ebrahym
SENIOR MEMBER
- Joined
- Nov 21, 2015
- Messages
- 2,147
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
Starting from 1070 AD the Muslim world saw 160 years of terrorism by an Alawi Shia organization called "Hashishain" later named Assassins. Their mode of operations was similar to Japanese cult of Ninjas.
1050 عیسویں کے قریب خراسان میں دو بچے پیدا ہوئے ـ ایک کا نام عمر خیّام اور دوسرے کا نام حسن الصباح پڑا ـ دونوں نے بڑے ہو کر سمرقند و بخارا کی درسگاہوں سے ریاضی کیمیا گری قرآن و حدیث اور کئی طرح کے علوم حاصل کیئے ـ دونوں اپنے اساتذہ کے چہیتے طالبعلم رہے اور وقت کے تمام علوم میں کمال حاصل کیا ـ
عمر خیام کا نام آج بھی علمی حلقوں میں تعظیم سے لیا جاتا ہے اور ان کے ہم عصر عالم حسن الصباح رہتی دنیا تک موت قتل و غارت کا نشان اور اسلامی دنیا کی پہلی اور سب سے خوفناک دھشتگرد تنظیم Assassins کا بانی بنا ـ آج کے زمانے کے طالبان ـ ٹی ٹی پی اور دوسری دھشتگرد تنظیمی حسن بن صباح کی حشیشین تنظیم کے نقشہ پہ.قائم.ہیں.اور انہی اصولوں پہ چلتی ہیں
2حسن.الصباح سترہ سال کی عمر میں ایک عالم بن چکا تھا اور انتھائ شعلہ بیان اور بحث کرنے میں ماہر تھا ـ سلطنت سلجوقی کے سنی مدرسوں میں تعلیم کے بعد اس کا رابطہ مصر کے سلطنت فاطمید کے اسماعیلی شیعہ حکمراں سے ہوا اور ان کے عقائد میں اسے اپنی طاقت اور حکومت کی غرض پوری کرنے کی امید نظر آئ ـ
حسن بن صباح ایک مغرور اور ضدی انسان تھا جس میں عاجزی اور مصلحت پسندی نہ تھی ـ(جیسے آج کے طالبان میں کوئ مصلحت پسندی نہیں ) ہر جگہ بحث کے ذریعے اپنی جگہ بنانے یبنانے کوشش کرتا اور علماء اکتا کر اس سے قطع تعلق کرتے رہے ـ اور اس کے سینے میں نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکتی رہی ـ
جب عالم دین غرور میں مبتلا ہو جائے تو فتنے کا ذریعہ بن جا تا ہے ـ جیسے ابلیس عالم تھا مگر غرور میں مبتلاء ہو کر مردود ہو گیا ـ
حسن الصباح کا حال بھی ایسا ہی تھا ـ علم بہت تھا مگر خوف خدا نہ تھا ـ اور علم کو لوگوں کو اپنا پرستار اور تابع بنانے کے ذریعے کے.طور پہ استعمال کرتا ـ
جب علماء نے اس کے عجیب و غریب عقائد کو رد کر دیا تو اس نے براہ راست عوام پہ تبلیغ شروع کی (جیسے ملا ریڈیو عوام کو براہ راست اپنی عجیب و غریب عقائد کی تبلیغ کرتا تھا) ـ
گاؤں گاؤں گھوما اور کئی سال لگا کہ اپنے ہزاروں ماننے والے بنائے ـ
اسلام.اور تبلیغ کی آڑ میں یہ دراصل طاقت شہرت اور شخصی حکومت کی جدوجہد تھی ـ
اب حسن صباح نے اپنا الگ فرقہ بنانے کی ٹھان لی اور ایسے مناسب علاقے کی تلاش میں نکل پڑا جہاں چھپنا آسان ہو اور لوگ کم.علم مگر جنگجو ہوں اور وقت کے حکمرانوں سے ناراض -
3
آخر کئ سال کی تلاش کے بعد اٹھتیس سالہ حسن الصباح شمالی ایران کے علاقے الموت پہنچا ـ علاقہ البرز پہاڑی سلسلے کے درمیان میں تھا اور انتھائ دشوار گزار ـ آنے جانے کے لیئے چند درے اور گھاٹیاں تھیں جن پہ باآسانی نظر رکھی جا سکتی تھی ـ
باقی تمام اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا ـ
علاقے میں ایک پرانا قلعہ تھا جو ایک پہاڑ کی چوٹی پہ تھا اور ناقابل تسخیر تھا ـ علاقے کے لوگ انتہائ سخت جان اور جنگجو تھے اور وقت کی حکومت خوارزم سے ناراض. دین.اسلام چاہتے تھے مگر اپنی مرضی کا ـ حسن الصباح کو وہ تمام حالات اس جگہ مل.گئے جن کی وہ تلاش میں تھا اور اس نے اس علاقے کو اپنا گھر بنانے کا کام شروع کر دیا ـ
5علاقے کے لوگ جنگجو تھے اور اسلام کے ساتھ ساتھ اپنی پرانی قبائلي روایات کے بھی پابند تھے ـ انھیں اسلام پسند تھا مگر ایسا اسلام جس میں نرم دلی ـ معافی اور درگزر نہ ہو بلکہ خوب جنگ و جدال اور ایک خون کا بدلہ کئی خون ہو ـ کیونکہ ایسی تعلیمات ان کے پرانے قبائلی طور طریقوں میں تھیں ـ
حسن الصباح نے ان کو بالکل ایسا ہی اسلام دیا جس میں صرف سختی تھی ـ بدلہ لینا فرض اور معافی بزدلی تھی ـ ایسا اسلام جس میں حشیشین کے علاوہ تمام مسلمان منافق اور واجب القتل تھے ـ (جیسے آج طالبان کے اسلام میں کوئي نرمی نہیں اور اُن کے علاوہ تمام مسلمان منافق اور واجب القتل ہیں ) ـ
امام یا حکمران کی خاطر خودکشی جائز تھی اور دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر مارنا دلیری تھی ـ
4 حسن الصباح کو وہ تمام حالات اس جگہ مل.گئے جن کی وہ تلاش میں تھا اور اس نے اس علاقے کو اپنا گھر بنانے کا کام شروع کر دیا ـ 1088 میں الصباح نے الموت کے علاقے کے لوگوں میں اپنے طرز کی مسخ شدہ اسلامی تبلیغ شروع کی جو اس کے دعوے کے مطابق اسماعیلی شیعت تھی اور وہ اسماعیلی شیعت کا تیرہواں امام تھا ـ مگر دراصل اس نے طاقت اور حکومت بغز و عناد کی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیئے ایک نیا طریقہ بنایا اور اسے ہشیشین کا نام دیا -
6
دو سال کے قلیل عرصے میں خراسان کے علاقے الموت کے لوگ حسن بن صباح پہ جان چھڑکنے لگے ـ
1090 میں چالیس سالہ حسن بن صباح نے پہاڑ کی چوٹی پہ بنا قلع الموت خرید لیا اور اسے اپنی مستقل رہائشگاہ اور پایہ تخت ٹھرایا ـ قلعے کے سات برج بنائے گئے جو سات زمیں آسمان کی نمائندگی کرتے ـ ہر برج پہ سونے کی چادر چڑھائی گئی جو وادی میں موجود شہر پہ چمکتے اور لوگوں کو یہ باور کراتے کہ قلعے میں موجود حسن بن صباح انھیں دیکھ رہا ہے ـ
حسن نے اپنے لیئے "شیخ الجبل" کا لقب چنا ـ
شہر میں عین شریعت نافذ کی گئی مگر شراب کو جائز قرار دیا گیا ـ نمازوں میں مسجدیں بھری ہوتیں ـ مگر اکثر لوگ اپنی خوشی کے بجائے سزاؤں کے ڈر سے اسلامی احکامات پورا کرتے ـ گنہگاروں کو سر عام سخت اذیت دی جاتی (جیسے طالبان سرعام سزائیں دیتے ہیں) ـ
7
قلعہ ملنے کے بعد حسن بن سباح نے اپنی طب اور کیمیا گری کے علوم استعمال کرتے ہوئے خاص معجون اور مرکبات بنائے جن سے وہ لوگوں کی نفسیات میں تبدیلی پیدا کرتا-
قلعہ کے ایک خفیہ حصے کو جنت کے طرز پہ بنایا گیا جھاں صاف پانی کی نہروں میں مخصوص مرکبات ڈالے جاتے تاکہ پانی پینے والوں کو نشہ چڑھ جائے اور ان نہروں کو جنت کی شراب کی نہر کا نام دیا.
اسی طرح وسیع باغ میں سفید سنگ مرمر کے کمرے اور برآمدے بنا کر اسے جنت کے محلات کا نام دیا ـ اور یورپ سے سفیدفام اور کم عمر لڑکیاں منگوا کر انھیں اس باغ میں گھمایا جاتا تاکہ دیکھنے والے کو حور کا شائبہ ہو ـ
حسن الصباح چنے ہوئے نوجوانوں کو خاص مشروب پلاتا جس سے وہ نیم غنودگی کی حالت میں آ جاتے ـ اس حالت میں انھیں یہ مصنوعی جنت دکھائ جاتی اور وہاں کی حوروں کا دیدار کرایا جاتا ـ
یہاں تک کہ دیکھنے والا یقین کر بیٹھتا کہ اس نے جنت دیکھ لی ـ پھر اسے بیہوش کر کہ حسن بن صباح کے دربار میں لایا جاتا ـ اور کوئ مشروب پلایا جاتا جس سے اس کے ہوش و حواس واپس آجاتے ـ
8 پھر حسن بن صباح اس شخص کو اور "Brain wash" کرتا اور اپنا علم اور بحث کی صلاحیت استعمال کر کہ اس کو باور کرا دیتا کہ حسن بن صباح زمین میں خدا کا خلیفہ ہے (جیسے ملا عمر اور طالبان زمین میں خدا کا خلیفہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں) ـ
اور کہتا کہ اس کے علاوہ کسی اور کی حکومت ناجائز حکومت ہے (جیسے طالبان اپنی حکومت کے علاوہ تمام حکومتیں غیر اسلامی اور ناجائز قرار دیتے ہیں) ـ
اور تمام حکومتوں کو یا تو حشیشین کی حکومت ماننی ہوگی یا انھیں ختم کرنا ہوگا.
اس کے بعد وہ اس شخص سے وفاداری کی بیعت لیتا اور اسے "فدائی" کا لقب ملتا ـ اور کہا جاتا کہ جنت میں واپس جانا ہے تو حسن الصباح کی من و عن اطاعت کرے چاہے جان دینی پڑے ـ
فدائ کا کام جاسوسی سے لے کر خودکش حملے تک کچھ بھی ہو سکتا تھا ـ
اس طریقے پہ تیار کیئے گئے فدائ عموماً نوجوان ہوتے جو جعلی حوریں دیکھنے کے بعد اور جعلی جنت کی شراب و عیش دیکھنے کے بعد اس میں واپس جانے کے شدید خواہشمند ہوتے اور نوجوانی کے باعث ان کی شہوت اور عیش کی خواہش جنون کی صورت اختیار کر لیتی ـ
فدائین کے جنون کو دیکھ کر حسن بن صباح انھیں کام دیتا ـ کچھ کو صرف جاسوسی پہ لگایا جاتا ـ اور کچھ ایسی مشکل مہم پہ بھیجے جاتے جہاں سے زندہ لوٹ آبا ممکن نہ ہوتا ـ جیسے بادشاہوں کے محل میں ان پہ قاتلانہ حملہ کرنا جس کے بعد بج نکلنا نا ممکن ہوتا ـ (آج کے خودکش بمبار بھی انھی وجوہات کی بناء پہ کم عمر نوجوان ہوتے ہیں)
9 حسن بن صباح بھی لوگوں کو اپنی صفائی کا موقع دیئے بغیر کافر ٹھرا کہ اپنا فدائ بھیج کر قتل کروا دیتا تھا ـ(طالبان بھی ایسا ہی کرتے ہیں ـ)
مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ خدا سے ڈریں یا نہ ڈریں حشیشین سے ضرور ڈریں.
اس کے فدائ جہاں بھی کاروائ کرتے دھشت پھیلانے کے لیئے ایک مخصوص خنجر چھوڑتے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے یہ دھشتگردی حشاشین نے کی ہے ـ
(طالبان بھی ہر کاروائ کے بعد اپنا خوف پھیلانے کے لیئے ذمیداری قبول کرتے ہیں.)
حشیشین کے حسن الصباح کے بعد 6 اور حکمران گزرے اور سب نے دھشتگردی کے ذریعے لوگوں اور حکمرانوں کو اپنے طریق میں شموليت کی تبلیغ جاری رکھی ـ
حشیشین کا حکمران جس کو بھی کافر قرار دیتا تمام حشیشین اس کے جانی دشمن بن جاتے ـ صلاح الدین ایوبی پر بھی کافر کا الزام لگا کر حشیشیوں نے قتل.کی کئی کوششیں کیں ـ
ان لوگوں کا کافی وقت قتل و غارت کے خفیہ اور نئے نئے طریقہ ایجاد کرنے میں لگتا اور همیشه چھپ کر وار کرتے ـ
مگر ہر سیر پہ سوا سیر ہوتا ہے اور لوہا لوہے کو کاٹتا ہےـ
بالآخر مشہور تاتاری بادشاہ ہلاکو خان جو حشیشیوں سے بھی بڑا ظالم تھا اس نے 1256 میں حشیشیوں کے علاقے میں گھس کہ اینٹ سے اینٹ بجا دی اور قتل.عام کر کہ ان ان کا خاتمہ کیا ـ
ـ Extracts from Sir Henry Sharp's book "The Assassins" written in 1927
1050 عیسویں کے قریب خراسان میں دو بچے پیدا ہوئے ـ ایک کا نام عمر خیّام اور دوسرے کا نام حسن الصباح پڑا ـ دونوں نے بڑے ہو کر سمرقند و بخارا کی درسگاہوں سے ریاضی کیمیا گری قرآن و حدیث اور کئی طرح کے علوم حاصل کیئے ـ دونوں اپنے اساتذہ کے چہیتے طالبعلم رہے اور وقت کے تمام علوم میں کمال حاصل کیا ـ
عمر خیام کا نام آج بھی علمی حلقوں میں تعظیم سے لیا جاتا ہے اور ان کے ہم عصر عالم حسن الصباح رہتی دنیا تک موت قتل و غارت کا نشان اور اسلامی دنیا کی پہلی اور سب سے خوفناک دھشتگرد تنظیم Assassins کا بانی بنا ـ آج کے زمانے کے طالبان ـ ٹی ٹی پی اور دوسری دھشتگرد تنظیمی حسن بن صباح کی حشیشین تنظیم کے نقشہ پہ.قائم.ہیں.اور انہی اصولوں پہ چلتی ہیں
2حسن.الصباح سترہ سال کی عمر میں ایک عالم بن چکا تھا اور انتھائ شعلہ بیان اور بحث کرنے میں ماہر تھا ـ سلطنت سلجوقی کے سنی مدرسوں میں تعلیم کے بعد اس کا رابطہ مصر کے سلطنت فاطمید کے اسماعیلی شیعہ حکمراں سے ہوا اور ان کے عقائد میں اسے اپنی طاقت اور حکومت کی غرض پوری کرنے کی امید نظر آئ ـ
حسن بن صباح ایک مغرور اور ضدی انسان تھا جس میں عاجزی اور مصلحت پسندی نہ تھی ـ(جیسے آج کے طالبان میں کوئ مصلحت پسندی نہیں ) ہر جگہ بحث کے ذریعے اپنی جگہ بنانے یبنانے کوشش کرتا اور علماء اکتا کر اس سے قطع تعلق کرتے رہے ـ اور اس کے سینے میں نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکتی رہی ـ
جب عالم دین غرور میں مبتلا ہو جائے تو فتنے کا ذریعہ بن جا تا ہے ـ جیسے ابلیس عالم تھا مگر غرور میں مبتلاء ہو کر مردود ہو گیا ـ
حسن الصباح کا حال بھی ایسا ہی تھا ـ علم بہت تھا مگر خوف خدا نہ تھا ـ اور علم کو لوگوں کو اپنا پرستار اور تابع بنانے کے ذریعے کے.طور پہ استعمال کرتا ـ
جب علماء نے اس کے عجیب و غریب عقائد کو رد کر دیا تو اس نے براہ راست عوام پہ تبلیغ شروع کی (جیسے ملا ریڈیو عوام کو براہ راست اپنی عجیب و غریب عقائد کی تبلیغ کرتا تھا) ـ
گاؤں گاؤں گھوما اور کئی سال لگا کہ اپنے ہزاروں ماننے والے بنائے ـ
اسلام.اور تبلیغ کی آڑ میں یہ دراصل طاقت شہرت اور شخصی حکومت کی جدوجہد تھی ـ
اب حسن صباح نے اپنا الگ فرقہ بنانے کی ٹھان لی اور ایسے مناسب علاقے کی تلاش میں نکل پڑا جہاں چھپنا آسان ہو اور لوگ کم.علم مگر جنگجو ہوں اور وقت کے حکمرانوں سے ناراض -
3
آخر کئ سال کی تلاش کے بعد اٹھتیس سالہ حسن الصباح شمالی ایران کے علاقے الموت پہنچا ـ علاقہ البرز پہاڑی سلسلے کے درمیان میں تھا اور انتھائ دشوار گزار ـ آنے جانے کے لیئے چند درے اور گھاٹیاں تھیں جن پہ باآسانی نظر رکھی جا سکتی تھی ـ
باقی تمام اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا ـ
علاقے میں ایک پرانا قلعہ تھا جو ایک پہاڑ کی چوٹی پہ تھا اور ناقابل تسخیر تھا ـ علاقے کے لوگ انتہائ سخت جان اور جنگجو تھے اور وقت کی حکومت خوارزم سے ناراض. دین.اسلام چاہتے تھے مگر اپنی مرضی کا ـ حسن الصباح کو وہ تمام حالات اس جگہ مل.گئے جن کی وہ تلاش میں تھا اور اس نے اس علاقے کو اپنا گھر بنانے کا کام شروع کر دیا ـ
5علاقے کے لوگ جنگجو تھے اور اسلام کے ساتھ ساتھ اپنی پرانی قبائلي روایات کے بھی پابند تھے ـ انھیں اسلام پسند تھا مگر ایسا اسلام جس میں نرم دلی ـ معافی اور درگزر نہ ہو بلکہ خوب جنگ و جدال اور ایک خون کا بدلہ کئی خون ہو ـ کیونکہ ایسی تعلیمات ان کے پرانے قبائلی طور طریقوں میں تھیں ـ
حسن الصباح نے ان کو بالکل ایسا ہی اسلام دیا جس میں صرف سختی تھی ـ بدلہ لینا فرض اور معافی بزدلی تھی ـ ایسا اسلام جس میں حشیشین کے علاوہ تمام مسلمان منافق اور واجب القتل تھے ـ (جیسے آج طالبان کے اسلام میں کوئي نرمی نہیں اور اُن کے علاوہ تمام مسلمان منافق اور واجب القتل ہیں ) ـ
امام یا حکمران کی خاطر خودکشی جائز تھی اور دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر مارنا دلیری تھی ـ
4 حسن الصباح کو وہ تمام حالات اس جگہ مل.گئے جن کی وہ تلاش میں تھا اور اس نے اس علاقے کو اپنا گھر بنانے کا کام شروع کر دیا ـ 1088 میں الصباح نے الموت کے علاقے کے لوگوں میں اپنے طرز کی مسخ شدہ اسلامی تبلیغ شروع کی جو اس کے دعوے کے مطابق اسماعیلی شیعت تھی اور وہ اسماعیلی شیعت کا تیرہواں امام تھا ـ مگر دراصل اس نے طاقت اور حکومت بغز و عناد کی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیئے ایک نیا طریقہ بنایا اور اسے ہشیشین کا نام دیا -
6
دو سال کے قلیل عرصے میں خراسان کے علاقے الموت کے لوگ حسن بن صباح پہ جان چھڑکنے لگے ـ
1090 میں چالیس سالہ حسن بن صباح نے پہاڑ کی چوٹی پہ بنا قلع الموت خرید لیا اور اسے اپنی مستقل رہائشگاہ اور پایہ تخت ٹھرایا ـ قلعے کے سات برج بنائے گئے جو سات زمیں آسمان کی نمائندگی کرتے ـ ہر برج پہ سونے کی چادر چڑھائی گئی جو وادی میں موجود شہر پہ چمکتے اور لوگوں کو یہ باور کراتے کہ قلعے میں موجود حسن بن صباح انھیں دیکھ رہا ہے ـ
حسن نے اپنے لیئے "شیخ الجبل" کا لقب چنا ـ
شہر میں عین شریعت نافذ کی گئی مگر شراب کو جائز قرار دیا گیا ـ نمازوں میں مسجدیں بھری ہوتیں ـ مگر اکثر لوگ اپنی خوشی کے بجائے سزاؤں کے ڈر سے اسلامی احکامات پورا کرتے ـ گنہگاروں کو سر عام سخت اذیت دی جاتی (جیسے طالبان سرعام سزائیں دیتے ہیں) ـ
7
قلعہ ملنے کے بعد حسن بن سباح نے اپنی طب اور کیمیا گری کے علوم استعمال کرتے ہوئے خاص معجون اور مرکبات بنائے جن سے وہ لوگوں کی نفسیات میں تبدیلی پیدا کرتا-
قلعہ کے ایک خفیہ حصے کو جنت کے طرز پہ بنایا گیا جھاں صاف پانی کی نہروں میں مخصوص مرکبات ڈالے جاتے تاکہ پانی پینے والوں کو نشہ چڑھ جائے اور ان نہروں کو جنت کی شراب کی نہر کا نام دیا.
اسی طرح وسیع باغ میں سفید سنگ مرمر کے کمرے اور برآمدے بنا کر اسے جنت کے محلات کا نام دیا ـ اور یورپ سے سفیدفام اور کم عمر لڑکیاں منگوا کر انھیں اس باغ میں گھمایا جاتا تاکہ دیکھنے والے کو حور کا شائبہ ہو ـ
حسن الصباح چنے ہوئے نوجوانوں کو خاص مشروب پلاتا جس سے وہ نیم غنودگی کی حالت میں آ جاتے ـ اس حالت میں انھیں یہ مصنوعی جنت دکھائ جاتی اور وہاں کی حوروں کا دیدار کرایا جاتا ـ
یہاں تک کہ دیکھنے والا یقین کر بیٹھتا کہ اس نے جنت دیکھ لی ـ پھر اسے بیہوش کر کہ حسن بن صباح کے دربار میں لایا جاتا ـ اور کوئ مشروب پلایا جاتا جس سے اس کے ہوش و حواس واپس آجاتے ـ
8 پھر حسن بن صباح اس شخص کو اور "Brain wash" کرتا اور اپنا علم اور بحث کی صلاحیت استعمال کر کہ اس کو باور کرا دیتا کہ حسن بن صباح زمین میں خدا کا خلیفہ ہے (جیسے ملا عمر اور طالبان زمین میں خدا کا خلیفہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں) ـ
اور کہتا کہ اس کے علاوہ کسی اور کی حکومت ناجائز حکومت ہے (جیسے طالبان اپنی حکومت کے علاوہ تمام حکومتیں غیر اسلامی اور ناجائز قرار دیتے ہیں) ـ
اور تمام حکومتوں کو یا تو حشیشین کی حکومت ماننی ہوگی یا انھیں ختم کرنا ہوگا.
اس کے بعد وہ اس شخص سے وفاداری کی بیعت لیتا اور اسے "فدائی" کا لقب ملتا ـ اور کہا جاتا کہ جنت میں واپس جانا ہے تو حسن الصباح کی من و عن اطاعت کرے چاہے جان دینی پڑے ـ
فدائ کا کام جاسوسی سے لے کر خودکش حملے تک کچھ بھی ہو سکتا تھا ـ
اس طریقے پہ تیار کیئے گئے فدائ عموماً نوجوان ہوتے جو جعلی حوریں دیکھنے کے بعد اور جعلی جنت کی شراب و عیش دیکھنے کے بعد اس میں واپس جانے کے شدید خواہشمند ہوتے اور نوجوانی کے باعث ان کی شہوت اور عیش کی خواہش جنون کی صورت اختیار کر لیتی ـ
فدائین کے جنون کو دیکھ کر حسن بن صباح انھیں کام دیتا ـ کچھ کو صرف جاسوسی پہ لگایا جاتا ـ اور کچھ ایسی مشکل مہم پہ بھیجے جاتے جہاں سے زندہ لوٹ آبا ممکن نہ ہوتا ـ جیسے بادشاہوں کے محل میں ان پہ قاتلانہ حملہ کرنا جس کے بعد بج نکلنا نا ممکن ہوتا ـ (آج کے خودکش بمبار بھی انھی وجوہات کی بناء پہ کم عمر نوجوان ہوتے ہیں)
9 حسن بن صباح بھی لوگوں کو اپنی صفائی کا موقع دیئے بغیر کافر ٹھرا کہ اپنا فدائ بھیج کر قتل کروا دیتا تھا ـ(طالبان بھی ایسا ہی کرتے ہیں ـ)
مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ خدا سے ڈریں یا نہ ڈریں حشیشین سے ضرور ڈریں.
اس کے فدائ جہاں بھی کاروائ کرتے دھشت پھیلانے کے لیئے ایک مخصوص خنجر چھوڑتے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے یہ دھشتگردی حشاشین نے کی ہے ـ
(طالبان بھی ہر کاروائ کے بعد اپنا خوف پھیلانے کے لیئے ذمیداری قبول کرتے ہیں.)
حشیشین کے حسن الصباح کے بعد 6 اور حکمران گزرے اور سب نے دھشتگردی کے ذریعے لوگوں اور حکمرانوں کو اپنے طریق میں شموليت کی تبلیغ جاری رکھی ـ
حشیشین کا حکمران جس کو بھی کافر قرار دیتا تمام حشیشین اس کے جانی دشمن بن جاتے ـ صلاح الدین ایوبی پر بھی کافر کا الزام لگا کر حشیشیوں نے قتل.کی کئی کوششیں کیں ـ
ان لوگوں کا کافی وقت قتل و غارت کے خفیہ اور نئے نئے طریقہ ایجاد کرنے میں لگتا اور همیشه چھپ کر وار کرتے ـ
مگر ہر سیر پہ سوا سیر ہوتا ہے اور لوہا لوہے کو کاٹتا ہےـ
بالآخر مشہور تاتاری بادشاہ ہلاکو خان جو حشیشیوں سے بھی بڑا ظالم تھا اس نے 1256 میں حشیشیوں کے علاقے میں گھس کہ اینٹ سے اینٹ بجا دی اور قتل.عام کر کہ ان ان کا خاتمہ کیا ـ
ـ Extracts from Sir Henry Sharp's book "The Assassins" written in 1927