What's new

'Prince of Kyiv': billionaire Pakistani in Ukraine?


A detailed article upon him if you could read Urdu well:

محمد ظہور: کراچی کا لڑکا یوکرین کا ارب پتی کیسے بنا؟​

  • ثمرہ فاطمہ اور محمد زبیر خان​
  • بی بی سی اردو​
2 مار چ 2022​
ظہور اور کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
محمد ظہور نے سٹیل کے کاروبار سے دولت کمائی ہے
'مجھے اگر ایک چارپائی مل جائے، ایک روٹی مل جائے اور اس کے ساتھ کھانے کو کوئی سالن مل جائے تو میں خوش رہوں گا۔ مجھے زندہ رہنے کے لیے کسی قسم کی عیاشی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ حالانکہ ہماری زندگی بہت رنگین گزری ہے اور یوکرین میں ہمارے یہاں جو محفلیں ہوتی ہیں ان کا کوئی جواب نہیں۔ سڑک پر آ کر لوگ آپ کے ساتھ سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ آ کر کہتے ہیں ہم آپ سے بہت متاثر ہیں۔ لیکن میں نے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بنایا ہے۔‘
یہ الفاظ پاکستانی نژاد ارب پتی شخصیت محمد ظہور کے ہیں جنھیں ’کیئو کا شہزادہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا انھیں ’سٹیل کنگ‘ اور یوکرین کی انٹرٹینمنٹ صنعت کی ایک بڑی ہستی کے طور پر جانتی ہے۔
ان کی اہلیہ سنہ 2008 میں مِسز ورلڈ کا ٹائٹل جیت چکی ہیں اور یوکرین کی مشہور گلوکارہ ہیں۔
محمد ظہور یوکرین کے صدر اور وزیراعظم جیسی ہستیوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ گذشتہ 11 برسوں سے وہ یوکرین میں میوزک ایوارڈز کا انعقاد کروا رہے ہیں جو اُن کے بقول ’گریمی‘ سے کم نہیں۔​
وہ یوکرین پر روسی حملے سے دو دن قبل اپنی آٹھ سالہ جڑواں بیٹیوں کو لے کر لندن آ گئے تھے۔ جب میں نے لندن میں ان سے ملاقات کی تو اس وقت اُن کی یوکرینی اہلیہ یوکرین کی سرحد کے پاس تھیں اور ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ اب وہ یوکرین سے نکل چکی ہیں۔​

کراچی کا طالبعلم یوکرین کی امیر ترین شخصیت کیسے بنا؟​

محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
محمد ظہور کے بچپن کی تصویر
میں پہلی بار لندن میں اتنے عالیشان گھر میں داخل ہو رہی تھی۔ جب میں اُن کا انٹرویو کرنے پہنچی تو انھوں نے خود دروازہ کھولا اور کسی ’جینٹل مین‘ کی طرح مجھ سے میرا کوٹ لے کر ہینگر پر ٹانگ دیا۔
جیسے جیسے ہم گھر میں داخل ہو رہے تھے میرے دل میں ایک کے بعد ایک نئے سوال جنم لے رہے تھے، جن کے بارے میں میں پہلے سے سوچ کر نہیں گئی تھی۔ اگر لندن کا گھر اتنا عالیشان ہے تو محمد ظہور کی یوکرین کی رہائش گاہ کیسی ہو گی؟ کیا واقعی یہ سچ ہے کہ خواب جتنے بھی بڑے ہوں، سچ ہو سکتے ہیں؟
’سٹیل کِنگ‘ بننے کے بعد سٹیل کی تمام ملیں انھوں نے فروخت کیوں کر دیں؟ اب تک کے برتاؤ کو اُن کی عاجزی سمجھوں یا مغربی تہذیب کا اثر؟ اور یہ تمام سوالات انٹرویو کے دوران میں نے اُن سے کر ڈالے۔
ساتھ ہی یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ کراچی کے ایک طالبعلم سے یوکرین کی امیر ترین شخصیت بننے تک کا سفر آخر کیسے طے ہوا؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد ظہور کو آج دنیا بھر میں سٹیل کی دنیا کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ سنہ 2008 تک براہ راست سٹیل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ یوکرین اور برطانیہ سمیت دنیا میں ان کی کئی سٹیل ملز تھیں۔ آنے والے برسوں میں انھوں نے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنی سٹیل ملز فروخت کر دیں۔
اس وقت وہ دنیا بھر میں سٹیل کے کاروبار پر مشاورت اور لیکچر دینے کے علاوہ سرمایہ کاری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ یوکرین میں انھوں نے ’کیئو پوسٹ‘ نامی ایک اخبار کو کئی سال تک چلایا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اخبار اپنی غیر جانبدارانہ پالیسیوں اور حکومت پر تنقید کی وجہ سے مقبول ہوا تھا، تاہم بعد میں انھوں نے اسے فروخت کر دیا۔
ابھی ہم انٹرویو کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ گھر کے باغیچے میں کھیل رہی چار بچیاں بار بار میرا دھیان اپنی جانب کھینچ رہی تھیں۔ مجھے تشویش ہو رہی تھی کہ تقریباً ایک ہی عمر کی چار بچیاں اس گھر میں کیا کر رہی ہیں۔ وہاں موجود محمد ظہور کے داماد نے مجھے بتایا کہ ان میں سے دو بیٹیاں اُن کی ہیں اور دو ظہور کی ہیں۔
وہ محمد ظہور کی پہلی شادی سے ہونے والی بیٹی کے شوہر ہیں۔
ظہور کی پہلی اہلیہ اب ماسکو میں رہتی ہیں اور ماسکو کے ساتھ بھی ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ وہ 13 برس ماسکو میں بھی رہے۔ وہاں بھی ان کے دوست رہتے ہیں۔
ظہور

،تصویر کا ذریعہM ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
ظہور سنہ 1974 میں پہلی بار سکالر شپ پر ڈونیسک گئے تھے
ظہور نے خود بتایا کہ ان کی دوسری اہلیہ کمالیہ ایسے کئی شوز میں گلوکاری کر چکی ہیں جہاں صدر پوتن بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ کمالیہ کے والد کا تعلق ماسکو اور والدہ کا یوکرین سے ہے، تاہم کمالیہ خود کو یوکرینی ہی مانتی ہیں۔
حملوں کے تمام امکانات کے باوجود کمالیہ اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ظہور نے بتایا ’22 فروری کو جب دنیا بھر کے نیوز چینلز حملے کے امکانات ظاہر کر رہے تھے تب بھی وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ روسی ہمارے بھائی ہیں وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔‘ اسی لیے ظہور کو انھوں نے بچیوں کے ساتھ پہلے لندن بھیج دیا تھا اور خود وہیں رہ گئی تھیں۔
ظہور نے کہا ’حکومت سمیت 100 فیصد لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ نہیں ہو گا۔ میرے ان سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ صدر زیلینسکی میرا اور میری اہلیہ کے بھی اچھے دوست ہیں۔ میں ہمیشہ اُن سے پوچھتا رہتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے؟‘
انھوں نے کہا ’سب یہی کہتے تھے کہ ہماری بھی خفیہ معلومات ہیں اور ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ روس حملہ کرے گا، وہ صرف مذاکرات کے لیے ایسا کرنا چاہتے ہیں۔‘​

کراچی سے یوکرین تک کا سفر​

محمد ظہور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خوشحال خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گاؤں ’حسنینا‘ سے ہے۔ خوشحال خان قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی منتقل ہو گئے تھے۔
اس انٹرویو کے دوران محمد ظہور نے کئی بار اس بات پر زور دیا کہ ’میری کامیابی میں والد کی تربیت، ماں کی دعاؤں اور اللہ کی مرضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘
انھوں نے بتایا ’ہم کراچی میں رہتے تھے اور اس وقت ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ ہمارے والد کی سرکاری دفتر میں نوکری کے باوجود ہماری زندگی اوروں کی طرح شاہانہ اور باوقار نہیں تھی۔ میرے والد سندھ کے ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل تھے۔ یہ ایک بہت بڑا عہدہ تھا۔ لیکن اُن کے ساتھ کے لوگ گاڑیوں پر آتے تھے جب کہ میرے والد تقریباً 15 سال پرانی سائیکل پر آتے جاتے رہے۔ وہی عادتیں ہماری بھی تھیں۔ لیکن آگے چل کر اسی چیز نے میری زندگی میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔‘
محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
محمد ظہور کے والدین
محمد ظہور کے ملک سے باہر سفر کا آغاز سنہ 1974 میں اس وقت ہوا جب اُن کا انتخاب سویت یونین میں انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے سکالرشپ کے لیے ہوا۔ اس وقت وہ کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینیرئنگ میں پہلے سال کے طالبعلم تھے۔
سکالرشپ کے لیے منتخب 42 بچوں میں چند کو سینٹ پیٹرس برگ، کچھ کو ماسکو اور بعض کو ڈونیسک بھیجا گیا جن میں ظہور بھی شامل تھے۔
ڈونیسک میں گزارے طالب علمی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’اپنے ساتھ جانے والوں میں سب سے جلد روسی زبان میں نے سیکھی جس نے میری آگے بڑھنے میں خاصی مدد بھی کی۔ اس درمیان کچھ کامیاب اور کچھ ناکام محبتیں بھی ہوئیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے دوست بنانے کے علاوہ زندگی کے کئی اہم تجربات بھی حاصل کیے۔‘
زمانہ طالب علمی میں ہی انھوں نے اپنے ساتھ ہی پڑھنے والی لڑکی سے شادی کر لی تھی جو بعد میں ان کے ساتھ پاکستان جا کر رہیں بھی۔ اس سکالرشپ کی شرط تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھیں واپس جا کر پانچ برس پاکستان سٹیل مل میں کام کرنا ہو گا۔
ان کے بقول جب وہ تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان پہنچے تو مسائل کا انبار ان کا انتظار کر رہا تھا۔​

پاکستان سٹیل مل میں پہلی نوکری​

انھوں نے بتایا کہ سویت یونین سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان واپس جانے پر انھیں پہلے سٹیل مل کے شعبے سیفٹی میں تعینات کیا گیا اور بعد میں تعمیرات کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا۔ دونوں ہی شعبوں میں کام اُن کی ڈگری کی مناسبت سے نہیں تھا۔
انھوں نے میٹلرجی میں انجینیئرنگ کی تھی۔ لیکن انھیں اُن کی تعلیم اور ہنر کے مطابق کام نہیں دیا گیا۔ ان کے بقول نامناسب حالات اور رویوں کے باوجود انھوں نے اتنی شاندار کارگردگی دکھائی کہ جب انھوں نے وہ نوکری چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اس وقت کے سٹیل مل کے چیئرمین نے اُن کا استعفیٰ سات مرتبہ نامنظور کیا تھا۔
ظہور نے بتایا ’میرے پاس ایسے بہت سے مواقع تھے جب میں محض ایک دستخظ کر کے بہت سارے پیسے کما سکتا تھا۔ لیکن والد صاحب کی تربیت کا کچھ ایسا اثر تھا کہ وہ ہو نہیں پایا۔‘
کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
کمالیہ نے سنہ 2008 میں مسز ورلڈ کا خطاب جیتا تھا​

سویت یونین واپسی​

اسی درمیان ماسکو میں ایک کمپنی کو ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو پاکستان کے ساتھ کاروبار میں اُن کی مدد کر سکے۔ اور روسی زبان پر عبور اور قابلیت کے سبب ظہور کو اس کام کے لیے چُنا گیا۔ اور اس طرح وہ ماسکو پہنچ گئے۔
محمد ظہور نے بتایا ’80 کی دہائی کے آخر میں ماسکو پہنچ کر میں نے سپیئر پارٹس وغیرہ فراہم کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی کمپنی والوں کو بتایا کہ یہاں سے سٹیل لے کر جانا ایک منافع بخش سودا ہو سکتا ہے۔ مجھے سٹیل ملوں کے تقریباً سارے ہی لوگ جانتے تھے۔‘
اس کاروبار میں اُن کی کمپنی نے پاکستان کو سٹیل بھجوانا شروع کر دیا لیکن اس فروخت کے بدلے پاکستان سے ادائیگی نقد کے بجائے کپڑوں کی صورت میں ہوتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کام میں منافع بے انتہا یعنی مارکیٹ میں رائج منافع سے بھی کئی گنا زیادہ تھا۔
ظہور بتاتے ہیں ’تین برس کے اندر میری تنخواہ ایک ہزار سے بڑھ کر اور بونس ملا کر 50 ہزار ڈالر ہو گئی تھی اور مجھ پر دیگر اخراجات کی مد جس میں دفتر، آمد و رفت کا خرچہ کرایہ باقی اخراجات ملا کر سالانہ کوئی ڈیڑھ لاکھ ڈالر خرچ ہوتے تھے۔‘
پھر مختلف وجوہات کی بنا پر انھوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنا کاروبار کریں۔
انھوں نے بتایا ’اس وقت میں نے تھائی لینڈ کے ایک کاروباری شخصیت کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جس میں 51 فیصد شیئر اس کے اور 49 فیصد میرے تھے۔‘
اور اس طرح اُن کے سٹیل کی دنیا پر راج کرنے کے سفر کا آغاز ہوا۔ آہستہ آہستہ یورپ اور پھر دنیا بھر میں اُن کے دفاتر کھلنے لگے۔​

سٹیل کِنگ​

سنہ 1996 میں انھوں نے ڈونیسک کی اسی سٹیل مل کو خرید لیا جہاں انھوں نے تعلیم کے دوران اپنا آخری پریکٹیکل مکمل کر کے ڈگری حاصل کی تھی۔
ظہور ڈونیسک سٹیل مل کے مالک ضرور بن چکے تھے لیکن اس کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے بتایا ’اس کو ہم نے بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے جدید ترین اور انتہائی شاندار مل بنائی۔‘
یہ بھی پڑھیے
’دنیا کا امیر ترین شخص مسلمان تھا‘
دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ راز
انڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل گوتم اڈانی کا وزیراعظم مودی سے کیا تعلق ہے؟
جرمن بینکر جیکب فوگر اگر زندہ ہوتے تو کیا دنیا کے امیر ترین شخص ہوتے؟
محمد ظہور نے بتایا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے امریکہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں سٹیل ملیں لگائی تھیں جو کہ بڑی کامیابی سے چل رہی تھیں۔ اور یوکرین میں ان کے تعلقات بڑھ چکے تھے۔
اور اسی دوران معاشی صورتحال کی وجہ پر اخبار ’کیئو پوسٹ‘ بند ہونے جا رہا تھا جسے محمد ظہور نے خرید لیا اور میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھ لیا۔​

کیئو پوسٹ کی مقبولیت اور فروخت​

محمد ظہور کے مطابق ’یوکرین کے اس وقت کے ماحول میں کیئو پوسٹ کو چلانا بہت مشکل تھا۔ مگر میں نے سرمایہ کاری کرنے کے بعد اس کا ادارتی نظام آزاد رکھا تھا۔ اپنی ادارتی ٹیم سے کہا تھا کہ غیر جانبدار رہ کر شاندار اخبار چلانا ہے۔ اس کی سرکولیشن تو ہفتہ وار 30 ہزار تھی۔ یوکرین کی اس وقت آبادی 40 ملین تھی۔‘
ظہور اور کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM ZAHOOR​
،تصویر کا کیپشن
محمد ظہور کی اہلیہ کمالیہ پاکستان میں خیراتی کام بھی کرتی ہیں
لیکن کئی برس اخبار کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعد انھیں اسے بیچنا پڑا۔
محمد ظہور کا کہنا تھا کہ اس دوران ’ہم نے اس وقت کی حکومتوں پر بھی سخت تنقید کی۔‘ اور بعد میں انھوں نے اس شرط پر اخبار فروخت کر دیا تھا کہ یہ بند نہیں ہو گا اور اس کی آزاد پالیسی جاری رہے گی مگر کچھ عرصہ قبل کچھ وجوہات کی بنا پر یہ بند ہو گیا اور انھوں نے سُنا ہے کہ اب دوبارہ اس کا اجرا ہو گا۔
عین عروج پر سٹیل مِلز کی فروخت
محمد ظہور نے بتایا کہ چین نے سنہ 2008 کے اولپمک مقابلے منعقد کروائے تھے۔ اس کی تیاریوں کے لییے چین پورے دنیا سے سٹیل خرید رہا تھا۔ انھوں نے بھی خوب بیچا مگر اس کے ساتھ ساتھ چین کے اندر دھڑا دھڑ سٹیل کی ملیں لگنا شروع ہو گئیں۔
انھوں نے کہا ’جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو مجھے سمجھ آ گئی کہ چین کی سٹیل ملیں چلنے کے بعد یہ کاروبار منافع بخش نہیں رہے گا۔‘​


 
He left few days before the assault because he wanted to take his children to a safe place, but his wife refused to leave, because her mother refused to leave.
Where did he go to? Britain?
 
This is just another proof that the current system ruling Pakistan (and world) dents the organic potential of our people. These goras (gates, besoz, musk/etc) would not stand a chance when Muslim tajirs start building their own enterprise with support from their state (same as it was 5 centuries ago).
 
This is just another proof that the current system ruling Pakistan (and world) dents the organic potential of our people. These goras (gates, besoz, musk/etc) would not stand a chance when Muslim tajirs start building their own enterprise with support from their state (same as it was 5 centuries ago).

Until you fix the rule of law and corruption - how can people like this chap flourish? all the zadari's/chauderis/bhutts/sharifs of the current political system have to be removed first .....

you have to create an environment where people like this can flourish
 
Until you fix the rule of law and corruption - how can people like this chap flourish? all the zadari's/chauderis/bhutts/sharifs of the current political system have to be removed first .....

you have to create an environment where people like this can flourish
All these zadari's/chauderis/bhutts/sharifs came after 1947. Real question is who were the local collaborators before 1947?
About rule of law? which law are we talking about? The one forced down our throats by Whites, and Brown-Whites?
 

Latest posts

Back
Top Bottom