Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
سہیل شاہین: طالبان کو کشمیر سمیت کہیں بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
بی بی سی کے ساتھ ایک زوم انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکہ کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی شرائط کو یاد کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی بھی ملک کے خلاف مسلح آپریشن کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
دوحہ سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، انڈیا اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔
ان کے مطابق ’ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔‘
انڈیا پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں سنہ 2014 سے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔
تین پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے متنازع قانون کو بھی مسلمانوں کو ہدف بنانے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
انڈیا کی طرف سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اس فیصلے کے اطلاق کے طریقہ کار پر کئی شہریوں کو غصہ ہے۔
جموں اور کشمیر کئی دہائیوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا اور پھر افغانستان پر پاکستان کے قریب تصور کیے جانے والے طالبان کے کنٹرول سے انڈیا میں کئی حلقوں میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ اب طالبان کے اندر گروہ پاکستان کے اندر موجود انڈیا مخالف گروہوں کی طرف جموں اور کشمیر جیسی جگہوں کو بھی اپنا ہدف بنا سکتے۔
وائرل ہونے والے ایک ٹی وی مباحثے کی فوٹیج میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایک رہنما سے یہ بیان منسوب ہے کہ ’طالبان نے کہا ہے کہ ہو ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں کشمیر (کو آزاد کرانے) میں مدد دیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے لیے مشکل وقت؟
سنہ 2001 سے جب امریکی اتحاد میں افواج نے کابل سے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو انڈیا طالبان مخالف شمالی اتحاد کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔
اس جنگ کے 20 سال بعد پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کے اقتدار کو انڈیا کے لیے ایک بڑے سیٹ بیک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کے افغانستان میں اس وقت کے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
انڈیا نے اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں کئی ترقیاتی سکیموں میں اربوں روپے جھونک دیے۔ مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انڈیا میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ یہ سب کچھ اب ضائع ہو جائے گا۔
انڈیا نے 31 اگست کو طالبان سے اپنے پہلے سرکاری رابطے کے دوران دوحہ میں طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق اس ملاقات میں انڈیا نے طالبان سے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی صورت انڈیا مخالف سرگرمیوں یا دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چائیں۔
مذاکرات انڈیا کے لیے آسان نہیں
امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک کھلم کھلا طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم مسلح گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنا انڈیا کے حکام کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔
امریکہ کے انخلا کے بعد انڈیا کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر کارنیگی انڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے اندر نام نہاد حقانی گروپ، جسے بہترین اور تربیت یافتہ گروپ سمجھا جاتا ہے، نے کابل میں انڈیا کے سفارتخانے سمیت انڈیا کے اثاثوں پر مبینہ طور حملے کیے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور حقانی گروپ کے رہنماؤں کے درمیان قریبی تعلق کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ اب یہ ’سمجھوتے کا شکار‘ حقانی گروپ اپنے انڈیا مخالف ایجنڈے پر کاربند رہے گا۔
،تصویر کا ذریعہReuters
تاہم سہیل شاہین نے کہا کہ حقانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ محض دعوؤں پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حقانی کوئی گروپ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کی اسلامی امارت کا حصہ ہیں۔ وہ اسلامی امارت افغانستان ہیں۔‘
انڈیا کے کھٹمنڈو سے دلی جانے والے مسافر بردار طیارے کے اغوا میں بھی طالبان کا (مبینہ) کردار بھی انڈیا کے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس طیارے میں 180 افراد سوار تھے۔
یہ طیارہ قندھار گیا، جہاں پھر اغواکاروں کے مطالبے پر مسافروں کے بدلے تین عسکریت پسندوں کی انڈیا کی قید سے رہائی ہوئی۔
کارنیگی انڈیا رپورٹ کے مطابق سنہ 1999 میں انڈیا کے طیارے کے اغوا کے بعد یہ (طالبان) کا ہی گروپ تھا جنھوں نے پاکستان تک ان رہا ہونے والے دہشتگردوں کو محفوظ طریقے سے پہنچایا۔
سہیل شاہین کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے طیارے کے اغوا میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس حوالے جو مدد فراہم کی اس پر انڈیا کی حکومت کو ان کا شکرگزار ہونا چائیے۔
سہیل شاہین کے مطابق انڈیا نے ہمیں درخواست کی کہ طیارے میں فیول کم رہ گیا ہے اور اس کے بعد پھر ہم نے محصور مسافروں کی رہائی کے لیے مدد فراہم کی۔
متعلق سہیل شاہین نے طالبان مخالف پروپیگنڈے کا الزام انڈیا کے میڈیا پر عائد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان نے معاملات کو مثبت انداز میں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے: انڈین وزارت خارجہ
’مزید سوالوں کے جواب پھر کسی وقت دیں گے، اب ہم آپ سے ملتے رہیں گے‘
طالبان کے پراسرار ترجمان نے آخر کار اپنا چہرا دکھا ہی دیا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دانش صدیقی کی موت
طالبان کے ترجمان نے ان حالات سے بے خبری ظاہر کی ہے جن کے تحت انڈیا کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کا قتل ہوا۔ سہیل شاہین نے کہا کہ یہ لڑائی تھی، دونوں اطراف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کس کی گولی سے دانش صدیقی مارا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز سے منسلک پلٹزر ایوارڈ یافتہ صحافی افغان فوج کے ایک قافلے کے ہمراہ تھے، جس پر طالبان نے سپن بولدک پر حملہ کر دیا۔
دانش صدیقی کی موت کے چند دن بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی فرد نے بتایا تھا کہ اس نے دانش صدیقی کی لاش کے گرد طالبان کے عسکریت پسندوں کو دیکھا تھا، جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے انڈیا کے ایک جاسوس کو پکڑ کر مار دیا ہے۔
اس شہری کے مطابق وہ (عسکریت پسند) ابھی بھی یہی کہتے ہیں۔
سہیل شاہین نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ لوگ گپ شپ کے لیے کوئی بھی بات کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ دانش صدیقی کی موت سے متعلق میڈیا کے ساتھ مکمل تحقیقاتی رپورٹ شیئر کریں گے۔
سہیل شاہین نے پنجشیر وادی میں صورتحال کو پریشان کن قرار دیا، جہاں افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کی قیادت میں طالبان مخالف گروہ نے طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔
میڈیا پر چلنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھوں نے اس کی تردید کی ہے کہ طالبان کے لوگ گھر گھر جا کر اپنے مخالفین کا پتا کر رہے اور ان کے خاندان والوں کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایسی کوئی ہٹ لسٹ نہیں ہے۔‘
- ونیت کھرے
- بی بی سی، ہندی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
بی بی سی کے ساتھ ایک زوم انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکہ کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی شرائط کو یاد کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی بھی ملک کے خلاف مسلح آپریشن کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
دوحہ سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، انڈیا اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔
ان کے مطابق ’ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔‘
انڈیا پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں سنہ 2014 سے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔
تین پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے متنازع قانون کو بھی مسلمانوں کو ہدف بنانے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
انڈیا کی طرف سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اس فیصلے کے اطلاق کے طریقہ کار پر کئی شہریوں کو غصہ ہے۔
جموں اور کشمیر کئی دہائیوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا اور پھر افغانستان پر پاکستان کے قریب تصور کیے جانے والے طالبان کے کنٹرول سے انڈیا میں کئی حلقوں میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ اب طالبان کے اندر گروہ پاکستان کے اندر موجود انڈیا مخالف گروہوں کی طرف جموں اور کشمیر جیسی جگہوں کو بھی اپنا ہدف بنا سکتے۔
وائرل ہونے والے ایک ٹی وی مباحثے کی فوٹیج میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایک رہنما سے یہ بیان منسوب ہے کہ ’طالبان نے کہا ہے کہ ہو ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں کشمیر (کو آزاد کرانے) میں مدد دیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے لیے مشکل وقت؟
سنہ 2001 سے جب امریکی اتحاد میں افواج نے کابل سے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو انڈیا طالبان مخالف شمالی اتحاد کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔
اس جنگ کے 20 سال بعد پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کے اقتدار کو انڈیا کے لیے ایک بڑے سیٹ بیک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کے افغانستان میں اس وقت کے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
انڈیا نے اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں کئی ترقیاتی سکیموں میں اربوں روپے جھونک دیے۔ مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انڈیا میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ یہ سب کچھ اب ضائع ہو جائے گا۔
انڈیا نے 31 اگست کو طالبان سے اپنے پہلے سرکاری رابطے کے دوران دوحہ میں طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق اس ملاقات میں انڈیا نے طالبان سے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی صورت انڈیا مخالف سرگرمیوں یا دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چائیں۔
مذاکرات انڈیا کے لیے آسان نہیں
امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک کھلم کھلا طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم مسلح گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنا انڈیا کے حکام کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔
امریکہ کے انخلا کے بعد انڈیا کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر کارنیگی انڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے اندر نام نہاد حقانی گروپ، جسے بہترین اور تربیت یافتہ گروپ سمجھا جاتا ہے، نے کابل میں انڈیا کے سفارتخانے سمیت انڈیا کے اثاثوں پر مبینہ طور حملے کیے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور حقانی گروپ کے رہنماؤں کے درمیان قریبی تعلق کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ اب یہ ’سمجھوتے کا شکار‘ حقانی گروپ اپنے انڈیا مخالف ایجنڈے پر کاربند رہے گا۔
،تصویر کا ذریعہReuters
تاہم سہیل شاہین نے کہا کہ حقانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ محض دعوؤں پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حقانی کوئی گروپ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کی اسلامی امارت کا حصہ ہیں۔ وہ اسلامی امارت افغانستان ہیں۔‘
انڈیا کے کھٹمنڈو سے دلی جانے والے مسافر بردار طیارے کے اغوا میں بھی طالبان کا (مبینہ) کردار بھی انڈیا کے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس طیارے میں 180 افراد سوار تھے۔
یہ طیارہ قندھار گیا، جہاں پھر اغواکاروں کے مطالبے پر مسافروں کے بدلے تین عسکریت پسندوں کی انڈیا کی قید سے رہائی ہوئی۔
کارنیگی انڈیا رپورٹ کے مطابق سنہ 1999 میں انڈیا کے طیارے کے اغوا کے بعد یہ (طالبان) کا ہی گروپ تھا جنھوں نے پاکستان تک ان رہا ہونے والے دہشتگردوں کو محفوظ طریقے سے پہنچایا۔
سہیل شاہین کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے طیارے کے اغوا میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس حوالے جو مدد فراہم کی اس پر انڈیا کی حکومت کو ان کا شکرگزار ہونا چائیے۔
سہیل شاہین کے مطابق انڈیا نے ہمیں درخواست کی کہ طیارے میں فیول کم رہ گیا ہے اور اس کے بعد پھر ہم نے محصور مسافروں کی رہائی کے لیے مدد فراہم کی۔
متعلق سہیل شاہین نے طالبان مخالف پروپیگنڈے کا الزام انڈیا کے میڈیا پر عائد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان نے معاملات کو مثبت انداز میں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے: انڈین وزارت خارجہ
’مزید سوالوں کے جواب پھر کسی وقت دیں گے، اب ہم آپ سے ملتے رہیں گے‘
طالبان کے پراسرار ترجمان نے آخر کار اپنا چہرا دکھا ہی دیا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دانش صدیقی کی موت
طالبان کے ترجمان نے ان حالات سے بے خبری ظاہر کی ہے جن کے تحت انڈیا کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کا قتل ہوا۔ سہیل شاہین نے کہا کہ یہ لڑائی تھی، دونوں اطراف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کس کی گولی سے دانش صدیقی مارا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز سے منسلک پلٹزر ایوارڈ یافتہ صحافی افغان فوج کے ایک قافلے کے ہمراہ تھے، جس پر طالبان نے سپن بولدک پر حملہ کر دیا۔
دانش صدیقی کی موت کے چند دن بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی فرد نے بتایا تھا کہ اس نے دانش صدیقی کی لاش کے گرد طالبان کے عسکریت پسندوں کو دیکھا تھا، جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے انڈیا کے ایک جاسوس کو پکڑ کر مار دیا ہے۔
اس شہری کے مطابق وہ (عسکریت پسند) ابھی بھی یہی کہتے ہیں۔
سہیل شاہین نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ لوگ گپ شپ کے لیے کوئی بھی بات کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ دانش صدیقی کی موت سے متعلق میڈیا کے ساتھ مکمل تحقیقاتی رپورٹ شیئر کریں گے۔
سہیل شاہین نے پنجشیر وادی میں صورتحال کو پریشان کن قرار دیا، جہاں افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کی قیادت میں طالبان مخالف گروہ نے طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔
میڈیا پر چلنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھوں نے اس کی تردید کی ہے کہ طالبان کے لوگ گھر گھر جا کر اپنے مخالفین کا پتا کر رہے اور ان کے خاندان والوں کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایسی کوئی ہٹ لسٹ نہیں ہے۔‘
سÛÛ٠شاÛÛÙ: طاÙبا٠ک٠کشÙÛر سÙÛت Ú©ÛÛÚº Ø¨Ú¾Û ÙسÙÙاÙÙÚº Ú©Û ØÙ ÙÛÚº Ø¢Ùاز بÙÙد کرÙÛ Ú©Ø§ ØÙ ÛÛ - BBC News اردÙ
Ø¨Û Ø¨Û Ø³Û Ú©Û Ø³Ø§ØªÚ¾ اÙٹرÙÛÙ ÙÛÚº طاÙØ¨Ø§Ù Ú©Û ØªØ±Ø¬Ùا٠سÛÛ٠شاÛÛÙ ÙÛ Ø§ÙرÛÚ©Û Ú©Û Ø³Ø§ØªÚ¾ ÛÙÙÛ ÙاÙÛ Ø¯ÙØÛ ÙعاÛØ¯Û Ú©Û Ø´Ø±Ø§Ø¦Ø· Ú©Ù Ûاد کرÙØ§ØªÛ ÛÙØ¦Û Ú©Ûا Ú©Û Ø§Ù Ú©Û Ú©Ø³Û Ø¨Ú¾Û ÙÙÚ© Ú©Û Ø®Ùا٠ÙسÙØ Ø¢Ù¾Ø±Ûش٠کرÙÛ Ú©Û Ú©ÙØ¦Û Ù¾Ø§ÙÛØ³Û ÙÛÛÚº تاÛÙ Ø§Ù Ú©Û ÙطابÙ...
www.bbc.com