Tair-Lahoti
FULL MEMBER
- Joined
- Dec 28, 2019
- Messages
- 255
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
Sorry to post this Urdu content. I don't know whether it is allowed or not. I am sharing article by Famous religious scholar Allama Hisham Ilahi zaheer.
ان سائلوں کے لئے جنہوں نے اخلاص سے پوچھا جبکہ میں نا مانو والوں کے لئے اجماع امت کی بھی اہمیت نہیں
نئے کفریہ معابد کی تعمیر کے شریعت میں چھ ہی احکامات ہیں
1) أجمع الفقهاء على تحريم إحداث معابد للكفار في البلاد التي أسلَم أهلها عليها قبل الفتح الإسلامي؛ كالمدينة واليمن، أو التي أحدَثها المسلمون؛ كالبصرة، وبغداد، أو في بلاد شبه الجزيرة العربية، ولا يجوز مصالحةُ أهل الذِّمة على إحداث معبدٍ لهم في هذه البلاد، ويجب هدم كلِّ معبدٍ مُحْدَثٍ فيها.
مدینہ ویمن جیسے علاقے جن کے سب باشندے جہاد سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، یا بصرہ وبغداد جیسے علاقے جنہیں مسلمانوں نے ہی آغاز سے آباد کیا اورجزیرہ عرب کے تمام علاقوں میں کفار کے نئے معابد تعمیر کرنے کی حرمت پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہاں ذمیوں سے کسی نئے معبد کی تعمیر پر کوئی معاہدہ کرنا جائز نہیں اور ہر نئے تعمیرشدہ معبد کو ڈھادینا واجب ہے۔
٢) لا يجوز إحداث معابد للكفار في البلاد التي فتحها المسلمون عُنْوَة، أو صلحًا مطلقًا، أو صلحًا على أن تكون للمسلمين، على الراجح من أقوال الفقهاء.
فقہا ے کرام کے راجح قول کے مطابق جن علاقوں کو مسلمانوں نے طاقت ،غیر مشروط صلح یا اس وضاحت کے ساتھ فتح کیا ہو کہ وہ معابد مسلمانوں کی ملکیت ہوں گے، تو وہاں بھی کفار کی نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنا ناجائز ہے۔
٣) لا يُمنع أهلُّ الذمة من إحداث معابد لهم في البلاد التي فتحها المسلمون صلحًا على أن تكون أرضُها لأهل الذمة بخَراجٍ يُؤدُّونه للمسلمين؛ في أصحّ قولي الفقهاء.
فقہا کے راجح قول کے مطابق کفار کو ایسے علاقوں میں نئے معابد بنانے سے منع نہیں کیا جائے گا جن کو مسلمانوں نے اس مشروط صلح کے ساتھ فتح کیا ہو کہ زمین اہل ذمہ کی ہوگی اور وہ مسلمانوں کو اس کا خراج ادا کریں گے۔
٤) إن المملكة العربية السعودية لها موقف واضح وجَليٌّ وهو المنع من إقامة معابد للكفار على أرضها، وهذا هُو الشرع الذي أمر به الله ورسوله.
حکومتِ سعودی عرب کا دوٹوک اور کھلا موقف یہ ہے کہ اس کی سرزمین پر کفریہ معابد قائم نہیں ہوسکتے، اور یہی وہ شریعت ہے جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے۔
٥) لا يجوز نقلُ المعبد من مكانه الذي أقرَّ فيه إلى مكان يمنع فيه من إحداث المعابد.
’’کفار کی کسی جائز سرزمین میں عباد ت گاہ ایسے مقام پر منتقل نہیں کی جاسکتی جہاں ان کی نئی عبادت گاہ بنانا ناجائز ہو۔
٦) لا يجوزُ لطائفة من أهل الذمة في بلاد المسلمين تحويلُ معبدهم لملة أخرى، إلا في أرضٍ صُولِح الكفار على أن تكون لهم.
’’اہل ذمہ کو مسلمانوں کے علاقوں میں کسی اور مذہب کو اپنی عبادت گاہ منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، سوائے ایسی سرزمین کے جہاں کفار سے اس شرط پر صلح کی گئی ہو۔‘‘
جبکہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پہلے نکتے کے تحت آتی جو صریحا حرام ہے
دار الحکومت اسلام میں مندر بنانے کا نیازی حکومت کا اقدام سراسر شریعت مطہرہ کے خلاف ہے، مسلمانوں کے علاقے میں کفار کو اپنے معبد بنانے یا اس کی تعمیر وتجدید کی اجازت دینا بالاجماع حرام ہے۔ کجا یہ کہ مسلم حکومت اس کی تعمیر کا بھی فنڈ مہیا کرے۔
مسلم حکومت کا پہلا فریضہ توحید کا فروغ اور منکرات کا خاتمہ ہے۔ اور مسلم حکمران کا یوں کرنا اپنے فرائض سے کھلا انحراف ہے۔ جیسا کہ نبی کریم نے اپنے حاکم سیدنا معاذ کو توحید کے فروغ سے دعوت کا آغاز کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور اللہ خود قرآن میں فرماتے ہیں
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّاهُم فِي الأَرضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الأُمورِ﴾
[الحج: ٤١]
اگرچہ یہ بات پاکستانی قانون میں موجود نہیں، تاہم پاکستانی دستور ہر کسی کو خلاف شریعت اقدامات کی ممانعت کا حکم دیتا ہے، جس پر شرعی عدالت میں کیس دائر کرنا چاہیے۔
حکومت کا یہ اقدام دستور میں مذکور قیام اور حکومت پاکستان کے مقاصد سے متصادم ہے۔
امام محمد بن حسن شیبانی اپنی مشہور کتاب السير الكبير میں لکھتے ہیں:
"وتمكينهم من إحداث ذلك أي: الكنائس في موضع صار مُعدًّا لإقامة أعلام الإسلام فيه، كتمكين المسلم من الثَّبات على الشِّرك بعد الرِّدَّة، وذلك لا يجوز بحال."
’’ذمیوں؍ کفار کو ایسی جگہ نیا کنیسہ بنانے کی اجازت دینا جہاں اسلامی شعائر کی اقامت ممکن ہوچکی ہو، ایسے ہی ہے جیسا کہ مسلمان کو ارتداد کے بعد شرک پر برقرار رہنے کی اجازت دی جائے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا کسی طور جائز نہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَا بَنَاهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ الْمَدَائِنِ لَمْ يَكُنْ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُحَدِّثُوا فِيهَا كَنِيسَةً. (مجموع فتاوي: 28 /634)
علامہ ابن قیم (٧٥١ھ) فرماتے ہیں :یُمْنَعُ أَہْلُ الذِّمَّةِ مِنْ ابْتِدَاء إحْدَاثِ کَنِیسَةٍ فِي دَارِ الِْإسْلَامِ (اعلام المؤقعین : 246/2)
سعودی دائمی فتویٰ کونسل اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء کا فتوی یہ ہے:"أجمع العلماء على تحريم بناء المعابد الكُفريَّة، مثل: الكنائس في بلاد المسلمين، وأنه لا يجوز اجتماع قِبلتين في بلدٍ واحد من بلاد الإسلام، وألاَّ يكون فيها شيء من شعائر الكفار: لا كنائس ولا غيرها، وأجمعوا على وجوب هدْم الكنائس وغيرها من المعابد الكُفريَّة إذا أُحْدِثت في الإسلام (فتاوى اللجنة الدائمة، فتوى رقْم [21413])
نئے کفریہ معابد بنانے کی حرمت پر یہی اجماعی موقف تمام فقہاے کرام بشمول حنفیہ کا بھی ہے۔
قاضی ابن عابدین ردّ المحتار میں لکھتے ہیں :
"لا يجوز إحداث كنيسة في القرى، ومَن أفتَى بالجواز، فهو مُخطئ، ويُحْجَر عليه".
’’کسی بستی میں کوئی نیا کنیسہ بنانا ناجائز ہے۔ جو جواز کا فتوی دے، وہ خطا کار ہے، اس کو روکا جائے گا۔ ‘‘
رد المحتار على الدُّر المختار؛ لابن عابدين [16/192]
مزید۔دیکھیں:لَا یَجُوزُ أَنْ یُحْدِثَ بِیعَةً، وَلَا کَنِیسَةً وَلَا صَوْمَعَةً، وَلَا بَیْتَ نَارٍ، وَلَا مَقْبَرَةً وَلَا صَنَمًا حَاوِیّ فِی دَارِ الِْسْلَامِ وَلَوْ قَرْیَةً . ''جائز نہیں ہے کہ کوئی کلیسا یا کنیسہ یا راہب کے رہنے کی جگہ یا آتش کدہ یا مقبرہ بنایا جائے، نہ ہی دارالاسلام میں کوئی بت باقی رکھا جائے گا، اگرچہ وہ بستی ہی کیوں نہ ہو۔'' (کنز الدّقائق، ص 385)
حنفی فتاوی عالمگیری میں ہے:
{ فصل } إن أراد أهل الذمة إحداث البيع والكنائس، أو المجوسي إحداث بيت النار إن أرادوا "ذلك في أمصار المسلمين، وفيما كان من فناء المصر منعوا عن ذلك عند الكل، ولو أرادوا إحداث ذلك في السواد والقرى اختلفت الروايات فيه"انتهى، وقوله "منعوا ذلك عند الكل" أي عند كل أصحاب المذهب، فلا يجوز عندهم بناء الكنائس في الأمصار الإسلامية، والمصر هو والمصر اصطلاحا : بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ورساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم والناس يرجعون إليه في الحوادث. (الفتاوى الهندية (17/21)
ولولا دفع اللہ الناس بعضهم ببعض لہدمت صوامع و بیع والی مشہور آیت اپنے اس ظاہری مفہوم پر نہیں جسکو بعض نے مشہور کیا اور حدیث نبوی لا تکون قبلتان فی بلد واحد اس مسئلہ میں نص صریح ہے۔
اس ایت کی درج ذیل پانچ توجیہات ہیں:
1. یہ آیت صرف انہدام معابد کی حرمت تک محدود ہے، اس سے معابد کفریہ کی تعمیر وتجدید اور تزئین و توسیع پر استدلال درست نہیں جو بلاد اسلامیہ میں بالاجماع حرام ہے
2. اس آیت میں انہدام معابد کفریہ کی تین صورتوں میں سے ایک بیان ہوئی ہے جب بوقت معاہدہ ان کا انہدام حرام ہے اور باقی دو صورتوں میں جائز ہے۔
3. انہدام معابد کی حرمت صرف الہامی (منسوخ اسلامی مذاہبِ) کو حاصل ہے۔ انہی کا آیت میں تذکرہ ہے، مندر اور گورد وارے کو نہیں۔
4. یہ حرمت اپنے اپنے دور میں ان معابد کی تھی جب وہ الہامی مذاہبِ "اسلام" کہلاتے تھے۔
5. اس میں مقصد جہاد بیان ہوا ہے کہ جہاد الہامی عبادتگاہوں کی حرمت کا امین ہے۔
Allama Hasham Ilahi Zaheer
ان سائلوں کے لئے جنہوں نے اخلاص سے پوچھا جبکہ میں نا مانو والوں کے لئے اجماع امت کی بھی اہمیت نہیں
نئے کفریہ معابد کی تعمیر کے شریعت میں چھ ہی احکامات ہیں
1) أجمع الفقهاء على تحريم إحداث معابد للكفار في البلاد التي أسلَم أهلها عليها قبل الفتح الإسلامي؛ كالمدينة واليمن، أو التي أحدَثها المسلمون؛ كالبصرة، وبغداد، أو في بلاد شبه الجزيرة العربية، ولا يجوز مصالحةُ أهل الذِّمة على إحداث معبدٍ لهم في هذه البلاد، ويجب هدم كلِّ معبدٍ مُحْدَثٍ فيها.
مدینہ ویمن جیسے علاقے جن کے سب باشندے جہاد سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، یا بصرہ وبغداد جیسے علاقے جنہیں مسلمانوں نے ہی آغاز سے آباد کیا اورجزیرہ عرب کے تمام علاقوں میں کفار کے نئے معابد تعمیر کرنے کی حرمت پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہاں ذمیوں سے کسی نئے معبد کی تعمیر پر کوئی معاہدہ کرنا جائز نہیں اور ہر نئے تعمیرشدہ معبد کو ڈھادینا واجب ہے۔
٢) لا يجوز إحداث معابد للكفار في البلاد التي فتحها المسلمون عُنْوَة، أو صلحًا مطلقًا، أو صلحًا على أن تكون للمسلمين، على الراجح من أقوال الفقهاء.
فقہا ے کرام کے راجح قول کے مطابق جن علاقوں کو مسلمانوں نے طاقت ،غیر مشروط صلح یا اس وضاحت کے ساتھ فتح کیا ہو کہ وہ معابد مسلمانوں کی ملکیت ہوں گے، تو وہاں بھی کفار کی نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنا ناجائز ہے۔
٣) لا يُمنع أهلُّ الذمة من إحداث معابد لهم في البلاد التي فتحها المسلمون صلحًا على أن تكون أرضُها لأهل الذمة بخَراجٍ يُؤدُّونه للمسلمين؛ في أصحّ قولي الفقهاء.
فقہا کے راجح قول کے مطابق کفار کو ایسے علاقوں میں نئے معابد بنانے سے منع نہیں کیا جائے گا جن کو مسلمانوں نے اس مشروط صلح کے ساتھ فتح کیا ہو کہ زمین اہل ذمہ کی ہوگی اور وہ مسلمانوں کو اس کا خراج ادا کریں گے۔
٤) إن المملكة العربية السعودية لها موقف واضح وجَليٌّ وهو المنع من إقامة معابد للكفار على أرضها، وهذا هُو الشرع الذي أمر به الله ورسوله.
حکومتِ سعودی عرب کا دوٹوک اور کھلا موقف یہ ہے کہ اس کی سرزمین پر کفریہ معابد قائم نہیں ہوسکتے، اور یہی وہ شریعت ہے جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے۔
٥) لا يجوز نقلُ المعبد من مكانه الذي أقرَّ فيه إلى مكان يمنع فيه من إحداث المعابد.
’’کفار کی کسی جائز سرزمین میں عباد ت گاہ ایسے مقام پر منتقل نہیں کی جاسکتی جہاں ان کی نئی عبادت گاہ بنانا ناجائز ہو۔
٦) لا يجوزُ لطائفة من أهل الذمة في بلاد المسلمين تحويلُ معبدهم لملة أخرى، إلا في أرضٍ صُولِح الكفار على أن تكون لهم.
’’اہل ذمہ کو مسلمانوں کے علاقوں میں کسی اور مذہب کو اپنی عبادت گاہ منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، سوائے ایسی سرزمین کے جہاں کفار سے اس شرط پر صلح کی گئی ہو۔‘‘
جبکہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پہلے نکتے کے تحت آتی جو صریحا حرام ہے
دار الحکومت اسلام میں مندر بنانے کا نیازی حکومت کا اقدام سراسر شریعت مطہرہ کے خلاف ہے، مسلمانوں کے علاقے میں کفار کو اپنے معبد بنانے یا اس کی تعمیر وتجدید کی اجازت دینا بالاجماع حرام ہے۔ کجا یہ کہ مسلم حکومت اس کی تعمیر کا بھی فنڈ مہیا کرے۔
مسلم حکومت کا پہلا فریضہ توحید کا فروغ اور منکرات کا خاتمہ ہے۔ اور مسلم حکمران کا یوں کرنا اپنے فرائض سے کھلا انحراف ہے۔ جیسا کہ نبی کریم نے اپنے حاکم سیدنا معاذ کو توحید کے فروغ سے دعوت کا آغاز کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور اللہ خود قرآن میں فرماتے ہیں
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّاهُم فِي الأَرضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الأُمورِ﴾
[الحج: ٤١]
اگرچہ یہ بات پاکستانی قانون میں موجود نہیں، تاہم پاکستانی دستور ہر کسی کو خلاف شریعت اقدامات کی ممانعت کا حکم دیتا ہے، جس پر شرعی عدالت میں کیس دائر کرنا چاہیے۔
حکومت کا یہ اقدام دستور میں مذکور قیام اور حکومت پاکستان کے مقاصد سے متصادم ہے۔
امام محمد بن حسن شیبانی اپنی مشہور کتاب السير الكبير میں لکھتے ہیں:
"وتمكينهم من إحداث ذلك أي: الكنائس في موضع صار مُعدًّا لإقامة أعلام الإسلام فيه، كتمكين المسلم من الثَّبات على الشِّرك بعد الرِّدَّة، وذلك لا يجوز بحال."
’’ذمیوں؍ کفار کو ایسی جگہ نیا کنیسہ بنانے کی اجازت دینا جہاں اسلامی شعائر کی اقامت ممکن ہوچکی ہو، ایسے ہی ہے جیسا کہ مسلمان کو ارتداد کے بعد شرک پر برقرار رہنے کی اجازت دی جائے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا کسی طور جائز نہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَا بَنَاهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ الْمَدَائِنِ لَمْ يَكُنْ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُحَدِّثُوا فِيهَا كَنِيسَةً. (مجموع فتاوي: 28 /634)
علامہ ابن قیم (٧٥١ھ) فرماتے ہیں :یُمْنَعُ أَہْلُ الذِّمَّةِ مِنْ ابْتِدَاء إحْدَاثِ کَنِیسَةٍ فِي دَارِ الِْإسْلَامِ (اعلام المؤقعین : 246/2)
سعودی دائمی فتویٰ کونسل اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء کا فتوی یہ ہے:"أجمع العلماء على تحريم بناء المعابد الكُفريَّة، مثل: الكنائس في بلاد المسلمين، وأنه لا يجوز اجتماع قِبلتين في بلدٍ واحد من بلاد الإسلام، وألاَّ يكون فيها شيء من شعائر الكفار: لا كنائس ولا غيرها، وأجمعوا على وجوب هدْم الكنائس وغيرها من المعابد الكُفريَّة إذا أُحْدِثت في الإسلام (فتاوى اللجنة الدائمة، فتوى رقْم [21413])
نئے کفریہ معابد بنانے کی حرمت پر یہی اجماعی موقف تمام فقہاے کرام بشمول حنفیہ کا بھی ہے۔
قاضی ابن عابدین ردّ المحتار میں لکھتے ہیں :
"لا يجوز إحداث كنيسة في القرى، ومَن أفتَى بالجواز، فهو مُخطئ، ويُحْجَر عليه".
’’کسی بستی میں کوئی نیا کنیسہ بنانا ناجائز ہے۔ جو جواز کا فتوی دے، وہ خطا کار ہے، اس کو روکا جائے گا۔ ‘‘
رد المحتار على الدُّر المختار؛ لابن عابدين [16/192]
مزید۔دیکھیں:لَا یَجُوزُ أَنْ یُحْدِثَ بِیعَةً، وَلَا کَنِیسَةً وَلَا صَوْمَعَةً، وَلَا بَیْتَ نَارٍ، وَلَا مَقْبَرَةً وَلَا صَنَمًا حَاوِیّ فِی دَارِ الِْسْلَامِ وَلَوْ قَرْیَةً . ''جائز نہیں ہے کہ کوئی کلیسا یا کنیسہ یا راہب کے رہنے کی جگہ یا آتش کدہ یا مقبرہ بنایا جائے، نہ ہی دارالاسلام میں کوئی بت باقی رکھا جائے گا، اگرچہ وہ بستی ہی کیوں نہ ہو۔'' (کنز الدّقائق، ص 385)
حنفی فتاوی عالمگیری میں ہے:
{ فصل } إن أراد أهل الذمة إحداث البيع والكنائس، أو المجوسي إحداث بيت النار إن أرادوا "ذلك في أمصار المسلمين، وفيما كان من فناء المصر منعوا عن ذلك عند الكل، ولو أرادوا إحداث ذلك في السواد والقرى اختلفت الروايات فيه"انتهى، وقوله "منعوا ذلك عند الكل" أي عند كل أصحاب المذهب، فلا يجوز عندهم بناء الكنائس في الأمصار الإسلامية، والمصر هو والمصر اصطلاحا : بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ورساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم والناس يرجعون إليه في الحوادث. (الفتاوى الهندية (17/21)
ولولا دفع اللہ الناس بعضهم ببعض لہدمت صوامع و بیع والی مشہور آیت اپنے اس ظاہری مفہوم پر نہیں جسکو بعض نے مشہور کیا اور حدیث نبوی لا تکون قبلتان فی بلد واحد اس مسئلہ میں نص صریح ہے۔
اس ایت کی درج ذیل پانچ توجیہات ہیں:
1. یہ آیت صرف انہدام معابد کی حرمت تک محدود ہے، اس سے معابد کفریہ کی تعمیر وتجدید اور تزئین و توسیع پر استدلال درست نہیں جو بلاد اسلامیہ میں بالاجماع حرام ہے
2. اس آیت میں انہدام معابد کفریہ کی تین صورتوں میں سے ایک بیان ہوئی ہے جب بوقت معاہدہ ان کا انہدام حرام ہے اور باقی دو صورتوں میں جائز ہے۔
3. انہدام معابد کی حرمت صرف الہامی (منسوخ اسلامی مذاہبِ) کو حاصل ہے۔ انہی کا آیت میں تذکرہ ہے، مندر اور گورد وارے کو نہیں۔
4. یہ حرمت اپنے اپنے دور میں ان معابد کی تھی جب وہ الہامی مذاہبِ "اسلام" کہلاتے تھے۔
5. اس میں مقصد جہاد بیان ہوا ہے کہ جہاد الہامی عبادتگاہوں کی حرمت کا امین ہے۔
Allama Hasham Ilahi Zaheer