قومی اسمبلی: اراکین نے حلف اٹھا لیا
پیپلز پارٹی کے شریک چئر پرسن آصف زرداریپارلیمانی تاریخ کے سخت ترین حفاظتی انتظامات میں پاکستان کی نو منتخب قومی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھالیا ہے۔
اسمبلی کا پہلا اجلاس: تصاویر
سابقہ قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری امیر حسین نے انیس سو تہتر کے آئین کے تحت نو منتخب اراکین سے حلف لیا۔
حلف لینے سے پہلے پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے سپیکر سے یہ وضاحت مانگی کے اراکین 1973 کے آئین کے تحت ہی حلف اٹھا رہے ہیں۔ اس پر سپیکر چوھدری امیر حسین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلف انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق ہی ہے اور اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق کے رہنما بیان دیتے رہے ہیں کہ تین نومبر کو صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین معطل کرنے کے بعد جو احکامات جاری کیے ہیں وہ آئین کا حصہ ہیں اور صدر کے پی سی او والے آئین کے تحت حلف ہوگا۔ تاہم آج سپیکر کی وضاحت کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ صدر پرویز مشرف کے تین نومبر سن دو ہزار سات عبوری آئینی حکم کو ابھی پارلیمان سے منظوری حاصل کرنی ہوگی۔
تین سو بیالیس اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کے ایوان میں پیر کو تین سو چونتیس اراکین کو حلف کی دعوت دی گئی کیونکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ابھی انتخاب باقی ہے جبکہ پانچ حلقوں سے منتخب اراکین کے نتائج عدالتوں نے روکے ہوئے ہیں۔
ایوان میں اراکین کو حروف تہجی کے اعتبار سے نشستیں فراہم کی گئیں اور اُسی اعتبار سے تمام اراکین نے حلف برداری کے بعد رول آف میمبرز، پر دستخط کیے۔
اجلاس مقررہ وقت (یعنی گیارہ بجے سے پون گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو کنگ میکرز آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اکٹھے سپیکر گیلری میں پہنچے جس پر اراکین نے بھرپور انداز میں ڈیسک بجا کر ان کا خیر مقدم کیا۔
حلف اٹھانے کے بعد سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے بینظیر بھٹو کے لیے دعائے مغفرت کا مطالبہ کیا جس کی اجازت سپیکر نے دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست کی۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں نواز شریف
حلف اٹھانے کے بعد مسلم لیگ نواز کے رکن احسن اقبال نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ انیس سو ننانوے کو شب خون مارا گیا تھا اور دو بڑے جمہوری قائدین آج یہاں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کو سراہا جائے۔ اس پر سپیکر نے ان کی موجودگی کو سراہا۔
تین سو بیالیس اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کے ایوان میں پیر کو تین سو چونتیس اراکین کو حلف کی دعوت دی گئی کیونکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ابھی انتخاب باقی ہے جبکہ پانچ حلقوں سے منتخب اراکین کے نتائج عدالتوں نے روکے ہوئے ہیں۔
نو منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس اور فرنٹیئر کور کے دستے بھی تعینات کیے گئے۔ پارلیمان اور اس کے آس پاس کے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا گیا اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر پیپلز پارٹی کے بینرز
صحافیوں اور مہمانوں کے لیے سپریم کورٹ اور پارلیمان کے درمیان واقع پارکنگ میں نیا دروازہ بنا کر داخلہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ شاہراہ دستور عام ٹریفک کے لیے بند کیا گیا۔ پارلیمان کے صدر دروازے پر بینظیر بھٹو کی ایک بڑی تصویر نصب کی گئی جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر والے بینرز بھی آویزاں کیے گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ قاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس ہوئے۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، اعتزاز احسن، مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی کی رضا ربانی کے چیمبر میں مشاورت رہی۔ اطلاعات کے مطابق اس مشارورت میں مخدوم امین فہیم کو وزارت اعظمیٰ سے دستبردار ہونے کے لیے راضی کرنے کی کوششیں کی گئی۔
مخدوم امین فہیم قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک موقع پر ایوان سے اٹھ گئے اور انہوں نے حامد ناصر چٹھہ سے ملاقات کی۔
پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر قوم کی امنگوں کی ترجمان قومی اسمبلی اور امین فہیم مخدوم رہیں ، لغاری نہ بنیں کے عنوان سے بینر نظر آئے۔ اس سلسلے میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مخدوم کے بارے میں بینرز انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سازش ہوسکتی ہے جس کی وہ تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے محدوم کے بارے میں بینرز کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو قومی اسمبلی کے نئے سپیکر کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرائے جائیں گے اور بدھ کو نئے سپیکر کے انتخاب کےلیے ووٹنگ ہوگی۔
سپیکر کا انتخاب کیسے ہوگا؟
BBCUrdu.com