Malik Arshad Mahmood
FULL MEMBER
New Recruit
- Joined
- Jan 27, 2014
- Messages
- 29
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
پحیثیت پاکستانی قوم کے موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے یر کوئی پاکستان سے محبت کا دعویدار ہےیر کوئی اپنے آپ کو سب سے ذیادہ محبِ وطن ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اور یہ مقابلہ ذیادہ تر ملک کے سیاست دانوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آج کل سب کی ایک ہی رٹ ہے کہ وہ ذیادہ محبِ وطن ہیں انہیں پاکستان کا بہت درد ہے ۔ وہ پاکستان کی عوام کا درد اپنے دل میں اتنا محسوس کرتے ہیں
کہ ان کی راتوں کی نیند تک غائب ہو گئی ہے ۔ کسئی مینارِ پاکستان کے سائے میں کیمپ لگا کرپنکھا ہاتھ میں لیئےثابت کر رہا ہے کوئی خود گاڑی چلا کر عوام میں اکیلا نکل کر کوئی ہسپتال مین اپنے سرھانے پرچم رکھ کر کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح اس دوڑ میں شامل ہے۔ اب ذرا موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں اب تک ہزاروں پاکستانی دہشت گردی کی نظر ہو چکےہیں روز لاشیں اُٹھائی جاتی ہیں، ظلم اپنے عروج پر ہے ، قانون نام کی چیز نہیں غریب پس رہا ہے ، نہ عوام کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں پاکستان کے اثاثوں کو کوڑیوں کے بھائو بیچا جا رہا ہے ۔انصاف میسر نہیں کوئی ادارہ سوائے ایک کے کسی میں ڈسپلن نام کی چیز نہین یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا یہ محبت ہے پاکستان سے ؟ پاکستان کی قوم سے؟
ایسے تو شائد وہ بھی نہ کریں جن کو نفرت ہو۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ محبت کے دعوے کیوں یہ اتنی تگ و دو کیوں ؟
تو جو جواب واضح نظر آتا ہے وہ ہے ہوس حکمرانی کی۔ نہ تو پاکستان سے کسی کو غرض ہے نہ پاکستان کے عوام سے اور شرمندگی کی بات یہ کہ اس ساری بھاگ دوڑ مین اگر کوئی سیاست دان مارا جائے تو وہ شہید کہلاتا ہے اور عوام مے سے کوئی مارا جائے تو وہ ان سیاست دانوں کے لیے قربانی بن جاتی ہے اور یہ اگلے کئی سال اس پرراگ الاپتے ہیں کہ ہم نے بہت قربانیاں دیں پاکستان کے لیے جمہوریت کے لیے وغیرہ وغیرہ
کیا محبت دکھائی جاتی ہے نہن یہ تو خوشبو کی طرح ہے جو خود بخود محسوس کر لی جاتی ہے آجکل اخباروں میں آتا ہے کہ فلان سیاست دان اتنے نمبر پر پہنچ گیا فلاں اتنا طاقت ور ہو گیا فلاں کی اتنی جائداد ہو گئی تو کیا ان محبت کے دعویداروں نے یہ کبھی سوچا کہ پاکستان کس نمبر پر ہے پاکستان کس طرف جا رہا ہے پاکستان کے عوام کی کیا حالت ہے
نہیں
کیونکہ ان کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی محبت ڈھونگ اور ڈرامہ ہے یہ اگر کسی غریب سے ہاتھ ملا لیں تو فورآ جا کر ہاتھ کو رگڑ رگڑ کر دھوتے ہیں کسی سے گلے مل لیں تو وہ کپڑا دوبارہ نہیں پہنتے ان کو صرف اپنے آپ کو اوپر دیکھنے کی خواہش ہے اور موجودہ دور میں دیکھیں تو ایک چیز آپ کو واضح نظر آئے گی جس طرح علمامذہبی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں اسی طرح سیاست دان کائی سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کر رہا ہے کوئی پنچاپ کائی سرحد اور کوئی بلوچستان
اوپر میں نے ذکر کیا کہ پاکستان کی عوام کے ہزاروں لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو ہمارا نام نہاد میڈیا ہمیں بتاتا ہے اگر کسی سیاست دان کا کتا بھی مر جائے تو 3 دن کے سوگ کا اعلان ہو جاتا ہے میڈیا شور مچا دیتا ہے
آج تاک ہمارے پاکستای فوج کے کتنے لوگ شہید ہوئے کیا میڈیا نے کبھی کسی کا ذکر کیاکیوں کرے وہ کوئی محبِِ وطن ہیں وہ تو اس کی تنخواہ لیتے ہیں ان کی کوئی اولاد ہے ان کا کوئی خاندان ہے نہیں ان کا کام تو ملک کی حفاظت کرنا ہے وہ چپکے سے اپنی جان دے دیتے ہیں
اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کے کون گیا۔ کس بہن کا بھائی کس ماں کا بیٹا کس باپ کا لختجِگرقربان ہو گیا نہ کوئی نمائش ہوتی ہے نہ کوئی دکھاوا
تو پھر محبِ وطن کون ہوا کیا یہ سیاست دان یہ یہ پاک فوج کے یا ان سیکورٹی اداروں کے اہلکار؟
کہ ان کی راتوں کی نیند تک غائب ہو گئی ہے ۔ کسئی مینارِ پاکستان کے سائے میں کیمپ لگا کرپنکھا ہاتھ میں لیئےثابت کر رہا ہے کوئی خود گاڑی چلا کر عوام میں اکیلا نکل کر کوئی ہسپتال مین اپنے سرھانے پرچم رکھ کر کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح اس دوڑ میں شامل ہے۔ اب ذرا موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں اب تک ہزاروں پاکستانی دہشت گردی کی نظر ہو چکےہیں روز لاشیں اُٹھائی جاتی ہیں، ظلم اپنے عروج پر ہے ، قانون نام کی چیز نہیں غریب پس رہا ہے ، نہ عوام کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں پاکستان کے اثاثوں کو کوڑیوں کے بھائو بیچا جا رہا ہے ۔انصاف میسر نہیں کوئی ادارہ سوائے ایک کے کسی میں ڈسپلن نام کی چیز نہین یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا یہ محبت ہے پاکستان سے ؟ پاکستان کی قوم سے؟
ایسے تو شائد وہ بھی نہ کریں جن کو نفرت ہو۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ محبت کے دعوے کیوں یہ اتنی تگ و دو کیوں ؟
تو جو جواب واضح نظر آتا ہے وہ ہے ہوس حکمرانی کی۔ نہ تو پاکستان سے کسی کو غرض ہے نہ پاکستان کے عوام سے اور شرمندگی کی بات یہ کہ اس ساری بھاگ دوڑ مین اگر کوئی سیاست دان مارا جائے تو وہ شہید کہلاتا ہے اور عوام مے سے کوئی مارا جائے تو وہ ان سیاست دانوں کے لیے قربانی بن جاتی ہے اور یہ اگلے کئی سال اس پرراگ الاپتے ہیں کہ ہم نے بہت قربانیاں دیں پاکستان کے لیے جمہوریت کے لیے وغیرہ وغیرہ
کیا محبت دکھائی جاتی ہے نہن یہ تو خوشبو کی طرح ہے جو خود بخود محسوس کر لی جاتی ہے آجکل اخباروں میں آتا ہے کہ فلان سیاست دان اتنے نمبر پر پہنچ گیا فلاں اتنا طاقت ور ہو گیا فلاں کی اتنی جائداد ہو گئی تو کیا ان محبت کے دعویداروں نے یہ کبھی سوچا کہ پاکستان کس نمبر پر ہے پاکستان کس طرف جا رہا ہے پاکستان کے عوام کی کیا حالت ہے
نہیں
کیونکہ ان کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی محبت ڈھونگ اور ڈرامہ ہے یہ اگر کسی غریب سے ہاتھ ملا لیں تو فورآ جا کر ہاتھ کو رگڑ رگڑ کر دھوتے ہیں کسی سے گلے مل لیں تو وہ کپڑا دوبارہ نہیں پہنتے ان کو صرف اپنے آپ کو اوپر دیکھنے کی خواہش ہے اور موجودہ دور میں دیکھیں تو ایک چیز آپ کو واضح نظر آئے گی جس طرح علمامذہبی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں اسی طرح سیاست دان کائی سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کر رہا ہے کوئی پنچاپ کائی سرحد اور کوئی بلوچستان
اوپر میں نے ذکر کیا کہ پاکستان کی عوام کے ہزاروں لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو ہمارا نام نہاد میڈیا ہمیں بتاتا ہے اگر کسی سیاست دان کا کتا بھی مر جائے تو 3 دن کے سوگ کا اعلان ہو جاتا ہے میڈیا شور مچا دیتا ہے
آج تاک ہمارے پاکستای فوج کے کتنے لوگ شہید ہوئے کیا میڈیا نے کبھی کسی کا ذکر کیاکیوں کرے وہ کوئی محبِِ وطن ہیں وہ تو اس کی تنخواہ لیتے ہیں ان کی کوئی اولاد ہے ان کا کوئی خاندان ہے نہیں ان کا کام تو ملک کی حفاظت کرنا ہے وہ چپکے سے اپنی جان دے دیتے ہیں
اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کے کون گیا۔ کس بہن کا بھائی کس ماں کا بیٹا کس باپ کا لختجِگرقربان ہو گیا نہ کوئی نمائش ہوتی ہے نہ کوئی دکھاوا
تو پھر محبِ وطن کون ہوا کیا یہ سیاست دان یہ یہ پاک فوج کے یا ان سیکورٹی اداروں کے اہلکار؟