پاکستانی سیاست طبقۂ خواص کی جنگ
عائشہ صدیقہ
اسلام آباد
اسلام آباد
فوج اور سول بیوروکریسی اس طبقۂ خواص کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔
صدر پرویز مشرف نے برسلز میں کہا ہے کہ یورپی ممالک کو احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان میں مغربح طرز کی جمہوریت نہیں آ سکتی۔ صدر صاحب کے ہمدرد دانشوروں کا خیال ہے کہ ملک میں جہالت اور جاگیرداری نظام کی وجہ سے لوگ اپنا ووٹ آزادانہ طور پر نہیں دے سکتے اس لیے ملک کے لیے گائیڈڈ ڈیموکریسی یا رہنما جمہوریت کا اصول بہتر ہے۔ آخر کو دیکھیں کہ برسوں سے انتخابات ہو رہے ہیں لیکن جمہوریت آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ایک طرف فوج اور بیوروکریسی کی طاقت ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر جو عوام کو استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن ان کا طاقت کا اصل سرچشمہ بنانے کو تیار نہیں۔ آخر پاکستان کا کیا مرض ہے ۔ کیا یہاں بیوروکریسی طاقت ور ہے یا فوج نے سیاسی جماعتوں کو پنپنے نہیں دیا یا سیاست دان نااہل ہیں۔
بہت پڑھے لکھے لوگوں نے بے بہت کچھ لکھا ہے لیکن سب سے اچھا جواب پاکستان کے ایک بہت بڑے ماہرِ سیاسیات حمزہ علوی نے دیا ہے۔ کاش کہ وہ آج کل کے حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے زندہ ہوتے۔ علوی کے مطابق پاکستان کا مسئلہ ایک ضرورت سے زیادہ ترقی یافتہ(overdeveloped state) کا بحران ہے۔
پاکستان کے سیاست دانوں کا تعلق طبقۂ خواص سے ہے جو کہ عوام کی طاقت میں یقین نہیں رکھتے۔ اس طبقۂ خواص میں جاگیردار، بڑے صنعت کار، بڑے کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔ علوی کے مطابق ملک کی فوج اور سول بیوروکریسی کو یہ طبقۂ خواص اپنا ماتحت سمجھتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ دو ادارے اس طبقۂ خواص کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔
عائشہ صدیقہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو بہت طاقتور سول اور فوجی بیوروکریسی ہے جس کے پاس ادارے کی طاقت ہے۔ دوسری طرف کمزور سیاسی ادارے ہیں۔ پاکستان نو آبادیاتی نظام کے بعد کی ایک ریاست ہے جہاں انگریزوں نے صرف ان اداروں کو طاقتور کیا جن کو وہ اپنے لیے استعمال کر سکتے تھے۔
لیکن پھر اس کا اثر انڈیا پر کیوں نہیں پڑا۔ آخر کو وہاں بھی تو ان ہی اداروں کو مضبوط کیا گیا ہوگا۔ اس کا جواب حمزہ علوی یوں دیتے ہیں کہ پاکستان کے سیاست دانوں کا تعلق طبقۂ خواص سے ہے جو کہ عوام کی طاقت میں یقین نہیں رکھتے۔ اس طبقۂ خواص میں جاگیردار، بڑے صنعت کار، بڑے کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔ علوی کے مطابق ملک کی فوج اور سول بیوروکریسی کو یہ طبقۂ خواص اپنا ماتحت سمجھتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ دو ادارے اس طبقۂ خواص کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔
اس فلسفے کے مطابق اس طبقۂ خواص کے سارے افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو اس میں اور لوگ مثلاً میڈیا کے بڑے بڑے مالک، بڑے بڑے مشیر، این جی اوز والے ، فوج اور سول اداروں کے بڑے افسران یہاں تک کہ پیشہ وارانہ صلاحیتیوں کے حامل افراد جیسے بڑے بڑے ڈاکٹر اور انجینئر بھی شامل ہیں۔ اس طبقے میں داخل ہونے کے کی صرف ایک شرط ہے کہ آپ کے پاس پیسہ اور طاقت ہونی چاہیے۔
پاکستان پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم پڑتا ہے کہ سب سے بڑے لوگ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔کسی بڑے خاندان کو اٹھا کر دیکھیں تو کوئی بھائی مسلم لیگ قاف میں ہے تو دوسرا پی پی پی میں اور تیسرا مسلم لیگ نون میں۔ جو تھوڑا پڑھا لکھا بھائی ہوتا ہے تو اس کو سول سروس کا امتحان دلوا دیتے ہیں۔ جو پڑھائی سے پیدل ہوتا ہے تو اس کو فوج میں بھیج دیتے ہیں۔ اگر گھر میں اتنے بھائی موجود نہ ہوں تو بیٹی کا رشتہ کسی فوجی یا سول سرونٹ سے کر دیتے ہیں۔ سو طاقت کا سرچشمہ خاندان بن جاتا ہے۔
پاکستان پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم پڑتا ہے کہ سب سے بڑے لوگ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔کسی بڑے خاندان کو اٹھا کر دیکھیں تو کوئی بھائی مسلم لیگ قاف میں ہے تو دوسرا پی پی پی میں اور تیسرا مسلم لیگ نون میں۔ جو تھوڑا پڑھا لکھا بھائی ہوتا ہے تو اس کو سول سروس کا امتحان دلوا دیتے ہیں۔ جو پڑھائی سے پیدل ہوتا ہے تو اس کو فوج میں بھیج دیتے ہیں۔ اگر گھر میں اتنے بھائی موجود نہ ہوں تو بیٹی کا رشتہ کسی فوجی یا سول سرونٹ سے کر دیتے ہیں۔ سو طاقت کا سرچشمہ خاندان بن جاتا ہے۔
یہ ہے وہ طبقۂ خواص جو یہ تاثر دیتا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعلیم کے مواقع بھی محدود کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام بہت طبقاتی ہے۔ غریب کا بچہ شاذ و نادر ہی کامیابی کی بلندیوں پر پہنچتا ہے۔ پہنچ جائے تو اسے بھی اس طبقے کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔
غریب عوام کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنا حقِ خود ارادیت بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں۔ سو صدر مشرف کا جواب دینے کے لیے حمزہ علوی کو پڑھنا اور سمجھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے سیاست امراء کی جنگ بن کر رہ گئی ہے۔ ہر بڑا آدمی سب سے اوپر پہنچنا چاہتا ہے۔ اس طبقۂ خواص کے لیے عوام ان لکڑیوں کی مانند ہیں جنہیں جلا کر سردیوں کی شاموں میں ہاتھ سینکے جاتے ہیں۔
BBCUrdu.com