******** bhutto ke pooray khandaan aur saari hospitals ke amlay ko aag laga dene chahiay
https://jang.com.pk/news/682358-irshad-bhatti-column-23-9-2019
ا ن میں سڑک پر تڑپتے 10سالہ بیٹے میر حسن کو گود میں لئے بیٹھی بے بس ماں، وہ میر حسن جسے پاگل کتے نے کاٹا، جسے سلطان کوٹ، شکارپور سرکاری اسپتالوں کے بعد اب لاڑکانہ سرکاری اسپتال میں بھی کتا کاٹنے کی ویکسین نہ ملی، جسے یہ کہہ کر زبردستی لاڑکانہ اسپتال سے نکال دیا گیا کہ اسے کراچی لے جاؤ، دوپہر کا وقت، سخت گرمی، تپتی سڑک، سڑک پر بیٹھی ماں، ماں کی گود میں بے ہوش بیٹا، بیٹے کو ہر سانس پر لگتے جھٹکے، جھٹکوں کے دوران وقفے وقفے سے دوپٹے سے لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے بیٹے کے منہ پر سایہ کرتی، آس پاس گزرتے لوگوں کو دوپٹے کے اشارے سے بلاتی ماں، لوگ آتے، چند لمحوں کیلئے رکتے، اسے دیکھتے، آگے بڑھ جاتے۔
xADVERTISEMENT
Ad
اب میر حسن کے لاغر جسم کے جھٹکوں کا درمیانی وقفہ بڑھ رہا تھا، اسی دوران میر حسن کا باپ صدر دین کئی مرتبہ آجا چکا، ان دو گھنٹوں میں وہ کئی بار کمشنر کے دفتر گیا، ہر بار سیکورٹی اہلکاروں سے دھکے پڑے، اس نے کئی دفعہ لاڑکانہ اسپتال میں جا کر آتے جاتے ڈاکٹروں، نرسوں کی منتیں کیں، کوئی شنوائی نہیں، اسی کشمکش میں دو گھنٹے گزر گئے، آخرکار میر حسن کے جسم نے آخری جھٹکا لیا، سانس نکلی، سر ایک طرف ڈھلکا، ماں کے ہاتھ سے دوپٹہ سڑک پر گرا، ننگے سر ماں نے پسینے سے شرابور مردہ جسم کو زور سے سینے سے لگایا، ماں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، اتنے میں میر حسن کا باپ آیا، وہ بھی وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا، راہگیر اکٹھے ہوئے، گھنٹہ بھر بعد راہگیروں کی مدد سے مردہ میر حسن، زندہ لاشیں بنے ماں، باپ کو گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور گاڑی گوٹھ مبارک کی طرف روانہ ہوگئی۔
یہ میر حسن کہانی، کسی کو کچھ پتا نہ چلتا، اگر آدھ منٹ کی موبائل وڈیو نہ بنتی، سڑک پر ماں کی گود میں لمحہ بہ لمحہ مرتے میر حسن کی تیس سیکنڈ کی وڈیو، اگر آپ نے نہیں دیکھی، ضرور دیکھیں، بلاشبہ بہت دردناک، دل چیر دینے والی، میں خود آٹھویں کوشش کے بعد مکمل دیکھ پایا، ابھی تک دکھی، لیکن آپ ضرور دیکھیں، پتا چلے یہاں عوام کی اوقات کیا، میں نے اپنی زندگی میں اتنی بے بس ماں نہیں دیکھی، ماں کی گود میں اتنی سخت موت نہیں دیکھی، معاشرے کی اتنی بے حسی نہیں دیکھی، یاد رہے، یہ لاڑکانہ، پیپلز پارٹی کا سیاسی قبلہ، بھٹوز کو نام، مقام، اقتدار دینے والا لاڑکانہ، وہ لاڑکانہ جو سندھ میں، وہ سندھ جس پر پیپلز پارٹی حکومت کا مسلسل بارہواں سال، وہ پیپلز پارٹی جو 3دفعہ پاکستان پر حکومت کر چکی، ملاحظہ کریں نام، پاکستان پیپلز پارٹی، مطلب عوام کی جماعت، بانی ذوالفقار علی بھٹو کا ٹائٹل، قائدِ عوام، مطلب عوام کا رہنما، پارٹی کا مشن، سب کچھ عوام کیلئے، اسی پیپلز پارٹی کے پاکستان، سندھ بلکہ سیاسی قبلے لاڑکانہ میں میر حسن کو کتا کاٹنے کی ویکسین نہ ملی، وہ تڑپ تڑپ مر گیا اور یقین جانیے جس لمحے میر حسن کی آخری سانس نکلی، اسی لمحے میرے لئے بھٹو بھی مر گیا۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے بدنصیب میر حسن کی کہانی کا خلاصہ سنتے جائیے، ضلع شکارپور، یونین کونسل جاگن کا گوٹھ مبارک معرفانی، 16ستمبر، گوٹھ کے دو بیٹوں، دو بیٹیوں والے محنت کش صدر دین کے 10سالہ بیٹے میر حسن کو صبح نو بجے گھر کے باہر پاگل کتے نے کاٹا، دو گھنٹوں میں زخمی میر حسن کو ماں، باپ، ماموں لے کر سطان کوٹ کے سرکاری اسپتال پہنچ جائیں، ڈاکٹر مرہم پٹی کر کے کہے، ہمارے پاس کتا کاٹنے کی ویکسین نہیں، اسے سرکاری اسپتال شکارپور لے جاؤ، یہ غریب خاندان نیم بے ہوش میر حسن کو اُٹھا کر سرکاری اسپتال شکارپور پہنچ جائے، انہیں اسپتال کے برآمدے میں بٹھا دیا جائے، ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، تین گھنٹے، برآمدے میں زمین پر بچھی چادر پر بے ہوش پڑا میر حسن، باپ بار بار ڈاکٹر سے پوچھے، ہر بار ’’انتظار کرو‘‘ کا حکم، آخرکار پانچ گھنٹے انتظار کے بعد مغرب کے وقت ڈاکٹر کہے، ہمارے پاس ویکسین نہیں، اسے سرکاری اسپتال لاڑکانہ لے جاؤ، رات ہو چکی تھی، اب لاڑکانہ کا سفر بہت مشکل، صبح جائیں گے، یہ سوچ کر والدین نے میر حسن کو اٹھایا، واپس گاؤں آگئے۔
اگلی صبح یہ گھر سے نکلے، لاڑکانہ پہنچے، جوکچھ لاڑکانہ میں ہوا، وہ بتا چکا، ہاں یہ بتانا بھول گیا، لاڑکانہ اسپتال والوں نے یہ بھی کہا بچے کو کراچی لے جاؤ یا 20ہزار دو، ہم ویکسین منگوا دیتے ہیں، کراچی لے جانے والی میر حسن کی حالت نہ تھی اور 20ہزار ان غریبوں کے پاس تھے نہیں.
لہٰذا میر حسن اسپتال کے سامنے سڑک پر ہی مر گیا، جیسا آپ کو بتایا، جب سے میں نے یہ کربناک موت والی وڈیو دیکھی، دل دکھی، آنکھیں بھیگی بھیگی، لیکن اسی دوران نجانے کیوں دل چاہا میر حسن کی والدہ سے بات کروں، میں نے تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد کے روزنامہ جنگ کے نمائندے دوست عبدالحفیظ بھٹی سے کہا مجھے میر حسن کے والد کا ٹیلی فون نمبر ڈھونڈ کر دو، اس نے تین چار گھنٹوں کی محنت کے بعد میر حسن کے والد صدر دین کا نمبر دیا، فون کیا، ماں، باپ سے سلام دعا، تفصیلی بات میر حسن کے ماموں محمد رفیق سے ہوئی، یہ سب جو لکھا، اسی کا بتایا ہوا۔
آخر پر سندھ حکومت کے دو جھوٹ، سعید غنی کا کہنا، میر حسن کو 30دن پہلے کتے نے کاٹا، حالانکہ میر حسن کو ایک دن کتے نے کاٹا اگلے دن وہ لاڑکانہ میں تھا، دوسرا جھوٹ، اسپتالوں میں ویکسین نہیں، اگر ایسا ہے تو میر حسن خاندان سے کیوں کہا گیا، 20ہزار دیں، ویکسین مل جائے گی، میر حسن کے ماموں کے مطابق ویکسین ہے مگر صرف وی آئی پی مریضوں کیلئے، غریبوں کیلئے نہیں، یہ بھی سنتے جائیے، لاڑکانہ اسپتال میں میرحسن کے لواحقین سے 20ہزار مانگے گئے، ان کے پاس نہیں تھے، میر حسن مر گیا، لیکن جس دن میر حسن کو دفنایا گیا، اسی شام ڈپٹی کمشنر شکارپور کے دفتر سے کوئی آکر انہیں 20ہزار دے گیا، بقول میر حسن کے ماموں ’’ہم 20ہزار ہاتھ میں پکڑے سوچ رہے تھے یہ دو دن پہلے مل جاتے تو عین ممکن، میر حسن بچ جاتا‘‘۔
https://jang.com.pk/news/682358-irshad-bhatti-column-23-9-2019
ا ن میں سڑک پر تڑپتے 10سالہ بیٹے میر حسن کو گود میں لئے بیٹھی بے بس ماں، وہ میر حسن جسے پاگل کتے نے کاٹا، جسے سلطان کوٹ، شکارپور سرکاری اسپتالوں کے بعد اب لاڑکانہ سرکاری اسپتال میں بھی کتا کاٹنے کی ویکسین نہ ملی، جسے یہ کہہ کر زبردستی لاڑکانہ اسپتال سے نکال دیا گیا کہ اسے کراچی لے جاؤ، دوپہر کا وقت، سخت گرمی، تپتی سڑک، سڑک پر بیٹھی ماں، ماں کی گود میں بے ہوش بیٹا، بیٹے کو ہر سانس پر لگتے جھٹکے، جھٹکوں کے دوران وقفے وقفے سے دوپٹے سے لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے بیٹے کے منہ پر سایہ کرتی، آس پاس گزرتے لوگوں کو دوپٹے کے اشارے سے بلاتی ماں، لوگ آتے، چند لمحوں کیلئے رکتے، اسے دیکھتے، آگے بڑھ جاتے۔
xADVERTISEMENT
Ad
اب میر حسن کے لاغر جسم کے جھٹکوں کا درمیانی وقفہ بڑھ رہا تھا، اسی دوران میر حسن کا باپ صدر دین کئی مرتبہ آجا چکا، ان دو گھنٹوں میں وہ کئی بار کمشنر کے دفتر گیا، ہر بار سیکورٹی اہلکاروں سے دھکے پڑے، اس نے کئی دفعہ لاڑکانہ اسپتال میں جا کر آتے جاتے ڈاکٹروں، نرسوں کی منتیں کیں، کوئی شنوائی نہیں، اسی کشمکش میں دو گھنٹے گزر گئے، آخرکار میر حسن کے جسم نے آخری جھٹکا لیا، سانس نکلی، سر ایک طرف ڈھلکا، ماں کے ہاتھ سے دوپٹہ سڑک پر گرا، ننگے سر ماں نے پسینے سے شرابور مردہ جسم کو زور سے سینے سے لگایا، ماں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، اتنے میں میر حسن کا باپ آیا، وہ بھی وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا، راہگیر اکٹھے ہوئے، گھنٹہ بھر بعد راہگیروں کی مدد سے مردہ میر حسن، زندہ لاشیں بنے ماں، باپ کو گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور گاڑی گوٹھ مبارک کی طرف روانہ ہوگئی۔
یہ میر حسن کہانی، کسی کو کچھ پتا نہ چلتا، اگر آدھ منٹ کی موبائل وڈیو نہ بنتی، سڑک پر ماں کی گود میں لمحہ بہ لمحہ مرتے میر حسن کی تیس سیکنڈ کی وڈیو، اگر آپ نے نہیں دیکھی، ضرور دیکھیں، بلاشبہ بہت دردناک، دل چیر دینے والی، میں خود آٹھویں کوشش کے بعد مکمل دیکھ پایا، ابھی تک دکھی، لیکن آپ ضرور دیکھیں، پتا چلے یہاں عوام کی اوقات کیا، میں نے اپنی زندگی میں اتنی بے بس ماں نہیں دیکھی، ماں کی گود میں اتنی سخت موت نہیں دیکھی، معاشرے کی اتنی بے حسی نہیں دیکھی، یاد رہے، یہ لاڑکانہ، پیپلز پارٹی کا سیاسی قبلہ، بھٹوز کو نام، مقام، اقتدار دینے والا لاڑکانہ، وہ لاڑکانہ جو سندھ میں، وہ سندھ جس پر پیپلز پارٹی حکومت کا مسلسل بارہواں سال، وہ پیپلز پارٹی جو 3دفعہ پاکستان پر حکومت کر چکی، ملاحظہ کریں نام، پاکستان پیپلز پارٹی، مطلب عوام کی جماعت، بانی ذوالفقار علی بھٹو کا ٹائٹل، قائدِ عوام، مطلب عوام کا رہنما، پارٹی کا مشن، سب کچھ عوام کیلئے، اسی پیپلز پارٹی کے پاکستان، سندھ بلکہ سیاسی قبلے لاڑکانہ میں میر حسن کو کتا کاٹنے کی ویکسین نہ ملی، وہ تڑپ تڑپ مر گیا اور یقین جانیے جس لمحے میر حسن کی آخری سانس نکلی، اسی لمحے میرے لئے بھٹو بھی مر گیا۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے بدنصیب میر حسن کی کہانی کا خلاصہ سنتے جائیے، ضلع شکارپور، یونین کونسل جاگن کا گوٹھ مبارک معرفانی، 16ستمبر، گوٹھ کے دو بیٹوں، دو بیٹیوں والے محنت کش صدر دین کے 10سالہ بیٹے میر حسن کو صبح نو بجے گھر کے باہر پاگل کتے نے کاٹا، دو گھنٹوں میں زخمی میر حسن کو ماں، باپ، ماموں لے کر سطان کوٹ کے سرکاری اسپتال پہنچ جائیں، ڈاکٹر مرہم پٹی کر کے کہے، ہمارے پاس کتا کاٹنے کی ویکسین نہیں، اسے سرکاری اسپتال شکارپور لے جاؤ، یہ غریب خاندان نیم بے ہوش میر حسن کو اُٹھا کر سرکاری اسپتال شکارپور پہنچ جائے، انہیں اسپتال کے برآمدے میں بٹھا دیا جائے، ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، تین گھنٹے، برآمدے میں زمین پر بچھی چادر پر بے ہوش پڑا میر حسن، باپ بار بار ڈاکٹر سے پوچھے، ہر بار ’’انتظار کرو‘‘ کا حکم، آخرکار پانچ گھنٹے انتظار کے بعد مغرب کے وقت ڈاکٹر کہے، ہمارے پاس ویکسین نہیں، اسے سرکاری اسپتال لاڑکانہ لے جاؤ، رات ہو چکی تھی، اب لاڑکانہ کا سفر بہت مشکل، صبح جائیں گے، یہ سوچ کر والدین نے میر حسن کو اٹھایا، واپس گاؤں آگئے۔
اگلی صبح یہ گھر سے نکلے، لاڑکانہ پہنچے، جوکچھ لاڑکانہ میں ہوا، وہ بتا چکا، ہاں یہ بتانا بھول گیا، لاڑکانہ اسپتال والوں نے یہ بھی کہا بچے کو کراچی لے جاؤ یا 20ہزار دو، ہم ویکسین منگوا دیتے ہیں، کراچی لے جانے والی میر حسن کی حالت نہ تھی اور 20ہزار ان غریبوں کے پاس تھے نہیں.
لہٰذا میر حسن اسپتال کے سامنے سڑک پر ہی مر گیا، جیسا آپ کو بتایا، جب سے میں نے یہ کربناک موت والی وڈیو دیکھی، دل دکھی، آنکھیں بھیگی بھیگی، لیکن اسی دوران نجانے کیوں دل چاہا میر حسن کی والدہ سے بات کروں، میں نے تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد کے روزنامہ جنگ کے نمائندے دوست عبدالحفیظ بھٹی سے کہا مجھے میر حسن کے والد کا ٹیلی فون نمبر ڈھونڈ کر دو، اس نے تین چار گھنٹوں کی محنت کے بعد میر حسن کے والد صدر دین کا نمبر دیا، فون کیا، ماں، باپ سے سلام دعا، تفصیلی بات میر حسن کے ماموں محمد رفیق سے ہوئی، یہ سب جو لکھا، اسی کا بتایا ہوا۔
آخر پر سندھ حکومت کے دو جھوٹ، سعید غنی کا کہنا، میر حسن کو 30دن پہلے کتے نے کاٹا، حالانکہ میر حسن کو ایک دن کتے نے کاٹا اگلے دن وہ لاڑکانہ میں تھا، دوسرا جھوٹ، اسپتالوں میں ویکسین نہیں، اگر ایسا ہے تو میر حسن خاندان سے کیوں کہا گیا، 20ہزار دیں، ویکسین مل جائے گی، میر حسن کے ماموں کے مطابق ویکسین ہے مگر صرف وی آئی پی مریضوں کیلئے، غریبوں کیلئے نہیں، یہ بھی سنتے جائیے، لاڑکانہ اسپتال میں میرحسن کے لواحقین سے 20ہزار مانگے گئے، ان کے پاس نہیں تھے، میر حسن مر گیا، لیکن جس دن میر حسن کو دفنایا گیا، اسی شام ڈپٹی کمشنر شکارپور کے دفتر سے کوئی آکر انہیں 20ہزار دے گیا، بقول میر حسن کے ماموں ’’ہم 20ہزار ہاتھ میں پکڑے سوچ رہے تھے یہ دو دن پہلے مل جاتے تو عین ممکن، میر حسن بچ جاتا‘‘۔