hadeer khalid
FULL MEMBER
New Recruit
- Joined
- Aug 8, 2016
- Messages
- 59
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
Written by: Lt.colonel Zia Shehzad
تحریر: لیفٹیننٹ کرنل ضیاء شہزاد
سال تھا 2001 کا اور مہینہ تھا مئی کا۔ ان دنوں ہم حسب معمول سیاچن کی ایک اہم فارورڈ پوسٹ پربطور آرٹلری آبزرور تعینات تھے۔ اس پوسٹ پر ہمارے قیام کو قریباً ایک مہینہ ہو چلا تھا۔ ان دنوں پوسٹ پر دس افراد کی نفری موجود تھی۔ پوسٹ کمانڈر کیپٹن اختر تھے جو انفینٹری کے ایک لائق افسر تھے اور ہم سے سینیئر بھی تھے ۔آرٹلری فائر ان دنوں معمول کی بات تھی۔ اس دوران تمام سیکٹر میں ’’ملٹی‘‘ لگائی جاتی ۔ اس کو آپ کانفرنس کال بھی کہہ سکتے ہیں جس میں تمام سیکٹر کی پوسٹیں اکٹھی آن لائن ہو تی تھیں۔ ملٹی کے دوران وقفوں وقفوں سے ہنسی مذاق کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ ایک دن اسی طرح سر شام ملٹی لگ گئی۔ سب لوگ ٹیلیفون کانوں سے لگا کر بیٹھ گئے۔حکم ملا کہ دشمن کی جانب سے فائر متوقع ہے لہٰذا اپنی گن پوزیشن اور پوسٹیں بھی جوابی کارروائی کے لئے تیاری رکھیں۔ کچھ وقت اسی انتظار میں گزر گیا لیکن دشمن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی لہٰذا وقت کاٹنے کے لئے ملٹی پر یار لوگوں کی جانب سے طنزو مزاح اور موسیقی کا سیشن شروع ہو گیا۔ باری باری ہر پوسٹ کی جانب سے لطیفوں اور نغموں کی برسات کی جانے لگی۔ہم بھی ان دنوں زور دار قسم کی شاعری کیا کرتے تھے اور اسے پبلک تک پہنچانے کے لئے اسی فورم کو استعمال کرتے تھے۔ ہماری شاعری کو سیاچن کے طول و عرض میں بہت پسند کیا جاتا اور اس کی لگاتار فرمائش کی جاتی۔ ان دنوں تو ہم اس پذیرائی پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ شاید اس وجہ سے تھا کہ وہاں موجود تمام لوگ شاعری کی الف ب سے بھی ناواقف تھے۔ بس وقت گزاری کے مختلف طریقے تھے جن پر وقتاً فوقتاً عمل کیا جاتا۔ ملٹی حسب روایت زور و شور سے جاری تھی کہ اچانک ہماری ساتھ والی پوسٹ سے حوالدار اشرف نے نعرہ بلند کیا کہ اس کی پوسٹ پر موجود سنتری نے کوئی شے حرکت کرتے ہوئے دیکھی ہے۔یہ ایک غیر معمولی اطلاع تھی جس پر یکدم ریڈ الرٹ کا اعلان کر دیا گیا اور سب لوگ ہنسی مذاق چھوڑ کر سیریس ہوگئے۔ اس کو کہا گیا کہ خود جا کر مشاہدہ کرے اور رپورٹ دے۔ حوالدار اشرف پانچ منٹ کے بعد واپس آیا اور اونچی آواز میں بولا کہ سر میں نے اپنی آنکھوں سے پانچ افراد دیکھے ہیں جو جان پوسٹ کے رسے چڑھ رہے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ پوسٹ پر اس وقت آٹھ افراد موجود تھے ۔ تمام کے تمام اپنے اپنے ہتھیار لے کر باہر کی طرف بھاگے اور متوقع ہدف کی جانب فائرنگ کرنے لگے۔صورتحال نہایت سنگین تھی چنانچہ ہم نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر آرٹلری فائر منگوانے کے احکامات جاری کئے۔ رات کا وقت تھا اس لئے بارودی گولوں کے ساتھ ساتھ روشنی کے گولے بھی منگوائے گئے ۔ گن پوزیشن چونکہ پہلے سے تیار تھی اس لئے بِلاتاخیر آرٹلری کے گولے دھنا دھن پوسٹ کے سامنے والی برفیلی گھاٹی میں گرنے لگے۔ایک گن لگاتار روشنی کے گولے فائر کر رہی تھی جن کی روشنی سے پورا آسمان منور ہوچکا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ پوسٹ پر موجود تمام افراد مشین گنوں اور رائفلوں سے ریپڈ فائر کر رہے تھے۔دو سپاہیوں کی ڈیوٹی دستی بم پھینکنے پر تھی جن میں ہمارا میڈیکل نرسنگ اسسٹنٹ بھی شامل تھا۔ روشنی کے گولوں کی بدولت رات کا اندھیرا کسی قدر دور ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں دشمن کا کوئی آدمی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ پوسٹ سے لے کر ایف سی این اے تک تمام کمانڈر بھی ٹیلیفون پر آن لائن تھے اور ہمیں برابر ہدایات دے رہے تھے۔ کچھ دیر تو افراتفری کا عالم رہا لیکن اس کے بعد حواس بحال ہونا شروع ہوئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ دشمن کا ارادہ ہماری پوسٹ پر بے خبری میں حملہ کرنے کا تھا لیکن جب اس نے ہماری جوابی کارروائی دیکھی تو ضرورکہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہوگا۔ یہ بات بہرحال طے تھی کہ دشمن کو سرنِگوں رکھنے کے لئے ہماری جانب سے اس کارروائی کا جاری رہنا اشد ضروری تھا۔لہٰذا ہم نے فائر کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا اور صبح ہونے تک فائر کا سلسلہ اسی رفتار سے جاری رکھا۔ اجالا ہوتے ہی اردگرد کی چیزیں واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئیں ۔ ہم نے دوربین سے تمام علاقے کا بغور جائزہ لیا لیکن دور دور تک دشمن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہم نے جائزہ لینے کے بعد ہیڈکوارٹر میں رپورٹ دی کہ ہمیں کوئی دشمن دکھائی نہیں دے رہا۔ ہیڈکوارٹرز والوں کے خیال میں ہو سکتا تھا کہ دشمن کہیں چھپ گیا ہو یا مارا گیا ہو لیکن جب تک قریب جا کر صورتحال کا جائزہ نہ لیا جا ئے اس وقت تک یقین سے کچھ کہنا مشکل تھا۔ فیصلہ ہو ا کہ پوسٹ کمانڈر اپنے ہمراہ پانچ افراد کی ٹیم لے کر پوسٹ سے نیچے جائے اور پورا اطمینان کرنے کے بعدکلئیرنس رپورٹ دے ۔ اس دوران اگر دشمن نظر آ جائے تو دو بدو مقابلے کے بعد اس پر قابو پانا بھی ان ہدایات کا لازمی جزو تھا۔ ہم نے دھڑکتے دل کے ساتھ کیپٹن اختر اوران کے ساتھیوں کو الوداع کہا۔
مشن خطرناک تھا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا۔ خود ہم بقیہ چار سپاہیوں کے ہمراہ پوسٹ پر اسی طرح فائر جاری رکھے ہوئے تھے۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور اب کیپٹن اختر کی جانب سے کسی خبر کا شدت سے انتظار تھا۔ تین گھنٹے تک یہ جان لیوا انتظار جاری رہا اور اس کے بعد کیپٹن اختر کی پارٹی واپس پوسٹ کے رسے چڑھتے دکھائی دی۔ واپس آ کر انہوں نے ہیڈکوارٹر ز میں یہ رپورٹ دی کہ تمام علاقہ اچھی طرح چھان مارنے کے باوجود انہیں دشمن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ رپورٹ سن کر سب نے سکھ کا سانس لیا۔ اس رات دشمن سے تو ہماری مڈھ بھیڑ نہ ہوئی لیکن حوالدار اشرف کی مہربانی سے ہم نے اپنا آرٹلری اور سمال آرمز کا ایمونیشن تقریباً تمام کا تمام پھونک دیا۔اس واقعے کے بارے میں ہر شخص ایک مختلف رائے رکھتا تھا البتہ حوالدار اشرف بعد میں بھی اپنی بات پر بدستورقائم رہا۔ اب کئی سال گزرنے اور کئی واقعات دیکھنے کے بعد گمان یہی ہے کہ حوالدار اشرف کا دعویٰ ہی ٹھیک تھا کیونکہ ہمارا دشمن ہماری طرف بُری نیت سے آگے بڑھنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ تاہم جب وہ پاک فوج کے جوانوں کو مورچوں میں چوکس دیکھتا ہے تو اکثر وبیشتر اپنے ارادے تبدیل کر دیتا ہے۔ بھلا 2001اور 2002کی انڈیا۔ پاکستان فوجی
Escalation
کو کون بھول سکتا ہے۔ جب انڈیا اپنی طاقت کے زعم میں آگے بڑھ کر پاکستان کو سبق سکھانا چاہتا تھا مگر ہماری جوابی طاقت کو دیکھ کر امن کی مالا جپنے میں عافیت سمجھی.
This article is taken from Hilal magazine-ISPR
تحریر: لیفٹیننٹ کرنل ضیاء شہزاد
سال تھا 2001 کا اور مہینہ تھا مئی کا۔ ان دنوں ہم حسب معمول سیاچن کی ایک اہم فارورڈ پوسٹ پربطور آرٹلری آبزرور تعینات تھے۔ اس پوسٹ پر ہمارے قیام کو قریباً ایک مہینہ ہو چلا تھا۔ ان دنوں پوسٹ پر دس افراد کی نفری موجود تھی۔ پوسٹ کمانڈر کیپٹن اختر تھے جو انفینٹری کے ایک لائق افسر تھے اور ہم سے سینیئر بھی تھے ۔آرٹلری فائر ان دنوں معمول کی بات تھی۔ اس دوران تمام سیکٹر میں ’’ملٹی‘‘ لگائی جاتی ۔ اس کو آپ کانفرنس کال بھی کہہ سکتے ہیں جس میں تمام سیکٹر کی پوسٹیں اکٹھی آن لائن ہو تی تھیں۔ ملٹی کے دوران وقفوں وقفوں سے ہنسی مذاق کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ ایک دن اسی طرح سر شام ملٹی لگ گئی۔ سب لوگ ٹیلیفون کانوں سے لگا کر بیٹھ گئے۔حکم ملا کہ دشمن کی جانب سے فائر متوقع ہے لہٰذا اپنی گن پوزیشن اور پوسٹیں بھی جوابی کارروائی کے لئے تیاری رکھیں۔ کچھ وقت اسی انتظار میں گزر گیا لیکن دشمن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی لہٰذا وقت کاٹنے کے لئے ملٹی پر یار لوگوں کی جانب سے طنزو مزاح اور موسیقی کا سیشن شروع ہو گیا۔ باری باری ہر پوسٹ کی جانب سے لطیفوں اور نغموں کی برسات کی جانے لگی۔ہم بھی ان دنوں زور دار قسم کی شاعری کیا کرتے تھے اور اسے پبلک تک پہنچانے کے لئے اسی فورم کو استعمال کرتے تھے۔ ہماری شاعری کو سیاچن کے طول و عرض میں بہت پسند کیا جاتا اور اس کی لگاتار فرمائش کی جاتی۔ ان دنوں تو ہم اس پذیرائی پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ شاید اس وجہ سے تھا کہ وہاں موجود تمام لوگ شاعری کی الف ب سے بھی ناواقف تھے۔ بس وقت گزاری کے مختلف طریقے تھے جن پر وقتاً فوقتاً عمل کیا جاتا۔ ملٹی حسب روایت زور و شور سے جاری تھی کہ اچانک ہماری ساتھ والی پوسٹ سے حوالدار اشرف نے نعرہ بلند کیا کہ اس کی پوسٹ پر موجود سنتری نے کوئی شے حرکت کرتے ہوئے دیکھی ہے۔یہ ایک غیر معمولی اطلاع تھی جس پر یکدم ریڈ الرٹ کا اعلان کر دیا گیا اور سب لوگ ہنسی مذاق چھوڑ کر سیریس ہوگئے۔ اس کو کہا گیا کہ خود جا کر مشاہدہ کرے اور رپورٹ دے۔ حوالدار اشرف پانچ منٹ کے بعد واپس آیا اور اونچی آواز میں بولا کہ سر میں نے اپنی آنکھوں سے پانچ افراد دیکھے ہیں جو جان پوسٹ کے رسے چڑھ رہے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ پوسٹ پر اس وقت آٹھ افراد موجود تھے ۔ تمام کے تمام اپنے اپنے ہتھیار لے کر باہر کی طرف بھاگے اور متوقع ہدف کی جانب فائرنگ کرنے لگے۔صورتحال نہایت سنگین تھی چنانچہ ہم نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر آرٹلری فائر منگوانے کے احکامات جاری کئے۔ رات کا وقت تھا اس لئے بارودی گولوں کے ساتھ ساتھ روشنی کے گولے بھی منگوائے گئے ۔ گن پوزیشن چونکہ پہلے سے تیار تھی اس لئے بِلاتاخیر آرٹلری کے گولے دھنا دھن پوسٹ کے سامنے والی برفیلی گھاٹی میں گرنے لگے۔ایک گن لگاتار روشنی کے گولے فائر کر رہی تھی جن کی روشنی سے پورا آسمان منور ہوچکا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ پوسٹ پر موجود تمام افراد مشین گنوں اور رائفلوں سے ریپڈ فائر کر رہے تھے۔دو سپاہیوں کی ڈیوٹی دستی بم پھینکنے پر تھی جن میں ہمارا میڈیکل نرسنگ اسسٹنٹ بھی شامل تھا۔ روشنی کے گولوں کی بدولت رات کا اندھیرا کسی قدر دور ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں دشمن کا کوئی آدمی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ پوسٹ سے لے کر ایف سی این اے تک تمام کمانڈر بھی ٹیلیفون پر آن لائن تھے اور ہمیں برابر ہدایات دے رہے تھے۔ کچھ دیر تو افراتفری کا عالم رہا لیکن اس کے بعد حواس بحال ہونا شروع ہوئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ دشمن کا ارادہ ہماری پوسٹ پر بے خبری میں حملہ کرنے کا تھا لیکن جب اس نے ہماری جوابی کارروائی دیکھی تو ضرورکہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہوگا۔ یہ بات بہرحال طے تھی کہ دشمن کو سرنِگوں رکھنے کے لئے ہماری جانب سے اس کارروائی کا جاری رہنا اشد ضروری تھا۔لہٰذا ہم نے فائر کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا اور صبح ہونے تک فائر کا سلسلہ اسی رفتار سے جاری رکھا۔ اجالا ہوتے ہی اردگرد کی چیزیں واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئیں ۔ ہم نے دوربین سے تمام علاقے کا بغور جائزہ لیا لیکن دور دور تک دشمن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہم نے جائزہ لینے کے بعد ہیڈکوارٹر میں رپورٹ دی کہ ہمیں کوئی دشمن دکھائی نہیں دے رہا۔ ہیڈکوارٹرز والوں کے خیال میں ہو سکتا تھا کہ دشمن کہیں چھپ گیا ہو یا مارا گیا ہو لیکن جب تک قریب جا کر صورتحال کا جائزہ نہ لیا جا ئے اس وقت تک یقین سے کچھ کہنا مشکل تھا۔ فیصلہ ہو ا کہ پوسٹ کمانڈر اپنے ہمراہ پانچ افراد کی ٹیم لے کر پوسٹ سے نیچے جائے اور پورا اطمینان کرنے کے بعدکلئیرنس رپورٹ دے ۔ اس دوران اگر دشمن نظر آ جائے تو دو بدو مقابلے کے بعد اس پر قابو پانا بھی ان ہدایات کا لازمی جزو تھا۔ ہم نے دھڑکتے دل کے ساتھ کیپٹن اختر اوران کے ساتھیوں کو الوداع کہا۔
مشن خطرناک تھا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا۔ خود ہم بقیہ چار سپاہیوں کے ہمراہ پوسٹ پر اسی طرح فائر جاری رکھے ہوئے تھے۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور اب کیپٹن اختر کی جانب سے کسی خبر کا شدت سے انتظار تھا۔ تین گھنٹے تک یہ جان لیوا انتظار جاری رہا اور اس کے بعد کیپٹن اختر کی پارٹی واپس پوسٹ کے رسے چڑھتے دکھائی دی۔ واپس آ کر انہوں نے ہیڈکوارٹر ز میں یہ رپورٹ دی کہ تمام علاقہ اچھی طرح چھان مارنے کے باوجود انہیں دشمن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ رپورٹ سن کر سب نے سکھ کا سانس لیا۔ اس رات دشمن سے تو ہماری مڈھ بھیڑ نہ ہوئی لیکن حوالدار اشرف کی مہربانی سے ہم نے اپنا آرٹلری اور سمال آرمز کا ایمونیشن تقریباً تمام کا تمام پھونک دیا۔اس واقعے کے بارے میں ہر شخص ایک مختلف رائے رکھتا تھا البتہ حوالدار اشرف بعد میں بھی اپنی بات پر بدستورقائم رہا۔ اب کئی سال گزرنے اور کئی واقعات دیکھنے کے بعد گمان یہی ہے کہ حوالدار اشرف کا دعویٰ ہی ٹھیک تھا کیونکہ ہمارا دشمن ہماری طرف بُری نیت سے آگے بڑھنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ تاہم جب وہ پاک فوج کے جوانوں کو مورچوں میں چوکس دیکھتا ہے تو اکثر وبیشتر اپنے ارادے تبدیل کر دیتا ہے۔ بھلا 2001اور 2002کی انڈیا۔ پاکستان فوجی
Escalation
کو کون بھول سکتا ہے۔ جب انڈیا اپنی طاقت کے زعم میں آگے بڑھ کر پاکستان کو سبق سکھانا چاہتا تھا مگر ہماری جوابی طاقت کو دیکھ کر امن کی مالا جپنے میں عافیت سمجھی.
This article is taken from Hilal magazine-ISPR