Bratva
PDF THINK TANK: ANALYST
- Joined
- Jun 8, 2010
- Messages
- 13,832
- Reaction score
- 67
- Country
- Location
Some interesting and logical observations posted in another forum. It is consistent with what I'm or some other member ( @Chak Bamu ) trying to say or convey during our debates of what must be IK priorities.
Starting with Haroon Rasheed column
بابا جی کی ساری باتیں ٹھیک نہیں ہوسکتیں لیکن ساری کی ساری غلط بھی نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔ پارٹی کی تنظیم وغیرہ کے بارے میں جو مشورے بابا جی بار بار دے رہا ہے وہ ٹھیک ہیں۔ پارٹی کی تنظیم اور الیکشنز بُہت ضروری ہیں۔ پارٹی میں نااتفاقی بھی بُہت ہے۔ آج اگر خدانخواستہ عمران نہیں رہے تو دیکھنا ساری کی ساری پی ٹی آئی 50 دھڑوں میں تحلیل ہو جائیگی کیونکہ خان کسی دوسرے کو آگے آنے دیتا ہی نہیں۔ خان سمجھتا ہے کہ کیمرہ ہر دم اُن پر ہو اور مائیک ہر دم اُنکے ہاتھ میں ہو۔ یہ بات پی ٹی آئی کے دوستوں کو شائد بُری لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔
میں تو کہتا ہوں کہ احتجاج کیساتھ ساتھ سندھ سے ممبر سازی شروع کرائے اور پارٹی الیکشنز کے بعد وہاں پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اس سے بھی پہلے اس حامد خان کو بطور الیکشن کمیشنز تو ہٹائے اور اسکی جگہ وجیہ الدین ٹائپ ایماندار اور سخت گیر بندے کو الیکشن کمیشن مقرر کرے۔
اسکے بعد بلوچستان اور پنجاب کیطرف آئے اور یہاں مرحلہ وار الیکشنز کروائے اور پھر کے پی میں الیکشنز کرائے جائے اور فاٹا پہ بھی توجہ دے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی کافی سپورٹ ہے لیکن چونکہ وہاں نہ تو پی ٹی آئی کوئی توجہ دیتی ہے اور نہ وہاں کا الیکشن کا نظام ٹھیک ہے۔ اسلیے 12 میں سے بڑی مُشکل سے ایک سیٹ پی ٹی آئی کی قسمت میں آئی وہ بھی اس اُمیدوار کی اپنی کوششیں زیادہ تھیں۔ ویسے کے پی کے زیادہ تر حلقوں کا بھی یہی حال تھا، لوگوں نے خود وؤٹ دیے ورنہ اُمیدواروں نے تو ڈھنگ سے کمپین بھی نہیں کی کیونکہآخری وقت تکخان اور انکی نکمّی ٹیم نے سب کو ٹکٹوں کے لیے لٹکائے رکھا تھا۔ کےپی میں تو اُن پولنگ سٹیشن پہ بھی جیت گئے جہاں انکے پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھے۔ کوئی ان پڑھ یا کوئی ضعیف بندہ آتا تو سٹاف ممبر کو کہتا کہ میرے لیے 'سوباڑی ' یعنی بیٹ پہ مہر لگا دو
۔
ابھی سے اسد عمر، عندلیب وغیرہ کی ڈیوٹی لگائے کہ وہ تبدیلی رضا کاروں کو کافی جانچ پڑتا ل کے بعد منتخب کرے کہ وہ سب کے سب پارٹی کے پُرانے اور ہارڈ کور کارکُن ہو کیونکہ پچھلی مرتبہ کافی لوگ نئے تھے اور الیکشنز کے دن سب بھاگ گئے۔ رضا کاروں کی ابھی سے ٹریننگ شروع کرے اور ایک ایک پولنگ سٹیشن کے لیے کم از کم 5 پولنگ ایجنٹس اور 10 مزید رضاکار فی بوتھ ٹریننگ دے اور ٹھیک ٹھاک ٹریننگ دے۔ پچھلی دفعہ کیطرح مذاق نہ کرے کہ آخری چند دنوں میں رضاکار بھی بھرتی کرے اور ٹریننگ بھی دےجو کہ ناممکن تھا۔
خان کو سارے حلقوں سے ممکنہ اُمیدواروں سے درخواستیں ابھی سے منگوانی چاہیے اور پھر پارٹی میں شامل کسی ریٹائرڈ اور ایماندار انٹیلجنس کے بندے کی سربرہی میں پارٹی کے 30-20 یا زیادہ لوگوں کی ایک انٹیلجنس ٹیم تشکیل دینی چاہیے۔ ان بندوں کو سارے پاکستان میں پھیلایا جائے جو ہر حلقے میں جا کے اُن اُمیدواروں کی ہرممکن مفصّل رپورٹ تیار کرے مثلاً اس اُمیدوارکی تعلیم کیا ہے؟ اسکی حلقے میں پوزیشن کیسی ہے؟ وہ ایماندار ہے کہ نہیں ؟ بنک کا ڈیفالٹر تو نہیں؟ تھانوں میں کتنی ایف آئی آر ہیں اور اگر ہیں تو کیوں ہیں؟ قبضہ مافیاں سے تو کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہ وہ جب ٹکٹ کے لیے انٹرویوں دینے آئے تو بورڈ کے سامنے ہر اسکا پورا بائیو ڈیٹا ہو جس سے اچھے سے اچھے بندے کو ٹکٹ دینا آسان ہوگا اور فضول کے جھگڑے بھی نہیں ہونگے۔
اسی طرح الیکشنز رول پہ بھی نظر رکھنی چاہیے۔
حلقہ وار سروے بھی کرانا چاہیے کہ کس حلقے میں پی ٹی آئی کے کتنے ممکنہ وؤٹ ہیں۔ اب تو ایک حلقے کا بندہ دوسرے حلقے میں وؤٹ رجسٹرڈ کر سکتا ہے۔ او ر اسطرح ایک سائنسی طریقہ کار سے اُس حلقے میں جہاں پارٹی کے وؤٹ کم ہو مزید وؤٹ رجسٹر بھی کرا سکتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کراچی میں یہ کام بھی کرتی ہے۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لاکھوں وؤٹ ہیں، میرے خیال میں تقریباً 40 لاکھ ووٹس ہیں۔ اُنمیں ایک بُہت بڑی تعداد پی ٹی آئی کی سپورٹز ہیں۔ انکے ووٹنگ رائٹس کے لیے ابھی سے جدوجہد کرنی چاہیے اور مختلف تجاویز مرتب کرکے الیکشن کمیشن کو دینی چاہیے کہ بیرونِ ملک پاکستانی کس طرح اپنے ووٹ ڈال سکتے ہیں تاکہ اُنکے پاس انکار کا جواز نہ ہو۔ کیونکہ بیرون ملک سے وؤٹ ڈالنے کی شرح کم از کم 70 فیصد سے زیادہ ہوگی ۔
اسکے علاوہ بھی بُہت دوسرے اقدامات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ اگلا الیکشن ایک سائنسی طریقے سے لڑا جائے پچھلی الیکشنز کی طرح فضول میں لوگوں کا وقت ضائع نہ کیا جائے ۔
خان کو میں نے کسی کے ذریعے یہ مشورہ دینے کی بھی کوشش کی تھی کہ نواز اور زرداری کی طرز حکمرانی پہ تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کارگردگی بھی لوگوں کو دیکھائے۔لوگوں کو بتایا جائے کہ پچھلے 18 ماہ میں کے پی میں پی ٹی آئی نےکیا چھوٹے بڑے کام کیے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی کے اثرات آنا شروع ہو ئے ہیں۔ اور اگلے الیکشن کے لیے کسی طور بھی عدلیہ، آرمی یا الیکشن کمیشن پہ اعتبار نہ کرے بلکہ اپنے زور بازؤں اور سائنسی طریقے سے الیکشن لڑ اجائے۔ لیکن میرے خیال میں خان یہ کبھی بھی نہیں کرینگے کیونکہ خان ایک طرف تو کہہ رہے ہے کہ الیکشز اگلی عید سے پہلے یعنی ۹ مہینے بعد ہو نگے (ویسے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ناممکنات میں سے ہیں) اور تیاری صفر بٹہ صفر ہے۔ میں تو کہتا ہوں اگر الیکشنز 2015 کے آخر یا 2016 میں بھی ہو، پی ٹی آئی کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی نے اگلا الیکشن بھی پچھلے الیکشن کیطرح لڑا میں تو کبھی بھی پی ٹی آئی پہ وقت ضائع نہیں کرونگا اور شائد اور لوگ بھی
Starting with Haroon Rasheed column
بابا جی کی ساری باتیں ٹھیک نہیں ہوسکتیں لیکن ساری کی ساری غلط بھی نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔ پارٹی کی تنظیم وغیرہ کے بارے میں جو مشورے بابا جی بار بار دے رہا ہے وہ ٹھیک ہیں۔ پارٹی کی تنظیم اور الیکشنز بُہت ضروری ہیں۔ پارٹی میں نااتفاقی بھی بُہت ہے۔ آج اگر خدانخواستہ عمران نہیں رہے تو دیکھنا ساری کی ساری پی ٹی آئی 50 دھڑوں میں تحلیل ہو جائیگی کیونکہ خان کسی دوسرے کو آگے آنے دیتا ہی نہیں۔ خان سمجھتا ہے کہ کیمرہ ہر دم اُن پر ہو اور مائیک ہر دم اُنکے ہاتھ میں ہو۔ یہ بات پی ٹی آئی کے دوستوں کو شائد بُری لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔
میں تو کہتا ہوں کہ احتجاج کیساتھ ساتھ سندھ سے ممبر سازی شروع کرائے اور پارٹی الیکشنز کے بعد وہاں پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اس سے بھی پہلے اس حامد خان کو بطور الیکشن کمیشنز تو ہٹائے اور اسکی جگہ وجیہ الدین ٹائپ ایماندار اور سخت گیر بندے کو الیکشن کمیشن مقرر کرے۔
اسکے بعد بلوچستان اور پنجاب کیطرف آئے اور یہاں مرحلہ وار الیکشنز کروائے اور پھر کے پی میں الیکشنز کرائے جائے اور فاٹا پہ بھی توجہ دے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی کافی سپورٹ ہے لیکن چونکہ وہاں نہ تو پی ٹی آئی کوئی توجہ دیتی ہے اور نہ وہاں کا الیکشن کا نظام ٹھیک ہے۔ اسلیے 12 میں سے بڑی مُشکل سے ایک سیٹ پی ٹی آئی کی قسمت میں آئی وہ بھی اس اُمیدوار کی اپنی کوششیں زیادہ تھیں۔ ویسے کے پی کے زیادہ تر حلقوں کا بھی یہی حال تھا، لوگوں نے خود وؤٹ دیے ورنہ اُمیدواروں نے تو ڈھنگ سے کمپین بھی نہیں کی کیونکہآخری وقت تکخان اور انکی نکمّی ٹیم نے سب کو ٹکٹوں کے لیے لٹکائے رکھا تھا۔ کےپی میں تو اُن پولنگ سٹیشن پہ بھی جیت گئے جہاں انکے پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھے۔ کوئی ان پڑھ یا کوئی ضعیف بندہ آتا تو سٹاف ممبر کو کہتا کہ میرے لیے 'سوباڑی ' یعنی بیٹ پہ مہر لگا دو
ابھی سے اسد عمر، عندلیب وغیرہ کی ڈیوٹی لگائے کہ وہ تبدیلی رضا کاروں کو کافی جانچ پڑتا ل کے بعد منتخب کرے کہ وہ سب کے سب پارٹی کے پُرانے اور ہارڈ کور کارکُن ہو کیونکہ پچھلی مرتبہ کافی لوگ نئے تھے اور الیکشنز کے دن سب بھاگ گئے۔ رضا کاروں کی ابھی سے ٹریننگ شروع کرے اور ایک ایک پولنگ سٹیشن کے لیے کم از کم 5 پولنگ ایجنٹس اور 10 مزید رضاکار فی بوتھ ٹریننگ دے اور ٹھیک ٹھاک ٹریننگ دے۔ پچھلی دفعہ کیطرح مذاق نہ کرے کہ آخری چند دنوں میں رضاکار بھی بھرتی کرے اور ٹریننگ بھی دےجو کہ ناممکن تھا۔
خان کو سارے حلقوں سے ممکنہ اُمیدواروں سے درخواستیں ابھی سے منگوانی چاہیے اور پھر پارٹی میں شامل کسی ریٹائرڈ اور ایماندار انٹیلجنس کے بندے کی سربرہی میں پارٹی کے 30-20 یا زیادہ لوگوں کی ایک انٹیلجنس ٹیم تشکیل دینی چاہیے۔ ان بندوں کو سارے پاکستان میں پھیلایا جائے جو ہر حلقے میں جا کے اُن اُمیدواروں کی ہرممکن مفصّل رپورٹ تیار کرے مثلاً اس اُمیدوارکی تعلیم کیا ہے؟ اسکی حلقے میں پوزیشن کیسی ہے؟ وہ ایماندار ہے کہ نہیں ؟ بنک کا ڈیفالٹر تو نہیں؟ تھانوں میں کتنی ایف آئی آر ہیں اور اگر ہیں تو کیوں ہیں؟ قبضہ مافیاں سے تو کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہ وہ جب ٹکٹ کے لیے انٹرویوں دینے آئے تو بورڈ کے سامنے ہر اسکا پورا بائیو ڈیٹا ہو جس سے اچھے سے اچھے بندے کو ٹکٹ دینا آسان ہوگا اور فضول کے جھگڑے بھی نہیں ہونگے۔
اسی طرح الیکشنز رول پہ بھی نظر رکھنی چاہیے۔
حلقہ وار سروے بھی کرانا چاہیے کہ کس حلقے میں پی ٹی آئی کے کتنے ممکنہ وؤٹ ہیں۔ اب تو ایک حلقے کا بندہ دوسرے حلقے میں وؤٹ رجسٹرڈ کر سکتا ہے۔ او ر اسطرح ایک سائنسی طریقہ کار سے اُس حلقے میں جہاں پارٹی کے وؤٹ کم ہو مزید وؤٹ رجسٹر بھی کرا سکتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کراچی میں یہ کام بھی کرتی ہے۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لاکھوں وؤٹ ہیں، میرے خیال میں تقریباً 40 لاکھ ووٹس ہیں۔ اُنمیں ایک بُہت بڑی تعداد پی ٹی آئی کی سپورٹز ہیں۔ انکے ووٹنگ رائٹس کے لیے ابھی سے جدوجہد کرنی چاہیے اور مختلف تجاویز مرتب کرکے الیکشن کمیشن کو دینی چاہیے کہ بیرونِ ملک پاکستانی کس طرح اپنے ووٹ ڈال سکتے ہیں تاکہ اُنکے پاس انکار کا جواز نہ ہو۔ کیونکہ بیرون ملک سے وؤٹ ڈالنے کی شرح کم از کم 70 فیصد سے زیادہ ہوگی ۔
اسکے علاوہ بھی بُہت دوسرے اقدامات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ اگلا الیکشن ایک سائنسی طریقے سے لڑا جائے پچھلی الیکشنز کی طرح فضول میں لوگوں کا وقت ضائع نہ کیا جائے ۔
خان کو میں نے کسی کے ذریعے یہ مشورہ دینے کی بھی کوشش کی تھی کہ نواز اور زرداری کی طرز حکمرانی پہ تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کارگردگی بھی لوگوں کو دیکھائے۔لوگوں کو بتایا جائے کہ پچھلے 18 ماہ میں کے پی میں پی ٹی آئی نےکیا چھوٹے بڑے کام کیے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی کے اثرات آنا شروع ہو ئے ہیں۔ اور اگلے الیکشن کے لیے کسی طور بھی عدلیہ، آرمی یا الیکشن کمیشن پہ اعتبار نہ کرے بلکہ اپنے زور بازؤں اور سائنسی طریقے سے الیکشن لڑ اجائے۔ لیکن میرے خیال میں خان یہ کبھی بھی نہیں کرینگے کیونکہ خان ایک طرف تو کہہ رہے ہے کہ الیکشز اگلی عید سے پہلے یعنی ۹ مہینے بعد ہو نگے (ویسے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ناممکنات میں سے ہیں) اور تیاری صفر بٹہ صفر ہے۔ میں تو کہتا ہوں اگر الیکشنز 2015 کے آخر یا 2016 میں بھی ہو، پی ٹی آئی کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی نے اگلا الیکشن بھی پچھلے الیکشن کیطرح لڑا میں تو کبھی بھی پی ٹی آئی پہ وقت ضائع نہیں کرونگا اور شائد اور لوگ بھی