As for Sikh pilot pows in 1971 war, there were only two (Grewal and Tejwant).
As you keep on denying the fact, so below is an international media group's correspondent clip from New Dehli.
I highlighted the sentence mentioning the number of Indian POW pilots in Pakistan and also copied it at the end of the article with translation.
Believe it or not, that was and is the fact. For your information only.
بنگلہ دیش کے قیام کے 50 برس: جب کلمہ نہ سنا سکنے پر انڈین پائلٹ کو پاکستان میں قیدی بنا لیا گیا
ریحان فضل
بی بی سی ہندی، دہلی
5 گھنٹے بعد
،تصویر کا ذریعہJAWAHAR LAL BHARGAV
،تصویر کا کیپشن
بھارگؤ نے اپنا نام منصور علی خان بتایا
پانچ دسمبر 1971 کو صبح تقریباً نو بج کر 20 منٹ پر فلائٹ لیفٹیننٹ جواہر لال بھارگؤ کے ماروت طیارے نے جب پاکستان کے علاقے نیاچھور پر بمباری کرنے کے لیے نیچے غوطہ لگایا تو ان کے طیارے کو طیارہ شکن بندوق کا گولہ لگا۔
کاک پٹ میں سرخ بتیاں جلنے لگیں اور جہاز کا بائیاں انجن فیل ہوگیا۔ اُنھوں نے فوراً حملہ ترک کر دیا اور انڈیا واپس جانے کی کوشش کی۔ ان کے نیچے سندھ کا بڑا ریگستان تھا۔
جیسے ہی اُنھوں نے زمین کو قریب آتے دیکھا، نوجوان پائلٹ نے خدا کا نام لیا اور پوری قوت سے اخراج کا بٹن دبا دیا۔
سنہ 1971 کی جنگ پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’1971، چارج آف دی گورکھاز‘ لکھنے والی رچنا بشت راوت کہتی ہیں ’بھارگؤ کے جہاز کے اوپر کی چھت کھل گئی اور وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہوا میں تھے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ جواہر لال بھارگؤ نے خود کو ریگستان کی ریت پر پڑا پایا۔ان کا طیارہ زمین کو چھونے سے پہلے ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔‘
یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ جہاز میں موجود بارود کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اُنھوں نے اپنا پیراشوٹ ریت میں گاڑ دیا اور تیزی سے اس جگہ سے دور بھاگنے کی کوشش کی۔ وہاں سے نکلنے سے پہلے اُنھوں نے اپنی پائلٹ سروائیول کٹ اٹھائی جس میں سلیپنگ بیگ، چھوٹا سا چولہا، چاکلیٹ، چاقو، قطب نُما اور پانی کی چار 100 ملی لیٹر کی بوتلیں تھیں'۔
،تصویر کا ذریعہJAWAHAR LAL BHARGAV
،تصویر کا کیپشن
بھارگؤ نے سوچا کہ اگر پکڑے گئے تو کہیں گے کہ وہ پاکستانی فضائیہ کے افسر ہیں
پٹودی کے نام پر نام رکھا منصور علی خان
لیکن بھارگؤ کو اس کٹ میں وہ نقشہ نہیں ملا جس کی اُنھیں اس وقت اشد ضرورت تھی۔ اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے قطب نُما کی مدد سے وہ مشرق کی جانب چلیں گے اور سرحد عبور کر کے انڈیا پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
اُنھوں نے فوراً اپنی گھڑی کا وقت پاکستانی وقت کے مطابق ایڈجسٹ کیا اور سوچا کہ اگر وہ پکڑے گئے تو کہیں گے کہ وہ پاکستانی فضائیہ کے افسر ہیں اور ان کا نام منصور علی خان ہے۔
اس وقت پنچکولہ میں رہنے والے ایئر کموڈور جواہر لال بھارگؤ سے میں نے پوچھا کہ کیا منصور علی خان کا نام رکھنے کے پیچھے کوئی خاص وجہ تھی؟ ان کا جواب تھا کہ ’میرے والد نواب افتخار علی خان پٹودی کے ساتھ کام کرتے تھے اور میں ان کے بیٹے منصور علی خان پٹودی کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا۔ ہم دونوں نے رانچی ٹرافی میں اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کی تھی۔ پٹودی دلی کے لیے کھیلتے تھے اور میں پنجاب کے لیے۔ اس وقت مجھے پٹودی کے نام پر اپنا نام رکھنے کا خیال آیا۔‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی
بھارگؤ کے پاس 300 پاکستانی روپے بھی تھے جو اس وقت پاکستان پر حملہ کرنے والے ہر پائلٹ کو دیے جاتے تھے۔
جب بھارگؤ نے چلنا شروع کیا تو اُنھیں دور دور تک ایک بھی انسان نظر نہیں آیا۔ ابھی وہ تین کلومیٹر ہی چل پائے ہوں گے کہ گرمی کی وجہ سے ان کا حلق خشک ہونے لگا۔ ان کی بوتلوں کا پانی کب کا ختم ہو گیا تھا اور اب ان کے پاس پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔
پھر اُنھوں نے ایک ٹیلے کے پاس ایک گاؤں دیکھا۔ وہ ایک ویران جھونپڑی کے سامنے کھڑے تھے جہاں کرتہ پہنے ایک داڑھی والا شخص کھڑا تھا۔
جواہر لال بھارگؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے جھکتے ہوئے اُنھیں آداب عرض کہا لیکن اُنھوں نے اس کا جواب وعلیکم اسلام سے دیا۔ میں نے اُنھیں بہت اعتماد کے ساتھ بتایا کہ میں پاکستان ایئر فورس کا فلائٹ لیفٹیننٹ منصور علی خان ہوں۔ میرا طیارہ کریش ہو گیا ہے۔ پینے کے لیے مجھے پانی چاہیے بوڑھے شخص نے سرد لہجے میں جواب دیا کہ پانی نہیں ہے میں نے قریب ہی سیمنٹ کی بنی ٹنکی پر نظر ڈالی جس میں پانی تھا۔ بوڑھے نے کہا کہ یہ پانی اونٹوں کے پینے کے لیے ہے، آپ چاہیں تو پی سکتے ہیں۔آپ یقین نہیں کریں گے کہ میں نے نہ صرف وہ گندا کالا پانی پیا بلکہ مزید پینے کے لیے اس پانی کو چار بوتلوں میں بھی بھرا۔ میں نے اس ہدایت کے ساتھ اس شخص کو 20 روپے دیے کہ میرے بارے میں کسی کو نہیں بتانا‘۔
،تصویر کا ذریعہPENGUIN
،تصویر کا کیپشن
یہ کتاب رچنا بشت راوت نے لکھی ہے
لوگ بھارگؤ کو اپنے گاؤں لے گئے
جب بھارگؤ نے اس گاؤں والے سے پوچھا کہ اس گاؤں کا نام کیا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ پیرانی کا پار ہے۔ یہ سن کر بھارگؤ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ بھٹالہ گاؤں ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ انڈیا کی نہیں بلکہ پاکستان کی سمت میں جا رہے تھے۔
اُنھوں نے اپنا راستہ بدلا اور دوبارہ چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آرام کرنے کے لیے ایک گڑھے جیسی جگہ پر لیٹ گئے۔ اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اندھیرا ہونے کے بعد ہی وہ آگے بڑھیں گے۔
ابھی اُنھوں نے آنکھیں بند ہی کی تھیں تو اُنھیں محسوس ہوا کہ کچھ لوگ اُنھیں دیکھ رہے ہیں۔ جب اُن کی آنکھ کھلی تو اُنھوں نے پایا کہ تین افراد اور ایک لڑکا اُنھیں گھور رہے ہیں۔ اُنھوں نے بھارگؤ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟
بھارگؤ نے وہی پرانا جواب دہرایا کہ ’میں فلائٹ لیفٹیننٹ منصور علی خان ہوں اور انڈین فوج نے میرا جہاز بھٹالہ کے قریب گرا دیا ہے‘۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہمارے گاؤں چلو۔
بھارگؤ نے لاکھ کہا کہ اُن کا ہیلی کاپٹر آنے والا ہے جو اُنھیں کراچی لے جائے گا لیکن وہ گاؤں والے نہیں مانے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’تم انڈیا کی سرحد کی سمت جا رہے ہو۔ تم ہمارے ساتھ ہمارے گاؤں چلو۔‘
بھارگؤ نے پوچھا کہ ہم سرحد سے کتنی دور ہیں؟ اُنھوں نے کہا کہ تقریباً 15 کلومیٹر۔ بھارگو کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ جانا پڑا۔
راولپنڈی کی رہائش بتائی
بھارگؤ کو گاؤں میں جوٹ کی چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ تب تک گاؤں کے سکول کے ہیڈ ماسٹر وہاں پہنچ گئے۔ اُنھوں نے ان سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ آپ پاکستان کے کس علاقے سے آئے ہیں؟
ایئر کموڈور جواہر لال بھارگؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں 'میں نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا راولپنڈی میں۔ اُنھوں نے پھر پوچھا کہ آپ راولپنڈی میں کہاں رہتے ہیں؟ مجھے راولپنڈی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ پھر بھی میں نے کہا مال روڈ۔ اتفاق سے راولپنڈی میں ایک مال روڈ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی تھانہ ہے، یہ سن کر مجھے سکون ملا کہ وہاں دور دور تک تھانے کا نام و نشان تک نہیں ہے۔
’ٹیچر نے کہا کہ اُنھوں نے رینجرز کو میرے بارے میں اطلاع دی تھی۔ میں نے پوچھا کہ اُنھیں یہاں آنے میں کتنا وقت لگے گا؟ جب اُنھوں نے کہا کہ تین سے چار گھنٹے لگیں گے تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ اُنھوں نے میرے لیے چائے بنائی۔ لیکن تب تک میری کمر میں درد ہونے لگا تھا'۔
،تصویر کا ذریعہJAWAHAR LAL BHARGAV
،تصویر کا کیپشن
فلائٹ لیفٹیننٹ جواہر لال بھارگؤ اپنے ماروت طیارے کے ساتھ
اچانک پاکستانی رینجرز گاؤں پہنچ گئے
تب تک شام کے 7 بج کر 40 منٹ ہو چکے تھے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ بھارگؤ منصوبہ بنا رہے تھے کہ اب وہ کسی طرح وہاں سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ ایک چاقو اور چار پانی کی بوتلیں اپنے پاس رکھ کر اُنھوں نے اپنی کٹ کا سارا سامان گاؤں کے بچوں میں تقسیم کر دیا۔
تبھی وہاں چار پاکستانی رینجرز اس جھونپڑی میں داخل ہوئے۔ ان کے لیڈر نائک آواز علی تھے۔ ایک بار پھر بھارگؤ نے وہی پرانی کہانی سنائی کہ وہ فلائٹ لیفٹیننٹ منصور علی خان ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں باتھ روم جانا ہے۔
آواز علی نے ان کے ساتھ دو مسلح رینجرز بھیجے۔ ایک منٹ کے لیے اُنھوں نے سوچا کہ بھاگ جائیں لیکن اس دن پورا چاند تھا اور چاند کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
ان دونوں کے پاس خودکار رائفلیں تھیں۔ اُنھیں اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر وہ بھاگتے تو وہ ان پر گولی چلا دیتے۔ بھارگؤ ہچکچاتے ہوئے جھونپڑی میں واپس آگئے۔
رینجر نے کلمہ پڑھنے کو کہا
بھارگؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’جب میں واپس آیا تو میں نے آواز علی کو دیکھا کہ وہ ہر اس چیز کا معائنہ کر رہے تھے جو میں نے بچوں کو دی تھی۔ پھر اُنھوں نے ایک چھوٹے چاقو پر 'میڈ ان انڈیا' لکھا ہوا دیکھا۔ اُنھوں نے میری گھڑی پر نظر ڈالی۔ اس پر پاکستان کا وقت نظر آ رہا تھا۔ اُنھوں نے مجھ سے کہا کہ ہمیں تم پر شک ہے کہ تم انڈین ہو، اب میرے پریشان ہونے کی باری تھی پھر بھی میں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ اپنے افسر کو بلاؤ، اُنھوں نے کہا کہ میں افسر ہی ہوں، میں نے بھی سختی سے جواب دیا کہ تم افسر نہیں ہو۔ ایک ہیرو ہو۔‘
آواز علی نے میرا آخری امتحان لیتے ہوئے مجھ سے کہا، ’ٹھیک ہے اگر تم مسلمان ہو تو ہمیں کلمہ پڑھ کر سناؤ۔ میں نے اس وقت تک یہ بھی نہیں سنا تھا کہ کلمہ کیا ہوتا ہے، میں صرف قلم کو جانتا تھا۔ میں نے اسے آخری بار بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ ’آواز علی کافی عرصہ ہو گیا ہے کلمہ پڑھے ہوئے یاد نہیں آ رہا اور کمر میں بھی درد ہو رہا ہے‘۔
آواز علی نے کہا ’ٹھیک ہے میں کلمہ پڑھ رہا ہوں آپ دہرا دیجیے۔ میں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے غلط کلمہ پڑھا تو یہ سارے گاؤں والے مل کر مجھے بہت ماریں گے'۔
بھارگؤ نے اعتراف کیا کہ وہ ایک انڈین پائلٹ ہیں
اب آواز علی کو پورا شک ہو گیا کہ بھارگؤ اسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی رائفل کا بٹ زمین پر زور سے مارتے ہوئے کہا ’مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو ورنہ ہمیں سچائی اگلوانے کے دوسرے طریقے اختیار کرنے ہوں گے'۔
بھارگؤ سمجھ گئے کہ ان کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’میں انڈین ایئر فورس کا فلائٹ لیفٹیننٹ جواہر لال بھارگؤ ہوں۔ اب آپ میرے ساتھ جو چاہیں کریں'۔
،تصویر کا ذریعہJAWAHAR LAL BHARGAV
،تصویر کا کیپشن
جواہر لال بھارگؤ نے ایک سال پاکستان کی قید میں گزارا
لیکن تب تک گاؤں والوں میں بھارگؤ کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو چکی تھی۔ بھارگؤ کا کہنا ہے کہ ’اُنھوں نے رینجرز سے کہا کہ ہم اُنھیں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ اُنھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ بڑے کا گوشت کھاتے ہیں یا چھوٹے کا؟‘
’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ چھوٹا اور بڑا کیا ہوتا ہے، جب اُنھوں نے سمجھایا تو میں نے کہا کہ میں بڑے کا گوشت نہیں کھاتا، پھر اُنھوں نے خاص طور پر میرے لیے چکن کا سالن اور چاول بنائے۔ جب کھانا پکایا جا رہا تھا تو اتنی پریشانی کے باوجود میں وہیں بستر پر سو گیا'۔
’رات گیارہ بجے کسی نے مجھے جگایا اور کہا کہ کھانا تیار ہے۔‘
مزید پڑھیے
1971 کی جنگ: زخمی انڈین پائلٹ جنھیں جان بچانے کے لیے تالاب میں چھپنا پڑا
جنرل اندرجیت سنگھ گل جنھوں نے 1971 کی جنگ کے دوران اندرا گاندھی، آرمی چیف سیم مانیکشا سے ٹکر لی
پاکستان اور انڈین کمانڈرز کے دوران جنگ ایک دوسرے کو خطوط اور چائے کا ذکر
بھارگؤ کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اونٹ پر بٹھایا گیا
کھانے کے بعد رینجرز نے بھارگؤ کو اونٹ پر بٹھا دیا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی اور ان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں۔ وہ قسمت کو کوس رہے تھے کہ وہ انڈیا کی سرحد سے صرف 15 کلومیٹر دور پاکستانی رینجرز کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔
تین اونٹوں کا قافلہ روانہ ہوا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ بھارگؤ درمیانے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے یہ اونٹ رینجر محب علی چلا رہے تھے۔ اگلے دن دوپہر 12 بجے اُنھوں نے اپنے اوپر طیاروں کی گرج سنی۔
جواہر لال بھارگؤ نے پورے قافلے کو خبردار کیا کہ وہ اونٹوں کو بٹھا دیں ورنہ انڈین طیارے اُنھیں اپنا نشانہ بنا دیں گے۔ رینجرز نے ان کی بات مان لی۔ لیکن پھر رینجرز کی ایک اور ٹیم وہاں پہنچ گئی۔ ان میں سے ایک نے بھارگؤ سے پوچھا کہ وہ فوجی وردی میں کیوں نہیں ہیں۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ ان کا فوجی سوٹ بھاری تھا اس لیے اُنھوں نے اسے اتار کر زمین میں گاڑ دیا۔
جواہر لال بھارگؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں 'رینجر نے کہا ’مار دے اے نو‘ میں نے گھبرا کر کہا کہ اگر وہ مجھے گولی مارنا چاہتے ہیں تو میری آنکھوں سے پٹی ہٹا دیں۔ آواز علی نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہDHIRENDRA JAFA
،تصویر کا کیپشن
اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ پی سی لال پالم ہوائی اڈے پر ہندوستانی جنگی قیدیوں کا استقبال کرتے ہوئے
پاکستانی افسر کی دریا دلی
پانچ دن مسلسل چلنے کے بعد فلائٹ لیفٹیننٹ بھارگؤ کو کراچی میں پاکستانی فضائیہ کے اڈے پر لے جایا گیا۔ راستے میں ان کی ملاقات پاکستانی فوج کے کیپٹن مرتضیٰ سے ہوئی۔
اُنھوں نے بھارگؤ کی آنکھوں پر سے پٹی اور ہتھکڑیاں کھول دیں اُنھوں نے اُنھیں پینے کے لیے ایک سگریٹ اور شیو کرنے کے لیے اپنی شیونگ کٹ دی۔ کیپٹن مرتضیٰ نے اُنھیں ایک بار بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ان کے دشمن ہیں اور بھارگؤ ان کے قیدی ہیں۔
آخر کار 12 دسمبر کو بھارگؤ کو ہوائی جہاز سے راولپنڈی کے جنگی قیدی کیمپ میں لے جایا گیا جہاں 12 انڈین پائلٹ تھے جو پہلے ہی جنگی قیدی بنائے گئے تھے۔
کرسمس کے دن کیمپ کمانڈر نے ان سب کے لیے کیک کا آرڈر دیا، جسے انڈیا کے سب سے سینئر افسر ونگ کمانڈر کوئلہو نے کاٹا۔
تب تک اُنھیں یہ خبر مل چکی تھی کہ پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکہ میں انڈین فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بھارگؤ اور ان کے ساتھی ایک سال تک پاکستانی جیل میں رہے۔
رکاوٹ کے بعد رہائی
تیس نومبر 1972 کو لائل پور جیل میں قید تمام انڈین جنگی قیدیوں سے کہا گیا کہ وہ پاکستانی فوج کی خاکی وردی پہنیں۔ اُنھیں خصوصی ٹرین کے ذریعے لاہور لے جایا گیا۔
یکم دسمبر کو اُنھیں بسوں میں واہگہ بارڈر لایا گیا۔ دوسری جانب پاکستانی جنگی قیدیوں کو انڈیا کی حدود میں لایا گیا۔ دونوں ممالک کے جنگی قیدی اپنے اپنے ملکوں کو واپس جا رہے تھے۔انڈین جنگی قیدیوں کو واہگہ بارڈر سے 100 میٹر پہلے ایک خیمے میں رکھا گیا تھا۔
سب سے پہلے سپاہیوں نے سرحد پار کی جس کے بعد فوجی افسروں کا نمبر آیا۔ آخر میں انڈین پائلٹس کی باری آئی مگر پھر رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے ایک پاکستانی افسر نے آ کر اعلان کیا کہ انڈین پائلٹوں کی روانگی روک دی گئی ہے۔
جواہر لال بھارگؤ کو وہ دن آج بھی یاد ہے۔’وہاں بینڈ بج رہے تھے، رقص ہو رہا تھا اور ہمیں کہا گیا کہ آپ واپس نہیں جائیں گے، ہم دل شکستہ تھے، لیکن اُنھوں نے ہمیں بتایا کہ اس معاملے میں براہ راست صدر بھٹو سے بات ہو رہی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ انڈیا نے مغربی سیکٹر میں پکڑے گئے تمام پاکستانی جنگی قیدیوں کو واپس کر دیا لیکن پاکستانی پائلٹس کو رہا نہیں کیا لیکن بھٹو نے انڈین پائلٹوں کو واپس انڈیا بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
’اگلے دن انڈین چیف آف آرمی اسٹاف، سیم مانیکشا خود اپنے طیارے میں پاکستانی پائلٹس کے ساتھ پاکستان پہنچے‘۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
انڈیا کے اس وقت کے آرمی چیف سیم مانیکشا
امرتسر اور دہلی میں شاندار استقبال
انڈین پائلٹس نے ساڑھے گیارہ بجے واہگہ کی سرحد پار کی۔ وہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ گیانی ذیل سنگھ نے گلے مل کر ان کا استقبال کیا۔
انڈین فوج کی کار اُنھیں انڈین فضائیہ کے امرتسر اڈے پر لے گئی۔
وہاں ان لوگوں نے ایک سال کے بعد اچھا گرم کھانا کھایا اور بیئر پی۔ اسی شام پانچ بجے امرتسر کے کمپنی باغ میں ان جنگی قیدیوں کو سول اعزاز سے نوازا گیا۔
اس کے بعد ان پائلٹس کو طیارے سے دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر لایا گیا جہاں ایئر چیف پی سی لال اور ان کے اہل خانہ نے ان کا استقبال کیا۔
گھر پہنچنے پر جب بھارگؤ کے چار سالہ بیٹے نے اُنھیں انکل کہہ کر مخاطب کیا تو وہ اپنے آنسو روک نہ سکے۔
ایک سال میں بچے کو اپنے والد کا چہرہ یاد نہیں رہا۔ بھارگؤ کو اب وہ کلمہ زبانی یاد ہے جس کی وجہ سے اُنھیں پاکستان میں گرفتار ہونا پڑا تھا، 'لا اِلٰہ اِلا اللہ محمد الرسول اللہ۔'
آخر کار 12 دسمبر کو بھارگؤ کو ہوائی جہاز سے راولپنڈی کے جنگی قیدی کیمپ میں لے جایا گیا جہاں 12 انڈین پائلٹ تھے جو پہلے ہی جنگی قیدی بنائے گئے تھے۔
At last on the 12th of December 'Juahar Lal Bhargave' transferred by air to Rawalpindi POW camp, where there were already 12 Indian POWs pilots were.
1971 Ú©Û Ø§ÙÚÛا پاکستا٠جÙÚ¯ ÙÛÚº اÙÚÛا Ú©Û ÙÙائٹ ÙÛÙÙ¹ÛÙÙÙ¹ جÙاÛر Ùا٠بھارگؤ Ø·ÛØ§Ø±Û ØªØ¨Ø§Û ÛÙÙÛ Ú©Û Ø¨Ø¹Ø¯ Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø¹ÙاÙÛ ÙÛÚº Ø§ØªØ±Û Ø§Ùر سرØد Ø³Û ØµØ±Ù 15 Ú©ÙÙ ÙÛٹر دÙر Ù¾Ú©ÚÛ Ú¯Ø¦ÛÛ
www.bbc.com