What's new

اردو ہے جس کا نام

پھینکو پھینکو

گُزرا جو اُس گلی سے تو پھر یاد آگیا ،
اُس کا اِلتِفات بھی کیا التِفات تھا
پھینکا جو اُس نے پُھول
تو گملا بھی ساتھ تھا ۔
 
گُزرا جو اُس گلی سے تو پھر یاد آگیا ،
اُس کا اِلتِفات بھی کیا التِفات تھا
پھینکا جو اُس نے پُھول
تو گملا بھی ساتھ تھا ۔
I love گملا
 
" اِک ذرا صبر،کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں "
پھر آپ کو گملا (وج) مل جا ئے گا۔
upload_2017-11-30_11-35-34.png
 
ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮﻧﮯ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﺮﺯﺍ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺷﺌﯿﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻼﻓﺖ ﺍﺣﻤﺪﯾﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﺎﺩ، ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻡ، ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ۔

ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺳﭧ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﮐﺎ ﺗﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻤﯿﻮﻧﺴﭧ، ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ ﭘﺴﻨﺪ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﺎ ﮐﺎﻓﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮩﻠﻮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻟﺒﺮﻝ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﺒﺮﻝ ﺍﺯﻡ ﮐﯽ ﻧﺌﯽ ﺣﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﺱ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﮮ، ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﺍﭘﻨﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﻟﺒﺮﻝ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﮮ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺣﻖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻟﮍﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﻖ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮮ۔

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺕ ﺁﺭﮔﻮﻣﻨﭧ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺣﻖ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺐ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﺒﻮﺕ ﷺ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﻧﺒﯽ ﷺ ﭘﺮ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﺒﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮯ ﺩﺍﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﺮﺩﯾﮟ؟ ﮐﯿﺎ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ؟

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺟﻮ ﺟﻮ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﮮ، ﭼﺎﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﯾﺎ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﻞ ﮐﻼﮞ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﺮﺩﮮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﺎ ﻣﻤﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺎﻃﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺛﺌﯿﺮ ﮐﯽ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺷﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﮐﺎ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺟﻮﺍﺯ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﻏﻠﻂ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔

ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻮﻗﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺷﺨﺼﯿﺖ، ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﺪﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺣﺼﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻟﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ۔ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ؟؟؟؟

ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﮨﻤﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﮐﮧ ﻋﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺫﻣﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﻧﺒﻮﺕ ﷺ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﺗﮯ۔

ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻭﺭ ﺷﺨﺼﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﺍﺳﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺍﻭﺭ ﺫﺍﺗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺧﻞ ﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺷﺮﻭﻉ ﻧﮧ ﮐﺮﺩﮮ۔

ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮨﻮﭼﮑﯽ، ﺍﺏ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ۔ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺑﮭﯽ 1400 ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮﭼﮑﯽ، ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ، ﮨﻢ ﺍﻥ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﻮ ﭼﮭﯿﮍﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ، ﭼﺎﮬﮯ ﺁﭖ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﭘﺴﻨﺪ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ !!!

ﺑﻘﻠﻢ ﺑﺎﺑﺎﮐﻮﮈﺍ
 
پروں بنا جو دیکھا پنچھی
مجھ کو میری یاد آئی
میں نے کہا اپنا کوئی
ایک بھی آواز نہ آئی

Paron bina jo dekha panchi, mujh ko meri yaad ayi
May nay kaha hai apna koi, aik bhi awaz na ayi
 
Last edited:
ایک گاؤں میں این جی اوز کی کچھ عورتیں گئی،

وہاں پر ایک سادہ سی عورت ان کو ایک گھر میں ملی انہوں نے عورت سے سوالات کئے،

اور آخر میں

گھر میں کھڑی گائے کی طرف اشارہ کر کے کہا تمہاری زندگی اس گائے کی طرح ہے ساری زندگی اس چاردیواری میں بند رہی

اپنی کوئ مرضی نہیں، بچے پیدا کئے اور ان کو پالتے پوستے زندگی گزار دی

یہ بھی کوئی زندگی ہے ۔ ???

اس عورت کے ذہن میں اللہ نے بات ڈالی

گھر سے باہر کھڑی گدھی کی طرف اشارہ کر کے کہا تمہاری مثال اس گدھی کی طرح ہے،

جب جس کے دل میں آئے اس کو
کان سے پکڑ کر جہاں لے جائے، جو مرضی کام کروا لے,
کوئ پوچھنے والانہیں
 
اردو جو ہمارے دل پہ نقش ہے۔
اردو اتنی میٹھی زبان ہے کہ اس کے تحریری لہجے کی چاشنی بہت اندر تک اتر جاتی ہے۔ تحریر اور تحریری لہجہ تو بہت آگے کی چیزیں ہیں اس میں استعمال ہوئے الفاظ ہی بہت خوبصورتی لیے ہوتے ہیں۔
ایک لفظ ہے نقش و نگار۔ نقش کے معنی تو جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ صورت اور مورت ہوتے ہیں۔ یہ نقش کے ساتھ لگا لفظ "نگار" ہے نا یہ مجھے ادا کرنے میں بڑا پیار سا لگتا ہے۔ نگار۔۔۔۔۔۔ سگار حالانکہ اس کا ہم قافیہ لفظ ہے مگر ادائیگی میں کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا نگار لگتا ہے۔ خیر میں اس کے معنی اکھٹے کرنا چاہ رہا تھا لہٰذا (آن لائن) لغت سے رجوع کیا، جو معنی نظر سے گزرے وہ کچھ یوں تھے۔
1. نقش کا مترادف، تصویر۔
2. بت، مورت، مورتی۔
3. رنگیلا، معشوق، چھبیلا، خوبصورت آدمی، من ہرن، من ذہن، محبوب۔
معنی پڑھ کر بے ساختہ چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی اور دماغ میں سوچ کہ معنویت کے لحاظ سے اردو کتنی سخی زبان ہے۔ بہرحال لفظ "نگار" کی لغت میں لکھی جس تشریح نے حقیقی معنوں میں شگفتہ کیا اور یہ تحریر لکھنے پہ مجبور کیا وہ یہ تھی
44 "وہ نقش یا مچھلیاں اور چاند وغیرہ جو مہندی سے خوبصورت عورتیں اپنے ہاتھوں پر بنا لیتی ہیں نگار کہلاتے ہیں"
کیا بات ہے اردو کی بلکہ کیا ہی بات ہے اردو کی۔ خواتین و حضرات آپ سارے ہی اس تجربے سے واقف ہوں گے کہ جب ہم تحریر پڑھتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہمارے تخیل کے پردے پہ تصویریں ابھرتی جاتیں ہیں۔ تحریر و تصویر کا یہ کھیل اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ قاری اپنے حقیقی مقام سے ہٹ کر تحریر میں ڈوب جاتا ہے۔ ادیب حضرات کے ہاں اس کیفیت کو منظر نگاری کہتے ہیں۔ میں ماہرِ لسانیات تو نہیں ہوں لیکن اردو کی چاشنی کو دیکھوں تو یقین سا ہو جاتا ہے، کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ منظر نگاری کی صلاحیت بھی اردو زبان میں باقی زبانوں سے ممتاز ہے۔ یہ اتنی پیاری زبان ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی اردو کے عشق میں گزار دی۔ اردو سے متعلق کبھی ان کی تحریریں ضرور پڑھیے گا۔
اختتام سے قبل ایک دلچسپ واقعہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں مجھے یقین ہے کہ تحریر طویل ہونے کے باوجود آپ پوری پڑھ ہی لیں گے۔ یہ واقعہ کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے لکھا، وہاں سے نقل کیا جا رہا ہے
"استاد محمد ابراھیم ذوق فرماتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ نے غزل کا مسودہ دیا اور فرمایا ’’اسے ابھی درست کر کے دے جانا۔‘‘ برسات کا موسم تھا، ابر آرہا تھا، دریا چڑھاؤ پر تھا، میں دیوانِ خاص میں جا کر اُس رخ پر ایک طرف بیٹھ گیا اور غزل لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ (انگریز) کھڑے ہیں۔ مجھ سے کہا ’’آپ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’غزل ہے۔‘‘ پوچھا، ’’آپ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نظم میں حضور کی دعا گوئی کیا کرتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’کس زبان میں؟‘‘ میں نے کہا، ’’اُردو میں‘‘ پوچھا، ’’آپ کیا کیا زبانیں جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’فارسی اور عربی بھی جانتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’ان زبانوں میں بھی شعر کہتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’کوئی خاص موقع ہو تو ان میں بھی کہنا پڑتا ہے، ورنہ اُردو ہی میں کہتا ہوں کہ یہ میری اپنی زبان ہے، جو کچھ انسان اپنی زبان میں کہہ سکتا ہے، غیر کی زبان میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘ پوچھا، ’’آپ انگریزی جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’کیوں نہیں پڑھا؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہمارا لب و لہجہ اُس سے موافق نہیں۔ وہ ہمیں آتی نہیں۔
‘‘ صاحب نے کہا، ’’ویل! یہ کیا بات ہے۔ دیکھیے، ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی، بہت مشکل معاملہ ہے۔‘‘ اُنہوں نے پھر کہا، ’’ویل! ہم آپ کا تین زبان ہندوستان آ کر سیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘ اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا، ’’صاحب! ہم زبان کا سیکھنا اُسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت، ہر قسم کی تحریر اس طرح کریں، جس طرح خود اہلِ زبان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، ’’ہم نے آپ کا تین زبان سیکھ لیا‘‘ بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے۔ اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے، اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔‘‘
تو جناب قصہ نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اہلِ زبان ہی زبان کی قدر کرتے ہیں غیر کبھی نہیں کرتے۔ ہم اپنی زبان سے اتنا دور جا چکے ہیں کہ آج مجھے لفظ "آن لائن" کےلیے اردو میں کوئی متبادل لفظ ہی نہیں ملا۔ یہ ہمسائے میں بھارت والے ہیں نا۔ ٹیلی ویژن کو "دور درشن" کہتے ہیں۔ زبان کے معاملے میں انہوں نے ہندی کو ہماری طرح بے آسرا نہیں چھوڑا۔ اپنی زبان کی قدر کیجیے یہ اپنی ہی تو ہے اس کی شکل اور لب و لہجہ بگاڑ دینے سے ہمیں کیا حاصل ہو گا؟ انگلش بے شک شوق سے بولیے اور فرفر بولیے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ اردو اپنی حالت میں برقرار رہے۔ زبان کی یہ امانت اگلی نسلوں تک اپنی اصلی حالت میں پہنچائیں۔
 
ایک گاؤں میں این جی اوز کی کچھ عورتیں گئی،

وہاں پر ایک سادہ سی عورت ان کو ایک گھر میں ملی انہوں نے عورت سے سوالات کئے،

اور آخر میں

گھر میں کھڑی گائے کی طرف اشارہ کر کے کہا تمہاری زندگی اس گائے کی طرح ہے ساری زندگی اس چاردیواری میں بند رہی

اپنی کوئ مرضی نہیں، بچے پیدا کئے اور ان کو پالتے پوستے زندگی گزار دی

یہ بھی کوئی زندگی ہے ۔ ???

اس عورت کے ذہن میں اللہ نے بات ڈالی

گھر سے باہر کھڑی گدھی کی طرف اشارہ کر کے کہا تمہاری مثال اس گدھی کی طرح ہے،

جب جس کے دل میں آئے اس کو
کان سے پکڑ کر جہاں لے جائے، جو مرضی کام کروا لے,
کوئ پوچھنے والانہیں

ہا ہا ہا۔۔۔۔ کیا بات ہے

اردو جو ہمارے دل پہ نقش ہے۔
اردو اتنی میٹھی زبان ہے کہ اس کے تحریری لہجے کی چاشنی بہت اندر تک اتر جاتی ہے۔ تحریر اور تحریری لہجہ تو بہت آگے کی چیزیں ہیں اس میں استعمال ہوئے الفاظ ہی بہت خوبصورتی لیے ہوتے ہیں۔
ایک لفظ ہے نقش و نگار۔ نقش کے معنی تو جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ صورت اور مورت ہوتے ہیں۔ یہ نقش کے ساتھ لگا لفظ "نگار" ہے نا یہ مجھے ادا کرنے میں بڑا پیار سا لگتا ہے۔ نگار۔۔۔۔۔۔ سگار حالانکہ اس کا ہم قافیہ لفظ ہے مگر ادائیگی میں کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا نگار لگتا ہے۔ خیر میں اس کے معنی اکھٹے کرنا چاہ رہا تھا لہٰذا (آن لائن) لغت سے رجوع کیا، جو معنی نظر سے گزرے وہ کچھ یوں تھے۔
1. نقش کا مترادف، تصویر۔
2. بت، مورت، مورتی۔
3. رنگیلا، معشوق، چھبیلا، خوبصورت آدمی، من ہرن، من ذہن، محبوب۔
معنی پڑھ کر بے ساختہ چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی اور دماغ میں سوچ کہ معنویت کے لحاظ سے اردو کتنی سخی زبان ہے۔ بہرحال لفظ "نگار" کی لغت میں لکھی جس تشریح نے حقیقی معنوں میں شگفتہ کیا اور یہ تحریر لکھنے پہ مجبور کیا وہ یہ تھی
44 "وہ نقش یا مچھلیاں اور چاند وغیرہ جو مہندی سے خوبصورت عورتیں اپنے ہاتھوں پر بنا لیتی ہیں نگار کہلاتے ہیں"
کیا بات ہے اردو کی بلکہ کیا ہی بات ہے اردو کی۔ خواتین و حضرات آپ سارے ہی اس تجربے سے واقف ہوں گے کہ جب ہم تحریر پڑھتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہمارے تخیل کے پردے پہ تصویریں ابھرتی جاتیں ہیں۔ تحریر و تصویر کا یہ کھیل اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ قاری اپنے حقیقی مقام سے ہٹ کر تحریر میں ڈوب جاتا ہے۔ ادیب حضرات کے ہاں اس کیفیت کو منظر نگاری کہتے ہیں۔ میں ماہرِ لسانیات تو نہیں ہوں لیکن اردو کی چاشنی کو دیکھوں تو یقین سا ہو جاتا ہے، کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ منظر نگاری کی صلاحیت بھی اردو زبان میں باقی زبانوں سے ممتاز ہے۔ یہ اتنی پیاری زبان ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی اردو کے عشق میں گزار دی۔ اردو سے متعلق کبھی ان کی تحریریں ضرور پڑھیے گا۔
اختتام سے قبل ایک دلچسپ واقعہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں مجھے یقین ہے کہ تحریر طویل ہونے کے باوجود آپ پوری پڑھ ہی لیں گے۔ یہ واقعہ کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے لکھا، وہاں سے نقل کیا جا رہا ہے
"استاد محمد ابراھیم ذوق فرماتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ نے غزل کا مسودہ دیا اور فرمایا ’’اسے ابھی درست کر کے دے جانا۔‘‘ برسات کا موسم تھا، ابر آرہا تھا، دریا چڑھاؤ پر تھا، میں دیوانِ خاص میں جا کر اُس رخ پر ایک طرف بیٹھ گیا اور غزل لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ (انگریز) کھڑے ہیں۔ مجھ سے کہا ’’آپ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’غزل ہے۔‘‘ پوچھا، ’’آپ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نظم میں حضور کی دعا گوئی کیا کرتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’کس زبان میں؟‘‘ میں نے کہا، ’’اُردو میں‘‘ پوچھا، ’’آپ کیا کیا زبانیں جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’فارسی اور عربی بھی جانتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’ان زبانوں میں بھی شعر کہتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’کوئی خاص موقع ہو تو ان میں بھی کہنا پڑتا ہے، ورنہ اُردو ہی میں کہتا ہوں کہ یہ میری اپنی زبان ہے، جو کچھ انسان اپنی زبان میں کہہ سکتا ہے، غیر کی زبان میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘ پوچھا، ’’آپ انگریزی جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’کیوں نہیں پڑھا؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہمارا لب و لہجہ اُس سے موافق نہیں۔ وہ ہمیں آتی نہیں۔
‘‘ صاحب نے کہا، ’’ویل! یہ کیا بات ہے۔ دیکھیے، ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی، بہت مشکل معاملہ ہے۔‘‘ اُنہوں نے پھر کہا، ’’ویل! ہم آپ کا تین زبان ہندوستان آ کر سیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘ اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا، ’’صاحب! ہم زبان کا سیکھنا اُسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت، ہر قسم کی تحریر اس طرح کریں، جس طرح خود اہلِ زبان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، ’’ہم نے آپ کا تین زبان سیکھ لیا‘‘ بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے۔ اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے، اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔‘‘
تو جناب قصہ نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اہلِ زبان ہی زبان کی قدر کرتے ہیں غیر کبھی نہیں کرتے۔ ہم اپنی زبان سے اتنا دور جا چکے ہیں کہ آج مجھے لفظ "آن لائن" کےلیے اردو میں کوئی متبادل لفظ ہی نہیں ملا۔ یہ ہمسائے میں بھارت والے ہیں نا۔ ٹیلی ویژن کو "دور درشن" کہتے ہیں۔ زبان کے معاملے میں انہوں نے ہندی کو ہماری طرح بے آسرا نہیں چھوڑا۔ اپنی زبان کی قدر کیجیے یہ اپنی ہی تو ہے اس کی شکل اور لب و لہجہ بگاڑ دینے سے ہمیں کیا حاصل ہو گا؟ انگلش بے شک شوق سے بولیے اور فرفر بولیے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ اردو اپنی حالت میں برقرار رہے۔ زبان کی یہ امانت اگلی نسلوں تک اپنی اصلی حالت میں پہنچائیں۔

واقعی،
اُردو کی وسیع دامنی دیکھتے ہوئے ان جدید الفاظ و تراکیب کا ترجمہ بھی ضروری ہے۔
 

وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے جب تک آپ کی فوج ہے، فوج کو وہ خود شکست نہیں دے سکے، اب یہ کام وہ آپ سے لینا چاہتے ہیں۔

بس یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔

اگر آپ یہ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجیے۔

اور اگر مقابلہ کرنے کا دل ہے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مورچہ سمجھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔

بنیادی طور پر آپ کے تین نمایاں دشمن ہیں۔

لبرلز: ایمان کے دشمن
خارجی: جان کے دشمن
جمہوریے: مال کے دشمن

تینوں کے پاس خوبصورت نعرے

لبرلز انسانیت کا نعرہ،
خارجی اسلام کا نعرہ،
اور جمہوریے حقوق کا نعرہ،

لیکن ایک کافر کرتا ہے، دوسرا مارتا ہے اور تیسرا لوٹتا ہے۔

تینوں کا آپس میں ایک غیراعلانیہ اتحاد ہے۔

آپ غور کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔،

اور ان تینوں کا مشترکہ دشمن کون؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان سے لڑنا کیسے ہے؟

1 ۔۔۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف پوسٹ کیا گیا مواد ہرگز شیر مت کیجیے۔

2 ۔۔۔۔ ایسے مواد پر لائک یا کمنٹ مت کیجیے۔ مخالفت میں بھی کمنٹ کرینگے تو وہ پوسٹ کی ریچ بڑھا دیگا۔

3۔۔۔۔۔۔ ہوسکے تو فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔

4 ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس اکاؤنٹس سے ایسا مواد شیر کیا گیا ہے اسکو انفرینڈ یا انلائک کیجیے۔

5 ۔۔۔۔۔ ایسے اکاؤنٹس اکثر فیک ہوتے ہیں اس لیے فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔

6 ۔۔۔۔ پاک فوج کو سپورٹ کرنے والا مواد گروپس میں اور وٹس ایپ وغیرہ پر زیادہ سے زیادہ شیر کیجیے۔

7 ۔۔ پاک فوج سے متعلقہ پیجز اور اکاؤنٹس کو لائیک یا فالو کیجیے۔

8 ۔۔۔۔ خود بھی لکھنے کی کوشش کیجیے۔

9 ۔۔۔۔۔ یہ فوج آپ کے لیے جانیں دے رہی ہے اس پر بھروسہ رکھئے۔ غیر واضح معاملات میں دشمن آپ کو فوج سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مت آئیے۔

یہ " فوج اچھی ہے اور جرنیل برے ہیں" کہہ کر آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔

ان کے سامنے پاک فوج کی قربانی کی خبر پیش کریں تو بظاہر غم زدہ ہونے کا ڈراما کرتے ہوئے آپ کو بتائنگے کہ " یہ فلاں جرنیل کی غلطی ہے" اور یوں پاک فوج پر ہی تنقید کرینگے۔

اگر دشمن حملہ کرے تو بجائے اس کو ملامت کرنے کے یہ آپ کو پاک فوج کو ہی ملات کرتے نظر آئنگے کہ " کہاں گئی اپ کی جانباز فوج" ۔۔۔۔

ان کی ان چالوں کو سمجھیے۔

گستاخانہ پیجز چلانے والے، آپ پر بموں سے حملے کرنے والے اور آپ کو لوٹنے والے ہرگز ہرگز ہرگز آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

خدا کی قسم پاک فوج نہ رہی تو افغانستان اور انڈیا آپ کو کھا جائنگے۔ ان کو تو چھوڑیں آپ ان خوارج سے ہی نہیں نمٹ سکیں گے جن کو صرف آپ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اسلام کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم ترین قلعہ ہے اور پاکستان تب تک فتح نہیں ہو سکتا جب تک پاک فوج موجود ہے۔ اپنی ہی فوج کو شکست دینے میں دشمن کا ہاتھ مت بٹائیے۔

نوٹ ۔۔ اپنی جنگ کا آغاز اس مضمون کو شیر کر کے کیجیے
 
جنرل طارق خان ایک بہترین جرنیل اور پروفیشنل پاکستانی پختون سپاہی ہیں اور موجودہ حالات کا بہترین تجزیہ کیا ہے- یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایک چھوٹا سا لیکن بدبودار گندگی کا ڈھیر پاکستان پر دیسی لبرلوں، ملالا بریگیڈ، باچا خانیوں اور محمود خان یا فضل رحمان اور اسماء جہانگیر جیسے بدصورت اور بدسیرت کرداروں کی صورت میں قیام پاکستان کے وقت سے مسلط ہے اسی نے ملک میں کوئی حقیقی سیاسی نظام پنپنے نہیں دیا- نیم فوجی قسم کی مارشل لا حکومتوں کی بھی کئی ناکامیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ حقیقی قومی انقلابات یا فوجی آمریتوں کے برعکس اپنی سیاسی مصلحتوں کیلئے ان سانپوں کو نہیں کچلا

یہ فکری اور سیاسی غلاظت کسی خاص نظریے کی بھی پابند نہیں کیونکہ ان کے پیش روؤں میں دیسی سرخے یا جعلی ترقی پسند سوشلسٹ انقلابی، اور باچا خانی قوم پرستی کے نام پرقوم کش اور قوم فروش قسم کے افغانی کارندوں کے علاوہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بیرونی ملک اثاثے رکنے والے وہ کرپٹ عناصر بھی شامل ہیں جو اپنے لوٹ مار کو بچانے کیلئے فوج اور عدلیہ وغیرہ کو نشانہ بنا کر ریاست کے جائز مفادات اور سلامتی کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوۓ ہیں- ان سب کا بس ایک ہی مشترکہ نظریہ ہے اور انکے کارکنوں کی ایک ہی ذہنی بیماری یا بیانیہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی ریاست اور فوج کے خلاف خطے میں پاکستان مخالف ریاستوں یعنی بھارت اور افغانستان اور پاکستان مخالف عالمی طاقتوں کا ہر موقف درست ہے - اس بیانے کے خلاف ہر موقف اور ناقابل تردید حقیقت کے جواب میں انکے پاس ٥٠ سال پہلے ١٠٠٠ میل نومولود پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی ہندوستان سوویت یونین کی مدد سے کامیاب بغاوت میں چند فوجی افسروں کا مبینہ متنازعہ کردار اور اور ٤٠ سال پہلے اپنی سلامتی کیلئے سوویت یونین کے افغانستان پر ناجائز قبضے کے خلاف پاکستانی ریاست اور فوج کا افغان عوام اور مجاہدین کی مدد کرنے کا طعنہ ہے گو کہ ان دونوں سانحوں میں بھی انکا کردار ملک دشمن رہا اور پاکستان کا خلاف انکا بیانیہ افغانی اور بھارتی پروپگنڈے پر مبنی- آج کی دنیا کے نازک حالات میں وہ وقت آگیا ہے کہ اگر پاکستانی قوم اور ریاست کو خود کو موجودہ خطرات سے اورعراق اور افغانستان بننے سے بچانا ہے تو اس غلاظت اور انکے کرداروں کا ایسے ہی عبرتناک انجام کرنا ہوگا جو کہ دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں اور حامیوں کا کیا جا رہا ہے بلکل ایسے ہی جیسے کہ امریکہ میں کیمونسٹوں اور القاعدہ کے حامیوں کا کیا جاتا رہا ہے یا پھر جیسے کیمونسٹ روس میں امریکہ کے ایجنٹوں اور پھر بھارت میں پاکستان کے ایجنٹوں کا کیا جاتا رہا ہے اور یہ ہو کے رہیگا اور کوئی انکے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہوگا
 
Aye mere Urdu danoon ye batao

Fassad ki english meaning kia hai?
 
Back
Top Bottom