What's new

PML-N Political Desk

E7OyIDzX0AY1CIh


Shabbash Maryam on Votes.
Shame on Establishment for selection.
 
E7M7HHqWEAEY_fM

:p:جنابِ صدر مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف صاحب کشمیر الیکشن کے دوران ووٹ چوری پر نظر رکھتے ہوئ
 
PMLN Private limited, a family run company is suffering from brand image after its ex CEO Mian Nawaz Sharif met enemy of Pakistan in London. Reminding, the ex CEO is proven guilty of lies, deception and looting money from the poor and needy in Pakistan, sentenced and jailed twice.

Brand follow is now diminishing.
 
PMLN Private limited, a family run company is suffering from brand image after its ex CEO Mian Nawaz Sharif met enemy of Pakistan in London. Reminding, the ex CEO is proven guilty of lies, deception and looting money from the poor and needy in Pakistan, sentenced and jailed twice.

Brand follow is now diminishing.
but @Tameem is still doing paad wala nasha!!
 
DIdn't I say 2 years ago that establishment is going to make another political party?
I guess you will see Nisar Ali Khan getting active in few months.

 
Mulk Ab Badlay Ga
Javed ChaudhryApril 29, 2021

میاں نواز شریف 19 نومبر 2019 کو علاج کے لیے لندن چلے گئے، ملک میں آج بھی یہ تاثر ہے یہ ڈیل کے ذریعے باہر گئے ہیں اور یہ ڈیل اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی مرضی کے بغیر کی تھی، یہ تاثر جمعہ 23 اپریل کی رات سینئر صحافیوں کے سامنے زائل کر دیا گیا۔

ہمیں بتایا گیا میاں نواز شریف کو فوج نے باہر نہیں بھجوایا تھا، یہ فیصلہ خالصتاً عدلیہ اور حکومت کا تھا تاہم یہ درست ہے وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رائے لی تھی اور انھوں نے ان سے کہا تھا، آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔

آپ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے جانے دیں اور عوام کی طرف سے برا بھلا سنیں یا پھر اگر خدانخواستہ انھیں جیل میں کچھ ہو جاتا ہے تو ایک اور بھٹو برداشت کریں لیکن فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے اور یہ فیصلہ وزیراعظم نے کیا، کابینہ میں تین وزراء کے علاوہ تمام وزیر نواز شریف کو باہر بھجوانے کے حق میں تھے، یہ تمام یہ کہتے رہے، جانے دیں جان چھڑائیں، یہ بھی بتایا گیا فوجی قیادت نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے ان کے حلف کی تقریب کے بعد درخواست کی تھی۔

سیکیورٹی اداروں کی حراست میں موجود لوگوں کے لیے سپریم کورٹ کوئی قانونی راستہ نکال دے، پولیس بھی انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور قبائلی علاقوں میں سول انتظامیہ نہیں ہے، ہم کیا کریں، ہمیں سمجھ نہیں آ رہی، چیف جسٹس نے جواب دیا، ہمارے پاس بھی کوئی قانونی گنجائش موجود نہیں، آپ اگر انھیں یہاں لے آئے تو نیا قانونی بحران پیدا ہو جائے گا، آپ ان کے بارے میں خود فیصلہ کریں چناں چہ سیکیورٹی ادارے ان لوگوں کو اپنے پاس رکھ کر عدلیہ اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سرکاری اعدادوشمار میں جعل سازی (فورجری) کی تھی، سابق حکومت بینکوں سے قرضے لے کر 5 اعشاریہ 8 فیصد گروتھ دکھاتی رہی، اسحاق ڈار سے جب ایک میٹنگ میں میٹروز کے بارے میں یہ پوچھا گیا" حکومت یہ قرضے اور خسارے کیسے پورے کرے گی؟ "تو انھوں نے دائیں بائیں چہرہ ہلا کر کہا "سر کچھ فیصلے سیاسی ہوتے ہیں " سابق دور حکومت میں ویسپا کمپنی پاکستان میں اسکوٹر سازی کا کارخانہ لگانا چاہتی تھی لیکن وزارت خزانہ نے کمپنی سے کمیشن مانگ لیا۔

افغانستان میں نیٹو کے نمائندے اسٹیفنو پونٹے کاروو (Stefano Pontecorvo)نے الزام لگایا یہ رقم وزیر خزانہ نے مانگی تھی، یہ اطلاع وزیراعظم میاں نواز شریف کو دی گئی لیکن انھوں نے اسے سیریس نہیں لیا، یہ بھی بتایاگیا بھارت کے زعماء نے مذاکرات کے دوران پاکستانی افسروں سے درخواست کی، آپ ہماری کلبھوشن یادیو سے جان چھڑا دیں، یہ ہمارے لیے بوجھ ہے، آپ اگر یہ بوجھ ہٹا دیں گے تو یہ آپ کا احسان ہو گا لیکن کلبھوشن یادیو کی موت پاکستان کو سوٹ نہیں کرتی لہٰذا یہ زندہ ہے اور یہ زندہ رہے گا۔

ایم این اے محسن داوڑ کے بارے میں بتایا گیا، یہ آرمی پبلک اسکول کا طالب علم رہا اور یہ ایک اڈے کی وجہ سے ریاست سے ناراض ہو گیا، یہ نظریاتی لڑائی نہیں لڑ رہا، اڈے پر قبضے کی لڑائی لڑ رہا ہے، ایاز صادق نے 29 اکتوبر 2020کو ٹانگیں کانپنے کا بیان دیا تھا، فوجی حلقوں نے اسے بہت برا محسوس کیا تھا، فوج نے انڈیا کے تین طیارے گرائے تھے، اگر ہماری ٹانگیں کانپتی تو ہم کبھی یہ نہ کرتے لیکن پاکستان نے پوری جرات کے ساتھ یہ کیا۔

ہم نے جب بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا تو بھارت نے ایک دوست ملک کے ذریعے پاکستان کا شکریہ ادا کیا لیکن ایاز صادق نے یہ بیان دے کر فوج کا مورال اور دل دونوں توڑ دیے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو زندگی میں پہلی بار شدید غصہ آیا لیکن یہ اپنا غصہ پی گئے، تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں بات ہوئی، یہ میاں نواز شریف نے علامہ طاہر القادری کا زور توڑنے کے لیے بنوائی تھی، ٹی ایل پی نے نومبر 2017 میں فیض آباد میں دھرنا دے دیا، یہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے اشارے پر اسلام آباد آئے تھے۔

ٹی ایل پی شروع میں حکومت سے استعفیٰ مانگ رہی تھی، یہ پھر پوری کابینہ کے استعفے پر آ گئی، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج سے کہا، آپ ان کے ساتھ ڈیل کریں، پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی، فوجی قیادت نے وزیراعظم کو بتایا آپ نے ماڈل ٹاؤن کے ایشو پر پنجاب پولیس کو اکیلا چھوڑ کر پولیس کو ڈی مورلائز کر دیا تھا لہٰذا یہ اب حکومت کا حکم نہیں مان رہی، وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا آپ وزراء کے استعفے نہ دیں کیوں کہ اگر ایک بار یہ روایت پڑ گئی تو پھر یہ روکی نہیں جا سکے گی۔

اسٹیبلشمنٹ کو اس مسئلے میں اس لیے انوالو ہونا پڑا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف نے فوجی مشقوں کے سلسلے میں سعودی عرب کا دورہ کرنا تھااور یہ ایشو اس دورے سے پہلے حل ہونا ضروری تھا ورنہ ملک کی جگ ہنسائی ہوتی چناں چہ ٹی ایل پی کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنا پڑ گیا، شاہد خاقان عباسی امریکا میں اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے، سابق وزیراعظم نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے ملک کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے انھیں امریکا جانے کی اجازت لے کر دی، یہ حکومت سے درخواست نہیں کرنا چاہتے تھے۔

حکومت نے تینوں وزراء خزانہ اپنی مرضی سے لگائے اور انھیں فارغ کیا، اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رائے نہیں دی، لاہور ہائی کورٹ کے 46 ججوں میں سے 35 میاں نواز شریف کے دور میں بھرتی ہوئے لہٰذا حکومتی ارکان اور اپوزیشن اس وجہ سے عدلیہ پر جانب داری کا الزام لگاتی ہے۔

عدلیہ پر یہ الزامات نہیں لگنے چاہییں، پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو پتا چلا وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کی اہم دستاویزات لیک ہو رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے تحقیقات کیں، یہ بات درست نکلی، وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کا سسٹم "ہیک" ہو چکا تھا، میٹنگز کے منٹس تک ملک سے باہر جا رہے تھے، یہ بھی پتا چلا ہماری معلومات بھارت بھی جا رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے یہ سسٹم ٹھیک کیا اور یہ اب "فول پروف" ہو چکا ہے۔

ملک کے معاشی اور سماجی حالات کے بارے میں بتایا گیا، چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ہم کب تک آپ کی سب اسٹینڈرڈ چینی خریدتے رہیں گے، آپ چینی کے علاوہ کچھ کیوں نہیں بناتے؟ ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم پروڈکشن میں بہت پیچھے ہیں، ویت نام اور بنگلہ دیش تک ہم سے آگے نکل گئے ہیں، ہمیں صنعت اور پیداوار پر توجہ دینی ہو گی، ہم نے ماضی میں غلطیاں کیں، جنرل ضیاء الحق سے بھی غلطی ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے بھی کوتاہی کی اور ہماری سیاسی قیادتیں بھی غلطیاں کرتی رہیں لیکن ہم اگر ان غلطیوں کو روتے رہے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

ہم نے آگے بڑھنا ہے، یہ بھی بتایا گیا اسٹیبلشمنٹ کا ماضی میں افغانستان اور کشمیر پر موقف سخت ہوتا تھا، عوام، سیاست دان اور میڈیا تینوں اسٹیبلشمنٹ پر اعتراض کرتے تھے لیکن آج اسٹیبلشمنٹ خود یہ معاملات درست کرنا چاہتی ہے، ہم چاہتے ہیں ہم جنگوں اور تنازعوں سے نکل کر آگے بڑھیں لیکن ہماری نیت پر اب بھی شک کیا جاتا ہے، یہ رویہ ٹھیک نہیں، پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جنرل ایوب خان کا دور دیکھا تھا۔

اس وقت سائیکل کی بتی نہ ہونے پر جرمانہ ہوتا تھا اور زیبرا کراس کے علاوہ سڑک پار کرنے کا تصور تک نہیں تھا، ہم ملک کو واپس اس جگہ لے جانا چاہتے ہیں، قانون کی حکمرانی ہو اور معاشرہ پھل پھول رہا ہو، یہ بھی بتایا گیا نواز شریف ملک دشمن نہیں ہیں، یہ محب وطن ہیں اور وہ موجودہ آرمی چیف کو بہت عزت دیتے تھے، فوج بھی ان کی عزت کرتی ہے لیکن جہاں تک ان کے کیسز کا معاملہ ہے یہ فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، عمران خان کا "ورلڈ ویو" بہت اچھا ہے، یہ دنیا کے بڑے حکمرانوں کو بہت اچھی طرح ٹیکل کرتے ہیں۔

یہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے گئے تو امریکا کی ساری کابینہ ان کے سامنے بیٹھی تھی، عمران خان نے گفتگو شروع کی تو تھوڑی دیر میں یوں محسوس ہو رہا تھا یہ امریکا کے صدر ہیں، ساری امریکی کابینہ ان کی کابینہ ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ مہمان وزیراعظم ہیں، ہمیں مڈل ایسٹ کی تبدیلیوں کو بھی سمجھنا ہوگا، عرب ملکوں میں نوجوان اقتدار میں آ چکے ہیں، یہ اپنے بزرگوں سے مختلف ہیں، یہ دنیا کو تجارتی فائدے اور نقصان کی نظروں سے دیکھتے ہیں لہٰذا ہم اب زیادہ دیر تک ایک دوسرے کو بھائی بھائی نہیں کہہ سکیں گے۔

ہمیں اپنی معاشی پوزیشن بڑھانی ہو گی، ہم ہر سال چار ارب ڈالر کا پٹرول خریدتے ہیں اور انڈیا 40 ارب ڈالر کا، آپ خود سوچیں عرب ملکوں کو کس کے ساتھ تجارت میں فائدہ ہے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا، ہم اگر معاشی طاقت ہیں تو دنیا ہماری عزت کرے گی ورنہ دنیا میں کوئی ملک ہمیں سپورٹ نہیں کرے گا اور ہمیں یہ بھی بتایا گیا فوجی قیادت جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بہت عزت کرتی ہے، جنرل کیانی نے جتنا کام کیا اتنا دس آرمی چیف مل کر بھی نہیں کر سکتے تھے، ملک جا رہا تھا، جنرل کیانی نے اسے بچایا اور یہ بھی بتایا گیا پاکستان اب پرانی ڈگر پر نہیں چل سکتا، ہمیں ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا ہو گا اور اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، یہ ملک سب کا ہے اور یہ سب کی ذمے داری بھی ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------

Ye Mulk Hai Tissue Paper Nahi
Javed ChaudhryMay 06, 2021Express10662155

آج پاکستان میں صحافیوں کی فہرست بنائی جائے تو طلعت حسین پہلے چند ناموں میں آئیں گے، پرنٹ میڈیا ہو، ٹیلی ویژن ہو یا پھر سوشل میڈیا ہو طلعت حسین نے اس میں اپنا مقام بھی بنایا اور نقش بھی چھوڑا، یہ آج کل اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں، ان کی ویڈیوز وائرل بھی ہوتی ہیں، طلعت صاحب نے چند دن قبل میرے کالم "ملک اب بدلے گا" کے ریفرنس سے وی لاگ کیا تھا اور اس میں اسحاق ڈار صاحب کا انٹرویو کیا تھا، میں نے یہ انٹرویو دیکھا لہٰذا میں نہایت ادب سے طلعت حسین سے احتجاج کرنا چاہتا ہوں، میں نے کالم میں جس بریفنگ کا حوالہ دیا تھا طلعت صاحب اس میں موجود نہیں تھے۔
میرا کالم بھی تفصیلی نہیں تھا، طلعت صاحب نے اس مختصر کالم کے اندر سے انتہائی چھوٹا حصہ اٹھایا اور اس پر پورا پروگرام کر دیا، یہ اگر پروگرام سے قبل میرے ساتھ رابطہ کر لیتے، یہ مجھ سے تفصیل پوچھ لیتے یا آئی ایس پی آر سے تصدیق کر لیتے تو تصویر کا دوسرا رخ بھی ان کے سامنے آ جاتااور یوں ان کا وی لاگ غیر جانب دار اور ٹھوس ہو جاتالیکن "ون سائیڈڈاینگل" کی وجہ سے ان کا پروگرام جانب دار اور غیرمتوازن ہو گیاجس کی وجہ سے میں حقائق کلیئر کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
میں اسحاق ڈار صاحب کا بھی احترام کرتا ہوں، یہ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے ہیں، یہ حضرت داتا گنج بخشؒ اور حضرت بری امامؒ کے بھی عقیدت مند ہیں لیکن اس کا ہرگز، ہرگز یہ مطلب نہیں یہ غلطیوں یا کوتاہیوں سے پاک ہیں، اسحاق ڈار صاحب سے بھی غلطیاں ہوئیں اور قوم کو ان غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے، ہم اگر واقعی اس ملک سے محبت کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا ہوگا اور ان کی اصلاح بھی ورنہ یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔
میرے کالم میں ڈار صاحب سے متعلق تین واقعات تھے، میں تینوں کی تفصیل لکھ دیتا ہوں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔ پہلا واقعہ قرضوں سے متعلق تھا، ڈار صاحب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعتراضات کو سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف یہ بتادیں کیا وزیراعظم کا آفس 2016 سے قرضوں کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار نہیں کر رہا تھا؟ کیا پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد ہر میٹنگ میں یہ نہیں کہتے تھے ہم نے اگر اپنی گروتھ سسٹین نہ کی تو ہم2019 میں قرضے ادا نہیں کر سکیں گے اور کیا 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ نہیں ہوئی تھی اور اس میٹنگ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ایئر چیف مارشل سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ شامل نہیں تھے اور اس میٹنگ میں احسن اقبال نے سی پیک پر بریفنگ نہیں دی تھی اور اس بریفنگ کے بعد آرمی چیف نے اسحاق ڈار سے یہ نہیں پوچھا تھا۔
ڈار صاحب فنانشل ایکسپرٹس کہہ رہے ہیں ہم نے بھاری سود پر قرضے لے لیے ہیں، ہم یہ ادا نہیں کر سکیں گے اور کیا ڈار صاحب خاموش نہیں رہے تھے اور پھر وزیراعظم کے اشارے پر فواد حسن فواد نے جواب نہیں دیا تھا اور فواد صاحب نے یہ تسلیم نہیں کیا تھا" اورنج لائن میٹرو ٹرین کو سی پیک میں شامل کرنے کی وجہ سے انٹرسٹ میں اضافہ ہوا" اورکیا فواد صاحب نے یہ بھی نہیں مانا تھا" یہ قرضے 2019میں پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوں گے؟ " ڈار صاحب جواب دیں! سچ تو یہ ہے جنرل باجوہ نے اس وقت اسحاق ڈار سے کہا تھا۔
ڈار صاحب اگر ہم میٹرو کا ٹکٹ 240 روپے رکھیں تو بھی ہم بڑی مشکل سے قسطیں ادا کرسکیں گے، آپ ہمیں سمجھائیں ہم 20 روپے چارج کر کے قرضہ کیسے ادا کریں گے؟ جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا تھا، میں قرضوں کے خلاف نہیں ہوں لیکن ہمیں قرضے لے کر تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے منصوبے بنانے چاہییں، یہ پانچ سات سال میں اپنی کاسٹ بھی پوری کر لیتے ہیں اور ملک کو بھی لانگ ٹرم فائدے ہوتے ہیں، ہم 240 روپے کا ٹکٹ 20 روپے میں بیچ کر یہ قرضہ کیسے اتاریں گے؟ ڈار صاحب نے اس وقت چہرہ دائیں بائیں گھما کر کہا تھا"جنرل صاحب کچھ فیصلے سیاسی بھی ہوتے ہیں " اور اس واقعے کے تین سروسز چیفس سمیت چالیس لوگ گواہ ہیں۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں فواد حسن فواد، وزیراعظم میاں نواز شریف اور چین کی حکومت تینوں اورنج لائن میٹرو ٹرین کے خلاف تھے، چین اسے سی پیک میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا، فواد حسن فواد حیات ہیں، آپ ان سے پوچھ لیں کیا یہ کابینہ کے اجلاس میں یہ نہیں کہتے تھے یہ منصوبے عقل مندی نہیں، ہم اس کے قرضے ادا نہیں کر سکیں گے، یہ میٹرو بسوں کے بھی حق میں نہیں تھے، ان کا کہنا تھا ہم اس رقم سے لاہور میں 22 لینز بنا سکتے ہیں لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی، میں نے کل تصدیق کے لیے فواد حسن فواد کو فون کیا تو انھوں نے اعتراف کیا " چینی زعماء اور نواز شریف بھی اس منصوبے پر خوش نہیں تھے"لیکن ڈار صاحب آج بھی اسے اپنا اسٹار پراجیکٹ کہہ رہے ہیں۔ ہم اب آتے ہیں ویسپا کے ایشو پر، ا سٹیفنو پونٹے کوروو (Stefano Pontecorvo) پاکستان میں اٹلی کے سفیر تھے۔
یہ آج کل افغانستان میں نیٹو کے سول نمایندے ہیں، یہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس گئے تھے اور انھوں نے کہا تھا ویسپا پاکستان میں دو پلانٹ لگانا چاہتا ہے لیکن وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ویسپا کی انتظامیہ سے کمیشن مانگ لیا، جنرل باجوہ نے یہ ایشو بھی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں اٹھایا تھا، کمیٹی میں شامل تمام لوگوں نے یہ بات سنی تھی لیکن کسی نے اسحاق ڈار سے وضاحت نہیں مانگی تھی، میں نے بھی یہ بات 2017 میں سنی تھی اور اس کی تصدیق بھی کی تھی، اس میٹنگ میں موجود لوگ آج بھی حیات ہیں اور آپ ان سے بھی کنفرم کر سکتے ہیں۔
حکومت ویسپا اورا سٹیفنو سے بھی پوچھ سکتی ہے اور جنرل باجوہ بھی موجود ہیں، آپ ان سے پوچھ لیں۔ یہ الزامات درست ہیں یا غلط یہ صرف وہ اللہ جانتا ہے جس کو ہم سب نے جان دینی ہے چناں چہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے جہاں تک ممکن ہو ہم سچ بولیں تاکہ ہم اپنے ضمیر اور اپنے رب کے سامنے شرمندہ نہ ہوں، مجھے اسحاق ڈار یا جنرل باجوہ دونوں سے کوئی غرض نہیں، میری غرض صرف یہ ملک ہے، یہ ہے تو ہم سب ہیں، یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں چناں چہ اوپر اللہ اور نیچے یہ ملک اور بس۔
میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار نے ملک سے باہر جا کر اس ملک اور عوام دونوں سے زیادتی کی، میاں نواز شریف اگر اس بار جیل برداشت کر جاتے یا یہ علاج کرا کے واپس آ جاتے تو آج ان کا سیاسی قد ملک کے تمام سیاسی قدوں سے بلند ہوتا، اللہ تعالیٰ نے انھیں دوسری بار اصلی اور بڑا لیڈر بننے کا موقع دیا لیکن افسوس انھوں نے یہ بھی کھو دیا اور آج جب آصف علی زرداری ان سے کہتے ہیں "میاں صاحب پاکستان واپس آئیں، لڑنا ہے تو سب کو جیل جانا ہوگا" تو نواز شریف کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، اسحاق ڈار بھی لندن میں بیٹھ کر"سچ" بول رہے ہیں، یہ اگر سچے ہیں تو یہ واپس آئیں اور میدان میں کھڑے ہو کر ویسپا، میٹروز اور قرضوں کا جواب دیں، آئی ایم ایف اور حکومت دونوں ان پر اعدادوشمار میں جعل سازی (فورجری) کا الزام لگا رہی ہیں۔
یہ واپس آئیں اور سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیں، اگر میاں شہباز شریف کینسر کے مریض ہونے کے باوجود دو مرتبہ جیل جا سکتے ہیں، حمزہ شہباز 20ماہ جیل میں رہ سکتے ہیں، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ جیلیں، مقدمے اور عدالتیں بھگت سکتے ہیں، اگر احسن اقبال گولی کھا کر بھی میدان میں کھڑے رہ سکتے ہیں، میاں جاوید لطیف غداری کے مقدمے بھگت سکتے ہیں اور حنیف عباسی 25سال کی سزا سن کر بھی میدان نہیں چھوڑ رہا تو اسحاق ڈار ساڑھے تین سال سے لندن میں کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ تماشا دیکھیں، یہ لندن میں بیٹھے بیٹھے سینیٹر بن گئے اور حلف اٹھانے کے لیے بھی پاکستان نہیں آئے، ڈار صاحب کے خلاف تمام الزامات غلط ہو سکتے ہیں لیکن اسحاق ڈار کو انھیں غلط ثابت کرنے کے لیے واپس آنا ہو گا، یہ واپس آئیں اور الزام لگانے والوں کے خلاف کیس کریں۔
یہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ثابت کریں میٹروز بنانے کا فیصلہ درست تھا اور حکومت کس کھاتے سے رقم نکال کر ادائیگیاں کر سکتی ہے، یہ ثابت کریں قرضے بھی ٹھیک لیے گئے تھے اور شرح سود بھی کم تھی اور حکومت کے اعدادوشمار میں بھی کسی قسم کی جعل سازی نہیں تھی، اگر مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہنے کے بعد کیس بھگت سکتے ہیں تو اسحاق ڈار کیوں نہیں؟ یہ لندن میں بیٹھ کر "سچ" کیوں بول رہے ہیں؟ ان کے پاس یقینا معلومات ہوں گی، یہ سچے بھی ہو سکتے ہیں لیکن انھیں بہرحال خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے واپس آنا ہو گا، ہمیں اب کم از کم وائسرائے کے دور سے آگے نکل جانا چاہیے، یہ زیادتی ہے آپ کا اقتدار ختم ہو جائے تو آپ لندن چلے جائیں اور اقتدار کے امکانات پیدا ہو جائیں تو آپ وائسرائے بن کر واپس آ جائیں، یہ زیادتی ہے ڈار صاحب! یہ ملک ہے، ٹشوپیپر نہیں۔
 
Thanks for posting this ... more here would turn against Showbaz now :lol:
 
SS is doing wonders for his party in the next elections. Please carry on, the nation is watching you.
 
Back
Top Bottom