پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کی ابتدا
پاکستانی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہمارے فوجی سپاہی کیا کرتے ہیں۔۔ اور ہم سب اپنے اپنے گھروں میں مزے اڑاتے ہیں۔ ہمارے سپاہی، پولیسیے، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہماری پر امن زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مگر گزشتہ دنوں ہمیں ایک دل چسپ مگر سنجیدہ تجربہ ہوا۔ ہمیں اچانک یہ پتہ چلا کہ یہ سرحد ہمارے دروازہ سے ہی شروع ہورہی ہے۔
اس کی ابتداء کچھ اس طرح ہوئی کہ برسوں سے گھریلو کچرا لے جاکر ٹھکانہ لگانے والے مسیحی کارکن اچانک غائب ہوگئے۔ چند دنوں تک مسئلہ کا ادراک نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ ہمارے دروازوں پر چند افغانیوں نے دستک دینا شروع کردی۔ جب ان سے معلوم کیا گیا کہ تم کون ہو، اور تمہارے پاس کیا شناختی اور دیگر دستاویزات ہیں تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اور گول مول باتیں بناتے رہے۔
پھر ایک روز چھپتے چھپاتے، جان بچاتے، ہمارا پرانا کارکن آپہنچا۔ اس نے بتایا کہ اسے جان سے ماردینے کی دھمکی دے کر کچھ غیرقانونی طور پر مقیم افغانی گروہ علاقہ سے بھگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور وہ اسے کچرا کنڈی تک اور گھروں تک رسائی نہیں دے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور وہ شدت سے خائف تھا۔
کسی بھی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کرنا ریاست کا اہم پالیسی ستون ہوتا ہے۔ اور اس امر میں مسلمان شہری بھی اپنا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ بسنے والے غیر مذاہب کے پیروکاروں کو ایک پرامن اور آزادانہ ماحول فراہم کرتے ہیں۔ تاہم وہ توقع رکھتے ہیں کہ غیرمسلم جواب میں اسلامی اقدار کا احترام کرتے رہیں گے۔ اور پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم نے دیگر اہل محلہ کے ساتھ مل کر اپنی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑا اٹھا کر ان غیر قانونی، اور منظم جرائم پیشہ، افراد کے خلاف عملی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اور انہیں قانونی چیلنج دیتے ہوئے علاقہ میں آنے سے روک دیا۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ، حکومت سندھ، اور سی پی ایل سی اور علاقہ پولیس کو بھی آگاہ کیا۔ اگرچہ اہل محلہ کو اس بارے میں کوئی عملی مدد نہ ملی، مگر سب نے مل جل کر اپنا شہری فرض ادا کرتے ہوئے اس منظم گروہ سے خائف ہونے سے انکار کردیا، اور پرامن مزاحمت کرتے ہوئے ان سے عدم تعاون اور قانونی اور پولیس سے مدد حاصل کرنے کے انتباہ کے ساتھ ہی کامیابی حاصل کرلی۔
ہم اپنے علاقہ میں جرائم کی بھرمار سے پہلے ہی پریشان رہتے تھے، ایسے بلا شناخت، غیرقانونی مقیم غیرملکی افراد، جو ایک منطم گروہ کی صورت میں مسلط ہورہے ہیں کے اچانک ظہور کرجانے سے خاصہ مضطرب ہوئے۔ تاہم، اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت آپ کے اپنے دروازہ سے شروع ہوتی ہے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس دوران مزاحمت کے سبب ہمارے گھروں سے کوڑا کرکٹ کئی دنوں تک نہ اٹھایا جاسکا۔ کچھ گھرانے منظم جرائم پیشہ گروہ کی حکمت عملی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر عارضی طور پر مجبور بھی ہوئے۔ مگر ہم نے ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا کہ امریکہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں گھروں سے ہفتہ میں دو مرتبہ ہی گھریلو کوڑا جمع کیا جاتا ہے۔ اور شہری مناسب "کچرا تھیلوں" میں بند کرکے اسے رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر ہم نے بھی اپنا گھریلو کوڑا کرکٹ کئی تھیلوں میں بند کرکے خود ہی کچرا کنڈی تک پہنچایا۔
اس ضمن میں اس منظم مجرم گروہ نے مقامی ٹائون انتظامیہ کو ملوث کرنے کی کوشش کی، اور ان سے مدد مانگی۔ مگر مقامی مزاحمت کے سامنے ان سب کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔
یہ ایک معمولی مثال ہے، اس امر کی کہ اگر ہم سب اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، اور بلا شناخت، غیرقانونی نفوذ کرنے والے غیرملکیوں کو در اندازی نہ کرنے دیں تو ملکی امن قائم کرنے میں اپنا کردار کسی حد تک ادا کیا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں تفصیلی وڈیو رپورٹس کیلیے مندرجہ یو آر ایل ملاحظہ کیجیے:
Neighbourhood Care Committee Gulistan e Jauhar 14: Suspects, Strangers, Illegal Foreigners Knocking at our Doors
Neighbourhood Care Committee Gulistan e Jauhar 14: Face of Illegal Afghans Trash Mafia
اس مضمون کے بارے میں ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالا گروہ کا پاکستانی شمالی علاقہ جات کے اندرونی مہاجرین و بے گھر افراد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ غیرقانونی مقیم افغان ہیں، جو اپنے کیمپوں سے فرار ہوکر بڑے شہروں میں در آئے ہیں۔ اس کا اقرار وہ خود کرتے ہیں، جیسا کہ ہماری وڈیو رپورٹس سے ظاہر ہے۔
Hashim Syed Mohammad bin Qasim
Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, HR, O&D, and ICT Consultant
JUSTUJU MEDIA (The QUEST) Syndication, Research and Publishing, Pakistan
Current Affairs Analyst: Radio Channel Islam International, Johannesburg, South Africa
Contributing Editor: UrduPoint.Com, Alqamar.org