین خزانہ ہے۔

‘‘’دا مسنگ ہسٹری آف کینیڈی ایئرز‘ نامی کتاب کے مطابق جیکلین نے اس گھوڑے کو امریکا لے جانے کے لیے جان ایف کینیڈی سے خصوصی طور پر درخواست کی تھی۔ اس غیر معمولی درخواست پر ریپبلیکن کانگریس مین والٹر میکوی کا اعتراض کہنا تھا کہ یہ گھوڑا ریزرو کا حصہ نہیں ہے اور اسے ملٹری ایئر ٹرانسپورٹ سروس فلائیٹ کے ذریعے امریکا نہیں لایا جا
سکتا۔ لیکن سردار کو اس اعتراض کے باوجود ایک ایئر فورس جہاز کے ذریعے امریکہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد میکوی نے کہا تھا، ’’سردار ایک کانگریس مین سے زیادہ با اثر ہے۔ ‘‘

sardar-3.jpg


اس کے بعد جب صدر ایوب خان سفارتی دورے پر امریکہ گئے تو انہوں نے کینیڈی فیملی کے فارم ہاؤس میں بھی قیام کیا اور ان کی جیکلین کے ساتھ گھوڑ سواری کرتے ہوئے تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ مجموعی طور پر جیکلین کی گھوڑ سواری کی سب سے زیادہ اورخوبصورت تصاویر سردار کے ساتھ ہی ہیں۔قانونی طور پر امریکی صدر یا ان کی فیملی کو جو کچھ بھی تحفے میں ملتا ہے، وہ قانونی طور پر امریکی حکومت کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔

دورہ پاکستان کے دوران جیکی (جیکلین) کو متعدد تحائف سے نوازہ گیا، جن میں سونے کے ہار بھی شامل تھے۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری پیریر سالگرین کے مطابق جیکی نے سردار کے علاوہ سب کچھ حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ پھر خصوصی انتظام کرتے ہوئے فرسٹ لیڈی کو کہا گیا تھا کہ وہ اس گھوڑے کی قیمت کا تقریبا سات فیصد بطور ٹیکس ادا کریں۔بائیس نومبر انیس سو چونسٹھ کو پیش آنے والے واقعے نے جیکی کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ اس جمعے کے دن جیکی کے خاوند جان ایف کینیڈی کو ڈیلاس میں ایک سنائپر نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات اپنے حوالے سے ’تاریخی‘ قرار دیا جاتا ہے

۔ کسی بھی امریکی صدر کے جنازے کی رسومات انتہائی سخت پروٹوکول کے تحت ادا کی جاتی ہیں لیکن جیکلین جنازے کی رسومات کو ’پرسنل ٹچ‘ دینا چاہتی تھیں اور انہیں پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی اجازت دی گئی۔ وہ جنازے کی رسومات ابراہم لنکن کے جنازے کی طرح ادا کرنا چاہتی تھیں۔1865ء میں ابراہم لنکن کے جنازے کے پیچھے پہلی مرتبہ ’رائیڈر لیس ہارس‘ کے طور پر ان کے ذاتی اور پسندیدہ گھوڑے ’اولڈ بوب‘ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس ’رائیڈر لیس‘ گھوڑے پر صرف کاٹھی اور لنکن کے بوٹ رکھے گئے تھے۔ یہ روایت چنگیز خان کے دور کی ہے۔ جنگ میں جب بھی کوئی سرکردہ فوجی ہلاک ہو جاتا تھا تو تدفین کے وقت اس کا گھوڑا جنازے کے پیچھے پیچھے چلایا جاتا تھا۔جیکی بھی جان ایف کینیڈی کے جنارے میں اپنے ذاتی گھوڑے (سردار) کو شامل کرتے ہوئے ایسی ہی ایک رسم چاہتی تھیں، جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ جیکلین کے پاس کئی دوسرے گھوڑے بھی تھے لیکن پاکستان کا دیا ہوا تحفہ ان کے خاندان کا حصہ بن چکا تھا۔

sardar-6-kennedy-funeral.jpg


چوبیس نومبر بروز اتوار نیوز ایجنسی اے پی کے ایک صحافی نے تصدیق کرنے کے لیے جیکلین کی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر کو فون کیا کہ آیا جان ایف کینیڈی کے جنازے میں شامل گھوڑا جیکلین کا سردار ہی تھا؟ کیوں کہ وہ گھوڑا ہجوم سے مانوس نہیں تھا۔ لائن سے مسلسل آگے پیچھے ہو رہا تھا اور اس کے چلنے کی تربیت بھی فوجی گھوڑوں کی طرح نہیں تھی۔ سیکرٹری نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ سردار (بلیک جیک) ہی تھا۔

جب یہ بات منظر عام پر آئی تو اس کے ایک دن بعد ہی پریس سیکریٹری پامیلا ٹرنر نے اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ ’میں غلط تھی۔ ‘ اس کے علاوہ جان ایف کینیڈی کے ایک حکومتی ترجمان پیئر سیلنگر نے بھی کہا کہ وہ سردار نہیں بلکہ فوج کا ملکیتی گھوڑا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ فوج کے پاس بھی ایک بلیک جیک نامی گھوڑا موجود ہے۔ بیان کے مطابق ستائیس نومبر کو جیکلین نے سیکرٹری آف آرمی سائرس وینس سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ بلیک جیک انہیں واپس کیا جائے

اور اس درخواست کے کچھ ہی دیر بعد بلیک جیک کو وائٹ ہاؤس میں ان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ان متنازعہ بیانات کی وجہ سے یہ بات ابھی بھی متنازعہ ہے کہ جان ایف کینیڈی کے
جنازے میں سردار (بلیک جیک) شریک تھا یا پھر فوج کا اپنا ’بلیک جیک‘ نامی کوئی دوسرا گھوڑا۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا، جب جیکلین کو وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے دو ہفتوں کا
وقت دیا گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا سامان وغیرہ باندھ رہی تھی

sardar-4.jpg


جان ایف کینیڈی صدارتی لائبریری اور میوزیم کے ڈائریکٹر ٹام پوٹنم نے سن دو ہزار پندرہ میں بروس ریڈل کو اپنے ایک پروگرام میں مدعو کیا۔ بروس ریڈل امریکی نامور ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی میں بھی اور بطور سفارتکار بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بروس ریڈل کو ان کی کتاب ’’جان ایف کینیڈی فار گاٹن کرائسز: تبت، دا سی آئی اے، اینڈ دا سائنو انڈین وار‘‘ پر گفتگو کے لیے بلایا گیا تھا

۔ اس دوران انہوں نے صدر ایوب اور کینیڈی خاندان کے روابط پر بھی روشنی ڈالی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ چین کے خلاف تبتوں کو مدد مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کے ایک ہوائی اڈے سے فراہم کی جاتی تھی اور صدر ایوب اس سے متفق تھے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کینیڈی کے جنازے میں ’رائیڈر لیس ہارس‘ فوج کا بلیک جیک نہیں بلکہ سردار ہی تھا۔ ان کا یہ انٹرویو جان ایف کینیڈی آرکائیوز میں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سن دو ہزار آٹھ میں ’سٹینسلس ہسٹوریکل کوآٹرلی‘ کی جانب سے شائع کی جانے والی آزاد تحقیقات کے مطابق بھی جنازے میں شریک ’رائیڈر لیس ہارس‘ سردار ہی تھا۔ وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد جیکلین سردار کو اپنے ساتھ ورجینیا لے گئی تھیں اور بعد میں بھی انہیں کئی مرتبہ سردار کے ساتھ دیکھا گیا۔

Source
images
6f65de416c85b0e66d671346b9eb0c73--jackie-kennedy-jaqueline-kennedy.jpg

Jackie-on-Sardar.jpg
7a801442cb61df275951a3613f520cb0--los-kennedy-jackie-kennedy.jpg
4c0f8fcc30aaf402b28210a85814f10b--president-of-pakistan-the-president.jpg
39e78051631cc2473d2ac1c2902ff5e0--clydesdale-horses-herbert-hoover.jpg
b66af16cdecd42fabafa2c65ce013ba9--black-jacks-jack-black.jpg


7432cb8816643e4fdda9a3cec672369c--kennedy-wife-jackie-kennedy.jpg
 
It’s difficult to comment on something one doesn’t understand
Jackie Kennedy’s Horse, Sardar

March 19, 2016 By Presidential Pet Museum




First Lady Jacqueline Kennedy introduces her daughter, Caroline, to Sardar in Arlington, Virginia, 1962.

On March 23, 1962, Jacqueline Kennedy received a precious gift from Muhammad Ayub Khan, the president of Pakistan: a horse named Sardar.

During one of the First Lady’s trips to Pakistan, she had the opportunity to go riding with President Khan, who seemed captivated by her. That night, President Khan presented Jackie Kennedy with a beautiful necklace and then Sardar, the 10-year-old bay gelding she had ridden on their afternoon jaunt.

When it was time to fly home, Jackie even pleaded with President Kennedy to give special treatment to Sardar that would allow the horse to skip customs. The president agreed and, according to Mrs. Kennedy: The Missing History of the Kennedy Years, he even teased his wife that “the government had dropped all its other work on domestic and international affairs in order to devote full-time attention to Sardar.”

This uncommon request did meet some backlash. Republican Congressman Walter McVey complained about being refused transportation on a Military Air Transport Service flight because he was not a member of the reserves — but that Sardar had netted an Air Force plane for his own transport.

According to McVey, “Sardar has more influence than a congressman,” and he queried whether Sardar was a “military reservist or a member of the reserve.” McVey, perhaps understanding that insulting the First Lady’s new love was not wise, apologized to Sardarshortly thereafter.


Sardar arrived from Pakistan.

Her “Favorite Treasure”
Jackie, an avid horsewoman all her life, promptly fell in love with Sardar.

According to History.com, Jackie so loved Sardar that she referred to him as her “favorite treasure in her private memoirs.” And although accepting costly gifts could be looked at askance, Jackie maintained Sardar’s care from her personal funds.

Sardar was even once part of a small scandal of his own. Apparently, some protestors took offense to him and his pony friends, Tex and Macaroni, walking around the White House grounds without clothes. White House staff tried to keep a straight face but found the picketers’ cause to be rather hilarious.

Sardar, of course, couldn’t care less about appearing in public in the nude.


The First Lady rides Sardar at Glen Ora, Sept. 25, 1962.

Going for Rides
Once Sardar was part of the Kennedy family, the First Lady could often be seen riding him either on the White House grounds or at Glen Ora, the Kennedys’ home in Virginia, often alongside her daughter, Caroline.

After the assassination of President Kennedy, it was said that Sardar was the riderless horse that followed the caisson of the president. The horse was “skittish” and seemed unused to the activity of the crowds. However, the next day the White House stated that it was not Sardar but a military horse named Black Jack.

After Jackie Kennedy left the White House, Sardar presumably lived most of his days quite happily at the Kennedy’s Virginia home.

©
 
Jackie Kennedy’s Horse, Sardar

March 19, 2016 By Presidential Pet Museum




First Lady Jacqueline Kennedy introduces her daughter, Caroline, to Sardar in Arlington, Virginia, 1962.

On March 23, 1962, Jacqueline Kennedy received a precious gift from Muhammad Ayub Khan, the president of Pakistan: a horse named Sardar.

During one of the First Lady’s trips to Pakistan, she had the opportunity to go riding with President Khan, who seemed captivated by her. That night, President Khan presented Jackie Kennedy with a beautiful necklace and then Sardar, the 10-year-old bay gelding she had ridden on their afternoon jaunt.

When it was time to fly home, Jackie even pleaded with President Kennedy to give special treatment to Sardar that would allow the horse to skip customs. The president agreed and, according to Mrs. Kennedy: The Missing History of the Kennedy Years, he even teased his wife that “the government had dropped all its other work on domestic and international affairs in order to devote full-time attention to Sardar.”

This uncommon request did meet some backlash. Republican Congressman Walter McVey complained about being refused transportation on a Military Air Transport Service flight because he was not a member of the reserves — but that Sardar had netted an Air Force plane for his own transport.

According to McVey, “Sardar has more influence than a congressman,” and he queried whether Sardar was a “military reservist or a member of the reserve.” McVey, perhaps understanding that insulting the First Lady’s new love was not wise, apologized to Sardarshortly thereafter.


Sardar arrived from Pakistan.

Her “Favorite Treasure”
Jackie, an avid horsewoman all her life, promptly fell in love with Sardar.

According to History.com, Jackie so loved Sardar that she referred to him as her “favorite treasure in her private memoirs.” And although accepting costly gifts could be looked at askance, Jackie maintained Sardar’s care from her personal funds.

Sardar was even once part of a small scandal of his own. Apparently, some protestors took offense to him and his pony friends, Tex and Macaroni, walking around the White House grounds without clothes. White House staff tried to keep a straight face but found the picketers’ cause to be rather hilarious.

Sardar, of course, couldn’t care less about appearing in public in the nude.


The First Lady rides Sardar at Glen Ora, Sept. 25, 1962.

Going for Rides
Once Sardar was part of the Kennedy family, the First Lady could often be seen riding him either on the White House grounds or at Glen Ora, the Kennedys’ home in Virginia, often alongside her daughter, Caroline.

After the assassination of President Kennedy, it was said that Sardar was the riderless horse that followed the caisson of the president. The horse was “skittish” and seemed unused to the activity of the crowds. However, the next day the White House stated that it was not Sardar but a military horse named Black Jack.

After Jackie Kennedy left the White House, Sardar presumably lived most of his days quite happily at the Kennedy’s Virginia home.

©

Thank you :)
 
Back
Top Bottom