What's new

Pictures from Punjab.

Lahore


46358077385_e8b119bfb8_h.jpg




46358076725_d4cc642139_h.jpg




IMG-1705-EFFECTS.jpg


48664434342_78fcdf7118_b.jpg
 
Historical Museum Taxila (Tehsil Rawalpindi)

 
Garrison public library in the city of Multan,


89656804_128611288702583_6632876891822882816_n.jpg




89767378_128611365369242_5513903964069822464_n.jpg



89341056_128611438702568_7792610837331443712_n.jpg
 
Faisalabad Today - Images Taken by : GOPRO HERO 8


90070927_2809653179122619_6238025335527440384_o.jpg


.


اوچھالی جھیل کا ایک سحر انگیز نظارہ




90039221_3055152501171555_3975924270416003072_n.jpg
 
شاہکوٹ پہاڑی کے دیدہ زیب مناظر، بابا نو لکھ ہزاری کا دربار اور شاہکوٹ کی مختصراً ہسٹری ·˙

از: محمد سلمان منیر

شاہکوٹ صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کی تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے اور اسکی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ ہے۔ شاہکوٹ کی وجہ شہرت اسکی تقریبآ 700 سال پرانی تاریخ، بابا نو لکھ حاضری کا دربار اور شاہکوٹ قلعہ/ پہاڑی (قلعہ تو خیر اب دوربین سے گورنے پر بھی نہیں ملتا، ہاں البتہ، پہاڑی کا کچھ حصہ ضرور قائم و دائم ہے۔ کُچھ حصہ اس لیے کہ رہا ہوں، کہ جس طرح کسی بھی خاص کام کے لیے گورنمنٹ کا دیا گیا فنڈ، نیچے تک پہنچتے پہنچتے آخر میں کُچھ حصہ ہی بچتا ہے بلکل اسکی طرح سابقہ حکمرانوں نے اس پہاڑی اور قلعے کی حالت ایسی بگاڑی، کہ اسکا کچھ حصہ ہی بچ پایا۔ باقی پہاڑی کا پتھر بمبوں سے اڑا کے اللہ جانے کہاں غائب( فروخت) کر دی گیا۔ اگر اس پتھر کو شاہکوٹ کی سڑکوں پر ہی استعمال کر لیا جاتا، تو شاید آج شاہکوٹ کی سڑکیں اتنی خستہ حال نہ ہوتی۔
ارّے یار، شاہکوٹ پہاڑی اور سڑکوں کی خستہ حالی سے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اچھا تو ہم بات کر رہے تھے شاہکوٹ کی تاریخ پر جیسا کہ میں اُوپر ذکر کر چکا ہوں کہ شاہکوٹ کی تاریخ تقریبآ 700 سال پرانی ہے۔ تقریبآ بارویں صدی عیسویں میں سید مراد علی شاہ المعروف بابا نو لاکھ ہزاری ڈیرہ غازی خان سے یہاں تشریف لائے. اس وقت یہ جگہ ہندوؤں مسکن تھی۔ بابا نو لاکھ ہزاری نے اس علاقے کو دین اسلام کی روشنی سے روشناس کرایا۔ یوں یہ علاقہ آہستہ آہستہ آباد ہونا شروع ہوا۔ جب انکی شہرت کے چرچے بڑھے تو یہی شاہکوٹ کی پہاڑی انکی تبلیغ کے لیے مرکزی جگہ بنی۔ نواحی علاقوں سے لوگ علم کی غرض سے انکے پاس آنے لگے۔ اس پہاڑی پر آج بھی انکی کرامات کے نشانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی کا یہ کچھ مرکزی حصہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ جیسا کہ آج سے سات سو سال پہلے تھا۔
شاہکوٹ کے کچھ سابقہ حکمران باقی کی ساری پہاڑی تو ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر اس مخصوص مرکزی حصے کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
دراصل یہ مخصوص حصہ پہاڑی کی چوٹی ہے۔ جہاں بابا نو لکھ ہزاری نے اپنی کرامات دکھائیں۔ جس میں انہوں نے بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ میں پانی پلا دیا۔ شاید آپ سوچ رھے ھوں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہی تو کرامت ہے۔ اس شیر اور بکری کے پاؤں کے نشانات اور گھاٹ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ ان نشانات کو دیکھنے کے لیے سارا سال شاہکوٹ اور اسکے نواحی علاقوں سے لوگ شاہکوٹ پہاڑی کا رخ کرتے ہیں اور یہی خاص جگہ شاہکوٹ پہاڑی کی وجہ شہرت بھی ہے۔
سید مراد علی شاہ المعروف بابا نو لکھ ہزاری کو شاہکوٹ میں وہی مقام حاصل ہے۔ جو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش ہجویری کے دربار کو حاصل ہے۔ ہر سال 23 مارچ کو بابا نو لاکھ ہزاری کی عرس کی تقریبات جوشِ و جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
بابا نو لاکھ ہزاری کی تبلیغ کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ یہاں اسلام کا بول بالا ہوا اور لوگوں کی چہل پہل بڑھتی رہی۔ اور یہ علاقہ آباد ہونا شروع ہوا۔ اور یوں انیسویں صدی آن پہنچی اور یہ علاقہ جہاں پہلے ساندل بار کے جنگل ہوا کرتے تھے۔ "تیرتھ گڑھ" کا نام دیا گیا. جوکہ شاہکوٹ کا پرانا نام ہے۔ شاہکوٹ کی آبادی کے لحاظ سے اسکی تاریخ ڈیڑھ، دو سو سال پرانی ہے جبکہ علاقائی اعتبار سے تقریباً سات سو سال۔
سو، یہ رہی پہاڑی کی کچھ تاریخ، آئیے اب کچھ مناظر پر بھی بات کر لیں
سابقہ حکمرانوں کے پہاڑی سے پتھر نکالنے سے البتہ یہ کافی چھوٹی رہ گئی۔۔۔۔مگر اسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پتھر نکالنے سے کچھ دلکش مناظر وجود میں آ گئے۔۔۔۔ سو، مجھ جیسے منظر بازوں کو اور کیا چاہیے
وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا

کوئی دلکش نظارہ ہو، کوئی دلچسپ منظر ہو...
طبیعت خود بہل جاتی ہے بہلائی نہیں جاتی...

بس یہی دل بہلانے کو کچھ دن پہلے جب شام کو آسمان کالی گھٹاؤں سے بھر گیا۔ تو پھر ہم جیسے منظر بازوں سے کہاں رُکا جا سکتا ہے۔ سو، کیمرہ اٹھایا اور پہاڑی پے چڑھ دوڑے۔
شاہکوٹ پہاڑی کی سب سے اچھی بات ایک تو یہ ہے کہ غروب آفتاب کا منظر بہت دلکش ہوتا ہے اور دوسرا پورے شاہکوٹ کا ایریل ویو نظر آتا ہے جو کہ بہت دیدہ زیب ہوتا ہے۔

یہ پہاڑی کبھی قلعہ ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اگر ماہرِ geologist کی موجودگی میں یہاں کھدائی کروائی جائے تو ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں رہنے والے لوگوں کی نواردات کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس، اس پر کبھی ہی کسی حکومت نے کان تک نہیں دھرے۔ اگر حکومت چاہے تو اس جگہ کو بھی ہرن مینار شیخوپورہ کی طرز پر ڈیویلپ کیا جا سکتا ہے۔ پہاڑی کی ایک طرف پانی کا کافی بڑا ذخیرہ ہے۔ جوکے پتھر نکالنے اور کھدائی کے بعد زمین سے نکلا ہے قدرتی پانی ہے۔ سو، اس جگہ کو ہرن مینار کی طرح ایک ہل پارک کی شکل دی جا سکتی ہے اور اؤٹنگ کے لیے بہترین سیاحتی مقام اور پکنک پوائنٹ بنایا جا سکتا ہے۔
اُمید کرتا ہوں کہ میری یہ چھوٹی سی تحریری اور تصویری کاوش آپکو پسند آئی ہوگی۔ نیچے دی گئی تصویریں کچھ دن پہلے ایک شام کی کھچی ہوئی ہیں۔۔۔جس دن کالی گھٹاؤں کا راج تھا

اگر پسند آئیں۔ تو شیطان آپکو شیئر کرنے سے روکے گا

(تحریر: محمد سلمان منیر)


90469012_564880334378097_7467306247646085120_o.jpg



90502623_564880441044753_4034874255626731520_o.jpg



90555255_564880531044744_3192542370432286720_o.jpg


90502620_564880667711397_8457709458242404352_o.jpg



90085032_564880777711386_8398164856284381184_o.jpg


89977918_564885154377615_4579431698797690880_o.jpg
 
چنیوٹ, دریائے چناب شام کامنظر
Chiniot, River Chenab evening view



90177796_1271726673031946_3641267449573146624_n.jpg
 
Sargodha: Aerial view of Gol chowk mosque



67410264_2374872035940607_5860497985086947328_o.jpg


جھالر جھیل


65379705_2324421024319042_3834734453284929536_n.jpg




سکیسر سے اوچھالی جھیل .. Skashur

65284185_2324420614319083_4954213122027028480_n.jpg
 
بھابڑہ جبی شریف دامن مہاڑ سے ایک دلکش منظر




90797108_3081993798487425_1138632522075209728_n.jpg
 
Back
Top Bottom