What's new

TRADERS VERSION ON THE SHABBAR ZAIDI TAX SYSTEM

blueazure

FULL MEMBER
Joined
May 29, 2015
Messages
1,739
Reaction score
0
Country
Pakistan
Location
Pakistan
سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا مسئلہ اصل میں ھے کیا؟

تحریر: محمد نعیم میر

ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ

دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،

اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔

پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔

دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔

تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔

اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔

اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!

دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں

پھر آخر میں پھنسا کون؟

دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی

لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔

شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے

دوسرا مرحلہ

دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔

اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔

دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔

دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،

تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔

ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو

تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔

یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔

والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران
 
.
Ik has demonstrated his childish outlook and immaturity on free mkt economics on this specific issue with traders. fact is that IK knows nothing of economics and commerce and is blindly following the chooran being fed to him by the TAX EVADER shabbar zaidi himself.

flat tax is the only solution for pakistan.. yet IMF would never let that happen

----------------------------
 
.
Ik has demonstrated his childish outlook and immaturity on free mkt economics on this specific issue with traders. fact is that IK knows nothing of economics and commerce and is blindly following the chooran being fed to him by the TAX EVADER shabbar zaidi himself.

flat tax is the only solution for pakistan.. yet IMF would never let that happen

----------------------------

Dont know if public try to do corrupt what IK can do. Only thing i agree with you with flat tax on bank accounts income.
 
.
it would be better they shd have the machine which can read card or go paperless or ease out the process.
 
.
بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن

If you sell in cash then you traders will have to do this. No choice, cry all you want.

If you take card payments only then government may allow you not to record CNIC as FBR will know from bank account the CNIC number of buyer.

Traders should shift to bank card payments for Rs50k+ transactions. Easy solution paa jee!

But you still have to issue a proper GST invoice with name and number on the bank card on the invoice.

Buy simple EPOS machines with card payment, and these machines will print out a detailed GST invoice as well and all record will be electronic that you can submit to FBR easily - one simple file transfer monthly!

But nah, traders won't do that either. They are making excuses not to record anything so that they don't have to pay GST and then income tax.
 
.
Pay your taxes ……

Stop it with excuses



50,000 purchase limit is introduced so government can track which national id card holder is selling 1 Crore worth of goods and claiming to be making no profit



The theft has been going on far too long by clean cut bearded , shop keepers making 4-5 lakh profit per month but declaring 0 profit in Taxes



Boohat Maza ker liya ...free life
 
Last edited:
.
سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا مسئلہ اصل میں ھے کیا؟

تحریر: محمد نعیم میر

ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ

دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،

اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔

پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔

دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔

تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔

اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔

اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!

دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں

پھر آخر میں پھنسا کون؟

دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی

لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔

شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے

دوسرا مرحلہ

دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔

اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔

دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔

دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،

تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔

ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو

تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔

یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔

والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران
#

Naeem Meer is a jahil insan, he was so childish and jahil on interview with Mansoor ali khan
 
. . .
ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے حد
خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ

Totaly wrong. Already registered sales tax traders not demanding any cnic on leass then 50,000
 
.
سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا مسئلہ اصل میں ھے کیا؟

تحریر: محمد نعیم میر

ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ

دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،

اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔

پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔

دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔

تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔

اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔

اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!

دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں

پھر آخر میں پھنسا کون؟

دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی

لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔

شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے

دوسرا مرحلہ

دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔

اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔

دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔

دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،

تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔

ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو

تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔

یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔

والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران
What a piece of crap
 
.
سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا مسئلہ اصل میں ھے کیا؟

تحریر: محمد نعیم میر

ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ

دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،

اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔

پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔

دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔

تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔

اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔

اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!

دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں

پھر آخر میں پھنسا کون؟

دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی

لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔

شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے

دوسرا مرحلہ

دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔

اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔

دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔

دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،

تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔

ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو

تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔

یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔

والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران

Bro the article is factually so incorrect, i cannot even decide where to start correcting it! Now i know that after the bias and divide that Imran Khan have created in our society based on political affiliation will make you or anyone claim me to be a PTI supporter and discard any disagreement with the points made in the articles because of political affiliation but still, i will say it again, THE ARTICLE IS WRONG ON ALMOST ALL ACCOUNTS. The writer knows 5hit about what is happening.
 
.
They can close the business ...No body is forcing them to carry on...
 
.
It Is Time To Take On Them They Are Not Tajir(Businessman) But Thieves
 
.
vegetables price has increased much as a result of traders strike and fbr chairman should avoid extra media talk as it is hurting govt to implement policies
 
.

Latest posts

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom