W.11
BANNED
- Joined
- Jan 20, 2011
- Messages
- 15,032
- Reaction score
- -32
- Country
- Location
دی رائیٹ مین کا اردو ترجمہ (پہلا حصہ)۔
متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر اور ہدایات ، پاکستانیوں کو بہت غور سے سنکر ان پر عمل کرنا چاہیے۔
کچھ لوگوں کو الطاف حسین کی شخصیت کی مقناطیسی قوت کے سے انکار ہونے کے باوجود، کراچی بلکہ پورے شہری سندھ اور پورے پاکستان کی بائیں بازو کی جماعتوں میں اگر کوئی لیڈر ایسا ہے جس نے پوری قوت اور مستقل مزاجی سے پاکستان کی آہستہ آہستہ دہشت گردوں کے سامنے ناکام ہونے کے عمل پر آواز بلند کی ہے تو وہ صرف الطاف حسین ہی ہیں۔الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن 1978 میں قائم کی ۔ جس سے 1984 میں مہاجر قومی مومنٹ نے جنم لیا۔ اپنے ارتقاء کے سے گذرتے ہوئے پاکستان کی سب سے ذیادہ منظم جماعت متحدہ قومی مومنٹ میں 1997 میں تبدیل ہوئی۔ (2002 سے انکی جماعت اسلامہ باد یا کراچی میں حکومت میں شامل رہی ہے) وہ کراچی میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے بعد جلاوطنی اختیار کرکےدسمبر 1991 میں لندن چلے گئے۔ انکی جلاوطنی کے چھ مہینے کے بعد حکومت نے کراچی میں آپریشن کرنا شروع کردیا۔ الطاف حسین دوسرے تمام سیاسی لیڈر ان سے اس لحاظ سے بہت مختلف ہیں کہ وہ مذہب اسلام اور فوج جیسے مشکل مضامین پر بھی بڑے مدلل انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انکے نانا جان بہت بڑے مذہبی اسکالر تھے جبکہ انھوں نے خود بھی آرمی میں کافی عرصے تک بلوچ رجمنٹ میں خدمات انجام دیں۔ ہم نے الطاف حسین صاحب سے پاکستانی سیاست، انکی قانونی مسائل اور بہت سے معاملات پر ان سے باتیں کی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
سوال: متحدہ قومی مومنٹ نے ہمیشہ بلا خوف اور بلند آواز میں طالبان اور انکے اتحادیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے جسکے نتیجے میں آپ کو دہشت گردی اور بم دھماکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مسلح دہشت گردوں نے کراچی میں کہاں تک اپنا اثر قائم کرلیا ہے اور انھیں کیسے قابو کیا جاسکتا ہے؟
جواب: میری تحریک نے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی دونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ طالبان نے ہمارے چار منتخب نمائندوں کو اب تک قتل کیا ہے۔ ان کی اب تک کی آخری شکار محترمہ طاہرہ آصف تھیں جنھیں 18 جون 2014 کو لاہور میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ 2008 سے متحدہ قومی مومنٹ طالبان کے کراچی میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر مستقل آواز اُٹھارہی ہے۔ جب میں سب سے پہلے 2008 میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر پر آواز اُٹھائی تو میرے سیاسی حریفوں نے میرا مذاق اُڑانے کی کوشش کی۔ میرے سیاسی حریفوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں عوام کو خوف ذدہ کرنا چاہتا ہوں اور لسانی کشیدگی پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ میرے خدشاب اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔جب وفاقی انتظامی علاقوں اور سوات میں آپریشن کیا گیا تو وہاں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی اور ان کی درمیان بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے بھی پنا ہ حاصل کرلی۔ اسکے بعد سے طالبان نے کراچی میں اپنی قوت کو بڑھایا اور اب وہ اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں کی جاری رکھنے کے لیے اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کررہے ہیں۔ کراچی کے مقامی انگریزی اخباروں میں کراچی کے ان علاقوں سے جہاں بہت ساری زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں کثیر تعداد میں پیسے کراچی سے باہر منتقل کیے جارہے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں امریکہ کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی کے 40 فیصد حصے پر طالبان قابض ہیں۔ اس اخبار نے تو صرف اس بات کی تصدیق کی ہے جو میں کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں۔ کراچی کے بہت بڑے حصے پر طالبان نے اپنی عدالتیں چلانی شروع کردی ہیں۔ جہاں وہ اپنی مرضی کا نظام عدل چلارہے ہیں اور اپنی مرضی کی شریعت نافذ کررہے ہیں۔ یعنی طالبان نے اپنی ایک متوازی ریاست کراچی میں بنا رکھی ہے۔ اپنی ریاست میں طالبان اپنی مرضی کی سزائیں دیتے ہیں اور جزیہ بھی وصول کرتے ہیں۔کراچی ائیر پورٹ پر طالبان کے حملے نے کراچی کے باشندوں کو حیران نہیں کیا، کیوں کہ وہ اپنے سامنے آہستہ آہستہ مگر بہت منظم طریقے سے طالبان کے اثر کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے مضافات میں کچی آبادیاں طالبان کی پناہ گاہیں ہیں۔ ان آبادیوں میں ریاست کی عملداری نہ ہونے کہ برابر ہے۔ ذیادہ تر بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی کالیں ان ہی علاقوں سے کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوں طالبان نے کراچی کے اردگرد کے بہت بڑی زمینوں پر قبضہ کرلیا ہے ۔ ان کے ان قبضوں کی اہمیت اس لحاض بڑھ جاتی ہے کہ یہ مقبوضہ زمینیں کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت کو لازمی طور پر ان کچی بستیوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے ۔ اگر پاکستان اور پوری دنیا میں دہشت گردی کے لیے ٹرانسفر کیے جانے والے پیسے کو روکنا ہے تو کراچی میں طالبان کی ان پناہ گاہوں کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی میں آنے والے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی نگرانی کرنا بہت ضروری ہے۔
سوال: بطور لبرل اور پروگریسو پارٹی کے متحدہ سے پاکستان میں قدامت پسند اور مذہبی جماعتیں خائف نظر آتی ہیں۔ کیا یہی وجہ ہے کہ متحدہ آج تک حقیقی قومی جماعت کے طور پر اُبھر نہیں پائی ہے؟ آپ پنجاب میں کن عوامل کو ذمہ دار ٹہرائیں گے جس کے باعث اس سب ذیادہ ووٹ بینک والے صوبے میں آپ کو کامیابی نہیں مل پارہی ہے؟
جواب: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ حد تک آپ کا مشاہدہ درست ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں متحدہ نے ہر طرح سے یہ کوشش کی ہے کہ اس کو بطور قومی جماعت کے پذیرائی ملے لیکن جتنا یہ جماعت کوشش کرتی ہے اس سے ذیادہ اس کے راستے میں روکاوٹیں پیدا کردی جاتی ہیں۔ تمام تر روکاوٹوں کے باوجود متحدہ نے سندہ سے باہر کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ آذاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں متحدہ کے دو ممبران شامل ہیں، جبکہ ایک ممبر گلگت بلتسان صوبے کی اسمبلی میں بھی موجود ہے۔ ہمارا یہ پختا یقین ہے کہ متحدہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کے بانی جناب قائد اعظم کے افکار کے مطابق صحیح لبرل اور پروگریسو جماعت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے افکار کا ایک تاریخی تقریر میں اظہار یوں کیا تھا۔ انھوں نے کسی شک و شبہے کہ بغیر صاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان تمام مذہبی اکائیوں کے ماننے والوں کا ملک ہے، یہاں ہر ایک کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کو ایک ایسا ہی ملک دیکھنا چاہتی ہے جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے ان کے مطابق پاکستان کو لبرل پروگرییسو، اچھا پڑوسی، بین المذاہب ایک برداشت کرنے والا ملک ہونا چاہیے تھا۔سویت یونین کے افغانستان میں در اندازی کے بعد پاکستان میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کو جان بوجھ کر مضبوط کیا گیا، اور انھیں ایک دفاعی نظام کے طور پر استعمال کیا گیا۔ حالانکہ سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا لیکن پاکستان میں یہ جماعتیں Frankenstein Monster کی طرح پھلتی پھولتی رہی ہیں۔ اور اب اس عفریت نے اپنے ہی آقاوں بشمول پاکستان کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔ ان قوتوں کا اپنا ہی ایک برانڈیڈ اسلام ہے جس میں دوسری مذہبی اقلیتوں جن میں ہندو، سکھ ، یہودی اور ساتھ ہی ساتھ بہت ساری اسلامی فرقوں کے افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان قوتوں کے یہاں خواتین کو برابری کا درجہ دینا تو دور کی بات ہے انھیں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔میں یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ نہ صرف متحدہ کی لبرل اور پروگریسو پالیسیوں میں روکاوٹ ڈالی جاتی ہے بلکہ متحدہ کو قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ اس کی صرف ایک وجہ یہ ہے کہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا لیڈر کسی فیوڈل گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ متحدہ کے متوسط، متول اور ورکنگ کلاس کے افراد کو فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کی پالیسی سے جاگیردار، اور کرپٹ افسر شاہی خوف ذدہ ہے، جو پاکستان پر اسکی قیام کے بعد سے حکمرانی کررہے ہیں۔بقیہ باقی ——
کچھ لوگوں کو الطاف حسین کی شخصیت کی مقناطیسی قوت کے سے انکار ہونے کے باوجود، کراچی بلکہ پورے شہری سندھ اور پورے پاکستان کی بائیں بازو کی جماعتوں میں اگر کوئی لیڈر ایسا ہے جس نے پوری قوت اور مستقل مزاجی سے پاکستان کی آہستہ آہستہ دہشت گردوں کے سامنے ناکام ہونے کے عمل پر آواز بلند کی ہے تو وہ صرف الطاف حسین ہی ہیں۔الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن 1978 میں قائم کی ۔ جس سے 1984 میں مہاجر قومی مومنٹ نے جنم لیا۔ اپنے ارتقاء کے سے گذرتے ہوئے پاکستان کی سب سے ذیادہ منظم جماعت متحدہ قومی مومنٹ میں 1997 میں تبدیل ہوئی۔ (2002 سے انکی جماعت اسلامہ باد یا کراچی میں حکومت میں شامل رہی ہے) وہ کراچی میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے بعد جلاوطنی اختیار کرکےدسمبر 1991 میں لندن چلے گئے۔ انکی جلاوطنی کے چھ مہینے کے بعد حکومت نے کراچی میں آپریشن کرنا شروع کردیا۔ الطاف حسین دوسرے تمام سیاسی لیڈر ان سے اس لحاظ سے بہت مختلف ہیں کہ وہ مذہب اسلام اور فوج جیسے مشکل مضامین پر بھی بڑے مدلل انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انکے نانا جان بہت بڑے مذہبی اسکالر تھے جبکہ انھوں نے خود بھی آرمی میں کافی عرصے تک بلوچ رجمنٹ میں خدمات انجام دیں۔ ہم نے الطاف حسین صاحب سے پاکستانی سیاست، انکی قانونی مسائل اور بہت سے معاملات پر ان سے باتیں کی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
سوال: متحدہ قومی مومنٹ نے ہمیشہ بلا خوف اور بلند آواز میں طالبان اور انکے اتحادیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے جسکے نتیجے میں آپ کو دہشت گردی اور بم دھماکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مسلح دہشت گردوں نے کراچی میں کہاں تک اپنا اثر قائم کرلیا ہے اور انھیں کیسے قابو کیا جاسکتا ہے؟
جواب: میری تحریک نے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی دونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ طالبان نے ہمارے چار منتخب نمائندوں کو اب تک قتل کیا ہے۔ ان کی اب تک کی آخری شکار محترمہ طاہرہ آصف تھیں جنھیں 18 جون 2014 کو لاہور میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ 2008 سے متحدہ قومی مومنٹ طالبان کے کراچی میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر مستقل آواز اُٹھارہی ہے۔ جب میں سب سے پہلے 2008 میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر پر آواز اُٹھائی تو میرے سیاسی حریفوں نے میرا مذاق اُڑانے کی کوشش کی۔ میرے سیاسی حریفوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں عوام کو خوف ذدہ کرنا چاہتا ہوں اور لسانی کشیدگی پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ میرے خدشاب اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔جب وفاقی انتظامی علاقوں اور سوات میں آپریشن کیا گیا تو وہاں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی اور ان کی درمیان بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے بھی پنا ہ حاصل کرلی۔ اسکے بعد سے طالبان نے کراچی میں اپنی قوت کو بڑھایا اور اب وہ اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں کی جاری رکھنے کے لیے اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کررہے ہیں۔ کراچی کے مقامی انگریزی اخباروں میں کراچی کے ان علاقوں سے جہاں بہت ساری زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں کثیر تعداد میں پیسے کراچی سے باہر منتقل کیے جارہے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں امریکہ کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی کے 40 فیصد حصے پر طالبان قابض ہیں۔ اس اخبار نے تو صرف اس بات کی تصدیق کی ہے جو میں کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں۔ کراچی کے بہت بڑے حصے پر طالبان نے اپنی عدالتیں چلانی شروع کردی ہیں۔ جہاں وہ اپنی مرضی کا نظام عدل چلارہے ہیں اور اپنی مرضی کی شریعت نافذ کررہے ہیں۔ یعنی طالبان نے اپنی ایک متوازی ریاست کراچی میں بنا رکھی ہے۔ اپنی ریاست میں طالبان اپنی مرضی کی سزائیں دیتے ہیں اور جزیہ بھی وصول کرتے ہیں۔کراچی ائیر پورٹ پر طالبان کے حملے نے کراچی کے باشندوں کو حیران نہیں کیا، کیوں کہ وہ اپنے سامنے آہستہ آہستہ مگر بہت منظم طریقے سے طالبان کے اثر کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے مضافات میں کچی آبادیاں طالبان کی پناہ گاہیں ہیں۔ ان آبادیوں میں ریاست کی عملداری نہ ہونے کہ برابر ہے۔ ذیادہ تر بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی کالیں ان ہی علاقوں سے کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوں طالبان نے کراچی کے اردگرد کے بہت بڑی زمینوں پر قبضہ کرلیا ہے ۔ ان کے ان قبضوں کی اہمیت اس لحاض بڑھ جاتی ہے کہ یہ مقبوضہ زمینیں کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت کو لازمی طور پر ان کچی بستیوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے ۔ اگر پاکستان اور پوری دنیا میں دہشت گردی کے لیے ٹرانسفر کیے جانے والے پیسے کو روکنا ہے تو کراچی میں طالبان کی ان پناہ گاہوں کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی میں آنے والے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی نگرانی کرنا بہت ضروری ہے۔
سوال: بطور لبرل اور پروگریسو پارٹی کے متحدہ سے پاکستان میں قدامت پسند اور مذہبی جماعتیں خائف نظر آتی ہیں۔ کیا یہی وجہ ہے کہ متحدہ آج تک حقیقی قومی جماعت کے طور پر اُبھر نہیں پائی ہے؟ آپ پنجاب میں کن عوامل کو ذمہ دار ٹہرائیں گے جس کے باعث اس سب ذیادہ ووٹ بینک والے صوبے میں آپ کو کامیابی نہیں مل پارہی ہے؟
جواب: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ حد تک آپ کا مشاہدہ درست ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں متحدہ نے ہر طرح سے یہ کوشش کی ہے کہ اس کو بطور قومی جماعت کے پذیرائی ملے لیکن جتنا یہ جماعت کوشش کرتی ہے اس سے ذیادہ اس کے راستے میں روکاوٹیں پیدا کردی جاتی ہیں۔ تمام تر روکاوٹوں کے باوجود متحدہ نے سندہ سے باہر کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ آذاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں متحدہ کے دو ممبران شامل ہیں، جبکہ ایک ممبر گلگت بلتسان صوبے کی اسمبلی میں بھی موجود ہے۔ ہمارا یہ پختا یقین ہے کہ متحدہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کے بانی جناب قائد اعظم کے افکار کے مطابق صحیح لبرل اور پروگریسو جماعت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے افکار کا ایک تاریخی تقریر میں اظہار یوں کیا تھا۔ انھوں نے کسی شک و شبہے کہ بغیر صاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان تمام مذہبی اکائیوں کے ماننے والوں کا ملک ہے، یہاں ہر ایک کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کو ایک ایسا ہی ملک دیکھنا چاہتی ہے جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے ان کے مطابق پاکستان کو لبرل پروگرییسو، اچھا پڑوسی، بین المذاہب ایک برداشت کرنے والا ملک ہونا چاہیے تھا۔سویت یونین کے افغانستان میں در اندازی کے بعد پاکستان میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کو جان بوجھ کر مضبوط کیا گیا، اور انھیں ایک دفاعی نظام کے طور پر استعمال کیا گیا۔ حالانکہ سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا لیکن پاکستان میں یہ جماعتیں Frankenstein Monster کی طرح پھلتی پھولتی رہی ہیں۔ اور اب اس عفریت نے اپنے ہی آقاوں بشمول پاکستان کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔ ان قوتوں کا اپنا ہی ایک برانڈیڈ اسلام ہے جس میں دوسری مذہبی اقلیتوں جن میں ہندو، سکھ ، یہودی اور ساتھ ہی ساتھ بہت ساری اسلامی فرقوں کے افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان قوتوں کے یہاں خواتین کو برابری کا درجہ دینا تو دور کی بات ہے انھیں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔میں یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ نہ صرف متحدہ کی لبرل اور پروگریسو پالیسیوں میں روکاوٹ ڈالی جاتی ہے بلکہ متحدہ کو قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ اس کی صرف ایک وجہ یہ ہے کہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا لیڈر کسی فیوڈل گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ متحدہ کے متوسط، متول اور ورکنگ کلاس کے افراد کو فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کی پالیسی سے جاگیردار، اور کرپٹ افسر شاہی خوف ذدہ ہے، جو پاکستان پر اسکی قیام کے بعد سے حکمرانی کررہے ہیں۔بقیہ باقی ——