’طارق میر کا مبینہ بیان پولیس کی دستاویز نہیں‘ - BBC Urdu
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما طارق میر کے چند دن قبل سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والا مبینہ اعترافی بیان لندن میٹروپولیٹن پولیس کی دستاویز نہیں ہے۔
لندن میٹروپولٹن پولیس کے ترجمان ایلن کروکرفورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ طارق میر سے منسوب مبینہ اعترافی بیان لندن پولیس کے ریکارڈ کی دستاویز نہیں ہیں۔
طارق میر سے منسوب یہ بیان سوشل میڈیا پر نامعلوم ذرائع سے جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہ بیان پاکستان کے ہر اخبار میں شائع ہوا اور ہر ٹی وی چینل پر بار بار نشر کیا گیا۔
لندن پولیس کے ترجمان نے بی بی سی اردو کے استفسار پر ایک ای میل کے مختصر جواب میں کہا کہ پولیس نے پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اس مبینہ اعترافی بیان کا بغور جائزہ لیا ہے۔
ایلن کروکرفورڈ نے کہا کہ ’اس دستاویز کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ پولیس کی دستاویز نہیں ہے۔‘
دریں اثنا لندن میٹرپولیٹن پولیس کے دو افسران پر مشتمل ایک ٹیم پاکستان میں موجود ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں پاکستان پولیس کی زیرِ حراست دو افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما طارق میر کے مبینہ بیان سے قبل [URL='http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150624_mqm_obj_report_zs']بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت کے بھارت سے رابطے تھے اور بھارت سے ان کو مالی مدد بھی ملتی رہی ہے۔
ایم کیو ایم نے بی بی سی کی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی۔
[/URL]
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما طارق میر کے چند دن قبل سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والا مبینہ اعترافی بیان لندن میٹروپولیٹن پولیس کی دستاویز نہیں ہے۔
لندن میٹروپولٹن پولیس کے ترجمان ایلن کروکرفورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ طارق میر سے منسوب مبینہ اعترافی بیان لندن پولیس کے ریکارڈ کی دستاویز نہیں ہیں۔
طارق میر سے منسوب یہ بیان سوشل میڈیا پر نامعلوم ذرائع سے جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہ بیان پاکستان کے ہر اخبار میں شائع ہوا اور ہر ٹی وی چینل پر بار بار نشر کیا گیا۔
لندن پولیس کے ترجمان نے بی بی سی اردو کے استفسار پر ایک ای میل کے مختصر جواب میں کہا کہ پولیس نے پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اس مبینہ اعترافی بیان کا بغور جائزہ لیا ہے۔
ایلن کروکرفورڈ نے کہا کہ ’اس دستاویز کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ پولیس کی دستاویز نہیں ہے۔‘
دریں اثنا لندن میٹرپولیٹن پولیس کے دو افسران پر مشتمل ایک ٹیم پاکستان میں موجود ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں پاکستان پولیس کی زیرِ حراست دو افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما طارق میر کے مبینہ بیان سے قبل [URL='http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150624_mqm_obj_report_zs']بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت کے بھارت سے رابطے تھے اور بھارت سے ان کو مالی مدد بھی ملتی رہی ہے۔
ایم کیو ایم نے بی بی سی کی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی۔
[/URL]