What's new

مستونگ دھماکے کے بمبار کی شناخت کیسے ہوئی؟

Imran Khan

PDF VETERAN
Joined
Oct 18, 2007
Messages
68,815
Reaction score
5
Country
Pakistan
Location
Pakistan
مستونگ دھماکے کے بمبار کی شناخت کیسے ہوئی؟

ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی





5 گھنٹے پہلے



اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
شیئر


17 جولائی کی رات پولیس سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابیجی کے محلے غریب آباد کا گھیراؤ کرتی ہے۔

ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ دروازہ کھولنے والے شخص کی عمر 60 برس کے لگ بھگ ہے۔ اس سے پہلا سوال ہوتا ہے، حفیظ نواز کون ہے؟

وہ بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا ہے۔ دوسرا سوال ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بلاجھجھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے۔

اور ان دو سادہ سوالوں کی مدد سے سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ کرنے والے حفیظ نواز کی شناخت کرنے میں کامیابی مل جاتی ہے۔

پولیس کو یہ تفصیلات بتانے والے حفیظ کے والد محمد نواز تھے۔

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 13 جولائی کو خودکش حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

حفیظ اس جلسے میں چوتھی قطار میں بیٹھا ہوا تھا اور جس وقت نوابزادہ سراج رئیسانی خطاب کے لیے آئے تو اس نے سٹیج کے پاس آ کر اپنے آپ کو اڑا دیا تھا۔

مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں مزید پڑھیے
’مستونگ میں خودکش حملہ کرنے والا سندھ کا رہائشی تھا‘

مستونگ دھماکہ: ’تین بیٹے دیکھنے گئے تھے، تینوں مارے گئے‘

مستونگ دھماکہ: ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 149

نامعلوم سے خودکش بمبار
قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حملے کے چند دن کے اندر ہی حملہ آور کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو نے بی بی سی کو بتایا کہ مستونگ دھماکے کے بعد وہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کوئٹہ اعتزاز گورایہ سے رابطے میں تھے، جنھوں نے انہیں بتایا کہ نامعلوم لاشوں کے فنگر پرنٹ سے ایک نوجوان کی شناخت سندھ کے ضلعہ ٹھٹہ سے ہوئی ہے۔

انھوں نے اس لڑکے کی تفصیلات طلب کیں اور تفتیش کے لیے جب دھابیجی پہنچے تو حفیظ کے والد نے تصدیق کی کہ وہ افغانستان منتقل ہوچکا ہے۔

'جب اس کے والد کو اس نوجوان کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے تصدیق کی کہ یہ اسی کا بیٹا ہے۔'

Image caption حملہ آور حفیظ نواز کا شناختی کارڈ
محمد نواز کا تعلق ایبٹ آباد شہر کے محلے مولیا سے ہے مگر وہ تقریباً 30 سال قبل دھابیجی منتقل ہوگئے تھے، جہاں وہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔

حفیظ کے علاوہ ان کے دیگر بچوں کی پیدائش بھی یہاں ہی ہوئی۔

حفیظ کی خاندان سمیت افغانستان منتقلی
ایس ایس پی پرویز چانڈیو کا کہنا ہے کہ حفیظ کے بڑے بھائی عزیز کی ٹی ٹی پی میں شمولیت کے بعد پورا خاندان افغانستان منتقل ہوگیا جس میں حفیظ کے علاوہ عزیز ایک اور بھائی شکور، تین بہنیں اور والدہ شامل تھیں جو اس وقت سپن بولدک میں موجود ہیں۔

کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کا خیال ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ اور کمانڈر حاجی داؤد محسود میں اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کے بعد حاجی داؤد نے داعش کے ساتھ رجوع کیا۔

واضح رہے کہ حاجی داؤد کراچی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھا لیکن بعد میں افغانستان منتقل ہو گیا۔

ایس ایس پی پرویز کے مطابق حفیظ کے بڑے بھائی عزیز نواز نے بھی حاجی داؤد کے ساتھ داعش میں شمولیت اختیار کرلی اور پورے خاندان کو یہ کہہ کر افغانستان طلب کرلیا کہ داعش خلافت کے قیام کے لیے لڑ رہی ہے اور دوسری زمین ان کے لیے دارلحرب ہے۔

خاندان کے منتقل ہونے کے بعد عزیز اپنے والد پر بھی دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ بھی افغانستان آ جائیں تاہم وہ نہیں گئے۔

کراچی کا مشکوک مدرسہ
کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی تفیش کے دوران کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع ایک مدرسے کا مشکوک کردار بھی سامنے آیا ہے۔

حفیظ نواز اسی مدرسے میں زیر تعلیم رہا تھا اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے اس کا بڑا بھائی عزیز نواز بھی اسی مدرسے میں زیر تعلیم رہا جو بعد میں افغانستان جہاد کے لیے چلا گیا اور پھر اس نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کرلی۔

ایس ایس پی پرویز چانڈیو کے مطابق اس مدرسے کا ریکارڈ تحویل میں لیا گیا اور جو طالب علم حفیظ کے ساتھ پڑھتے تھے ان سے تفتیش کی گئی جس کی مدد سے حفیظ کا ٹیلیفون نمبر مل گیا۔

اس نمبر کی مدد سے حفیظ کے ہینڈلر تک رسائی ہوئی اور کوئٹہ سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہینڈلر مفتی ہدیت اللہ قلعہ سیف اللہ میں مارا گیا۔
_102810500_d3a9570d-e026-44ee-afed-1a422db54303.jpg




متعلقہ عنوانات
 
.
وہ بلاجھجھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے
جب تک یہ افغان جہاد کا کنجر خانہ چلتا رہے گا پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔اور جب تک ہمارے مدرسے افغان کشمیری جہادی پیدا کرتے رہیں گے تب تک ملک میں من دیوانے کا خواب ہے
 
.
وہ بلاجھجھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے
جب تک یہ افغان جہاد کا کنجر خانہ چلتا رہے گا پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔اور جب تک ہمارے مدرسے افغان کشمیری جہادی پیدا کرتے رہیں گے تب تک ملک میں من دیوانے کا خواب ہے
to bhai jan Amerika ka rasta band kr k is afghan jihad k kanjr khany ko bnd kr dain kyun rsta dety hn ap
 
.

Military Forum Latest Posts

Back
Top Bottom