Chauvinist
FULL MEMBER
- Joined
- May 13, 2016
- Messages
- 840
- Reaction score
- 2
- Country
- Location
کشمیر کا خطہ اپنی جغرافیائی اور ثقافتی نیرنگیوں کے باعث ہندوستان کی دیگر دیسی ریاستوں سے ہمیشہ ہی سے فرق رہا ہے۔ کشمیری پورے خطے میں اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں۔ خواہ وہ کشمیر کی وادی میں رہنے والے کشمیری ہوں، یا صدیوں پہلے امرتسر، لاہور اور جالندھر وغیرہ میں آکر بس جانے والے کاشمیری ہوں، ہجوم سے الگ ہی نظر آتے ہیں۔
کشمیریوں کا رہن سہن، ان کی ثقافت، ان کے کھانے، پہناوے اور ان کی دستکاریاں، سب ہی ثابت کرتے ہیں کہ کشمیری ایک حیرت انگیز حد تک، صابر، مستقل مزاج اور محنتی قوم ہے۔ کشمیری کی شالی ، زیور، لکڑی کی نقاشی، قالین بافی، برتنوں پر نقاشی، ہر فن اپنی جگہ بہت تحمل اور صبر کا متقاضی ہے۔ وہ کشمیری جو ان فنون سے نابلد تھے، روزی کمانے کے لیے وزن اٹھایا کرتے تھے، ظاہر ہے دوسروں کا۔ یہ کشمیری مزدور ہاتو کہلاتے تھے۔
ہاتوؤں کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ یہ وزن کبھی سر پہ نہیں اٹھاتے، اٹھوانے کو جتنا مرضی وزن دے دو، چوں نہیں کرتے، لیکن سر پہ ایک تنکا بھی نہیں رکھتے، سر ہمیشہ بلند رکھتے ہیں۔
کشمیر میں جاری حالیہ کشیدگی کو قریباً دو ماہ ہو گئے ہیں۔ بھارت نے، جو خود بھی آزادی کی ایک طویل جدو جہد کے بعد وجود میں آیا ہے، کشمیریوں کے ساتھ وہی رویہ رکھا ہوا ہے جو ایک آمر حکومت، آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس رویے سے آزادی کا راستہ کبھی نہیں رکتا، صرف خون بہتا ہے اور خون جتنا بہتا ہے، آزادی کا سورج اتنا ہی روشن نکلتا ہے۔
بھارت سرکار نے گولی، لاٹھی کا سہارا لیا۔ کچھ حاصل نہ ہوا، کرفیو لگایا، کچھ نہ ملا، مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ ہمارے دروازے ہی نہیں روشندان بھی مذاکرات کے لیے کھلے ہیں، مذاکرات نہیں ہوئے۔آخر کسی بزرج مہر نے سمجھایا کہ کشمیر کی آزادی کی اس جدو جہد کو مذہبی تحریک سے منسلک کر دو، ساری حمایت آن کی آن میں دم توڑ جائے گی۔
کشمیریوں کی تحریک قیامِ پاکستان سے پہلے سے چل رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پورا ہندوستان، بر طانوی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ہندوستان آزاد ہو گیا، مگر کشمیریوں کی آزادی ابھی دور تھی۔
اسی طرح جیسے ایک عام ہندوستانی پارچہ جلد بن کر بازار میں آجاتا ہے، سادہ فرنیچر چند ہفتے میں تیار ہو جاتا ہے اور عام کھانے، زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں پک جاتے ہیں، لیکن ایک کشمیری شال تیار ہونے میں، اخروٹ کی لکڑی پہ کشمیری نقاشی کا ایک بیڈ سیٹ بننے میں اور کشمیری ہریسہ پکنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ (بعض شالیں تو ہم نے ایسی دیکھیں کہ پورے پورے موسمِ سرما کی سوزن کاری کا شاہکار تھیں) عین اسی طرح کشمیر کی آزادی بھی ہندوستان کی آزادی کی نسبت تعطل کا شکار ہو گئی۔
کشمیری نہایت صبر اور تحمل سے اپنی آزادی کا قالین بن رہے ہیں ۔آزادی کی یہ شال، جس پہ حریت کے طلب گاروں کے خون کے شگوفے ہیں، چناروں کے پتے اور لا پتہ ہو جانے والوں کی منتظر آنکھوں کے رتجگے ہیں۔ اس شال کے تانے بانے ماؤں کے آنسوؤں اور بوڑھے باپوں کی آہوں سے بنے جا رہے ہیں۔ اس شال کا رنگ سرخ ہے، گہرا سرخ اور اس پہ وادی کی برفوں کی سفیدی اور نیلم کی نیلا ہٹیں بکھری ہو ئی ہیں۔
اخبارات کی سرخیاں کہتی ہیں کہ بھارت کا مؤقف علیحدگی کے بارے میں واضح اور غیر لچکدار ہے۔ وہ اس وادی کو اپنا اٹوٹ انگ ہی سمجھتے رہیں گے۔ حالانکہ اب یہ انگ وہ بد نما مسہ بن چکا ہے جو ہر ہندوستانی فلم میں ولن کے منہ پر ہوتا ہے۔ ہوتا وہ بھی اس کا اٹوٹ انگ ہی ہے، اور چونکہ وہ ولن بھی بھارتی ساختہ ہوتا ہے اس لیے اسے اپنے اس اٹوٹ انگ کی بد نمائی کا احساس نہیں ہوتا۔
بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور کشمیر اس کی نسبت ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ اعدادو شمار اور جنگی کلیوں کے مطابق کشمیری اپنی جنگ کبھی نہیں جیت سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایک نہتا شخص جس کی پیٹھ پر 70 سال کے ظلم و جور کا بورا بھی لدا ہوا ہو، کس طرح دنیا کی ایک عظیم ترین، جدید ہتھیاروں سے لیس فوج سے لڑ سکتا ہے؟
مگر مسئلہ یہ ہے کہ نہ کشمیر ایک عام خطہ ہے اور نہ ہی کشمیری ایک عام قوم۔ بھارت سرکار صرف یہ سوچ لے کہ اس وقت جب پورا ہندوستان جنرل ڈائر کے حکم پہ سر جھکائے گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ناک زمیں سے چپکائے رینگ رہا تھا، کشمیری تب بھی اپنا سر بلند رکھ کے ہی صاحب لو گوں کا بوجھ ڈھو رہا تھا۔ آج جب آپ کے پاس انگریز کا چھوڑا ہوا نوآبادیاتی نظام، سوچ اور فوج ہے تب بھی، کشمیر یوں کے کندھوں پر ان کی جوان اولادوں کے جنازے تو ہیں، لیکن ان کے سر بلند ہیں۔
وہ آپ کا لادا ہوا بوجھ تو ڈھو لیں گے مگر سر نہیں
جھکائیں گے۔ غور کیجیے، سر کس کا جھکا ہوا ہے؟
@PaklovesTurkiye @Zibago @Joe Shearer @Doordie @Moonlight
کشمیریوں کا رہن سہن، ان کی ثقافت، ان کے کھانے، پہناوے اور ان کی دستکاریاں، سب ہی ثابت کرتے ہیں کہ کشمیری ایک حیرت انگیز حد تک، صابر، مستقل مزاج اور محنتی قوم ہے۔ کشمیری کی شالی ، زیور، لکڑی کی نقاشی، قالین بافی، برتنوں پر نقاشی، ہر فن اپنی جگہ بہت تحمل اور صبر کا متقاضی ہے۔ وہ کشمیری جو ان فنون سے نابلد تھے، روزی کمانے کے لیے وزن اٹھایا کرتے تھے، ظاہر ہے دوسروں کا۔ یہ کشمیری مزدور ہاتو کہلاتے تھے۔
ہاتوؤں کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ یہ وزن کبھی سر پہ نہیں اٹھاتے، اٹھوانے کو جتنا مرضی وزن دے دو، چوں نہیں کرتے، لیکن سر پہ ایک تنکا بھی نہیں رکھتے، سر ہمیشہ بلند رکھتے ہیں۔
کشمیر میں جاری حالیہ کشیدگی کو قریباً دو ماہ ہو گئے ہیں۔ بھارت نے، جو خود بھی آزادی کی ایک طویل جدو جہد کے بعد وجود میں آیا ہے، کشمیریوں کے ساتھ وہی رویہ رکھا ہوا ہے جو ایک آمر حکومت، آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس رویے سے آزادی کا راستہ کبھی نہیں رکتا، صرف خون بہتا ہے اور خون جتنا بہتا ہے، آزادی کا سورج اتنا ہی روشن نکلتا ہے۔
بھارت سرکار نے گولی، لاٹھی کا سہارا لیا۔ کچھ حاصل نہ ہوا، کرفیو لگایا، کچھ نہ ملا، مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ ہمارے دروازے ہی نہیں روشندان بھی مذاکرات کے لیے کھلے ہیں، مذاکرات نہیں ہوئے۔آخر کسی بزرج مہر نے سمجھایا کہ کشمیر کی آزادی کی اس جدو جہد کو مذہبی تحریک سے منسلک کر دو، ساری حمایت آن کی آن میں دم توڑ جائے گی۔
کشمیریوں کی تحریک قیامِ پاکستان سے پہلے سے چل رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پورا ہندوستان، بر طانوی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ہندوستان آزاد ہو گیا، مگر کشمیریوں کی آزادی ابھی دور تھی۔
اسی طرح جیسے ایک عام ہندوستانی پارچہ جلد بن کر بازار میں آجاتا ہے، سادہ فرنیچر چند ہفتے میں تیار ہو جاتا ہے اور عام کھانے، زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں پک جاتے ہیں، لیکن ایک کشمیری شال تیار ہونے میں، اخروٹ کی لکڑی پہ کشمیری نقاشی کا ایک بیڈ سیٹ بننے میں اور کشمیری ہریسہ پکنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ (بعض شالیں تو ہم نے ایسی دیکھیں کہ پورے پورے موسمِ سرما کی سوزن کاری کا شاہکار تھیں) عین اسی طرح کشمیر کی آزادی بھی ہندوستان کی آزادی کی نسبت تعطل کا شکار ہو گئی۔
کشمیری نہایت صبر اور تحمل سے اپنی آزادی کا قالین بن رہے ہیں ۔آزادی کی یہ شال، جس پہ حریت کے طلب گاروں کے خون کے شگوفے ہیں، چناروں کے پتے اور لا پتہ ہو جانے والوں کی منتظر آنکھوں کے رتجگے ہیں۔ اس شال کے تانے بانے ماؤں کے آنسوؤں اور بوڑھے باپوں کی آہوں سے بنے جا رہے ہیں۔ اس شال کا رنگ سرخ ہے، گہرا سرخ اور اس پہ وادی کی برفوں کی سفیدی اور نیلم کی نیلا ہٹیں بکھری ہو ئی ہیں۔
اخبارات کی سرخیاں کہتی ہیں کہ بھارت کا مؤقف علیحدگی کے بارے میں واضح اور غیر لچکدار ہے۔ وہ اس وادی کو اپنا اٹوٹ انگ ہی سمجھتے رہیں گے۔ حالانکہ اب یہ انگ وہ بد نما مسہ بن چکا ہے جو ہر ہندوستانی فلم میں ولن کے منہ پر ہوتا ہے۔ ہوتا وہ بھی اس کا اٹوٹ انگ ہی ہے، اور چونکہ وہ ولن بھی بھارتی ساختہ ہوتا ہے اس لیے اسے اپنے اس اٹوٹ انگ کی بد نمائی کا احساس نہیں ہوتا۔
بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور کشمیر اس کی نسبت ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ اعدادو شمار اور جنگی کلیوں کے مطابق کشمیری اپنی جنگ کبھی نہیں جیت سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایک نہتا شخص جس کی پیٹھ پر 70 سال کے ظلم و جور کا بورا بھی لدا ہوا ہو، کس طرح دنیا کی ایک عظیم ترین، جدید ہتھیاروں سے لیس فوج سے لڑ سکتا ہے؟
مگر مسئلہ یہ ہے کہ نہ کشمیر ایک عام خطہ ہے اور نہ ہی کشمیری ایک عام قوم۔ بھارت سرکار صرف یہ سوچ لے کہ اس وقت جب پورا ہندوستان جنرل ڈائر کے حکم پہ سر جھکائے گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ناک زمیں سے چپکائے رینگ رہا تھا، کشمیری تب بھی اپنا سر بلند رکھ کے ہی صاحب لو گوں کا بوجھ ڈھو رہا تھا۔ آج جب آپ کے پاس انگریز کا چھوڑا ہوا نوآبادیاتی نظام، سوچ اور فوج ہے تب بھی، کشمیر یوں کے کندھوں پر ان کی جوان اولادوں کے جنازے تو ہیں، لیکن ان کے سر بلند ہیں۔
وہ آپ کا لادا ہوا بوجھ تو ڈھو لیں گے مگر سر نہیں
جھکائیں گے۔ غور کیجیے، سر کس کا جھکا ہوا ہے؟
@PaklovesTurkiye @Zibago @Joe Shearer @Doordie @Moonlight
Last edited: