Director
FULL MEMBER
New Recruit
- Joined
- Dec 14, 2008
- Messages
- 2
- Reaction score
- 0
امریکی افواج کے سربراہ، چیئرمن جوائنٹ آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں دیرپا سلامتی اور استحکام کے لیے کشمیر کی سرحد پر کشیدگی میں کمی انتہائی ضروری ہے۔
واشنگٹن میں غیر ملکی صحافیوں کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں ایڈمرل مولن نے کہا کہ اس سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے اقدامات مثبت ہیں اور تنازعہ کے حل کے لیے امریکہ بات چیت کی حمایت کرتا رہے گا۔
مائیک مولن نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے حوالے سے بات کی ہے اور امریکہ ان خدشات کو سمجھتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت دیگر خطرات سے بھی واقف ہے اور اس کو اندازہ ہے کہ سردست اس کو سب سے زیادہ خطرہ اسلامی شدت پسندی سے ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے حوالے سے بات کی ہے اور امریکہ ان خدشات کو سمجھتا ہے
مائیک مولن
مولن کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے اور پاکستانی فوج جو قربانیاں دے رہی ہے وہ قابل تعریف ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی قیادت کی بھی تعریف کی۔
ایڈمرل مولن نے پاکستان اور بغداد میں شدت پسند حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ بزدل قاتل پاگل پن کے نظریے کے تحت معصوم لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں امریکی افواج کے سربراہ نے کہا کہ سعودی عرب دہشتگردی کی جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ ہے اور اس کے پاکستان سے بہت دیرینہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افہام تفہیم اور بات چیت کی پالیسی کے حوالے سے اگر سعودی عرب مدد کرتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔
امریکی افواج کے سربراہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کامیابی صرف امریکہ کی ذمہ داری نہیں اور یہ ایک عالمی لڑائی ہے جس میں دنیا کے تینتالیس ممالک مادی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیگر ممالک کی کامیابی بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور افغان صدر حامد کرزئی کے اس اعلان کی پیش رفت دیکھنا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے اچھی حکومت کے قیام کی بات کی تھی۔
امریکہ کی افہام تفہیم اور بات چیت کی پالیسی کے حوالے سے اگر سعودی عرب مدد کرتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے
ایڈمرل مولن
انہوں نے صدر براک اوباما کی جانب سے تیس ہزار مزید فوجیوں کی تعیناتی اور نئی افغانستان پاکستان پالسی کی حمایت کی اور کہا کہ جولائی دوہزار گیارہ سے سلامتی کی ذمہ داریاں افغان حکومت کو منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ افغان قومی فوج کی تعداد اور معیار کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالنے کی اہل ہوجائے۔
خیال رہے کہ براک اوباما کی جانب سے جولائی دوہزار گیارہ سے امریکی فوجوں کے انخلا کی بات کرنے پر امریکہ میں صدر پر کڑی تنقید کی جارہی ہے جس کے بعد سے امریکی اہلکاروں نے اپنے موقف میں تبدیلی کرنا شروع کردی ہے اور اب وہ انخلا کی تاریخ کو حتمی قرار نہیں دے رہے بلکہ یہ موقف اختیار کر رہے ہیں اس تاریخ سے سلامتی کی ذمہ داریاں منتقل ہونے کا عمل شروع ہوگا۔
[/RIGHT]
واشنگٹن میں غیر ملکی صحافیوں کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں ایڈمرل مولن نے کہا کہ اس سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے اقدامات مثبت ہیں اور تنازعہ کے حل کے لیے امریکہ بات چیت کی حمایت کرتا رہے گا۔
مائیک مولن نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے حوالے سے بات کی ہے اور امریکہ ان خدشات کو سمجھتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت دیگر خطرات سے بھی واقف ہے اور اس کو اندازہ ہے کہ سردست اس کو سب سے زیادہ خطرہ اسلامی شدت پسندی سے ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے حوالے سے بات کی ہے اور امریکہ ان خدشات کو سمجھتا ہے
مائیک مولن
مولن کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے اور پاکستانی فوج جو قربانیاں دے رہی ہے وہ قابل تعریف ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی قیادت کی بھی تعریف کی۔
ایڈمرل مولن نے پاکستان اور بغداد میں شدت پسند حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ بزدل قاتل پاگل پن کے نظریے کے تحت معصوم لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں امریکی افواج کے سربراہ نے کہا کہ سعودی عرب دہشتگردی کی جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ ہے اور اس کے پاکستان سے بہت دیرینہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افہام تفہیم اور بات چیت کی پالیسی کے حوالے سے اگر سعودی عرب مدد کرتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔
امریکی افواج کے سربراہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کامیابی صرف امریکہ کی ذمہ داری نہیں اور یہ ایک عالمی لڑائی ہے جس میں دنیا کے تینتالیس ممالک مادی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیگر ممالک کی کامیابی بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور افغان صدر حامد کرزئی کے اس اعلان کی پیش رفت دیکھنا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے اچھی حکومت کے قیام کی بات کی تھی۔
امریکہ کی افہام تفہیم اور بات چیت کی پالیسی کے حوالے سے اگر سعودی عرب مدد کرتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے
ایڈمرل مولن
انہوں نے صدر براک اوباما کی جانب سے تیس ہزار مزید فوجیوں کی تعیناتی اور نئی افغانستان پاکستان پالسی کی حمایت کی اور کہا کہ جولائی دوہزار گیارہ سے سلامتی کی ذمہ داریاں افغان حکومت کو منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ افغان قومی فوج کی تعداد اور معیار کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالنے کی اہل ہوجائے۔
خیال رہے کہ براک اوباما کی جانب سے جولائی دوہزار گیارہ سے امریکی فوجوں کے انخلا کی بات کرنے پر امریکہ میں صدر پر کڑی تنقید کی جارہی ہے جس کے بعد سے امریکی اہلکاروں نے اپنے موقف میں تبدیلی کرنا شروع کردی ہے اور اب وہ انخلا کی تاریخ کو حتمی قرار نہیں دے رہے بلکہ یہ موقف اختیار کر رہے ہیں اس تاریخ سے سلامتی کی ذمہ داریاں منتقل ہونے کا عمل شروع ہوگا۔
[/RIGHT]