Bill Longley
SENIOR MEMBER
- Joined
- Apr 15, 2008
- Messages
- 1,664
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
http://abuabdulsamadz.com/?p=2502
کل یعنی 10 مئی 2016 کو سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور سابق وزیر بنگلہ دیش مطیع الرحمٰن کو بھی اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ شہید کی عمر 73سال تھی۔ شہید پر الزام تھا کہ وہ 71 میں البدر کے کمانڈر تھے جنھون نے پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا۔۔ ۔ شہید سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کرین مگر اس مرد حُر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔
شیخ حسینہ کی حکومت میں بنگلہ دیش چھوٹا بھارت بنتا جا رہا ہے۔۔ اور یہ بات بعید القیاس نہیں کہ بہت جلد شیخ حسینہ بھارت میں ضم ہونے کا اعلان کر دے۔۔۔1947 سے اب تک جنگ دو قومی نظریے اور بھارت ورش /مہابھارت کے درمیان ہے۔۔ شیخ حسینہ بھارت کی ایما پر جو کچھ کر رہی ہے وہ مودی اور ہندو تواء کے اسی خواب کا حصہ ہے۔۔۔
انیس سو اکہترکی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ گو بھارت نے کڑوڑون روپے مشرقی پاکستان میں بغاوت کے لئے لگائے لیکن وہ دو قومی نظریے کو شکست نا دے سکا
انیس سو تہترکی اسلامی کانفرنس میں پاکستان نے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا
انیس سو پچھترمیں بنگلہ دیشی فوج نے بھارت نواز شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور شیخ مجیب الرحمٰن کو بنگلہ دیش کی آزادی کے صرف 4 سال بعد ان کے کنبے سمیت قتل کر دیا گیا۔ ان کی دو بیٹیان شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ جرمنی میں ہونے کی وجہ سے بچین۔
مجیب کی موت کے بعد فوج نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی اور بنگلہ دیش میں فری مارکیٹ سسٹم نافظ کر دیا ۔
انیس سو ستترمیں جنرل ضیاءالرحمٰن نے صدارت سمبھال لی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
انیس سو اکہاسیمیں جنرل ضیاءالرحمٰن کو قتل کر دیا گیا اور جنرل ارشاد نے حکومت سمبھال لی۔
انیس سو نوےمیں عوامی اور بین العقوامی دباﺅ پر جنرل حسین احمد ارشاد کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۰
انیس سو اکانوےمیں جنرل ضیاءالرحمٰن کی بیوہ محترمہ خالدہ ضیاء جنرل الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار میں آئین۔انھوں نے اقتدار سمبھالنے کے بعد کئی اصطلاحات کئین ۔ محترمہ خالدہ ضیاء نے متوازن پالیسی اختیار کی اور تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جو بھارتی سرکار کو یہ باتین پسند نا آئین اور اس نے شیخ حسینہ واجد کی سپورٹ شروع کر دی۔
انیس سو پچانوےکے الیکشن میں بھارتی سپورٹ سے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ دو دھائیون بعد اقتدار میں آ گئی
شیخ مجیب کی یہ بیٹی پاکستان سے بغض میں پیش پیش رہی اور بنگلہ دیش بھارت کی ریاست کا منظر پیش کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2001کے الیکشن میں عوامی لیگ کو شکست فاش ہوئی اور ایک بار پھر محترمہ خالدہ ضیاء نے اقتدار سمبھال لیا۔
محترمہ خالدہ ضیاءکے اقتدار سمبھالتے ہی عوامی لیگ اور شیخ حسینہ سازشوں میں مصروف ہو گئے ، ہرتالین ، قتل عام وغیرہ کے واقعات بڑھنے لگے جن کا سلسلہ 2006میں خالدہ ضیا حکومت کی طرف سے استعفے پر ہوا
گیارہ جنوری2007کو فوج نے اقتدار سمبھال لیا اور کرپشن کے خاتمے کے لئے گرفتاریان شروع ہو گئیں۔ 2008میں فوج کی ذیر نگرانی انتخابات ہوئے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔
اپنی اس دور اقتدار میں شیخ حسینہ نے برمی مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں آمد پر پابندی لگا دی اور بھارت کے ساتھ اتنا محبت آمیر رویہ اپنایا کہ بنگلہ دیش کی سرحدون کی پاسبان بنگلہ دیش رائفلز نے 2009میں بغاوت کر دی ۔ یاد رہے بھارت کی گرم ترین سرحدون میں سب سے گرم سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ہے۔ جس پر پچھلے دس سالوں میں 1ہزار سے زائید بنگالی بی ایس ایف کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ اس بغاوت کی ایک وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کا پرو ہندوستاں ہونا اور بنگلہ دیش رائفلزکے جوانوں کے ساتھ معاشی نا انصافی تھی
دوہزار چودہ میں انتحائی غیر شفاف الیکشن میں ایک بار پھر شیخ حسینہ اقتدار میں آئی ۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں یہ واحد الیکشن تھے جس میں تمام آپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائکاٹ کیا اور 300میں سے154نشستین بغیر کسی مقابلے کے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے جیت لین۔
اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال شیخ حسینہ کی حکومت کا خاصہ ہے۔ بنگالی عوام گو اب پاکستان سے الگ ہے لیکن دو قومی نظریہ آج بھی اس کا اساس ہے۔ اس دو قومی نظریے کو ٹیکل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی نیشنل ازم کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
پاکستان دشمنی میں حسینہ واجد اس قدر آگے نکل آئی ہیں کہ
جب دو ہزار بارہ میں ایشیا کپ کے فائنل میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی ، وزیراعظم حسینہ واجد مہمان خصوصی تھیں ، مگر وہ صدمے کے مارے پاکستان کو ٹرافی دیئے بغیر ہی اسٹیڈیم سے رخصت ہو گیئں۔
انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس ہار کا الزام بھی آئی ایس آئی اور پاکستان پر ڈال دیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش ایشیاء کپ میں شکست نہ کھاتا اگر آئی ایس آئی اور پاکستان کے چاہنے والے سپورٹر اسٹیڈیم میں موجود نہ ہوتے۔
عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ٹی وی چینلز دکھانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
اسی بنگلہ دیشی نیشنلز م کی بڑھوتی کے لئے جماعت اسلامی سمیت ،بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے لیڈرون کو 1971کے جنگی جرائم کے نام پر پھانسیان لگائی جا رہی ہیں۔
دو سال قبل2013میں بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کے خصوصی ٹرائبیونل نے10جماعت اسلامی اور
بی این پی کے دو لیڈرز پر جنگی جرائم کا الزام لگا کر کاروائی کا آغاز کیا۔
سنہ 2010 سے دو مختلف ٹرائبیونل جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ٹرائبیونل کی جانب سے مجرم ٹھہرائے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں
بنگہ دیش کی حکومت نے انیس سو اکہتر میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں ، جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی تھی ، اس پھانسی کے خلاف پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی، اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد آپے سے ہی باہر ہوگئیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ، ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے عوامی لیگ کے کارکنوں نے پاکستان کا پرچم نذر آتش کیا اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
۔ابتک جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں عبد القدیر مولا، محمد قمر الزمان،
علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین چوہدری کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
پاکستان نے بنگلہ دیش میں حزبِ مخالف کے رہنماووں کو پھانسی دیے جانے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نو اپریل 1974 کو کیے جانے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے مفاہمتی انداز اپنائے۔
بنگلہ دیش میں دی جانے والی پھانسیوں پر پاکستانی دفترِ خارجہ نے تحریری بیان میں اس پیش رفت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بنگلہ دیش میں نو اپریل 1974 میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بنگلہ دیش میں نو اپریل 1974 میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش میں مفاہمت کی ضرورت ہے زور دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان 1971 کے سانحہ کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی سے متعلق عالمی برادری کے ردعمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 1971 کے معاملات کو بھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ اپنانے پرزوردیاگیا ہے اور اس سے خیرسگالی اورہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
ڈھاکہ میں 22نومبر کو پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد بنگلہ دیشی وزیر برائے امورِ خارجہ شہریار عالم نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ جنگی مجرموں کو سزا دینا بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔
انھوں نے پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کو توقع ہے کہ اس کے داخلی معاملات کا احترام کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو اس قسم کے بیانات دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔
اس موقع پر بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے واضع کیا کہ 1974 میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں جنگی جرائم کے حوالے سے بات نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں اشیا کی منتقلی اور قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوئی تھی۔
بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان کی پارلیمینٹ نے جنگی جرائم میں ملوث افراد کی پھانسیوں پر ایک قرارداد منظور کی تھی تاہم پاکستان نے سرکاری سطح پر بنگلہ دیش سے کچھ نہیں کہا تھا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان 1971 کے سانحہ کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی سے متعلق عالمی برادری کے ردعمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 1971 کے معاملات کو بھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ اپنانے پرزوردیاگیا ہے اور اس سے خیرسگالی اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
بنگلہ دیش ، بنگالی نیشنل ازم کی جس راہ پر ڈال دیا گیا ہے اس کی انتحا مشرقی اور مغربی بنگال یعنی بھارتی بنگال اور بنگلہ دیش کا الحاق ہو جانا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ نیشنل ازم بھی ہو اور مشرقی اور مغربی بنگال ایک دوسرے سے الگ بھی رہی۔۔ اب دیکھنا ہے کہ کب تک حسینہ واجد اپنی قوم کو بے وقوف بناتے ہوئے بنگلہ دیشی عوام کے تشخص اور آزادی کا سودا کرتی رہے گی
کل یعنی 10 مئی 2016 کو سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور سابق وزیر بنگلہ دیش مطیع الرحمٰن کو بھی اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ شہید کی عمر 73سال تھی۔ شہید پر الزام تھا کہ وہ 71 میں البدر کے کمانڈر تھے جنھون نے پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا۔۔ ۔ شہید سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کرین مگر اس مرد حُر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔
شیخ حسینہ کی حکومت میں بنگلہ دیش چھوٹا بھارت بنتا جا رہا ہے۔۔ اور یہ بات بعید القیاس نہیں کہ بہت جلد شیخ حسینہ بھارت میں ضم ہونے کا اعلان کر دے۔۔۔1947 سے اب تک جنگ دو قومی نظریے اور بھارت ورش /مہابھارت کے درمیان ہے۔۔ شیخ حسینہ بھارت کی ایما پر جو کچھ کر رہی ہے وہ مودی اور ہندو تواء کے اسی خواب کا حصہ ہے۔۔۔
انیس سو اکہترکی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ گو بھارت نے کڑوڑون روپے مشرقی پاکستان میں بغاوت کے لئے لگائے لیکن وہ دو قومی نظریے کو شکست نا دے سکا
انیس سو تہترکی اسلامی کانفرنس میں پاکستان نے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا
انیس سو پچھترمیں بنگلہ دیشی فوج نے بھارت نواز شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور شیخ مجیب الرحمٰن کو بنگلہ دیش کی آزادی کے صرف 4 سال بعد ان کے کنبے سمیت قتل کر دیا گیا۔ ان کی دو بیٹیان شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ جرمنی میں ہونے کی وجہ سے بچین۔
مجیب کی موت کے بعد فوج نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی اور بنگلہ دیش میں فری مارکیٹ سسٹم نافظ کر دیا ۔
انیس سو ستترمیں جنرل ضیاءالرحمٰن نے صدارت سمبھال لی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
انیس سو اکہاسیمیں جنرل ضیاءالرحمٰن کو قتل کر دیا گیا اور جنرل ارشاد نے حکومت سمبھال لی۔
انیس سو نوےمیں عوامی اور بین العقوامی دباﺅ پر جنرل حسین احمد ارشاد کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۰
انیس سو اکانوےمیں جنرل ضیاءالرحمٰن کی بیوہ محترمہ خالدہ ضیاء جنرل الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار میں آئین۔انھوں نے اقتدار سمبھالنے کے بعد کئی اصطلاحات کئین ۔ محترمہ خالدہ ضیاء نے متوازن پالیسی اختیار کی اور تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جو بھارتی سرکار کو یہ باتین پسند نا آئین اور اس نے شیخ حسینہ واجد کی سپورٹ شروع کر دی۔
انیس سو پچانوےکے الیکشن میں بھارتی سپورٹ سے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ دو دھائیون بعد اقتدار میں آ گئی
شیخ مجیب کی یہ بیٹی پاکستان سے بغض میں پیش پیش رہی اور بنگلہ دیش بھارت کی ریاست کا منظر پیش کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2001کے الیکشن میں عوامی لیگ کو شکست فاش ہوئی اور ایک بار پھر محترمہ خالدہ ضیاء نے اقتدار سمبھال لیا۔
محترمہ خالدہ ضیاءکے اقتدار سمبھالتے ہی عوامی لیگ اور شیخ حسینہ سازشوں میں مصروف ہو گئے ، ہرتالین ، قتل عام وغیرہ کے واقعات بڑھنے لگے جن کا سلسلہ 2006میں خالدہ ضیا حکومت کی طرف سے استعفے پر ہوا
گیارہ جنوری2007کو فوج نے اقتدار سمبھال لیا اور کرپشن کے خاتمے کے لئے گرفتاریان شروع ہو گئیں۔ 2008میں فوج کی ذیر نگرانی انتخابات ہوئے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔
اپنی اس دور اقتدار میں شیخ حسینہ نے برمی مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں آمد پر پابندی لگا دی اور بھارت کے ساتھ اتنا محبت آمیر رویہ اپنایا کہ بنگلہ دیش کی سرحدون کی پاسبان بنگلہ دیش رائفلز نے 2009میں بغاوت کر دی ۔ یاد رہے بھارت کی گرم ترین سرحدون میں سب سے گرم سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ہے۔ جس پر پچھلے دس سالوں میں 1ہزار سے زائید بنگالی بی ایس ایف کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ اس بغاوت کی ایک وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کا پرو ہندوستاں ہونا اور بنگلہ دیش رائفلزکے جوانوں کے ساتھ معاشی نا انصافی تھی
دوہزار چودہ میں انتحائی غیر شفاف الیکشن میں ایک بار پھر شیخ حسینہ اقتدار میں آئی ۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں یہ واحد الیکشن تھے جس میں تمام آپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائکاٹ کیا اور 300میں سے154نشستین بغیر کسی مقابلے کے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے جیت لین۔
اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال شیخ حسینہ کی حکومت کا خاصہ ہے۔ بنگالی عوام گو اب پاکستان سے الگ ہے لیکن دو قومی نظریہ آج بھی اس کا اساس ہے۔ اس دو قومی نظریے کو ٹیکل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی نیشنل ازم کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
پاکستان دشمنی میں حسینہ واجد اس قدر آگے نکل آئی ہیں کہ
جب دو ہزار بارہ میں ایشیا کپ کے فائنل میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی ، وزیراعظم حسینہ واجد مہمان خصوصی تھیں ، مگر وہ صدمے کے مارے پاکستان کو ٹرافی دیئے بغیر ہی اسٹیڈیم سے رخصت ہو گیئں۔
انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس ہار کا الزام بھی آئی ایس آئی اور پاکستان پر ڈال دیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش ایشیاء کپ میں شکست نہ کھاتا اگر آئی ایس آئی اور پاکستان کے چاہنے والے سپورٹر اسٹیڈیم میں موجود نہ ہوتے۔
عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ٹی وی چینلز دکھانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
اسی بنگلہ دیشی نیشنلز م کی بڑھوتی کے لئے جماعت اسلامی سمیت ،بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے لیڈرون کو 1971کے جنگی جرائم کے نام پر پھانسیان لگائی جا رہی ہیں۔
دو سال قبل2013میں بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کے خصوصی ٹرائبیونل نے10جماعت اسلامی اور
بی این پی کے دو لیڈرز پر جنگی جرائم کا الزام لگا کر کاروائی کا آغاز کیا۔
سنہ 2010 سے دو مختلف ٹرائبیونل جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ٹرائبیونل کی جانب سے مجرم ٹھہرائے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں
بنگہ دیش کی حکومت نے انیس سو اکہتر میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں ، جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی تھی ، اس پھانسی کے خلاف پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی، اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد آپے سے ہی باہر ہوگئیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ، ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے عوامی لیگ کے کارکنوں نے پاکستان کا پرچم نذر آتش کیا اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
۔ابتک جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں عبد القدیر مولا، محمد قمر الزمان،
علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین چوہدری کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
پاکستان نے بنگلہ دیش میں حزبِ مخالف کے رہنماووں کو پھانسی دیے جانے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نو اپریل 1974 کو کیے جانے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے مفاہمتی انداز اپنائے۔
بنگلہ دیش میں دی جانے والی پھانسیوں پر پاکستانی دفترِ خارجہ نے تحریری بیان میں اس پیش رفت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بنگلہ دیش میں نو اپریل 1974 میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بنگلہ دیش میں نو اپریل 1974 میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش میں مفاہمت کی ضرورت ہے زور دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان 1971 کے سانحہ کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی سے متعلق عالمی برادری کے ردعمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 1971 کے معاملات کو بھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ اپنانے پرزوردیاگیا ہے اور اس سے خیرسگالی اورہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
ڈھاکہ میں 22نومبر کو پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد بنگلہ دیشی وزیر برائے امورِ خارجہ شہریار عالم نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ جنگی مجرموں کو سزا دینا بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔
انھوں نے پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کو توقع ہے کہ اس کے داخلی معاملات کا احترام کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو اس قسم کے بیانات دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔
اس موقع پر بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے واضع کیا کہ 1974 میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں جنگی جرائم کے حوالے سے بات نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں اشیا کی منتقلی اور قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوئی تھی۔
بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان کی پارلیمینٹ نے جنگی جرائم میں ملوث افراد کی پھانسیوں پر ایک قرارداد منظور کی تھی تاہم پاکستان نے سرکاری سطح پر بنگلہ دیش سے کچھ نہیں کہا تھا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان 1971 کے سانحہ کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی سے متعلق عالمی برادری کے ردعمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 1971 کے معاملات کو بھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ اپنانے پرزوردیاگیا ہے اور اس سے خیرسگالی اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
بنگلہ دیش ، بنگالی نیشنل ازم کی جس راہ پر ڈال دیا گیا ہے اس کی انتحا مشرقی اور مغربی بنگال یعنی بھارتی بنگال اور بنگلہ دیش کا الحاق ہو جانا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ نیشنل ازم بھی ہو اور مشرقی اور مغربی بنگال ایک دوسرے سے الگ بھی رہی۔۔ اب دیکھنا ہے کہ کب تک حسینہ واجد اپنی قوم کو بے وقوف بناتے ہوئے بنگلہ دیشی عوام کے تشخص اور آزادی کا سودا کرتی رہے گی