جستجو: حالات حاضرہ
سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں
Wednesday، September 03، 2008
بے وقت کی راگنی
محمد بن قاسم
justujumedia
at
gmail dot com
مان لیجیے، شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگِ دین کو ہم جھٹلائیں کیا
ہوچکے حالی غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا
مولانا الطاف حسین حالی 1914-1837
موجودہ صورتِ حال میں، جب کہ پاکستان کے ایک حادثاتی رہنما، جناب آصف زرداری، صدر پاکستان کے عہدہ ءعالیہ پر براجمان ہونے جارہے ہیں، عقل دنگ ہے کہ یہ کیسا منظر نامہ ترتیب پا گیا ہے۔ تمام آزادانہ کام کرنے والے صحافتی ادارے ان کے اثاثہ جات کے بارے میں ہوش ربا، اور طلسمِ سامری جیسی رپورٹیں شائع کررہے ہیں۔ یہ امر روز روشن کی طرح یقینی ہے کہ اگر یہ تمام اثاثے ، جن کی مالیت ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، واقعی زرداری اور بھٹوخاندان کی میراث کے زمرہ میں ہیں، تو اس قدر بڑی رقمیں تو کسی بھی دیانت دار پاکستانی کی قسمت میں نہیں۔ خود ہمارے تازہ تازہ' سابق' ہوئے صدر صاحب پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اپنی زندگی ٹھاٹ باٹ ، اور سیر وسفر میں گزاریں گے! وہ پاکستانی زرداروں میں ہری جن (خدا کے بچے سے زیادہ نہیں لگتے۔ ہم اپنے کم عمر اور کم مطالعہ قارئین پریہ واضح کردیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جو طبقاتی نظام ہے، اس میں برہمن سب سے اوپر، اور دلِت سب سے نچلے درجہ پر سمجھے جاتے ہیں۔
ہندوستانی رہنماآنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے دلتوں کو "خدا کے بچوں" کا لقب دے دیا تھا، جو عیسائی تعلیمات سے زیادہ قریب، اور مغرب کے لیے زیادہ دل کش نعرہ ہے۔ یہ خدا کے بچے اپنی تمام ضرورتوں کے لیے خدا کے ہی محتاج ہیں، کیونکہ بھارتی متعصب معاشرہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتا ہے۔ آپ یہ جان کر شاید حیران ہوں گے کہ حالیہ مون سون کے سیلابوں میں کی جانے والی امدادی کارروائیوں میں بھی یہی طبقاتی نظام کارفرما رہا، اور بے چارے مسکین ہری جنوں کی بستیوں کو امدادی کشتیاں اور سازوسامان فراہم نہیں کیا گیا، اور انہیں سیلابی موجوں کے تھپیڑے کھانے پر مجبور کردیا گیا۔
آپ میں سے جو دو چار ذہین قاری ہیں، وہ یقینا یہ سوال کریں گے کہ ہم نے بھارتی طبقاتی نظام کا موضوع کیوں چھیڑ دیا! تو پیارے دوستو، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اور آپ اس آزادی کا شکر ادا کریں جوہمیں ہندو بالا دستی سے فی الوقت نجات دلائے ہوئے ہے۔ اور وقتاْ فوقتاْ اپنے قومی آزادی کے سفر کی یادیں تازہ کرتے رہیں، اور ان عظیم رہنماﺅں کی زندگی کو اپنے کردار کے لیے ایک سانچہ بنانے کی کوشش کریں، جن کی ذہانت ، فراست، تدبر، اور رہنمائی کی بناءپر آج ہم ایک آزاد پاکستان کی فضاﺅں میں سانس لے سکتے ہیں۔ ورنہ خاکم بدہن، ہم اور آپ بھی 'خدا کے بچے' بنے ہوتے۔ اس امر کی نشاندہی کرنے کے لیے ہم اس لیے بھی بے چین تھے کہ گزشتہ دنوں، جب جناب آصف زرداری صاحب نے تمام پاکستانی دوردرشنوں کو ایک جیسا ہی انٹرویو دیا تھا، جن میں بہترین فٹنگ کے نئے نئے سوٹ البتہ مختلف تھے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہم تو بات چیت پر ہی یقین رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح قائد اعظم نے پاکستان صرف بات چیت کے ذریعہ بنا لیا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ جواب قائد اعظم کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کررہا تھا، مگر اس سرسری سے بیان سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ انہیں تحریکِ پاکستان کے بارے میں مکمل اور ضروری تاریخی معلومات شاید حاصل نہیں، یا پھر وہ اسے بھول گئے تھے، کم ازکم اپنے انٹرویوز کے وقت۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہونے کے خواہشمند پاکستانی کے لیے یہ ایک مثالی صورتِ حال نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد تحریکِ پاکستان کے بارے میں ایک 'حادثاتی کورس' کرلیں۔ تاکہ وہ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، چوہدری رحمت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولوی عبدالحق، قائد اعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں کی جدوجہد، اور مسلم لیگ کے قیام، اور دیگر تاریخی حقائق جان لیں، جن میں لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث قربانیاں شامل ہیں۔ وہ مسلمان، جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ 1947 میں قائم ہونے والے پاکستان میں منتقل نہ ہوسکیں گے، صرف اسلام کے نام پر اپنی جانیں، مال وآن قربان کرگئے۔ یہ ان کا عطیہ کیا ہوا لہو ہی ہے، جو آج بھی پاکستان کی رگوں میں دوڑ رہا، اور اسے زندگی عطا کیے ہوئے ہے۔ اگر آج بھی قربانی اور خدمت کا وہی جذبہ ہو تو پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہواباوقار مقام پھر حاصل کرسکتا ہے۔
اسی طرح ہمارے نامی وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں یہ فرمایا ہے کہ اگر قائدِ اعظم بیک وقت مسلم لیگ کے صدر اور گورنر جنرل بھی ہوسکتے ہیں، تو جناب آصف زرداری بھی بیک بینی اور دو گوش اپنی سیاسی پارٹی کے چیف، اور صدرِ پاکستان کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہمارا بھی وہی خیال ہے جو آپ کا ہوگا۔۔۔۔۔ کہاں قائد اعظم، اور کہاں ہمارے موجودہ رہنما۔ بہتر ہوگا کہ وہ اس قسم کے موازنے کرنے کی کوششیں نہ کیا کریں۔ تعلیم، عمل، کردار، امانت، دیانت، عمیق مطالعہ، قانون پر گرفت، مستقبل پر ایک صاف اور واضح نظر، یہ سب وہ صفات ہیں جن پر آج کا کوئی بھی پاکستانی لیڈر پورا نہیں اترتا۔ ایک مقبول امریکی ویب سائٹ ابائوٹ ڈاٹ کام پر ایک لبنانی عرب امریکی لکھاری پیرے ٹرسٹام نے ایک نہایت ہی پرمغز مقالہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تحریر کیا ہے۔ وہ پاکستانیوں پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی صاف و شفاف رہنما اس قوم کو دست یاب نہ ہوسکا، اور پاکستانی صدارت بھی خورد برد کا شکار ہوگئی۔ ہمارا بھی خیال ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ تمام تینوں کے تینوں صدارتی امیدوار کھلے عام دور درشنوں پر آکر پاکستانی مسائل پر بحث و مباحثہ کریں، اور اپنے اپنے وژن اور منصوبہ بندی سے عوام کو آگاہ کریں۔ جب امریکی ایسا کرسکتے ہیں تو پاکستانی کیوں نہیں؟
پاکستانی رہنماﺅں کی بات کرتے ہوئے، یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بلوچستان میں جب کچھ عرصہ قبل ایک ساتھ پانچ خواتین کو زخمی کرکے زندہ ہی دفنادیا گیا، تو یہ خبر کسی بھی پاکستانی صحافی یا اخبار نے نہ پائی۔ یہ تو ہانگ کانگ کے ایک انسانی حقوق کا ایک ادارہ تھا جس نے یہ وحشت ناک خبر تمام دنیا کو سنائی۔ پھر ہم بھی اسے راز میں نہ رکھ سکے۔ ان زخمو ں پر نمک چھڑکتے ہوئے ہمارے سینیٹ میں تخت نشین بلوچی رہنماﺅں نے جو ابتدائی بیانات دیئے وہ عذر گناہ، بد تر از گناہ ہیں۔ انسانی جانوں کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہی نہیں، اور اس پر احتجاج انہیں بہت برا لگ رہا ہے۔ مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے ایسے اشخاص، قرآن الکریم کی سورہ ءنور کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرلیں، اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر توبہ کریں، اور انصاف کی فراہمی کے لیے کام کریں تو ان کی عاقبت سدھر سکتی ہے۔ بہر حال، ایسے رہنماﺅں سے اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے، اس قسم کے ذہنی مریض افراد کی عدل کے ایوانوں میں موجودگی پاکستان کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح رہے گی۔ ہماری مذہبی جماعتوں کا اس معاملہ پر خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھانا بڑا معنی خیز ہے۔ کراچی میں لاشوں کی سیاست کرنے والے ذرا بلوچستان میں بھی تو نمازِ جنازہ پڑھانے کی ہمت کریں۔
پیارے قارئین، اگر یہ تحریر آپ کو بے وقت کی راگنی محسوس ہورہی ہے تو اس میں آپ کا چنداں قصور نہیں۔ بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کے سازوں کی آواز و جھنکار اس وقت اس قدر بلند ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنی مرضی کے پاکستانی رہنماﺅں کا انتخاب کیوں کیا، اور وہ ایسے کون سے کام ہیں جو محترمہ بے نظیربھٹوزرداری شہید، اور جناب سابق صدر سے نہیں نکلوائے جاسکتے تھے۔ غور کیجیے، اور سر دھنیے، اس کے سوا پاکستانی کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ 6 ستمبر 2008 بھی سنہ 1965 کی طرح ہی ایک یوم دفاع کا تقاضہ کررہا ہے۔ مگر اس مرتبہ دفاع پاکستان کی اخلاقی اور نظریاتی سرحدوں کا ہے، جن کے بغیر پاکستان کوئی ٹھوس حیثیت نہیں رکھتا۔
چلتے، چلتے، ہم جناب ظریف لکھنوی (انیسویں صدی عیسویکے چندمزے دار اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جو صدارتی انتخابات کے موقع پر پاکستانی سیاست کے ایک مخصوص طبقہ کی لوٹا بازی اور مفاد پرستی کی دل چسپ عکاّسی کرتے ہیں:۔۔
ووٹ دوں گا عوض میں آپ کو خمسین *کے
اتنے ہی ملتے ہیں مجھ کو وعظ کے، تلقین کے
حضرتِ والا تو خود پابند ہیں آئین کے
اس سے کم لینا مرادف ہے مری توہین کے
ہاں یہ ممکن ہے کہ کچھ تقلیل فرمادیجیے
ہے یہ کارِ خیر، بس تعجیل فرمادیجیے
* خمسین = 50
٭
بدھ، 3 ستمبر 2008
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
(c) 2008 Justuju Media - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license