Bill Longley
SENIOR MEMBER
- Joined
- Apr 15, 2008
- Messages
- 1,668
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
تیرا سب سے بڑا دشمن اور دوست تیرا نفس ہے۔ مگر یاد رکھ اسے مارنا نہیں۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آ جائے تو اس سے بڑھ کر تیرا کوئی دوست نہیں۔ اللہ نے جسم کو سواری بنایا، نفس کو کوچوان اور روح کو سوار ۔ اگر یہ تینون اپنے اپنے مقام پر آ جائیں تو انسان عبدیت کی منزل پر آ جاتا ہے۔ روح امر ربی سے ہے۔ یہ اللہ اور بندے کی درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ روح چونکہ امر ربی ہے اور قلب انسانی سے پیوست ہوتی ہے اس لئے پاکیزا ہوتی ہے۔ روح خیر پر مائیل کرتی ہے ۔ اسی لئے تمام اروح خیر کی مسافر ہوتی ہیں۔ کوئی روح غلیظ نہیں ہوتی۔
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں یہ موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔
یاد رکھو روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔ اس کی مثال گرو نانک ایسے دیتے ہیں
نانک مجھ سے پریم کر
جیسے انک سے نو
نو سے آگے دس ہے یعنی پھر ایک کیونکہ صفر کی کوئی ویلیو نہیں ۔ سو عبدیت کا آغاز بھی وہی ہے جو اس کا انجام ۔۔تمام مخلوق وحدانیت کے سمند میں شعور کی منازل طے کرتی ہے۔
یاد رکھو مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہان پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت ارضی کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی بلرضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائینات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
.
دوسری طرف اگر کوچوان سوار پر قابو پا لے تو انسان فاسق بن جاتا ہے۔ یہ مقام حیوانیت ہے۔ یہان ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ امر ربی کی موجودگی میں نفس کی من مانی عذاب اور ذلت ہے۔
نفس کی مثال اس بچے کی سی ہے جسے نئی نئی آگاہی ملی ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس وسیع کائینات میں صرف وہی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر اس بات کو ماننے سے انکاری ہے کہ وہ صرف عکس ہے حقیقت صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے توحید باری تعالٰی۔ نفس اپنی اس ہی ضد پر رہے تو لوامہ ہے۔ اگر کچھ حقیقت کا ادراک کر لے تو امارہ اور پوری حقیقت تسلیم کر لے تو مطمعینہ
ابھی ابھی میں بنا ہون بندا
کبھی تو میں بھی خدا رہا ہوں
اور اگر روح سواری اور کوچوان کو اس کے حقوق سے محروم کرنے لگے جیسا کہ رہبانیت میں ہوتا ہے۔ تو پھربھی انسان راہ سے محروم رہتا ہے ۔مقام اور روحانی قوت تو بڑھ جاتی ہے مگر منزل نہیں ملتی جس کی دلیل حضور کا وہ قول ہے کہ
جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں
۔ والائیت اور عبدیت توازن قائیم رکھنے والون کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔ انھوں نے اپنے مقدس زندگیون سے ہمیں توازن قائیم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائیض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندون کے بھی۔ وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔ وہ جہان اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے وہیں وہ اپنے رب کی شان بے نیازی کی بدولت بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مالک کا آئینہ ہوتا ہے
المسلم و مراة الرحمٰن
م بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہان ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم جو تصوف کے پیر و کار ہیں اور علی کو امام مانتے ہیں۔ آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ چکے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائیم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔ لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہان گئے ایسا لگا کہ وہین جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہون۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالع کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ البکمالہ
کشف الدجابہ جمالہ
حسنت جمیع و خصالہ
صلو علیہ و آلہ
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں یہ موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔
یاد رکھو روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔ اس کی مثال گرو نانک ایسے دیتے ہیں
نانک مجھ سے پریم کر
جیسے انک سے نو
نو سے آگے دس ہے یعنی پھر ایک کیونکہ صفر کی کوئی ویلیو نہیں ۔ سو عبدیت کا آغاز بھی وہی ہے جو اس کا انجام ۔۔تمام مخلوق وحدانیت کے سمند میں شعور کی منازل طے کرتی ہے۔
یاد رکھو مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہان پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت ارضی کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی بلرضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائینات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
.
دوسری طرف اگر کوچوان سوار پر قابو پا لے تو انسان فاسق بن جاتا ہے۔ یہ مقام حیوانیت ہے۔ یہان ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ امر ربی کی موجودگی میں نفس کی من مانی عذاب اور ذلت ہے۔
نفس کی مثال اس بچے کی سی ہے جسے نئی نئی آگاہی ملی ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس وسیع کائینات میں صرف وہی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر اس بات کو ماننے سے انکاری ہے کہ وہ صرف عکس ہے حقیقت صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے توحید باری تعالٰی۔ نفس اپنی اس ہی ضد پر رہے تو لوامہ ہے۔ اگر کچھ حقیقت کا ادراک کر لے تو امارہ اور پوری حقیقت تسلیم کر لے تو مطمعینہ
ابھی ابھی میں بنا ہون بندا
کبھی تو میں بھی خدا رہا ہوں
اور اگر روح سواری اور کوچوان کو اس کے حقوق سے محروم کرنے لگے جیسا کہ رہبانیت میں ہوتا ہے۔ تو پھربھی انسان راہ سے محروم رہتا ہے ۔مقام اور روحانی قوت تو بڑھ جاتی ہے مگر منزل نہیں ملتی جس کی دلیل حضور کا وہ قول ہے کہ
جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں
۔ والائیت اور عبدیت توازن قائیم رکھنے والون کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔ انھوں نے اپنے مقدس زندگیون سے ہمیں توازن قائیم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائیض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندون کے بھی۔ وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔ وہ جہان اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے وہیں وہ اپنے رب کی شان بے نیازی کی بدولت بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مالک کا آئینہ ہوتا ہے
المسلم و مراة الرحمٰن
م بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہان ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم جو تصوف کے پیر و کار ہیں اور علی کو امام مانتے ہیں۔ آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ چکے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائیم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔ لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہان گئے ایسا لگا کہ وہین جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہون۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالع کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ البکمالہ
کشف الدجابہ جمالہ
حسنت جمیع و خصالہ
صلو علیہ و آلہ