تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری ہستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی
گیت بنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا
اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی...
چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے۔ جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب ڈوب کے ابھرتا ہے۔ مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے، پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’پارس‘‘ سے اقتباس)
ٹائیں ٹائیں فش
میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
’’اے بیٹے اچھا ہوا جو تو مل گیا ۔۔۔۔۔ بڑی شاندار خبر لائی ہوں آج تو ۔۔۔۔۔‘‘
’’شاندار خبر ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے تیرے خاوند کی ڈیوٹی...
بہت سے دکھ ہماری قسمت میں لکھے ہوتے ہیں، وہ ہمیں ملنے ہوتے ہیں۔ بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ چاہے ہمیں جتنی بھی ناگوار لگیں مگر ہمیں انہیں قبول کرنا پڑتا ہے۔ انسان ہر وقت خود پر ترس کھاتا رہے، اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ دکھ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر اس کی...
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا
برس کے کھُل گئے آنسو، نتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا، اک امانت ہے
مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا
جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کُھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا...
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لئے عذر نا چاہے جاتے
کاش اے ابر بہاری! تیرے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا بھی گاہے جاتے
ہم بھی...
تعلق تو چھتری ہے، ہر جسمانی، ذہنی، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔ بے روزگاری، بیماری، غریبی، تنہائی، سارے غموں پر تعلق کا ہی پھایا رکھا جاتا ہے، دوستی، رشتہ داری، بہن بھائی، نانا، دادا ۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ ہر دکھ کی گھڑی میں کندھے پر رکھا ہوا ہمدرد ہاتھ، آنکھ میں جھلملاتی...