What's new

:

Neo

RETIRED

New Recruit

Joined
Nov 1, 2005
Messages
18
Reaction score
0
قومی اسمبلی: اراکین نے حلف اٹھا لیا



پیپلز پارٹی کے شریک چئر پرسن آصف زرداریپارلیمانی تاریخ کے سخت ترین حفاظتی انتظامات میں پاکستان کی نو منتخب قومی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھالیا ہے۔

اسمبلی کا پہلا اجلاس: تصاویر

سابقہ قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری امیر حسین نے انیس سو تہتر کے آئین کے تحت نو منتخب اراکین سے حلف لیا۔

حلف لینے سے پہلے پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے سپیکر سے یہ وضاحت مانگی کے اراکین 1973 کے آئین کے تحت ہی حلف اٹھا رہے ہیں۔ اس پر سپیکر چوھدری امیر حسین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلف انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق ہی ہے اور اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما بیان دیتے رہے ہیں کہ تین نومبر کو صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین معطل کرنے کے بعد جو احکامات جاری کیے ہیں وہ آئین کا حصہ ہیں اور صدر کے پی سی او والے آئین کے تحت حلف ہوگا۔ تاہم آج سپیکر کی وضاحت کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ صدر پرویز مشرف کے تین نومبر سن دو ہزار سات عبوری آئینی حکم کو ابھی پارلیمان سے منظوری حاصل کرنی ہوگی۔


تین سو بیالیس اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کے ایوان میں پیر کو تین سو چونتیس اراکین کو حلف کی دعوت دی گئی کیونکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ابھی انتخاب باقی ہے جبکہ پانچ حلقوں سے منتخب اراکین کے نتائج عدالتوں نے روکے ہوئے ہیں۔



ایوان میں اراکین کو حروف تہجی کے اعتبار سے نشستیں فراہم کی گئیں اور اُسی اعتبار سے تمام اراکین نے حلف برداری کے بعد ’رول آف میمبرز، پر دستخط کیے۔

اجلاس مقررہ وقت (یعنی گیارہ بجے) سے پون گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو ’کنگ میکرز‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اکٹھے سپیکر گیلری میں پہنچے جس پر اراکین نے بھرپور انداز میں ڈیسک بجا کر ان کا خیر مقدم کیا۔

حلف اٹھانے کے بعد سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے بینظیر بھٹو کے لیے دعائے مغفرت کا مطالبہ کیا جس کی اجازت سپیکر نے دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست کی۔


پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں نواز شریف

حلف اٹھانے کے بعد مسلم لیگ نواز کے رکن احسن اقبال نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ انیس سو ننانوے کو شب خون مارا گیا تھا اور دو بڑے جمہوری قائدین آج یہاں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کو سراہا جائے۔ اس پر سپیکر نے ان کی موجودگی کو سراہا۔

تین سو بیالیس اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کے ایوان میں پیر کو تین سو چونتیس اراکین کو حلف کی دعوت دی گئی کیونکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ابھی انتخاب باقی ہے جبکہ پانچ حلقوں سے منتخب اراکین کے نتائج عدالتوں نے روکے ہوئے ہیں۔

نو منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس اور فرنٹیئر کور کے دستے بھی تعینات کیے گئے۔ پارلیمان اور اس کے آس پاس کے علاقے کو ’ریڈ زون‘ قرار دیا گیا اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔


پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر پیپلز پارٹی کے بینرز

صحافیوں اور مہمانوں کے لیے سپریم کورٹ اور پارلیمان کے درمیان واقع پارکنگ میں نیا دروازہ بنا کر داخلہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ شاہراہ دستور عام ٹریفک کے لیے بند کیا گیا۔ پارلیمان کے صدر دروازے پر بینظیر بھٹو کی ایک بڑی تصویر نصب کی گئی جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر والے بینرز بھی آویزاں کیے گئے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ قاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس ہوئے۔

دوسری طرف قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، اعتزاز احسن، مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی کی رضا ربانی کے چیمبر میں مشاورت رہی۔ اطلاعات کے مطابق اس مشارورت میں مخدوم امین فہیم کو وزارت اعظمیٰ سے دستبردار ہونے کے لیے راضی کرنے کی کوششیں کی گئی۔

مخدوم امین فہیم قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک موقع پر ایوان سے اٹھ گئے اور انہوں نے حامد ناصر چٹھہ سے ملاقات کی۔

پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر ’قوم کی امنگوں کی ترجمان قومی اسمبلی‘ اور ’امین فہیم مخدوم رہیں ، لغاری نہ بنیں‘ کے عنوان سے بینر نظر آئے۔ اس سلسلے میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مخدوم کے بارے میں بینرز انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سازش ہوسکتی ہے جس کی وہ تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے محدوم کے بارے میں بینرز کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ منگل کو قومی اسمبلی کے نئے سپیکر کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرائے جائیں گے اور بدھ کو نئے سپیکر کے انتخاب کےلیے ووٹنگ ہوگی۔

سپیکر کا انتخاب کیسے ہوگا؟

BBCUrdu.com
 
.
حلف، جھوٹا یا سچا؟


سترہ فروری کو دو سو اٹھائیس اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا
آج نئی قومی اسمبلی کے تین سو بیالیس میں سے تین سو اٹھائیس ارکان نے اپنے عہدے کا آیینی حلف اٹھایا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی مختلف شقوں اور حلف ناموں کو اگر ملا کر پڑھا جائے یا موازنہ کیا جائے تو کئی مقامات پر دلچسپ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

مثلاً: ۔قانون، امن ِ عامہ اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ہر شہری کو عقیدے، عمل اور تبلیغ کا حق ہے ( آرٹیکل بیس )۔
۔آئین کے تحت تمام شہری بلا امتیازِ جنس قانون کی نظر میں برابر ہیں اور یکساں قانونی تحفظ انکا حق ہے ( آرٹیکل پچیس)۔
۔کسی بھی اہل شہری کو جو پاکستان کی ملازمت کا خواہش مند ہے اس سے نسل، مذہب، زات، جنس، رھائش اور جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا( آرٹیکل ستائیس)۔
۔قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شراکت کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں گے ( آرٹیکل چونتیس)
۔اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات جس میں وفاقی اور صوبائی محکموں میں انکی نمائندگی بھی شامل ہے کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ( آرٹیکل چھتیس)۔
لیکن اسی آئین کے مطابق
۔چونکہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے لہذا سربراہ مملکت کا مسلمان اور وہ بھی مرد ہونا ضروری ہے ( آئین میں انگریزی کا لفظ ’ہی‘ استعمال ہوا ہے)۔

جبکہ وزیرِ اعظم بھی کوئی ایسی شخصیت ہی بن سکتی ہے جو آئین میں دیے گئے حلف کے مطابق اللہ تعالی کی یکتائی، قران کو آخری کتاب، رسول اللہ کو نبی آخرالزماں تسلیم کرے۔اس کا یومِ آخرت اور قران و سنت پر مکمل ایمان ہو۔گویا عورت صدر نہیں بن سکتی جبکہ غیر مسلم پاکستانی نہ صدر بن سکتا ہے اور نہ ہی وزیرِ اعظم۔

تو کیا ایک غیر مسلم پاکستانی جسے آئین کے تحت مساوی مذہبی، قانونی، سیاسی حقوق حاصل ہیں دیگر اعلی عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے۔

آئینِ پاکستان کے تیسرے شیڈول میں گورنر، وزیرِ اعلی، وزرا، ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی کے لیے جو حلف نامہ دیا گیا ہے وہ بسم اللہ الرحمان الرحیم سے شروع ہوتا ہے اور اس میں پاکستان کے ساتھ وفاداری کی قسم کھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دہرانا پڑتا ہے کہ میں اسلامی نظریہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔

اور حلف کی آخری لائن ہے کہ اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔آمین۔

حلف اٹھائے بغیر کوئی بھی اپنی ذمہ داری باضابطہ طور پر نہیں سنبھال سکتا۔اور حلف اٹھانے والا اپنے عقیدے کے مطابق حلف کے مسودے میں ترمیم کرنے کا بھی مجاز نہیں ہے۔اس کے علاوہ حلفِ صدقِ دل سے اٹھایا جاتا ہے ورنہ حلف اٹھانے والا اپنے منصب کے لیے پہلے سیکنڈ سے ہی نا اہل ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کے دس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے تیئس نامزد ارکان جب رکنِ اسمبلی کے طور پر بسم اللہ الرحمان الرحیم کہتے ہوئے یہ پڑھتے ہیں کہ میں صدقِ دل سے عہد کرتا ہوں کہ اسلامی نظریہ برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ تو پھر آئین کی اس شق کا کیا جائے جو غیر مسلم پاکستانیوں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنا مخصوص عقیدہ رکھنے اور اس پر کاربند رہنے کی ضمانت دیتی ہے۔

گویا آئین کی مختلف شقوں کو دیکھیں تو ایک غیر مسلم پاکستانی صدر اور وزیرِ اعظم کے سوا کسی بھی عہدے پر رہ سکتا ہے لیکن حلف نامے کو دیکھیں تو وہ اس وقت تک کچھ نہیں بن سکتا ہے جب تک وہ بھگوت گیتا ، انجیل یا گرنتھ صاحب وغیرہ پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی حقانیت اور اسلامی نظریے پر پورا یقین نہ رکھتا ہو۔کیا یہ آئینی نقص ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے ؟
BBCUrdu.com
 
.

Country Latest Posts

Back
Top Bottom