blueazure
FULL MEMBER
- Joined
- May 29, 2015
- Messages
- 1,739
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا مسئلہ اصل میں ھے کیا؟
تحریر: محمد نعیم میر
ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ
دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،
اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔
پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔
دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔
تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔
اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔
اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!
دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں
پھر آخر میں پھنسا کون؟
دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی
لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔
شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے
دوسرا مرحلہ
دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔
اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔
دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔
دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،
تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔
ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو
تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔
یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔
والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران
تحریر: محمد نعیم میر
ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ
دکاندار جو بھی سیل ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کرے گا، اپنے گاھک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گا،
تاکہ ۔۔۔۔۔!!
دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے،
اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام عوام کو یہ بات سمجھ آچکی تو ۔۔۔
پہلی صورت
یہ ھوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراھم کرنا پڑے۔
دوسری صورت
یہ ھوگی کہ جیسے کوئی گاھک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ھو، خریدنا ھو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاھک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاھک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ھونا ھے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔
تیسری صورت
یہ ھوگی کہ گاھک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔
اب دکاندار نے گاھک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ھے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کر دینی ہیں۔
اب شروع ھوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!
دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دھی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کونسی سم چل رھی ھے، لہزا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں
پھر آخر میں پھنسا کون؟
دکاندار ھی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاھک جعل سازی کر جائیں گے اور ایف بی آر اور ھمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رھے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی
لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔
شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ھے
دوسرا مرحلہ
دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ھول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ھوتی ھے۔
اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ھوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ھوگا۔
دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ھوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندھی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جس کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ھوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔
دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر 17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی،
تیسری صورت اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماھانہ ریٹرن فائل کرنا ھوگی ، دکاندار ودھولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودھولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا اور نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ھے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ھوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ھوگا۔
ایک اھم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ھو جائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوانس پر عام گاھک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ھو جائے گا چاھے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ھو
تاجر بھائیو ! یہ ھے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جس کو بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ھے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ھوگا جو بھاری تنخواہ لے گا ، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ھوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ھوگا اور سزائیں بھگتنا ھونگیں جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔
یہ ہی وجہ ھے کہ ھم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رھے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے ، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جا سکے تاکہ عام دکاندار زھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ھے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ھونگے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ھم احتجاج کر رھے ہیں ۔۔۔!!!۔
واحد مقصد ایک ھے ، ٹیکس دینے سے فرار نہیں بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ ھے۔
والسلام
محمد نعیم میر
مرکزی سیکرٹری جنرل آل پاکستان انجمن تاجران