Devil Soul
ELITE MEMBER
- Joined
- Jun 28, 2010
- Messages
- 22,931
- Reaction score
- 45
- Country
- Location
سندھ کا بہمن آباد، جو اب آباد نہیں
ابوبکر شیخ
وقت جو کسی کا بھی نہیں ہے اور وقت جو سب کا ہے۔ پانی کا کوئی رنگ نہیں مگر پانی کے سوا کوئی رنگ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو زندگی دن رات کے محدود دائرے میں سانس لیتی ہے۔
مگر یہ بھی ہے کہ اس کی قدامت لاکھوں کروڑوں برسوں پر کسی ایسی رنگین چادر کی طرح بچھی ہوئی ہے جس میں غم، خوشی اور بے بسی کے سارے رنگ بسے ہوئے ہیں اور ہم زندگی کی اس چادر کی چھاؤں سے کبھی الگ ہونا نہیں چاہتے۔ ہم سب کے دل و دماغ کے کسی کونے میں اس چادر سے جڑے رہنے کی ایک چھوٹی سی پود اگتی ہے جس کی جڑیں لاکھوں برسوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اپنے گزرے ہوئے وقت سے کوئی رشتہ توڑنا نہیں چاہتا بلکہ وقت کے ساتھ گزرے شب و روز پر پُراسراریت کا ایک جنگل سا اگ آتا ہے اور ہم سب اسراروں سے بھرے ہوئے اس جنگل میں جانا چاہتے ہیں اور اس میں چھپے اسراروں کو جاننے کے لیے ہمارے دل و دماغ میں تجسس کی ایک فصل اگتی ہے اور ہم اس کو جلد سے جلد کاٹنا چاہتے ہیں۔
چلیے ڈھائی ہزار برس پر محیط ایک انتہائی قدیم سفر کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ جہاں پانی سے بھرے خوبصورت دریا ہیں جن میں بادبانوں والی خوبصورت کشتیاں چلتی ہیں، گھنے جنگل ہیں جن میں ہاتھی چنگھاڑتے ہیں اور کسی کسی وقت ہدہد اور کوئل کی کوک بھی سنائی دیتی ہے۔ باغات ہیں جن میں کھٹے اور میٹھے رنگین پھلوں کی بہار ہے، قلعے ہیں جو بن رہے ہیں اور گر رہے ہیں۔ تیر اور تلواریں ہیں جن کو بڑے احتیاط اور کاریگری سے بنایا جا رہا ہے، کہ وہ انسانوں کے سروں کی کھیتی کو اچھے طریقے سے کاٹ سکے۔ بادشاہ اپنے خاندانوں کے خون کے پیاسے ہیں کہ تخت رشتوں سے اہم اور متبرک جو ٹھہرا۔
ان حقائق کو جاننے کے لیے تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں کی ایک دنیا ہے جو بولتی ہے اور اتنا شور ہے کہ کانوں کو آواز سنائی نہیں دیتی۔ جنگ کے میدان ہر وقت آباد ہیں اور گھوڑوں کے ٹاپوں سے زمین دُھنتی جاتی ہے اور مٹی کے بگولے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر آپ ’شہدادپور‘ سے مشرق کی طرف نکلیں تو 8 کلومیٹر کے سفر کے بعد ’بہمن آباد‘ پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ حیدرآباد سے آنا چاہتے ہیں تو نیشنل ہائی وے لے کر کھیبر سے مشرق کی طرف ٹنڈو آدم والا روڈ لیں اور اُڈیرو لال اور ٹنڈوآدم سے ہوتے ہوئے آپ دلُور موری آجائیں اور مغرب کی طرف مُڑ جائیں تو سامنے منصورہ کے آثار ہیں۔
کھدائی سے قبل بہمن آباد
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
میں اپنے ساتھیوں میر حسن مری اور رمضان ملاح کے ساتھ جب سانگھڑ سے ان آثاروں کے لیے نکلا تو سورج ابھی نہیں اُگا تھا، بس ہلکی لالی مشرق کے ماتھے پر پھیل رہی تھی۔ ہم چلے تو راستے کے ساتھ ہرے کھیت بھی ہمارے ساتھ چلے۔ صبح کا وقت تھا تو کیکر کے درختوں پر کچھ چڑیوں (Weaver birds) کے گھونسلے ںظر آئے۔ درختوں پر لٹکتے یہ گھونسلے آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔ ایک دو گھونسلوں پر چڑیائیں اپنے گھونسلوں کو بُنتے بھی نظر آئیں۔ وہ ان کے لیے مخصوص قسم کی گھاس کا تنکا لاتیں اور اپنی چونچ سے بننا شروع کر دیتیں۔
یہ وہ علاقہ ہے جو آج سے کئی صدیوں پہلے دریائے سندھ اور نارو کی گزرگاہ رہا ہے۔ اس لیے ماضی میں جتنی پانی کی فراوانی یہاں تھی وہ کمال کی تھی۔ گھنے جنگل تھے۔ جزیرے تھے۔ جھیلیں تھیں۔ دارا اور سکندرِ اعظم بھی یہاں تک آ نکلے تھے۔ زرتشتوں کی لو جلی تو برہمن بھی آئے، سدھارتھ کے اسٹوپا بھی یہاں بنے۔ پھر مساجد سے اذانوں کی پکار بھی سنائی دی۔ ان سب میں فقط ایک بات مشترکہ تھی کہ حاکم نے محکوم کی نشانیوں کو برباد کردینا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے اور اپنے مذہب اور روایتوں کو پانی دینے کے لیے تعمیرات کروانی ہیں۔ مجھے اُن چڑیاؤں پر پیار آیا جو کسی کا کچھ نہیں چھینتیں۔ کسی کے گھونسلے پر قبضہ نہیں کرتی۔
ہم جب جھول سے ہوتے ہوئے دلُور موری پہنچے تو 2 کلومیٹر چلنے کے بعد ہمارے سامنے میلوں میں پھیلے وہ آثار تھے جن کے متعلق میں کتنے عرصہ سے پڑھ پڑھ کر پاگل ہو رہا تھا۔ ایک محقق دوسرے محقق سے متفق نہیں ہے کیونکہ زیادہ کتابیں عربی اور فارسی میں ہیں تو ترجمہ کرنے والے نے اپنی جذباتی کیفیتیں اُن تراجم میں گوندھ دی ہیں۔ پھر یونانی، ایرانی اور چینی ناموں نے بھی تاریخ کے صفحات پر بڑی عجیب سی افراتفری پھیلائی ہوئی ہے۔
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قریب قدیم بہاؤ—تصویر ابوبکر شیخ
اتنی متنازع آرکیالاجی سائیٹ اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ اب ظاہر ہے میں بھی جو یہاں باتیں کروں گا وہ میرے برسوں مطالعے کا عرق تو ضرور ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ باتیں میں صحیح بھی کہہ جاؤں مگر مجھے، محقق بدر ابڑو صاحب کی بات بڑی اچھی لگی کہ ’ٹھیک ہے، ہمیں تحقیق ضرور کرنی چاہئے مگر جب تک آرکیالاجیکل سائیٹ کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں ہوتی، اُس پر رپورٹس نہیں آتیں تب تک ایک حقیقی نتیجہ اخذ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔‘
آپ کسی بھی تاریخی جگہ پر جائیں تو وہاں کے متعلق لوک کہانیاں آپ کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ ہم بھی جب آثاروں پر پہنچے تو وہاں ایک لوک کہانی ہمارے انتظار میں تھی اور اس لوک کہانی میں بھی ایک ظالم بادشاہ کا ذکر ہے۔ ’دلُوراء ایک ظالم بادشاہ تھا جو یہاں پر حکومت کرتا تھا۔ جب اُس کے پاپوں کا گھڑا بھرا تو اُس پر خدا کا قہر نازل ہوا اور ایک بہت بڑا زلزلہ آیا اور یہ شہر برباد ہوگیا۔‘ چلیے اس ظالم بادشاہ کی کہانی کو اس وقت یہیں چھوڑتے ہیں اور اس اہم تاریخی شہر پر گزرے زمانوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
پڑھیے: سندھ کی قدیم درگاہ اور سکندراعظم کا جزیرہ
900 قبل مسیح تک آریا، سندھ، گجرات، کاٹھیاواڑ سمیت شمال اور جنوبی ایشیاء تک پھیل چکے تھے۔ 660 سے 585 ق۔م میں زرتشت نے پارسی مذہب کی بنیاد رکھی۔ 519 ق۔م میں ’دارا اول کے والد ہستاسپس نے سندھ اور کَچھ کو ایرانی سلطنت سے ملادیا۔ 500 ق۔م میں ملیٹس کے ہیکاٹیس (پہلا یونانی جغرافیہ دان) نے جغرافیے پر اپنی کتاب پیریوڈوس جیس اسی برس تحریر کی۔ اس نے یہ معلومات اسکائیلیکس سے حاصل کی تھی، وہ کہتا ہے ’اوپیائی نام کا ایک قبیلہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے رہتا تھا، ان کے پاس ایک مضبوط قلعہ تھا، جہاں دارا اول نے اپنے لشکر کو ٹھہرایا تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ ’برہمن آباد‘ ہو۔‘
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
330 ق۔م میں دارا سوئم نے سکندر سے لڑنے کے لیے اپنی حکومت کی مدد کے لیے ہند اور سندھ سے سپاہی اور ہاتھی اکٹھے کیے تھے۔ اسی برس سکندر نے اسے شکست دی تھی اور ’پرسیپولس‘ کو آگ لگا دی۔ یہ سرسری طور پر اُس وقت کے سیاسی حالات تھے۔ ہم جو دارا اول کی بات کر آئے ہیں کہ اُس نے 519 ق۔م میں سندھ، پنجاب اور کچھ کو اپنی مملکت میں شامل کردیا تھا، اس زمانے میں اس کے امیرالبحر اسکائیلیکس نے دارا کے حکم سے بحری جہاز بنوائے اور مکران سے ساحل عرب تک ایک نئی شاہراہ دریافت کی۔ پنجاب اور سندھ کی فتح سے نہ صرف ہندوستان کے خزانے ایران آئے بلکہ یہاں دارا نے ایک ایرانی صوبہ بھی قائم کیا۔ اس زمانے میں پنجاب، سندھ اور مکران ایران کے صوبے تھے۔
بہمن دراز دست
اب ہم ذکر کرتے ہیں ارد شیر بہمن دراز دست (Artaxerxes) کا (465-425 ق-م) جس نے تخت و تاج کے لیے اپنے بھائی کو قتل کروایا اور بھائی کے خون سے ہاتھ رنگین کرکے تخت پر بیٹھا۔ ان دراز دستیوں کی وجہ سے اس پر ’دراز دست‘ کا نام پڑگیا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں: ’ایرانی حاکم ’بہمن ارد شیر‘ کا سندھ پر سیاسی اثر تھا اور اس نے اس جگہ پر ایک شہر آباد کیا جس کو اُس کے نام سے بہمن آباد پکارا گیا۔‘
ڈاکٹر غلام محمد لاکھو تحریر کرتے ہیں: ’آخرکار شہزادے بہمن (جو بعد میں بہمن ارد شیر اور دراز دست نام سے مشہور ہوا اور کیانی سلطنت کا پانچواں بادشاہ بنا) کو سندھ بھیجا گیا کہ وہ یہاں مستقل قبضہ کا انتظام کرے۔ اس نے کچھ سرحدیں متعین کیں اور ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک شہر اور قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا، جس کو ’بہمنیہ‘ یا ’بہمن آباد‘ کے نام سے پکارا گیا اور انہوں نے اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے ایک آتشکدہ بھی بنوایا تھا۔
بہمن کا ساسانیوں سے انتقام
ابوبکر شیخ
وقت جو کسی کا بھی نہیں ہے اور وقت جو سب کا ہے۔ پانی کا کوئی رنگ نہیں مگر پانی کے سوا کوئی رنگ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو زندگی دن رات کے محدود دائرے میں سانس لیتی ہے۔
مگر یہ بھی ہے کہ اس کی قدامت لاکھوں کروڑوں برسوں پر کسی ایسی رنگین چادر کی طرح بچھی ہوئی ہے جس میں غم، خوشی اور بے بسی کے سارے رنگ بسے ہوئے ہیں اور ہم زندگی کی اس چادر کی چھاؤں سے کبھی الگ ہونا نہیں چاہتے۔ ہم سب کے دل و دماغ کے کسی کونے میں اس چادر سے جڑے رہنے کی ایک چھوٹی سی پود اگتی ہے جس کی جڑیں لاکھوں برسوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اپنے گزرے ہوئے وقت سے کوئی رشتہ توڑنا نہیں چاہتا بلکہ وقت کے ساتھ گزرے شب و روز پر پُراسراریت کا ایک جنگل سا اگ آتا ہے اور ہم سب اسراروں سے بھرے ہوئے اس جنگل میں جانا چاہتے ہیں اور اس میں چھپے اسراروں کو جاننے کے لیے ہمارے دل و دماغ میں تجسس کی ایک فصل اگتی ہے اور ہم اس کو جلد سے جلد کاٹنا چاہتے ہیں۔
چلیے ڈھائی ہزار برس پر محیط ایک انتہائی قدیم سفر کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ جہاں پانی سے بھرے خوبصورت دریا ہیں جن میں بادبانوں والی خوبصورت کشتیاں چلتی ہیں، گھنے جنگل ہیں جن میں ہاتھی چنگھاڑتے ہیں اور کسی کسی وقت ہدہد اور کوئل کی کوک بھی سنائی دیتی ہے۔ باغات ہیں جن میں کھٹے اور میٹھے رنگین پھلوں کی بہار ہے، قلعے ہیں جو بن رہے ہیں اور گر رہے ہیں۔ تیر اور تلواریں ہیں جن کو بڑے احتیاط اور کاریگری سے بنایا جا رہا ہے، کہ وہ انسانوں کے سروں کی کھیتی کو اچھے طریقے سے کاٹ سکے۔ بادشاہ اپنے خاندانوں کے خون کے پیاسے ہیں کہ تخت رشتوں سے اہم اور متبرک جو ٹھہرا۔
ان حقائق کو جاننے کے لیے تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں کی ایک دنیا ہے جو بولتی ہے اور اتنا شور ہے کہ کانوں کو آواز سنائی نہیں دیتی۔ جنگ کے میدان ہر وقت آباد ہیں اور گھوڑوں کے ٹاپوں سے زمین دُھنتی جاتی ہے اور مٹی کے بگولے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر آپ ’شہدادپور‘ سے مشرق کی طرف نکلیں تو 8 کلومیٹر کے سفر کے بعد ’بہمن آباد‘ پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ حیدرآباد سے آنا چاہتے ہیں تو نیشنل ہائی وے لے کر کھیبر سے مشرق کی طرف ٹنڈو آدم والا روڈ لیں اور اُڈیرو لال اور ٹنڈوآدم سے ہوتے ہوئے آپ دلُور موری آجائیں اور مغرب کی طرف مُڑ جائیں تو سامنے منصورہ کے آثار ہیں۔
کھدائی سے قبل بہمن آباد
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
میں اپنے ساتھیوں میر حسن مری اور رمضان ملاح کے ساتھ جب سانگھڑ سے ان آثاروں کے لیے نکلا تو سورج ابھی نہیں اُگا تھا، بس ہلکی لالی مشرق کے ماتھے پر پھیل رہی تھی۔ ہم چلے تو راستے کے ساتھ ہرے کھیت بھی ہمارے ساتھ چلے۔ صبح کا وقت تھا تو کیکر کے درختوں پر کچھ چڑیوں (Weaver birds) کے گھونسلے ںظر آئے۔ درختوں پر لٹکتے یہ گھونسلے آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔ ایک دو گھونسلوں پر چڑیائیں اپنے گھونسلوں کو بُنتے بھی نظر آئیں۔ وہ ان کے لیے مخصوص قسم کی گھاس کا تنکا لاتیں اور اپنی چونچ سے بننا شروع کر دیتیں۔
یہ وہ علاقہ ہے جو آج سے کئی صدیوں پہلے دریائے سندھ اور نارو کی گزرگاہ رہا ہے۔ اس لیے ماضی میں جتنی پانی کی فراوانی یہاں تھی وہ کمال کی تھی۔ گھنے جنگل تھے۔ جزیرے تھے۔ جھیلیں تھیں۔ دارا اور سکندرِ اعظم بھی یہاں تک آ نکلے تھے۔ زرتشتوں کی لو جلی تو برہمن بھی آئے، سدھارتھ کے اسٹوپا بھی یہاں بنے۔ پھر مساجد سے اذانوں کی پکار بھی سنائی دی۔ ان سب میں فقط ایک بات مشترکہ تھی کہ حاکم نے محکوم کی نشانیوں کو برباد کردینا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے اور اپنے مذہب اور روایتوں کو پانی دینے کے لیے تعمیرات کروانی ہیں۔ مجھے اُن چڑیاؤں پر پیار آیا جو کسی کا کچھ نہیں چھینتیں۔ کسی کے گھونسلے پر قبضہ نہیں کرتی۔
ہم جب جھول سے ہوتے ہوئے دلُور موری پہنچے تو 2 کلومیٹر چلنے کے بعد ہمارے سامنے میلوں میں پھیلے وہ آثار تھے جن کے متعلق میں کتنے عرصہ سے پڑھ پڑھ کر پاگل ہو رہا تھا۔ ایک محقق دوسرے محقق سے متفق نہیں ہے کیونکہ زیادہ کتابیں عربی اور فارسی میں ہیں تو ترجمہ کرنے والے نے اپنی جذباتی کیفیتیں اُن تراجم میں گوندھ دی ہیں۔ پھر یونانی، ایرانی اور چینی ناموں نے بھی تاریخ کے صفحات پر بڑی عجیب سی افراتفری پھیلائی ہوئی ہے۔
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد کے قریب قدیم بہاؤ—تصویر ابوبکر شیخ
اتنی متنازع آرکیالاجی سائیٹ اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ اب ظاہر ہے میں بھی جو یہاں باتیں کروں گا وہ میرے برسوں مطالعے کا عرق تو ضرور ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ باتیں میں صحیح بھی کہہ جاؤں مگر مجھے، محقق بدر ابڑو صاحب کی بات بڑی اچھی لگی کہ ’ٹھیک ہے، ہمیں تحقیق ضرور کرنی چاہئے مگر جب تک آرکیالاجیکل سائیٹ کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں ہوتی، اُس پر رپورٹس نہیں آتیں تب تک ایک حقیقی نتیجہ اخذ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔‘
آپ کسی بھی تاریخی جگہ پر جائیں تو وہاں کے متعلق لوک کہانیاں آپ کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ ہم بھی جب آثاروں پر پہنچے تو وہاں ایک لوک کہانی ہمارے انتظار میں تھی اور اس لوک کہانی میں بھی ایک ظالم بادشاہ کا ذکر ہے۔ ’دلُوراء ایک ظالم بادشاہ تھا جو یہاں پر حکومت کرتا تھا۔ جب اُس کے پاپوں کا گھڑا بھرا تو اُس پر خدا کا قہر نازل ہوا اور ایک بہت بڑا زلزلہ آیا اور یہ شہر برباد ہوگیا۔‘ چلیے اس ظالم بادشاہ کی کہانی کو اس وقت یہیں چھوڑتے ہیں اور اس اہم تاریخی شہر پر گزرے زمانوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
پڑھیے: سندھ کی قدیم درگاہ اور سکندراعظم کا جزیرہ
900 قبل مسیح تک آریا، سندھ، گجرات، کاٹھیاواڑ سمیت شمال اور جنوبی ایشیاء تک پھیل چکے تھے۔ 660 سے 585 ق۔م میں زرتشت نے پارسی مذہب کی بنیاد رکھی۔ 519 ق۔م میں ’دارا اول کے والد ہستاسپس نے سندھ اور کَچھ کو ایرانی سلطنت سے ملادیا۔ 500 ق۔م میں ملیٹس کے ہیکاٹیس (پہلا یونانی جغرافیہ دان) نے جغرافیے پر اپنی کتاب پیریوڈوس جیس اسی برس تحریر کی۔ اس نے یہ معلومات اسکائیلیکس سے حاصل کی تھی، وہ کہتا ہے ’اوپیائی نام کا ایک قبیلہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے رہتا تھا، ان کے پاس ایک مضبوط قلعہ تھا، جہاں دارا اول نے اپنے لشکر کو ٹھہرایا تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ ’برہمن آباد‘ ہو۔‘
بہمن آباد کے قدیم آثار—تصویر ابوبکر شیخ
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
بہمن آباد میں کھدائی کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر
330 ق۔م میں دارا سوئم نے سکندر سے لڑنے کے لیے اپنی حکومت کی مدد کے لیے ہند اور سندھ سے سپاہی اور ہاتھی اکٹھے کیے تھے۔ اسی برس سکندر نے اسے شکست دی تھی اور ’پرسیپولس‘ کو آگ لگا دی۔ یہ سرسری طور پر اُس وقت کے سیاسی حالات تھے۔ ہم جو دارا اول کی بات کر آئے ہیں کہ اُس نے 519 ق۔م میں سندھ، پنجاب اور کچھ کو اپنی مملکت میں شامل کردیا تھا، اس زمانے میں اس کے امیرالبحر اسکائیلیکس نے دارا کے حکم سے بحری جہاز بنوائے اور مکران سے ساحل عرب تک ایک نئی شاہراہ دریافت کی۔ پنجاب اور سندھ کی فتح سے نہ صرف ہندوستان کے خزانے ایران آئے بلکہ یہاں دارا نے ایک ایرانی صوبہ بھی قائم کیا۔ اس زمانے میں پنجاب، سندھ اور مکران ایران کے صوبے تھے۔
بہمن دراز دست
اب ہم ذکر کرتے ہیں ارد شیر بہمن دراز دست (Artaxerxes) کا (465-425 ق-م) جس نے تخت و تاج کے لیے اپنے بھائی کو قتل کروایا اور بھائی کے خون سے ہاتھ رنگین کرکے تخت پر بیٹھا۔ ان دراز دستیوں کی وجہ سے اس پر ’دراز دست‘ کا نام پڑگیا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں: ’ایرانی حاکم ’بہمن ارد شیر‘ کا سندھ پر سیاسی اثر تھا اور اس نے اس جگہ پر ایک شہر آباد کیا جس کو اُس کے نام سے بہمن آباد پکارا گیا۔‘
ڈاکٹر غلام محمد لاکھو تحریر کرتے ہیں: ’آخرکار شہزادے بہمن (جو بعد میں بہمن ارد شیر اور دراز دست نام سے مشہور ہوا اور کیانی سلطنت کا پانچواں بادشاہ بنا) کو سندھ بھیجا گیا کہ وہ یہاں مستقل قبضہ کا انتظام کرے۔ اس نے کچھ سرحدیں متعین کیں اور ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک شہر اور قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا، جس کو ’بہمنیہ‘ یا ’بہمن آباد‘ کے نام سے پکارا گیا اور انہوں نے اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے ایک آتشکدہ بھی بنوایا تھا۔
بہمن کا ساسانیوں سے انتقام